سورہ فاتحہ کے بعد تین بار آمین کہنے سے متعلق روایات - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-06-10

سورہ فاتحہ کے بعد تین بار آمین کہنے سے متعلق روایات

surah-fatiha-3baar-aameen

سورہ فاتحہ(1) کے بعد تین بار آمین کہنے یا (رب اغفر لي، آمين)سے متعلق روایات:

پہلی روایت:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة، حدثني أبي، ثنا سعد بن الصلت، عن الأعمش، عن أبي إسحاق، عن عبد الجبار بن وائل، عن أبيه قال: " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل في الصلاة، فلما فرغ من فاتحة الكتاب قال: «آمين» ثلاث مرات "
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز میں داخل ہوئے اورجب سورہ فاتحہ کی قرات سے فارغ ہو ئے تو تین بار کہا : «آمين»[المعجم الكبير للطبراني 22/ 22]

یہ روایت درج ذیل اسباب کی بناپر سخت ضعیف ہے:
اول:
”عبدالجبار بن وائل“ کاان کے والد سے سماع ثابت نہیں ہے۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل بن حجر ثبت ولم يسمع من أبيه شيئا
عبد الجبار بن وائل بن حجر ، ثبت ہیں لیکن انہوں نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 11]
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل بن حجر لم يسمع من أبيه
عبد الجبار بن وائل بن حجر نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا[سنن الترمذي 4/ 55 واسنادہ صحیح]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل ۔۔۔روى عن أبيه، مرسل، ولم يسمع منه
عبدالجبار بن وائل نے اپنے والد سے مرسلا روایت کیا ہے اور ان سے کچھ نہیں سناہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 6/ 30]

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
عبد الجبار لم يسمع من أبيه
عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے نہیں سنا[سنن الترمذي ت شاكر 4/ 56]
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل لم يسمع من أبيه
عبد الجبار بن وائل بن حجر نے اپنے والد سے نہیں سنا[سنن النسائي الكبرى 1/ 308]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
من زعم أنه سمع أباه فقد وهم
جس نے یہ سمجھا کہ عبد الجبار بن وائل بن حجر نے اپنے والد سے سنا وہ وہم کا شکار ہے[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 7/ 135]

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل عن أبيه مرسل
عبد الجبار بن وائل کی اپنے والد سے روایت مرسل (منقطع) ہے[السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 1/ 397]

امام نووي رحمه الله (المتوفى676)نے کہا:
ائمة الحديث متفقون علي ان عبد الجبار لم يسمع من ابيه شيئا
ائمہ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا[المجموع 3/ 104]
دوم:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
ان کے مدلس ہونے کے بارے میں مزید تفصیل آرہی ہے۔
سوم:
سلیمان الاعمش نے بھی عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 640]
اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص393 تا 395۔
چہارم:
سعد بن الصلت کے علاوہ اعمش سے اسی حدیث کو کئی لوگوں نے آمین کے ذکر کے ساتھ روایت کیا ہے لیکن کسی نے بھی تین بار آمین کاذکر نہیں کیا ہے اسی طرح سند کے اوپری طبقات کے متابعین میں سے بھی کئی نے آمین کا لفظ روایت کیا مگر کسی نے تین بار آمین کا ذکر نہیں کیا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے: الكلام على طرق حديث وائل بن حجر في صفة الصلاة .
لہٰذا ان الفاظ کو بیان کرنے میں سعد بن الصلت منفرد ہے اور امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
ربما أغرب
بسااوقات یہ غریب باتیں بیان کرتے ہیں[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 6/ 378]

دوسری روایت:
أبو جعفر محمد بن عمرو بن البختري لرزاز (المتوفى 339) نے کہا:
حدثنا أحمد: حدثنا أبي، عن أبي بكر النهشلي، عن أبي إسحاق، عن أبي عبد الله اليحصبي، عن وائل بن حجر: أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} قال: رب اغفر لي، آمين.
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا جب آپ نے {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} پڑھا تو کہا: رب اغفر لي، آمين [مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري ص: 309 ومن طريقه أخرجه البيهقي في السنن الكبرى ، ط الهند: 2/ 58 وأخرجه الطبراني في المعجم الكبير22/ 42 من طريق إحمدبن عبدالجبار به]

یہ روایت درج ذیل اسباب کی بناپر ضعیف ہے ۔
اول:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
ان کے مدلس ہونے کے بارے میں مزید تفصیل آرہی ہے۔
دوم:
أبو بكر النهشلي متکلم فیہ ہے اور اس کی یہ روایت دیگر رواۃ کے خلاف ہے۔
امام قسطلاني (المتوفى 923 ) اس حدیث کو اسی راوی کے سبب ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
في إسناده أبا بكر النهشلي وهو ضعيف
اس کی سند میں ابوبکر النھشلی ہے اور یہ ضعیف ہے [إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري 2/ 100 ]
سوم:
ابوجعفر کے استاذ احمد یہ احمد بن عبد الجبار العطاردي ہیں یہ بھی متکلم فیہ ہیں بلکہ بعض نے ان پر سخت جرح کی ہے چنانچہ:
محمد بن عبد الله الحضرمي المطین (المتوفی 297) نے کہا
احمد بن عبد الجبار العطاردي كان يكذب
احمد بن عبد الجبار العطاردي جھوٹ بولتاتھا[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 4/ 263 واسنادہ صحیح]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے بھی انہیں ضعیف کہا ہے دیکھئے: [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 64]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روای کے سبب بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے [أصل صفة الصلاۃ 1/ 382 ]
چونکہ اس کی یہ روایت اس حدیث کے دیگر رواۃ کے خلاف ہے لہٰذا غیر مقبول ہے۔

الغرض یہ کہ یہ سند کئی وجوہات کی بناپر ضعیف ہے ۔امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795) اس کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں:
وهذا الإسناد لا يحتج به
اس سند سے حجت نہیں پکڑی جائے گی [فتح الباري لابن رجب: 7/ 99]
معلوم ہوا درج بالا دونوں روایات سخت ضعیف ومردود ہیں۔

2 comments:

  1. زیادہ سے زیادہ مسائلِ دینیہ شامل کریں

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete