الفاظ حدیث
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَسْوَاتُهَا تَنْطُفُ، قُلْتُ: قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ، فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ، فَقَالَتْ: الحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ، وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ، فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ، فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ قَالَ: مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ، فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ، قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ: فَهَلَّا أَجَبْتَهُ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي، وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ: أَحَقُّ بِهَذَا الأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الإِسْلاَمِ، فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الجَمْعِ، وَتَسْفِكُ الدَّمَ، وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ، فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الجِنَانِ، قَالَ حَبِيبٌ: حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ لوگوں کا معاملہ آپ دیکھ رہی ہیں اور اس معاملہ میں میرے لئے کچھ نہیں رکھا گیا ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے۔ آخر حفصہ رضی اللہ عنہا کے اصرار پر عبداللہ رضی اللہ عنہ گئے۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ اس معاملہ میں جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے۔یقیناً ہم اس معاملہ میں اس سے اور اس کے باپ سے زیادہ حقدار ہیں ۔ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی (جواب دینے کو تیار ہوا) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ اس معاملہ کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے جنگ کی تھی۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آ گئیں جو اللہ تعالیٰ نے (صبر کرنے والوں کے لیے) جنت میں تیار کر رکھی ہیں۔ حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لیے گئے ‘ آفت میں نہیں پڑے۔ [صحيح البخاري 5/ 110 رقم 4108 ]
اس حدیث کے بعض جملوں کا صحیح مفہوم سمجھ لیا جائے تو ان شاء اللہ کوئی اشکال نہیں ہوگا ۔ذیل میں ہم دیگر روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حدیث کے بعض ان جملوں کی تشریح پیش کرتے ہیں جن کی وجہ سے غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں۔
.
کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت وامارت نہ پانے پر شکوہ کیا؟
پیش کردہ حدیث میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:
(فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ)
اس کا ترجمہ بعض نے یوں کیا ہے:
( مجھے تو کچھ بھی حکومت نہیں ملی)
حالانکہ اس کا مناسب ترجمہ یہ ہونا چاہئے:
(اور اس معاملہ میں میرے لئے کچھ نہیں رکھا گیا ہے۔)
یادرہے کہ یہاں اصل عربی الفاظ میں خلافت وامارت کا لفظ موجود نہیں ہے اس لئے الامر سے حکومت ہی مراد ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔لہٰذا اس سے مسلمانوں کے معاملات بھی مراد ہوسکتے ہیں ۔
یہ جملہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بطور شکوہ نہیں بلکہ بطور حکایت کہا ہے ۔یعنی آپ مذکورہ اجتماع میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بتارہے تھے کہ مسلمانوں کے معاملات سے متعلق انہیں کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہے اس لئے ان کا اس اجتماع میں شریک ہونا ضروری نہیں ہے۔
بعض حضرات اس جملہ کا یہ مفہوم مراد لیتے ہیں کہ ابن عمررضی اللہ عنہ اس بات کا شکوہ کررہے تھے کہ انہیں خلافت وامارت کی کوئی ذمہ داری کیوں نہیں دی گئی ۔
لیکن ہماری نظر میں ان الفاظ کا یہ مفہوم درست نہیں ہے کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے پوری زندگی میں کبھی بھی خلافت وامارت کی خواہش کی ہی نہیں ۔لہٰذا خلافت وامارت نہ پانے پر وہ شکوہ کیونکر کرسکتے ہیں ۔
علاوہ بریں خود ان کے والد خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا بھی یہی اشارہ تھا کہ ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت امارت مناسب نہیں ۔ لہٰذا یہ کیسے مان لیا جائے کہ اپنے والد محترم کی منشاء کے خلاف بلکہ اپنے معروف مزاج کے خلاف عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ خلافت وامارت نہ ملنے پر شکوہ کریں۔
