ماہ رجب اور سنن وبدعات - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-03-14

ماہ رجب اور سنن وبدعات



ماہ رجب اور سنن وبدعات
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
 ماہ رجب کا تعارف
 ❀  رجب کالغوی معنی 
رجب یہ رجب الرجل رجبا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں تعظیم کرنا [البدع الحوالیہ: 217]
 ❀  رجب کے دیگرنام 
(1) رجب،(2)الأصم(3)الأصب(4)رجم(5)الہرم(6) المقیم(7)الُمعلّی(8)منصل الأسنة(9)منصل الآل(10) المبریء (11) المقشقش(12)شہر العتیرة(13)رجب مضر تفصیل کے لئے دیکھئے: [البدع الحولیہ: 217-218] 
 ❀  رجب کی وجہ تسمیہ:
رجب کے معنی تعظیم کرنے کے ہوتے ہیں ، اہل جاہلیت اس مہینے کی تعظیم کرتے تھے اس میں جنگ وجدال کو ناجائز سمجھتے تھے اس لئے اس کانام رجب پڑا۔ 

 رجب اور دور جاہلیت 
دورجاہلیت میں رجب سے متعلق درج ذیل خرافات کاذکرملتاہے :
1❀ نسیء :
عربی سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں ان میں سے چار مہینوں کو اللہ نے حرمت کا مہینہ قرار دیا ہے یعنی ان میں لڑائی جھگڑا ، قتل وغارت گری اور لوٹ کھسوٹ بہت بڑا جرم ہے اہل جاہلیت بھی ان مہینوں کی حرمت وعزت کا خیال رکھتے تھے لیکن کبھی کبھی وہ ان مہینوں میں تبدیلی کرکے حرمت والے مہینہ کی حرمت کسی اور مہینہ میں منتقل کردیتے تھے۔ مثلا کوئی حرمت کا مہینہ ہے جس میں برائی کرنا بہت بڑا جرم ہے لیکن اہل جاہلیت اگراس مہینہ میں برائی کرنا چاہتے تو اس کا حل انہوں نے یہ نکال رکھا تھا کہ وہ اس حرمت والے مہینہ میں برائی کا ارتکاب کرلیتے اوراعلان کردیتے کہ اس کہ جگہ فلاں مہینہ حرمت والا ہوگا۔اس طرح حرمت والے مہینوں میں وہ تقدیم وتاخیر اور ادل بدل کرتے رہتے تھے اسی کو نسیء کہا جاتاہے۔
2❀ رجب کے روز ے:
اہل جاہلیت اس ماہ کی تعظیم کرتے ہوئے اس میں روزے بھی رکھا کرتے تھے اوراسے بہتر عمل سمجھتے تھے جیساکہ مصنف عبدالرزاق وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتاہے کماسیاتی۔
3❀ عتیرہ رجب (رجب کی قربانی):
زمانہ جاہلیت والے اس مہینے میں بتوں کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ان کی خاطر جانور ذبح کرتے تھے اوراس کے خون کو بتوں کے سرپربہادیتے تھے ۔
زمانہ جاہلیت میں اس قربانی کی چار شکلیں رائج تھیں:
● (الف):-
محض بتوں کے تقرب کے لئے بطور خاص اس مہینے میں قربانی پیش کرنا [البدع الحولیہ: 221]
● (ب):-
بعض لوگ یہ نذر مانتے تھے کہ اگرمیرا فلاں کام ہوگیا تو رجب میں قربانی پیش کروں گا ، پھر کام ہوجاتا تو اس مہینے میں قربانی پیش کی جاتی [غریب الحدیث:1 /95-96] 
● (ج):-
جانور جب پہلی بار بچہ دیتا تھا تو کچھ لوگ اسے رجب میں قربان کرتے [سنن أبی داود:3/ 205] 
● (د):-
کچھ لوگ یہ کہتے کہ اگر میرے اونٹوں کی تعداد سو (100)تک ہوگئی تو میں رجبی قربانی پیش کروں گا ، پھر اگر ایسا ہوجاتا تو وہ شخص اونٹنی کے ایک بچے کوقربان کرتا یا ہرن شکار کرتا اور اس کی قربانی پیش کرتا[ لسان العرب:4/ 527]

  رجب اور اسلام
1❀ نسیء کی تردید:
نسیء یعنی حرمت والے مہینوں کی تبدیلی کو اسلام نے حرام قرار دیا چنانچہ:
{إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ} 
مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفر کی زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کافر ہیں۔ ایک سال تو اسے حلال کر لیتے ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت والا کر لیتے ہیں، کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کر لیں پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے انہیں ان کے برے کام بھلے دکھادیئے گئے ہیں اور قوم کفار کی اللہ رہنمائی نہیں فرماتا [التوبة: 37]
”عَنْ أَبِی بَکْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ خَلَقَ اللَّہُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا، مِنْہَا أَرْبَعَة حُرُم، ثَلاَث مُتَوَالِیَات: ذُو القَعْدَةِ، وَذُو الحِجَّةِ، وَالمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ، مُضَرَ الَّذِی بَیْنَ جُمَادَی، وَشَعْبَانَ“ 
”ابو بکرہ نفیع بن حارثصروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے (حجة الوداع کے خطبے میں) فرمایا دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجة اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے“ [صحیح البخاری رقم 4662]
.
2❀ رجب کے روز ے:
اگررجب کی تخصیص کے بغیرکوئی حرمت کے مہینوں کے روزے رکھے ان میں رجب کے بھی روزے رکھ لے یا عام نفلی روزے رکھے اور رجب بھی اس میں شامل ہوجائے تو ایسی صورت رجب میں روزے کی کوئی ممانعت وکراہت نہیں ہے لیکن ''رجب ''کو روزوں کے لئے یا کسی بھی عبادت کے لئے خاص کرنے کی کوئی دلیل قران وحدیث یا سلف نے نہیں ملتی :
بلکہ متعدد روایات سے اس کی ممانعت وکراہت ہی ثابت ہوتی ہے ، چنانچہ:
امام ابن أبی شیبة رحمہ اللہ (المتوفی ٢٣٥)نے کہا:
 ”حَدَّثَنَا وَکِیع ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ ذَا رَأَی النَّاسَ ، وَمَا یُعِدّونَ لِرَجَبٍ ، کَرِہَ ذَلِکَ“ 
 ”یعنی صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ جب لوگوں کو دیکھتے کہ وہ ماہ رجب کے لئے مخصوص اعمال کی تیاری کررہے ہیں تو اسے ناپسند کرتے“ [مصنف ابن أبی شیبة. سلفیة:3/ 102واسنادہ صحیح] 
اور ایک روایت میں تو یہاں تک آتاہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ رجب میں روزہ رکھنے والوں کو مارتے تھے چنانچہ :
امام ابن أبی شیبة رحمہ اللہ (المتوفی٢٣٥)نے کہا:
 ”حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ وَبَرَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ یَضْرِبُ أَکُفَّ النَّاسِ فِی رَجَبٍ ، حَتَّی یَضَعُوہَا فِی الْجِفَانِ وَیَقُولُ : کُلُوا فَِنَّمَا ہُوَ شَہْر کَانَ یُعَظِّمُہُ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّةِ.“ 
 ”خرشہ بن حررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : میں نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ رجب میں روزہ رکھنے والوں کے ہاتھوں پر مارتے تھے یہاں تک کہ وہ (کھانے کے لئے ) برتن میں اپنا ہاتھ نہ ڈال دیں“ [مصنف ابن أبی شیبة. سلفیة :3/ 102] 
اس کی سند کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ سند میں اعمش نے عن سے روایت کیا ہے اوروہ مدلس ہیں۔
 ابن ماجہ میں ایک مرفوع روایت ملتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے روزوں سے منع فرمایاہے(سنن ابن ماجہ رقم1743) لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے ، لیکن یہی روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفا بھی مروی ہے(مصنف عبد الرزاق رقم 7854) اور اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔
نیز صحیح مسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ رجب کو روزوں کے لئے خاص کرنے سے منع کرتے تھے کیونکہ ان کے تعلق سے یہ مشہور ہوگیاتھا کہ وہ رجب میں سرے سے روزے ہی کو حرام قرار دیتے ہیں چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ أسماء بنت أبی بکر نے اپنے غلام کو عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے پاس اس سلسلے میں دریافت کرنے کے بھیجا کہ جاکر ان سے میری جانب سے کہو کہ:
 ”بَلَغَنِی أَنَّکَ تُحَرِّمُ أَشْیَاء َ ثَلَاثَةً: الْعَلَمَ فِی الثَّوْبِ، وَمِیثَرَةَ الْأُرْجُوَانِ، وَصَوْمَ رَجَبٍ کُلِّہِ، فَقَالَ لِی عَبْدُ اللہِ: أَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ رَجَبٍ فَکَیْفَ بِمَنْ یَصُومُ الْأَبَدَ؟۔۔۔ الحدیث“ 
 ”مجھے خبر ملی ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام قراردیتے کپڑوں کے ریشمی نقش ونگار وغیرہ کو ،سرخ گدیلے کو ، ماہ رجب کو پورے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو عبداللہ بن عمرصنے جواب دیاکہ تو نے جو رجب کے روزوں کا ذکر کیا ہے تو جو آدمی ہمیشہ روزے رکھتا ہو وہ ماہ رجب کے روزوں کو کیسے حرام قرار دے سکتا ہے ۔۔۔۔الحدیث“ [مسلم:رقم 2069]
 اس روایت سے معلوم ہوا کہ صحابی رسول ابن عمررضی اللہ عنہ روزے کے لئے رجب کو خاص کرنے سے منع فرماتے تھے اوربعض لوگوں نے اسے مطلق حرام کا فتوی سمجھ لیا۔ورنہ حقیقت میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ماہ رجب میں سرے سے روزے سے منع نہیں کرتے تھے بلکہ خود بھی ماہ رجب میں روزہ رکھتے تھے لیکن روزہ یا دیگر اعمال کے لئے آپ ماہ رجب کو خاص نہیں کرتے تھے اوردوسروں کی بھی اس سے منع کرتے تھے جیساکہ ابن ابی شیبہ سے صحیح سند سے یہ روایت اوپر پیش کی جاچکی ہے۔ 

