✿ ✿ ✿
امام ابوحنیفہ(المتوفى150) کی وفات کے تقریبا ڈیڑھ سو سال بعد پیداہونے والے ”أبو محمد عبد الله بن محمد بن يعقوب بن الحارث الحارثي (المتوفى340)“ نے کہا:
”حدثنا محمد بن إبراهيم بن زياد الرازي، حدثنا سليمان ابن الشاذكوني، قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: اجتمع أبو حنيفة والأوزاعي في دار الحناطين بمكة، فقال الأوزاعي لأبي حنيفة: ما بالكم لا ترفعون أيديكم في الصلاة عند الركوع وعند الرفع منه؟ فقال أبو حنيفة: لأجل أنه لم يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه شيء، فقال: كيف لم يصح وقد حدثني الزهري، عن سالم، عن أبيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه كان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وعند الركوع، وعند الرفع منه، فقال له أبو حنيفة: وحدثنا حماد، عن إبراهيم، عن علقمة، والأسود، عن عبد الله بن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يرفع يديه إلا عند افتتاح الصلاة، ولا يعود لشيء من ذلك، فقال الأوزاعي: أحدثك عن الزهري، عن سالم، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وتقول: حدثني حماد، عن إبراهيم، فقال له أبو حنيفة: كان حماد أفقه من الزهري، وكان إبراهيم أفقه من سالم، وعلقمة ليس بدون ابن عمر في الفقه، وإن كانت لابن عمر صحبة، فله فضل صحبة، والأسود له فضل كثير، وعبد الله عبد الله، فسكت الأوزاعي“
ترجمہ:
”سفیان بن عیینہ سے نقل کیا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ مکہ میں دار حناطین میں اکٹھا ہوئے تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ سے کہا: تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے تم لوگ رکوع جاتے وقت اوررکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیوں نہیں کرتے؟ تو ابوحنیفہ نے جواب دیا: اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔ تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: کیوں نہیں ثابت ہے جبکہ مجھ سے امام زہری نے بیان کیا ، انہوں نے سالم سے نقل کیا انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت ، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے ۔ تو امام ابوحنیفہ نے کہا: اور ہم سے حماد نے بیان کیا ، انہوں نے ابراہیم سے روایت کیا ،انہوں نے علقمہ اور اسود سے نقل کیا ، انہوں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف نماز شروع کرتے وقت ہی رفع الیدین کرتے تھے ، اور اس کے بعد ایسا کچھ بھی نہیں کرتے تھے ۔ تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: میں تمہیں زہری عن سالم عن ابیہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے روایت کررہاہوں اور تم حماد عن ابراہیم کے طریق سے روایت کررہے ہو ؟ تو ابوحنیفہ نے ان سے کہا: حماد یہ زہری سے زیادہ فقیہ تھے اور ابراہیم یہ سالم سے زیادہ فقیہ تھے اور علقمہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے فقہ میں کم نہیں گرچہ ابن عمررضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور یہ شرف انہیں حاصل ہے ، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس کے بعد امام اوزاعی رحمہ اللہ خاموش ہوگئے“ [مسند أبي حنيفة للحارثي 1/ 483 رقم 778 ، ط : المكتبة الإمدادية نیز دیکھیں: جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 352 - 353]
.
یہ پورا واقعہ جھوٹا ومن گھڑت ہے اور سند اس کی سلسلہ الکذب ہے، اس کی سند میں کئی جھوٹے راوی ہیں جو اپنے جوٹھے استاذ سے نقل کررہے ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:
.
✿ عبد الله بن محمد بن يعقوب بن الحارث الحارثی:
مسند ابوحنیفہ للحارثی اسی بدنصیب کی لکھی ہوئی کتاب ہے یہ امام ابوحنیفہ کے دور میں پیداہی نہیں ہوا بلکہ امام ابوحنیفہ کی وفات کے تقریبا ڈیڑھ سوسال بعد پیدا ہوا اور مسند ابوحنیفہ نام کی کتاب لکھی جس میں اکاذیب وخرافات ایک مجموعہ اکٹھا کردیا ۔
یہ شخص جھوٹا و کذاب تھا اور غیرمعتبر تھا ۔
❀ امام أبو زرعة احمد بن الحسين الرازي رحمه الله (المتوفى375)نے کہا:
”ضعيف“ ، ”یہ ضعیف ہے“ [سؤالات حمزة للدارقطني: ص: 228]۔
❀ امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446)نے کہا:
”يعرف بالأستاذ، له معرفة بهذا الشأن، وهو لين ضعفوه، سمع عبد الصمد بن الفضل البلخي، وأقرانه من شيوخ بلخ وسمع ببخارى، ونيسابور، والعراق، يأتي بأحاديث يخالف فيها، حدثنا عنه الملاحمي، وأحمد بن محمد بن الحسين البصير بعجائب“
”یہ استاذ کے لقب سے جانا جاتا ہے ،اسے حدیث کی جانکاری تھی ، لیکن یہ کمزور ہے اہل فن نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ، اس نے عبدالصمدبن الفضل اور ان کے ہم عصر میں بلخ کے مشائخ سے روایات سنین ، اسی طرح بخاری ، نیسابور اور عراق میں بھی اس نے روایات سنیں ، یہ ایسی احادیث لاتا ہے جس میں دوسری کی مخالفت ہوتی ہے، اس کے واسطہ سے ہمیں ملاحمی اور احمدبن محمد نے عجیب وغریب روایات بیان کی ہیں“ [الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 3/ 971]
❀ خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463) نے کہا:
”وليس بموضع الحجة“
”یہ اس لائق نہیں کہ اس سے حجت پکڑی جائے“ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 10/ 126]۔
❀ خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے مزید کہا:
”صاحب عجائب ومناكير وغرائب“
”یہ عجیب وغریب اور منکر باتیں بیان کرتاہے“ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 10/ 126]۔
❀ امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
”عبد الله بن محمد بن يعقوب البخاري يروي عن العباس بن حمزة قال أبو سعيد الرواس كان يتهم بوضع الحديث“
”عبد الله بن محمد بن يعقوب البخاري یہ عباس بن حمزہ سے روایات بیان کرتا ہے اور ابوسعید الرواس نے کہا کہ یہ حدیث گھڑنے میں متھم تھا“ [الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي: 2/ 141]
❀ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
”عبد الله بن محمد بن يعقوب البخاري قال أبو سعيد الرواس يتهم بالوضع“
”عبد الله بن محمد بن يعقوب کے بارے میں ابوسعید الرواس نے کہا کہ: یہ حدیث گھڑنے کے لئے متھم ہے“ [المغني في الضعفاء للذهبي: ص: 36]۔
❀ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
”عبد الله بن محمد بن يعقوب البخاري الفقيه: يأتي بعجائب واهية“
”عبد الله بن محمد بن يعقوب انتہائی بودی قسم کی عجیب وغریب باتیں بیان کرتاہے“ [ديوان الضعفاء ص: 227]۔
❀ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
”وقال أحمدالسليماني: كان يضع هذا الإسناد على هذا المتن، وهذا المتن على هذا الإسناد، وهذا ضرب من الوضع“
”احمد سلیمانی نے کہا کہ: ''یہ شخص ایک سند کو دوسری متن پر فٹ کردیتاتھا اور دوسرے متن کو کسی اور سند پر فٹ کردیتا تھا '' امامم ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ چیز بھی حدیث گھڑنے میں شامل ہے“ [ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 496]
.
✿ محمد بن إبراهيم بن زياد الرازي:
حارثی کذاب نے اسی شخص نے مذکورہ واقعہ نقل کیا ہے اور یہ شخص بھی کذاب ہے ۔
❀ امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
”محمد بن إبراهيم بن زياد متروك“
”محمدبن ابراہیم بن زیاد متروک ہے“ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 1/ 406]
❀ حافظ ابن حجر رحمه الله نقل کرتے ہیں:
”قال الدارقطني أيضًا: دجال يضع الحديث“
”امام دارقطنی نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ دجال اور حدیث گھڑنے والا تھا“ [لسان الميزان ت أبي غدة 6/ 474]۔
❀ خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
”سألت عنه أبا بكر البرقاني فقال بئس الرجل“
”میں نے اس کے متعلق ابوبکر باقالانی رحمہ اللہ نے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بہت برا آدمی ہے“ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 1/ 406]۔
❀ خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے اس کی ایک حدیث ذکر کرنے کے بعدکہا:
”أراه مما صنعت يداه“
”میں سمجھتاہوں کہ اس حدیث کو اسی کے ہاتھوں نے بنایا ہے“ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 11/ 305]
.
✿ سليمان بن داود الشاذكوني:
❀ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
”كذاب عدوالله كان يضع الحديث“
”یہ بہت بڑا جھوٹا اور اللہ کا دشمن ہے یہ حدیث گھڑتاتھا“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 114]
❀ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
”من نحو عبد الله بن سلمة الأفطس يعنى انه يكذب“
”یہ عبداللہ بن سلمہ کی طرح ہے یعنی یہ بھی جھوٹ بولتاہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 114]۔
❀ امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
”عندي ممن يسرق الحديث“
”میرے نزدیک یہ حدیث چور ہے“ [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 299]۔
بارك الله فيك
ReplyDelete