اور بعض روایات میں تو آتا ہے کہ لوگوں نے خود عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنی چاہئے لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا [الطبقات الكبرى ط دار صادر 4/ 151 واسنادہ صحیح ]
بلکہ بعض روایات کے مطابق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بننے کے لئے پیسے کا لالچ دیا گیا اس پر بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بننا منظور نہیں کیا [الطبقات الكبرى ط دار صادر 4/ 164 واسنادہ صحیح ]
حتی کی حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد لوگ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی کو خلیفہ بنارہے تھے لیکن انہوں نے انکار کردیا ۔ اس کے بعد لوگوں نے آپ کو لالچ دی ، اور دھمکایا بھی لیکن کسی بھی صورت میں آپ خلیفہ بننے پر راضی نہ ہوئے۔ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 4/ 151 واسنادہ صحیح ]
غور کریں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ کو بغیر مانگے خلافت دی جارہی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا ، اس پر انہیں راضی کرنے کے لئے مال ودولت کی لالچ دی گئی اس پر آپ نے ٹھکرادیا ۔ پھر آپ کو دھمکی دی گئی اور جبرا خلیفہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود بھی آپ تیار نہ ہوئے۔ ایسے جلیل القدر صحابی کے بارے میں بغیر کسی واضح اور صریح دلیل کے ہم کیسے مان لیں کہ وہ خلافت وامارت نہ پانے پر شکوہ کررہے تھے ؟؟؟
لہٰذا ہماری نظر میں مناسب توجیہ ہے کہ مذکورہ بات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بطور شکوہ نہیں بلکہ بطور حکایت کہی تھی ۔
دراصل مذکورہ اجتماع میں علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کے بیچ اختلاف کو ختم کرنے کے لئے صحابہ وتابعین اکٹھا ہو نے والے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس اجتماع میں شرکت نہیں کرنا چاہتے کیونکہ مسلمانوں کے معاملات سے متعلق ان پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی تھی ۔
اسی لئے انہوں نے اپنی بہن رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اس لئے مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس پر ان کی بہن رضی اللہ عنہا نے انہیں سمجھا یا کہ آپ اس اجتماع میں ضرورت شرکت کریں ، لوگوں کے لئے آپ کی رائے بہت اہمیت رکھے گی ۔ممکن ہے آپ کے ذریعہ لوگوں میں صلح ہوجائے اس لئے آپ ضرور جائیں ۔ یہ سن کر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی اس اجتماع میں شریک ہوگئے ۔
.
مذکورہ اجتماع کب ہوا؟
پیش کردہ روایت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جس اجتماع کا ذکر ہے اس سے کون سا اجتماع مراد ہے اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔کل تین اقوال ملتے ہیں ، ملاحظہ ہو:
پہلا قول:
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ معاملہ صلح حسن کے وقت کا ہے یہ امام ہیثمی رحمہ اللہ کا قول ہے۔[مجمع الزوائد للهيثمي: 4/ 242]
لیکن یہ درست نہیں اس پر کوئی دلیل موجود نہیں اسی لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے غلط قرار دیا ہے۔ [فتح الباري لابن حجر 7/ 403]
دوسراقول:
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یزید کے لئے بیعت لیتے وقت کا یہ معاملہ ہے۔ یہ ابن الجوزی کا قول ہے [كشف المشكل من حديث الصحيحين 2/ 576]
لیکن یہ بے دلیل ہونے کے ساتھ انتہائی بعید اور نامعقول ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن الجوزی کے اس رائے کی سختی سے تردید کی ہے۔[فتح الباري لابن حجر 7/ 403]
تیسراقول:
بعض اہل علم کا خیا ل ہے کہ اس سے تحکیم کے وقت کا واقعہ مرا د ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے اور یہی درست ہے کیونکہ اس کی تائیددیگر صحیح روایت سے ہوتی ہے چناں چہ مصنف عبدالرزاق میں یہی روایت اسی سند سے مروی ہے اور اس میں واقعہ تحکیم کی صراحت ہے۔دیکھئے[مصنف عبد الرزاق: 5/ 483 رقم9779 واسنادہ صحیح ]
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث مذکور میں جس اجتماع کا ذکر ہے اس سے مراد امیر معاویہ وعلی رضی اللہ عنہما کے مابین تحکیم کا واقعہ ہے جو صفین کے موقع پر ہوا ۔
.
کیا معاویہ رضی اللہ عنہ خود کو عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے زیادہ خلافت کا حقدار سمجھتے تھے۔
اس حدیث میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ ہیں:
(فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ)
(یقیناً ہم اس معاملہ میں اس سے اور اس کے باپ سے زیادہ حقدار ہیں ۔)
اس جملہ سے متعلق در ج ذیل تین چیزیں سمجھنے کی ہیں:
● اس جملے سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کس کو مراد لیا ہے؟
● اس جملہ میں جسے مراد لیا گیا ہے اس کے باپ کا حوالہ کس معنی میں ہے؟
● اس جملہ میں جس معاملہ سے متعلق بات کہی گی ہے وہ معاملہ کون سا ہے؟
.
امیر معاویہ کی مراد
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس جملہ سے کون مراد ہے اس بارے میں اختلاف ہے بعض کے بقول حسن اور ان کے والد رضی اللہ عنہما مراد ہیں اور بعض کے بقول ابن عمر اور ان کے والد رضی اللہ عنہما مراد ہیں ۔ لیکن یہ دونوں باتیں بے دلیل ہیں ۔اور صحیح بات یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی تخصیص کے عمومی طور پر یہ بات کہی ہے کیونکہ اول تو امیر معاویہ رضی اللہ کے الفاظ عام ہیں دوسرے کہ حسن یا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اختلاف کا کوئی تعلق تھا ہی نہیں تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انہیں کیوں مراد لے سکتے ہیں ۔
اورمصنف عبدالرزاق کی ایک روایت میں جو یہ صراحت ہے کہ اس سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف تھا [مصنف عبد الرزاق: 5/ 465]
تو یہ وضاحت صحابی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ نیچے کے کسی راوی نے اپنی طرف سے یہ وضاحت کی ہے ۔لہٰذا یہ معتبر نہیں ہے۔
بالخصوص جبکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پروپیگنڈے سے کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ان کے کلام کا ایسا مطلب لے لیا گیا جو ان کی مراد تھی ہی نہیں مثلا ایک موقع پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے متعلق امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک بات کہی ہے جس کا مطلب بعض حضرات نے یہ سمجھ لیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یزید کی بیعت نہ کرنے پر قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ لیکن جب دیگر حضرات نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں وضاحت طلب کی تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس افواہ پر حیرانی ظاہر کی اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں نے ایسا کوئی ارادہ نہیں کیا ہے میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا ۔تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب: [یزید بن معاویہ پرالزامات کا علمی جائزہ: ص318 تا 323 ]
لہٰذا جب تک امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اپنے الفاظ میں صراحت نہ ملے ہم دوسری کی وضاحت پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر کوئی الزام قطعا نہیں لگاسکتے ۔
رہی بات یہ کہ پھر حبیب بن مسلمہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے جواب نہ دینے کہ وجہ کیوں پوچھی جب کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ ان کی طرف نہیں تھا ؟ تو ممکن ہے کہ ابن عمر رضی اللہ کے بیان کے لہجہ میں عدم اتفاق ظاہر ہوا ہو اس لئے ان سے جواب نہ دینے کی وجہ پوچھی گئی ۔لہذا ان سے یہ سوال بھی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ انہیں کی طرف تھا ۔
رہا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عدم اتفاق تو اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔
خلاصہ یہ کہ اصل روایت کے اندر کسی بھی معین شخص کی طرف اشارہ کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔لہٰذا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس جملہ میں بغیر کسی شخص کی تعین کی عمومی طور پر اپنی بات کہی ہے۔
.
باپ کے حوالہ کامفہوم
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے جملہ میں عام شخص کی بات کرتے ہوئے اس کے باپ کا بھی ذکر کیا ہے اسے عام طور سے حقیقت پر محمول کیا گیا ہے لیکن یہاں سیاق سے یہی ظاہر ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے باپ کے حوالہ میں حقیقت مراد نہیں لی ہے بلکہ بطور مبالغہ یہ بات کہی ہے ۔چناں چہ اہل عرب کبھی کبھی بات میں تاکید پیدا کرنے کے لئے بطور مبالغہ کسی شخص کا تذکرہ اس کے باپ کے ساتھ بھی کردیتے تھے مثلا کہتے : فلاں افضل منک ومن ابیک۔یعنی فلاں تم سے اور تمہارے باپ سے بھی افضل ہے۔اوریہاں باپ سے موازنہ مقصود نہیں ہوتا تھا۔
چنانچہ ایک بار عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا آپ فقیہ نہیں ہیں تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:
”والله لأنا أفقه منك ومن أبيك“
(اللہ کی قسم ! میں تم سے اور تمہارے باپ سے بھی زیادہ فقیہ ہوں )[أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 4/ 54 واسنادہ صحیح ]
یہاں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے باپ کے حوالے میں حقیقت مراد نہیں لی ہے بلکہ بطور مبالغہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے والد کا نام لے لیا ہے ورنہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ ہرگز نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ خود کو مبشربالجنہ اور جلیل القدر صحابی زبیررضی اللہ عنہ سے بھی بڑا فقیہ بتلائیں ۔
اسی طرح کی ایک اور مثال کے لئے دیکھئے : [المعجم الكبير للطبراني 20/ 403 واسنادہ صحیح]
خلاصہ یہ کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہاں پر بطور مبالغہ باپ کا نام لے لیا ہے حقیقت مراد نہیں ہے ۔
.
متعلقہ معاملہ کی نوعیت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات جس معاملہ سے متعلق کہی ہے وہ معاملہ کیا ہے یہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔
عام طور سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہاں خلافت کے معاملہ میں بات چل رہی ہے، حالانکہ یہ بات قطعا درست نہیں۔اس سے انکار نہیں کہ روایات میں ”الأَمْرِ“ خلافت کے لئے بھی بولا گیا ہے لیکن ہرجگہ اس لفظ سے خلافت ہی مراد نہیں ہوتی ہے اوریہاں بھی یہی بات ہے کہ یہ خلافت کے معنی میں نہیں کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مشن خود کو خلیفہ بنانا نہیں تھا بلکہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینا ۔لہٰذا یہاں پر معاملہ سے مراد وہ معاملہ ہے جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مشن تھا اور وہ ہے ، قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص ۔اسی معاملہ کے بارے میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بات کہی ہے کہ میں ہر بولنے سے والے اور اس کے باپ سے اس معاملے میں زیادہ حقدار ہوں ۔یعنی خون عثمان کے مطالبہ کے بارے میں ۔
اور یہ بات درست ہے کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ حق دار امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔
اوربالکل صحیح روایت سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ اعتراف و اقرار ثابت ہے کہ وہ علی رضی اللہ سےافضل نہیں ، نہ ہی خلافت میں علی رضی اللہ عنہ کے مخالف ہیں اورنہ ہی علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں بلکہ ان کا مقصد صرف قاتلین عثمان سے قصاص لینا ہے۔چناں چہ:
يحيى بن سليمان الجعفى رحمہ اللہ (المتوفی238) نے کہا:
”حدثنا يعلى بن عبيد، عن أبيه، قال: جاء أبو مسلم الخولاني وأناس إلى معاوية، وقالوا: أنت تنازع عليا، أم أنت مثله؟ فقال: لا والله، إني لأعلم أنه أفضل مني، وأحق بالأمر مني، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، والطالب بدمه، فائتوه، فقولوا له، فليدفع إلي قتلة عثمان، وأسلم له. فأتوا عليا، فكلموه، فلم يدفعهم إليه .“
”ابومسلم الخولانی اور کئی حضرات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: آپ علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے ہیں یا خود کو ان کی طرح سمجھتے ہیں ؟ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ! اللہ کی قسم ! مجھے پتہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے افضل ہیں ، اور خلافت کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں ، لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ عثمان رضی اللہ عنہ مظلومانہ قتل کئے گئے ، اور میں ان کا چچازاد بھائی ہوں اور ان کے خون کا طالب ہوں ، لہٰذا تم لوگ علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ قاتلین عثمان کو میرے حوالے کردیں میں ان کی خلافت تسلیم کرلیتاہوں ۔ پھر یہ حضرات علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سے بات کی لیکن علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان کو امیر معاویہ کے حوالے نہیں کیا“ ۔[ كتاب صفين للجعفی بحوالہ سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 140 واسنادہ صحیح]
اس صحیح روایت میں غور کریں کس طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صاف لفظوں میں کہہ رہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ سے افضل نہیں ہے اور نہ خلافت میں ان سے زیادہ حقدار ہیں بلکہ وہ صرف قاتلین عثمان سے قصاص چاہتے ہیں ۔
اس صاف اور صریح بیان کے ہوتے ہے کیسے ممکن ہے کہ امیر معاویہ خود کو خلافت کا سب سے زیادہ حقدار سمجھیں ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ بخاری کی روایت میں انہوں نے جس معاملہ میں خود کو زیادہ حقدار کہا ہے وہ خلافت کا معاملہ نہیں بلکہ خون عثمان کے مطالبہ کا معاملہ ہے اور بے شک اس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حقدار ہیں ۔
اور جو لوگ امیر معاویہ کے جملے میں مستعمل لفظ ”اب“ (باپ) کو حقیقی معنی میں لیتے اور معاملہ کو خلافت کا معاملہ مانتے ہیں اور اس جملہ کا روئے سخن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سمجھتے ہیں ۔ وہ غور کریں کہ جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود کو علی رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ خلافت کا حقدار نہیں سمجھتے جو چوتھے خلیفہ ہیں تو بھلا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود کو عبداللہ بن عمر کے والد عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ خلافت کا حقدار کیسے سمجھ سکتے ہیں جو بالاتفاق دوسرے خلیفہ ہیں ؟؟؟
رہی بات یہ کہ پھر حبیب بن سلمہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے جواب نہ دینے کہ وجہ کیوں پوچھی جب کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ ان کی طرف نہیں تھا ؟ تو جیساکہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ ممکن ہے کہ ابن عمر رضی اللہ کے بیان کے لہجہ میں عدم اتفاق ظاہر ہوا ہو اس لئے ان سے جواب نہ دینے کی وجہ پوچھی گئی ۔لہذا ان سے یہ سوال اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ انہیں کی طرف تھا ۔
اور رہا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عدم اتفاق تو ممکن ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں بھی انہیں حضرات کو زیادہ حقدار سمجھتے ہوں جو اسلام لانے کے اعتبار سے پہلے ہوں ۔ لیکن جس انداز سے جواب ان کے ذہن میں آیا تھا اس سے لوگوں کو غلط فہمی ہوسکتی تھی اور لوگ کچھ ان کی منشا کے خلاف کچھ اورہی مطلب اخذ کرسکتے تھے اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار کی جیساکہ خود انہوں نے خاموشی اختیار کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا:
”وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ،“
”اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے۔“
افسوس کہ جس غلط فہمی سے لوگوں کو بچانے کے لئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب نہیں دیا آج لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا ہورہے ہیں ۔اور اتنا بھی نہیں سوچتے کہ بھلا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو امیر معاویہ کے سامنے اپنے والد کو ان سے زیادہ خلافت کا حقدار ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ کبھی بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ابن عمر رضی اللہ عنہ کے والد سے اختلاف رہا ہی نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی اس کج فہمی پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وقيل أراد عمر وعرض بابنه عبد الله وفيه بعد لأن معاوية كان يبالغ في تعظيم عمر“
”اور کہا گیا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو مراد لیا اور ان کے بیٹے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ۔ اوریہ بہت بعید ہے کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے۔“ [فتح الباري لابن حجر 7/ 404]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کو مراد لینے اور ان کے بیٹے کی طرف اشارہ کا انکار نہیں کیا ہے ۔ لیکن یہ بات بھی درست نہیں ہے کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کا بھی احترام کرتے تھے اور انہیں خود سے افضل اور خلافت کے زیادہ حقدار سمجھتے تھے۔ جیساکہ صحیح روایت سے ثبوت پیش کیا گیا ہے ۔اس لئے درست بات یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہ عمر رضی اللہ عنہ کو مراد لیا ہے نہ علی رضی اللہ عنہ کو، بلکہ سرے سے حق خلافت ہی کی بات نہیں کی ہے۔ بلکہ خون عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبہ کی بات کی ہے اور اس معاملہ میں بغیر کسی کی تعین کے خود کو سب سے زیادہ حقدار کہا ہے ۔ واللہ اعلم۔
No comments:
Post a Comment