.

3❀ عتیرہ رجب (رجبی قربانی) کی تردید:
شروع شروع میں اسلام نے عتیرہ رجب (رجبی قربانی)کی اجازت اس شرط پردی تھی کہ اسے صرف اللہ کے لئے کیا جائے لیکن بعد میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمادیا ، چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی٢٥٦)نے کہا:
”حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَر، أَخْبَرَنَا الزُّہْرِیُّ، عَنِ ابْنِ المُسَیِّبِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ ۖ قَال: لاَ فَرَعَ وَلاَ عَتِیرَةَ وَالفَرَعُ: أَوَّلُ النِّتَاجِ، کَانُوا یَذْبَحُونَہُ لِطَوَاغِیتِہِمْ، وَالعَتِیرَةُ فِی رَجَبٍ“ 
 ”صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اسلام میں) فرع اور عتیرہ نہیں ہیں۔ فرع (اونٹنی کے) سب سے پہلے بچہ کو کہتے تھے جسے (جاہلیت میں) لوگ اپنے بتوں کے لیے ذبح کرتے تھے اور عتیرہ کو رجب میں ذبح کیا جاتا تھا“ [صحیح البخاری:رقم 5473]
اس حدیث کے راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جو ساتویں صدی ہجری میں اسلام لائے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حکم یہی ہے اورجن احادیث میں اس کے جواز کی بات ہے وہ احادیث منسوخ ہیں دیکھئے :[البدع الحولیہ: 223]
سنن ابوداؤد کے مصنف امام ابوداؤد رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے آپ فرماتے ہیں:
 ”الْعَتِیرَةُ مَنْسُوخَة ہَذَا خَبَر مَنْسُوخ“ 
 ”یعنی عتیرہ (رجبی قربانی) منسوخ ہے کیونکہ یہ حدیث بھی منسوخ ہے“ [سنن أبی داود: 3/ 93]
امام ابوعبیدالقاسم بن سلام رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو منسوخ کہاہے دیکھئے:[غریب الحدیث: 1/ 195]
امام قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”ان الامر بالفرع والعتیرة منسوخ عند جماہیر العلماء“ 
 ”یعنی فرع اورعتیرہ پردلالت کرنے والی احادیث جمہورعلماء کے نزدیک منسوخ ہے“ [المجموع:8/ 446]
 ⟐ تنبیہ: 
علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہ رائے پیش کی ہے کہ فرع اور عتیرہ پردلالت کرنے والی احادیث منسوخ نہیں ہیں بلکہ یہ عمل بعض شرائط کے ساتھ اب بھی جائز ہے دیکھئے:[ ارواء الغلیل:4/ 413 ، اداء ما وجب: ص 38]
ہمارے خیال سے علامہ موصوف رحمہ اللہ کا یہ موقف محل نظر ہے اوراقرب الی الصواب بات وہی معلوم ہوتی ہے جسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ اور جمہور اہل علم نے پیش کیا ہے ، نیز سلف سے اس عمل کا ثبوت نہ ملنا بھی اسی کی تائید کرتاہے، واللہ اعلم۔

 
   ماہ رجب اور موجودہ مسلمان
 اسلام نے جن بدعات وخرافات کو مٹادیا تھا آج کے بعض مسلمان نہ صرف یہ کہ ان بدعات کو دوبارہ اپنا رہے ہیں بلکہ ان میں اچھا خاصا اضافہ بھی فرمارہے ہیں ، چنانچہ رجب سے متعلق آج کے مسلمانوں میں درج ذیل خرافات عام ہیں:

1 ❀ ماہ رجب کے فضائل:
 ماہ رجب کی فضیلت بس اتنی ہے کہ یہ حرمت کا مہینہ ہے اس کے علاوہ اس کی فضیلت میں جتنی بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب موضوع اور من گھڑت یا سخت ضعیف ومردود ہیں تفصیل کے لئے دیکھئے: [تبیین العجب بما ورد فی شہر رجب لاابن حجر] اور [أداء ما وجب من بیان وضع الوضاعین فی رجب] 

 2❀ نماز(صلاة الرغائب):
 ماہ رجب میں خصوصی طورپر پڑھنے کے لئے صلاة الرغائب کے نام سے کچھ لوگوں نے ایک نماز بھی ایجاد کرلی ہے جس کی کیفیت درج ذیل ہے:
 (الف) : اس کا وقت ماہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات میں مغرب کے بعد سے لیکر عشاء تک ہے۔
 (ب) : اس میں بارہ رکعات پڑھی جاتی ہیں۔
 (ج) : ہررکعت میں ایک بار سورہ فاتحہ ، تین بار سورة القدر اور بارہ بار سورہ اخلاص پڑھی جاتی ہے۔
 (د) : ہردورکعت کے بعد سلام پھیرا جاتاہے۔
 (ھ) : نماز ختم کرنے کے بعد دوسجدے مخصوص دعاؤں کے ساتھ مزید اداکئے جاتے ہیں ۔
 (ہ) : اس کے بعد دعاء کی جاتی ہے۔
 اس نماز کی ایجاد سب سے پہلے بیت المقدس میں سن 480ھ میں ہوئی ۔اس سے پہلے پورے عالم اسلام میں کسی نے بھی اس کا نام تک نہ سنا تھا [الحوادث والبدح: ص 122]
 اس نماز کے ایجاد کرنے کے ساتھ ساتھ ایک حدیث بھی گھڑلی گئی جس سے اس نماز کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن تمام محدثین نے متفقہ طور پر اس حدیث کو جھوٹی اور من گھڑت قرار دیا ہے[ الموضوعات لابن الجوزی:2/ 125-126، الفوائد المجموعہ:ص47-48 ، البدع الحولیہ: ص 241] 

 3❀ روز ے:
 ● (الف) : لکھوی روزہ:
 اس مہینے میں لکھوی کے نام سے بھی ایک روزہ رکھا جاتا ہے جس کی بابت عقیدہ ہے کہ اس سے ایک لاکھ روزوں کاثواب ملتاہے۔
 ● (ب) : ہزاری روزہ:
27 رجب کو روزہ رکھا جاتا ہے اور اسے ہزاری روزہ کا نام دیا جاتاہے، یعنی 27رجب کا روزہ ایک ہزار روزوں کے برابر ہے ، یہ روزہ بھی خود ساختہ ہے کتاب وسنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔

 ● (ج) : مریم روزہ:
 یہ روزہ ١٥رجب کو رکھا جاتاہے اور اسے مریم روزہ کا نام دیا جاتاہے۔
 یہ روزہ بھی بے اصل اورسراسر بدعت ہے شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
 لوگوں نے جو رجب کی 15تاریخ کو تعظیم کرنا اور اس میں روزہ رکھنا اور خاص نمازیں پڑھنا مشروع کررکھا ہے اور اس دن کانام یوم الاستفتاح اور اس روزہ کا نام مریم روزہ رکھا ہواہے ،یہ سب کسی حدیث سے ثابت نہیں [ ماثبت بالسنہ بحوالہ: ماہ رجب اورمعراج: ص 11] 
 غرض یہ کہ اس مہینے میں روزے کی جتنی بھی شکلیں ہیں سب کی سب بے اصل ہیں کتاب وسنت میں ان کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

  4❀ اعتکاف:
 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”أَمَّا تَخْصِیصُ رَجَبٍ وَشَعْبَانَ جَمِیعًا بِالصَّوْمِ أَوْ الِاعْتِکَافِ فَلَمْ یَرِدْ فِیہِ عَنْ النَّبِیَۖ شَیْء وَلَا عَنْ أَصْحَابِہ۔ وَلَا أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِینَ“ 
 ”رجب یا شعبان کو روزے کے لئے کیا اعتکاف کے لئے خاص کرنے کے سلسلے میں اللہ کے نبیۖآپ کے صحابہ اورائمہ اسلام سے کچھ بھی ثابت نہیں“ [مجموع الفتاوی:25/ 290]

  5❀ عمرہ رجب:
 بعض حضرات اس مہینے میں بطور خاص عمرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور یہ باور کرتے ہیں کہ اس مہینے میں عمرہ کرنے پر خصوصی ثواب حاصل ہوتاہے ، یہ چیز بھی غلط ہے کتاب وسنت میں اس خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی میں ماہ رجب میں کبھی بھی عمرہ نہیں کیا دیکھئے[ البدع الحولیہ:236] 

 6 ❀ رجب کے کونڈ ے:
اس بدعت کی ابتداء پوری دنیا میں سب سے قبل ہندوستان میں رامپور روہیل کنڈ میں ہوئی چنانچہ:
مصطفی علی خان صاحب کے کتابچہ جواہر المناقب پرحاشیہ لگاتے ہوئے حامدحسن قادری لکھتے ہیں:
 ”احقرحامدحسن قادری کو اس داستان عجیب (یالکڑہارے کی کہانی)کی اشاعت اور 22 رجب والی پوریوں کی نیاز کے متعلق یہ علم ہے کہ یہ کہانی اورنیاز سب سے پہلے 1906ء میں ریاست رامپور یوپی میں حضرت امیرمینائی لکھنوی کے خاندان سے نکلی ہیمیں اس زمانہ میں امیرمینائی صاحب کے مکان کے متصل رہتا تھا اور ان کے خاندان اورہمارے خاندان تعلقات تھے ۔۔۔الخ“ [ماہ رجب کے کونڈے : ص 12، ازحکیم انیس احمدصدیقی] 
امام جعفرصادق رحمہ اللہ کے حوالے سے لکڑہارے کی جوکہانی بیان کی جاتی ہے ،ماہ رجب کے کونڈے نامی کتابچہ میں اس کہانی کا جائزہ ان الفاظ میں لیا گیاہے:
٭یہ لغو کہانی خود ظاہر کرتی ہے کہ:اس کا گھڑنے والا لکھنو کا کوئی جاہل تھا، جس کو اتنا بھی علم نہ تھا (اور ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ دروغ گورا حافظہ نباشد افسانہ نگار نے اپنے قصے کی بنیاد مدینہ میں بادشاہ اور وزیر کے وجود پر رکھی ہے حالاں کہ)کہ مدینہ منورہ میں اور نہ صرف مدینہ، بلکہ پورے عرب میں نہ حضرت امام کے زمانے میں نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کوئی بادشاہ ہوا ہے اور نہ وزیر اعظم ،کیوں کہ اس وقت عرب میں خلافت قائم تھی، جس میں نہ تو بادشاہ اور نہ وزیر اعظم کا کوئی منصب و عہدہ تھا۔
٭عربوں میں میدے کی پوریاں گھی میں پکا کر کونڈوں میں بھرنے اور فاتحہ دلانے کا رواج آج تک نہ تھا اور نہ ہوا۔
٭حضرت جعفر بن محمد کی عمر کے52 سال تک تو بنو امیہ کی خلافت رہی۔ جس کا صدر مقام دمشق (ملک شام) تھا، مگر ان کی خلافت میں بھی وزیراعظم کا کوئی عہدہ نہ تھا۔
٭اس کے بعد تقریباً 16 سال تک آپ خلافت عباسیہ میں رہے، جس کا صدر مقام بغداد (عراق) تھا، ان کے ہاں بھی آپ کی موجودگی میں وزارت کا عہدہ قائم نہ ہوا تھا۔
٭یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنی فاتحہ کرانے کا حکم خود اپنی ہی زبانِ مبارک سے دیا، حالاں کہ ایصالِ ثواب یا فاتحہ کسی کی بھی ہو وفات کے بعدہی ہوا کرتی ہے تو پھر حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنے نام کے کونڈے بھروانے اور فاتحہ کرانے کا حکم کیسے دے دیا ؟ بلکہ آپ کا دامن تو ایسی لغو باتوں سے پاک ہے۔
٭اس لکڑہارے کا قصہ نہ کبھی مدینہ کی گلیوں میں گونجا، نہ عرب ممالک میں کہیں سنائی دیا اور نہ ہی مشرق و مغرب کے کسی اسلامی ملک میں کہیں پہنچا۔
٭حضرت جعفر بن محمد علیہ الرحمة8 رمضان المبارک 80 ھ اور بروایت دیگر 17 ربیع الاوّل 83ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ، لیکن وفات کے متعلق شیعہ، سنی سب ہی کا اتفاق ہے کہ آپ نے 15 شوال 148ھ کو مدینہ منورہ ہی میں وفات پائی ان کی زندگی کے حالات معروف و مشہور ہیں، لہٰذا 22 رجب کی تاریخ کی کوئی تخصیص نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ نہ تو آپ کی تاریخ ولادت ہے اور نہ ہی تاریخ وفات۔
٭جس طرح اسرائیلی قوم عجائب پرست تھی اور ہر مدعی نبوت سے معجزات و کرامات کے ظہور کی آرزو مند رہتی تھی اسی طرح اودھ کی شیعہ ریاست کے ماتحت رام اور لچھمن کے دیس کے خالص ہندو معاشرے میں رہنے والے عوام کا لانعام بھی ہندو دیو مالاؤں اور رامائن کے من گھڑت قصے سن سن کر عجائب پرست بن گئے تھے اور لکھنو کے داستان گو یوں کو تو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انہوں نے نوابوں کی سرپرستی میں طلسمِ ہوش رُبا اور داستانِ عجیب جیسی طویل داستانیں گھڑ کر ہندو دیو مالاؤں کو بھی مات کر دیا تھا، لہٰذا لکھنوی معاشرے میں بزرگانِ سلف کی طرف منسوب اور اخترا ع کردہ حکایات کا قبولِ عام حاصل کر لینا کوئی مشکل بات نہ تھی، کیونکہ اس کے لیے نہ کسی سند کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی ضابطے کی۔
٭جس چیز کودینی طور پر پیش کیا جائے اس کے جواز کی سند تو ضابطہ دین سے ہی پیش کی جانی چاہیے، سورة الانعام آیت 17 میں ارشاد باری تعا لٰی ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالٰی کے سوا اسے کوئی رد نہیں کر سکتا اور اگر وہ تم کو کوئی فائدہ پہنچائے توبھی اسے قدرت حاصل ہے لہٰذا غیر اللہ سے کوئی مراد مانگنا شرک ہے، جو نا قابلِ معافی گناہ ہے سورة ال عمران آیت104۔
٭پھر اگر حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ سے متعلق لکڑہارے کا پورا افسانہ اپنے اندر کوئی تاریخی حقیقت رکھتا تو سوچنے کی اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تاریخِ اسلامی یا بزرگوں کے حالات کی کسی مستند و معتبر کتاب میں اس عظیم واقعہ کا کوئی ذکر کیوں نہیں آیا؟ تلک عشرة کاملة اس قصے میں جو منظر کشی کی گئی ہے اس سے بخوبی واضح ہو گیا کہ یہ افسانہ ہندوستان کے کسی راجہ یا راجدھانی کا تو ہو سکتا ہے، مگر عرب قبیلے یا فرد کا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح شیعوں نے سنی مسلم عوام کو دین سے گمراہ کرنے کے لیے اور چند جھوٹی اور فرضی کتابیں لکھ ماری ہیں اسی طرح یہ داستانِ عجیب بھی ایک فرضی اور من گھڑت جھوٹا افسانہ ہے ، مگر بے چارے توہم پرست اور عجوبہ پسند مسلم عوام میں کہاں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ سامنے کی دلچسپ بات کو چھوڑ کر معا ملے کی تہہ اور اصل حقیقت تک پہنچیں۔شروع شروع میں تو عرصے تک یہ رسم دبی دبی شیعوں کے حلقے میں محدود رہی ، لیکن پھر شیعوں نے سوچا کیوں نہ تعزیہ داری کی طرح کسی خوبصورت فریب اور تقیہ سے کام لے کر سنیوں کو بھی وفاتِ امیر معاویہ کے سلسلے کے اس جشنِ مسرت میں غیر شعوری طورپر شریک کر لیا جائے، چنانچہ انہوں نے حضرت امیرمعاویہ کے تاریخِ وفات رجب پر فریب کا پردہ ڈالنے کے لیے اس تاریخ کو حضرت امام جعفر کی طرف منسوب کر دیا اور لکڑہارے وغیرہ کا فرضی افسانہ گھڑا اور داستانِ عجیب اور نیازنامہ وغیرہ حضرت امام جعفر صادق کے نام سے چھپوا کر چہار دانگ عالم میں پھیلادیا [ماہ رجب کے کونڈے: ص16-17]

 7 ❀ جشن معراج :
معراج کا واقعہ کس سن میں ہوا اس بارے میںبہت اختلاف ہے نیزیہ واقعہ کس ماہ میں ہوا اس میں بھی شدید اختلاف ہے حتی کہ کس تاریخ کو یہ واقعہ ہوا اس پربھی سب کا اتفاق نہیں ۔
معلوم ہواکہ معراج کا واقعہ کب پیش آیا اس بارے میں بہت زیادہ اختلاف ہے یہ شدید اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ امت نے وقعہ معراج کی تاریخ کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔
لیکن اگرواقعہ معراج کی کوئی صحیح تاریخ ثابت بھی ہوجائے تو بھی محض تاریخ کا ثابت ہونا اس بات کے لئے کافی نہیں ہوگا کہ ہم اس تاریخ کو جش معراج منائیں بلکہ اس کے لئے قران و حدیث سے فہم سلف کے مطابق دلیل چاہئے۔

No comments:

Post a Comment