حدیث خلافت تیس (30)سال ،تحقیقی جائزہ
✿ ✿ ✿
امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت میں بعض حضرات وہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں جس میں دورخلافت کی مدت تیس سال بتلائی گئی ہے،اس کے بعد دورملوکت کا تذکرہ ہے۔اسی حدیث کی بنیاد پر بعض حضرات کہتے ہیں کہ امیر معاویہ اسلامی تاریخ کے پہلے بادشاہ ہیں ۔
اس حدیث پر مکمل تحقیق پیش کرنے سے پہلے ہم واضح کردیں کہ یہ حدیث جس طریق سے مروی ہے اسی طریق سے امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے یہ روایت بھی نقل کی ہے:
”حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء“
”سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل یہ کی کہ یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا“ [مسند البزار: 9/ 281]
.
اس حدیث کے سارے رجال ثقہ ہیں ، اور سند بھی متصل ہے ، یہ حدیث بھی سفینہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے، اوریہاں بھی سفینہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کرنے والا سعیدبن جمھان ہی ہے اور اس کے نیچے کی مکمل سند صحیح ہے۔
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840) نے اسی حدیث کو اسی سند ومتن کے ساتھ نقل کرنے کے بعد فرمایا:
”هذا إسناد صحيح“ ، ”یہ سند صحیح ہے“ [إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 5/ 11]
✿ اب اس حدیث میں غور کیجئے اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے ابوبکر ،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا ہے اوراس کے بعد ان کے دور کو خلافت نبوت کا دور قراردیاہے اور پھر اس کے بعد ملوکیت کا دور بتلایا ہے۔
اب سوال یہ کہ کیا اس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا شروع کردیا جائے کہ علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟
یاد رہے کہ اس حدیث کے شواہد بھی موجود ہیں ، بلکہ اس کا ایک شاہد تو بالکل اسی سند سے ہے جس سند سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے تیس سال خلافت والی حدیث کا پہلا شاہد پیش کیا ہے کماسیاتی۔
.
✿ اورجس طرح امیر معاویہ رضی اللہ کے دور کو بعض علماء نے ملوکیت کا دور قراردیا ہے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی ایک صحابی کا یہ بیان ملتا ہے کہ انہوں نے اس دور کو ملوکیت کا بلکہ جبری ملوکیت کا دور قراردیا ہے چناں چہ :
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثنا موسى حدثنا وهيب عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي الأشعث كان ثمامة القرشي على صنعاء وله صحبة فلما جاءه قتل عثمان بكى فأطال وقال اليوم نزعت الخلافة من أمة محمد صلى الله عليه وسلم وصارت ملكا وجبرية من غلب على شيء أكله“
”ابوالاشعث روایت کرتے ہیں کہ صحابی رسول ثمامۃ القرشی رضی اللہ عنہ صنعاء میں تھے ، انہیں جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرملی تو رو پڑے اوردیر تک روئے پھر فرمایا: آج امت محمدیہ سے خلافت لے لی گئی ہے اور اب جبری ملوکیت کادور شروع ہوگیا ہے جو جس چیز پرغلبہ پائے اسے کھا جائے“ [التاريخ الأوسط للبخاري، ن الرشد: 1/ 600 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم ]
.
دکتوراکرم ضیاء العمری نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے دیکھئے: [عصرالخلافة الراشدة ،محاولة لنقد الرواية التاريخية وفق منهج المحدثين ، 1/442،]
اب کیا ان روایات کی بناپر یہ کہا جائے گا کہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی ملوکیت بلکہ جبری ملوکیت کا دور ہے ؟
ہماری نظر میں علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی مرفوع روایت بعض علل کی بنا پر اسی طرح ضعیف ہے جس طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت بتانے والی روایت بعض علل کے سبب ضعیف ہے۔
ذیل ہم تیس سال خلافت والی روایت کی پوری تحقیق پیش کرتے ہیں:
ذیل ہم تیس سال خلافت والی روایت کی پوری تحقیق پیش کرتے ہیں:
((متن حدیث))
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
”حدثنا أحمد بن منيع قال: حدثنا سريج بن النعمان قال: حدثنا حشرج بن نباتة، عن سعيد بن جمهان، قال: حدثني سفينة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الخلافة في أمتي ثلاثون سنة، ثم ملك بعد ذلك» ثم قال لي سفينة: أمسك خلافة أبي بكر، وخلافة عمر، وخلافة عثمان، ثم قال لي: أمسك خلافة علي قال: فوجدناها ثلاثين سنة، قال سعيد: فقلت له: إن بني أمية يزعمون أن الخلافة فيهم؟ قال: كذبوا بنو الزرقاء بل هم ملوك من شر الملوك،: وفي الباب عن عمر، وعلي قالا: لم يعهد النبي صلى الله عليه وسلم في الخلافة شيئا وهذا حديث حسن قد رواه غير واحد عن سعيد بن جمهان ولا نعرفه إلا من حديثه“
ترجمہ:
”سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ ہم سے سفینہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی، پھر اس کے بعد ملوکیت آ جائے گی“ ، پھر مجھ سے سفینہ رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت، عمر رضی الله عنہ کی خلافت، عثمان رضی الله عنہ کی خلافت اور علی رضی الله عنہ کی خلافت، شمار کرو ، راوی حشرج بن نباتہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے تیس سال پایا، سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سفینہ رضی الله عنہ سے کہا: بنو امیہ یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت ان میں ہے؟ کہا: بنو زرقاء جھوٹ اور غلط کہتے ہیں، بلکہ ان کا شمار تو بدترین بادشاہوں میں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- کئی لوگوں نے یہ حدیث سعید بن جمہان سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف سعید بن جمہان ہی کی روایت سے جانتے ہیں“ [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 503 رقم 2226]
((تخریج حدیث))
● اخرجہ الترمذی فی سننہ 4/ 503 من طریق سريج بن النعمان۔ واخرجہ ابوداؤ الطیالسی فی مسندہ (2/ 430) ومن طریقہ اخرجہ ابونعیم الاصبھانی فی تثبيت الإمامة (ص: 358) وفی فضائل الخلفاء (ص: 168) وفی معرفة الصحابة (1/ 29) والبیہقی فی المدخل (ص: 116)۔واخرجہ احمد فی مسند ہ (36/ 256)من طریق ابی النضر ۔واخرجہ الطبرانی فی المعجم الكبير (7/ 83) وابونعیم الاصبھانی فی فضائل الخلفاء (ص: 169) کلاھما من طریق ابی نعیم ۔واخرجہ الطبری فی صريح السنة (ص: 24) والبیھقی فی دلائل النبوة (6/ 342) کلاھما من طریق عبيد الله بن موسى۔واخرجہ ابونعیم الاصبھانی فی فضائل الخلفاء (ص: 169) من طریق منيع بن حشرج۔کلھم (سریج بن النعمان وابوداؤد الطیالسی وابونعیم و عبیداللہ بن موسی ومنیع بن حشرج ) عن حشرج بن نباتة۔
● واخرجہ ایضا ابوداؤد فی سننہ (4/ 211) والطبرانی فی المعجم الكبير (7/ 84) و ابونعیم فی فضائل الخلفاء (ص: 170) والبیھقی فی دلائل النبوة (6/ 341) کلھم من طریق سوار بن عبد الله ۔واخرجہ ابن حبان فی صحيحہ (15/ 34) وابویعلی فی المفاريد (ص: 103) کلاھما من طریق إبراهيم بن الحجاج۔واخرجہ الحاکم فی المستدرك (3/ 156) من طریق عبدالصمد بن عبدالوارث ۔واخرجہ البیھقی فی دلائل النبوة (6/ 341) من طریق قیس بن حفص ۔کلھم (سواربن عبداللہ و ابراھیم بن الحجاج وعبدالصمد بن عبدالوارث وقیس بن حفص) عن عبدالوارث بن سعد۔
● واخرجہ ایضا نعیم بن حماد فی الفتن (1/ 104) و ابوداؤد فی سننہ (4/ 211) وعبداللہ فی السنة (2/ 591) والطبرانی فی المعجم الكبير (7/ 83) و ابونعیم الاصبھانی فی فضائل الخلفاء (ص: 169) وفی تاريخ أصبهان (1/ 295) والآجری فی الشريعة (4/ 1705) کلھم من طریق ھشیم ۔واخرجہ النسائی فی السنن الكبرى (7/ 313) و فی فضائل الصحابة ص: 17 وعبداللہ فی السنة (2/ 591) وابن ابی عاصم فی السنة (2/ 564) وفی الآحاد والمثاني (1/ 129) والطبرانی فی المعجم الكبير (1/ 89) والآجری فی الشريعة (4/ 1705) الرویانی فی مسندہ (1/ 439) کلھم من طریق یزید بن ھارون۔واخرجہ نعیم بن حماد فی الفتن (1/ 104 ، 2/ 687) من طریق محمدبن یزید الواسطی ۔واخرجہ عبداللہ فی السنة (2/ 591) من طریق الحجاج بن فروخ ۔کلھم (ھشیم و یزید بن ھارون ومحمدبن یزید الواسطی و الحجاج بن فروخ ) عن العوام بن حوشب۔
● واخرجہ ایضا علي بن الجعد فی مسند ہ (ص: 479) ومن طریقہ ابن حبان فی صحيحہ (15/ 392) وفی ثقاتہ (2/ 304) والآجری فی الشريعة (4/ 1703) واللالکائی فی شرح أصول اعتقاد أهل السنة (8/ 1469) ابن عبدالبرفی جامع بيان العلم وفضله (الزهيري): 2/ 1169 والبغوی فی شرح السنہ 14/ 74 وفی تفسرہ 6/ 59۔واخرجہ احمد فی مسندہ ( 36/ 248) من طریق عبدالصمد۔واخرجہ احمد فی مسند ہ (36/ 248) وفی فضائل الصحابة (2/ 601) و من طریقہ عبداللہ فی فضائل عثمان بن عفان (ص: 129) من طریق بھز بن اسد۔واخرجہ احمد وابنہ فی فضائل الصحابة (1/ 488) و ابن ابی عاصم فی الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (1/ 116، 1/ 129) و فی السنة (2/ 562) و عبداللہ فی السنة (2/ 591) و فی فضائل عثمان بن عفان (ص: 130) کلھم من طریق هدبة بن خالد۔واخرجہ الرویانی فی مسندہ (1/ 439) و الطبرانی فی المعجم الكبير (1/ 55) واللالکائی فی شرح أصول اعتقاد أهل (8/ 1469) کلھم من طریق حجاج بن المهال۔واخرجہ ابونعیم فی معرفة الصحابة (1/ 29، 1/ 82) من طریق حوثرة بن أشرس۔واخرجہ إسحاق بن راهويه فی مسندہ (4/ 163) من طریق النضر بن شميل۔واخرجہ الحاکم فی المستدرك ( 3/ 75) والبزار فی مسندہ (9/ 280) من طریق مؤمل واخرجہ البزار فی مسندہ (9/ 280) من طریق طالوت ۔واخرجہ الطحاوی فی شرح مشكل الآثار (8/ 414) من طریق عبد الرحمن بن زياد ۔واخرجہ الطبرانی فی المعجم الكبير (1/ 55) من طریق أسد بن موسى۔واخرجہ الالکائی فی شرح أصول اعتقاد أهل السنة (8/ 1469) من طریق وداود بن شبيب۔کلھم (علی ابن الجعد وعبدالصمد و بھزبن اسد وهدبة بن خالدوحجاج بن المهال وحوثرة بن أشرس والنضر بن شميل ومؤمل وطالوت وعبد الرحمن بن زيادوأسد بن موسى وداود بن شبيب) عن حماد بن سلمة۔
● واخرجہ ایضا الرویانی فی مسندہ (1/ 438) وابوبکربن الخلال فی السنة (2/ 427) و اللالکائی فی شرح أصول اعتقاد أهل السنة (8/ 1469) من طریق ابی طلحہ یحیی بن طلحہ ۔
● واخرجہ ایضا ابونعیم فی فضائل الخلفاء (ص: 169) من طریق حجاج ۔
جمیعھم (حشرج بن نباتة و عبدالوارث بن سعد و العوام بن حوشب و حماد بن سلمة و ابو طلحہ یحیی بن طلحہ و الحجاج ) عن سعيد بن جمهان عن سفینہ رضی اللہ عنہ۔
⟐ ⟐ ⟐
اس تخریج سے صاف ظاہر ہے کہ سعیدبن جمہان سے اس حدیث کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے اسی طرح سعید بن جمہان کے شاگردوں سے بھی کئی لوگ روایت کرتے ہیں ۔مگرسفینہ سے اس حدیث کو روایت کرنے میں سعید بن جمہان منفرد ہے۔کسی بھی ثقہ راوی سے سعیدبن جمہان کی معتبرمتابعت ثابت نہیں ہے۔اسی طرح سفینہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا کوئی صحیح یا معتبر شاہد بھی موجود نہیں ہے۔
((درجہ حدیث))
اس حدیث کی صحت وضعف کی بابت اہل علم میں اختلاف ہے۔
بعض اہل علم نے اسے صحیح کہا ہے جبکہ بعض اہل علم نے اسے غیرصحیح قراردیا ہے۔
✿ شارح سنن ترمذی علامہ القاضي أبو بكر بن العربي (المتوفى: 543 ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”وهذا حديث لا يصح“
”اوریہ حدیث(حدیث سفینہ) صحیح نہیں ہے“ [العواصم من القواصم ط الأوقاف السعودية ص: 201]
✿ علامہ ابن خلدون الإشبيلي رحمہ اللہ (المتوفى: 808)فرماتے ہیں:
”ولا ينظر في ذلك إلى حديث الخلافة بعدي ثلاثون سنة فإنه لم يصحّ، والحق أنّ معاوية في عداد الخلفاء“
”اوراس سلسلے میں وہ حدیث نہیں دیکھی جائے گی جس میں آیا ہے کہ خلافت میرے بعدتیس سال رہے گی ،کیونکہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔اورحق بات یہ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار بھی خلفاء میں سے ہوگا“ [تاريخ ابن خلدون 2/ 650]
✿ علامہ محب الدين الخطيب رحمه الله (المتوفی1389 )نے بھی العواصم کی تعلیق میں اسے ضعیف قراردیا ہے۔ [حاشیہ (4 )العواصم من القواصم ط الأوقاف السعودية ص: 201]
⟐ ⟐ ⟐
ہماری نظر میں اجمالی طور پر یہ حدیث صحیح ہے یعنی خلافت کچھ عرصہ تک رہے گی اس کے بعد ملوکیت آجائے گی پھر اس کے بعد کیا ہوگا اس بارے میں یہ حدیث خاموش ہے، اتنی بات اجمال کے ساتھ صحیح ہے ۔
لیکن اس حدیث کی دو باتیں صحیح نہیں ہیں:
❀ الف:
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرحلہ خلافت کی تعین جو تیس سال کی مدت سے کی گئی ہے یہ صحیح نہیں ۔
❀ ب:
اس حدیث کے بعض طرق کے اخیر میں بنوامیہ کی مذمت وارد ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
دوسری بات کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف قراردیا ہے ۔دیکھئے: [سلسلة الأحاديث الصحيحة 1/ 821]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس تضعیف کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ حشرج اس کی روایت میں منفرد ہے اور وہ صدوق کے ساتھ متکلم فیہ ہے اس لئے اس کا تفرد دیگر رواۃ کے خلاف ہونے کے سبب قبو ل نہیں ہے ۔
لیکن بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس اضافہ پر حشرج منفرد نہیں ہے بلکہ معنوی طور پر یہ اضافہ بیان کرنے میں ھشیم (السنة لعبد الله بن أحمد:2/ 591)،عبد الوارث بن سعيد (سنن أبي داود :4/ 211)،اور يحيى بن طلحة( شرح أصول اعتقاد أهل السنة :8/ 1469) نے بھی حشر ج کی متابعت کی ہے۔لیکن پھر بھی یہ اضافہ قبول نہیں ہے کیونکہ حشرج سے اوپر سعیدبن جمھان کا تفرد ہے اوراس کے بارے میں تفصیل آرہی ہے۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرحلہ خلافت کی تحدید آئی ہے تویہ بات بھی اس روایت میں ضعیف ہے ، اس کی درج ذیل دو وجوہات ہیں:
پہلی وجہ
سعیدبن جمھان کی خاص سفینہ سے روایات پر محدثین نے خاص کلام کیا ہے ۔
✿ امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
”هو ثقة إن شاء الله، وقوم يقعون فيه(وقوم يضعفونه )، إنما يخاف ممن فوقه وسمى رجلا.يعني سفينة“
”وہ (سعیدبن جمھان) ان شاء اللہ ثقہ ہے اور بعض لوگ اسے ضعیف قراردیتے ہیں انہیں اس سے اوپر کے طریق میں یعنی سفینہ والے طریق میں خوف ہے“ [سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 218، تهذيب الكمال للمزي: 10/ 377 ومابین القوسین عندہ]
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے سفینہ والے طریق میں سعیدبن جمھان کی تضعیف کی تردید نہیں کی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ بھی ان محدثین سے متفق ہیں جو سفینہ کے طریق میں سعیدبن جمھان کو ضعیف مانتے ہیں
امام ابوداؤد رحمہ اللہ خود ایک ناقد امام ہیں اور وہ سعیدبن جمھان کی تضعیف کرنے والوں کی مراد یہ بتلارہے ہیں کہ وہ سفینہ کے طریق میں سعیدبن جمھان کی تضعیف کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا کہ امام ابوداؤد کی نظر میں جن ائمہ نے سعید بن جمھان کی تضعیف کی ہے انہوں نے سفینہ ہی کے طریق میں ان کی تضعیف کی ہے۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سفینہ کے طریق سے سعیدبن جمھان کی روایات میں شدید نکارت پائی جاتی ہے جیساکہ اس کی چار مثالیں آگے آرہی ہیں۔
✿ امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
”وقد روي عنه عن سفينة أحاديث لا يرويها غيره وأرجو أنه لا بأس به فإن حديثه أقل من ذاك“
”سفینہ کے طریق سے سعیدبن جمھان کی کئی ایسی احادیث مروی ہیں جنہیں سفینہ سے ان کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں کرتا لیکن مجھے امید ہے کہ سعیدبن جمھان کے اندر کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ اس کی حدیث بہت کم ہے“ [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 458]
◈ ◈ ◈
تنبیہ بلیغ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
”وقال ابن معين روى عن سفينة أحاديث لا يرويها غيره وأرجو أنه لا بأس به“
”ابن معین نے کہا: سفینہ کے طریق سے سعیدبن جمھان کی کئی ایسی احادیث مروی ہیں جنہیں سفینہ سے ان کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں کرتا لیکن مجھے امید ہے کہ سعیدبن جمھان کے اندر کوئی حرج کی بات نہیں“ [تهذيب التهذيب لابن حجر، ت الهند: 4/ 14]
لیکن تہذیب الکمال میں یہ قول صرف امام ابن عدی ہی کے حوالے سے منقول ہے اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے تہذیب میں ابن معین کے حوالے سے درج کردیاہے اور ابن عدی کے حوالےسےایسا کوئی قول ذکر نہیں کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ تہذیب التہذیب میں ابن حجر رحمہ اللہ سے وہم ہوا ہے انہوں نے ابن عدی کے قول کو ابن معین کے نام سے ذکر کردیاہے۔
میرے ناقص علم کے مطابق اس وہم پر آج تک کسی نے تنبیہ نہیں کی ہے بلکہ بہت سارے اہل علم تہذیب ہی پر اعتماد کرتے ہوئے ابن معین کے حوالے سے یہ قول پیش کرتے رہتے ہیں ۔لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ ابن معین کا قول نہیں بلکہ ابن عدی ہی کا قول ہے۔
◈ ◈ ◈
بہرحال محدثین نے خاص سفینہ سے سعیدبن جمھان کی روایت پر کلام کیا ہے۔
اس وجہ تضعیف کے جواب میں کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے سفینہ سے ہی سعید بن جمھان کی روایت کو صحیح قراردیا ہے ۔
تواس کا جواب یہ کہ امام احمد نے صرف سعیدسے بعض ثقہ رواۃ کے روایت کرنے کی بناپر اسے ثقہ تسلیم کیا ہے اور اس بنیاد پر ان کی اس روایت کو صحیح کہاہے۔چناں چہ :
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
”قلت لأبي سعيد بن جمهان هذا هو رجل مجهول قال لا روى عنه غير واحد حماد بن سلمة وحماد بن زيد والعوام بن حوشب وحشرج بن نباته“
”میں نے اپنے والد سے کہا: سعیدبن جمھان یہ مجہول شخص ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں ۔اس سے کئی ایک نے مثلا حماد بن سلمہ ، حمادبن زید ، والعوام بن حوشب اورحشرج بن نباتہ نے روایت کیا ہے“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 2/ 314]
اس سے پتہ چلتاہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے محض ان سے ثقات کے روایت کرنے کے سبب انہیں ثقہ کہہ دیا ہے۔
لیکن دیگر محدثین نے سعید عن سفینہ کے طریق ہی پر کلام کیا ہے لہٰذا ان کی بات راجح ہے ۔اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سفینہ سے سعید بن جمھان کی کئی روایات منکر ثابت ہوتی ہیں مثلا:
● ● ●
پہلی مثال:
امام أحمد بن يحيى، البلاذري (المتوفى 279)نے کہا:
”حدثنا خلف حدثنا عبد الوارث بن سعيد عن سعيد بن جمهان عن سفينة مولى أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان جالسا فمر أبو سفيان على بعير ومعه معاوية وأخ له ، أحدهما يقود البعير والآخر يسوقه، فقال رسول الله صلى عليه وسلم: لعن الله الحامل والمحمول والقائد والسائق“
”سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اونٹ پر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا گذرہوا ان کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے ایک بھائی تھے۔ان میں سے ایک اونٹ کوچلارہاتھا اور دوسرا ہانک رہا تھا۔تواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہوسواری اور سوار پر نیز چلانے والے اور ہانکنے والے پر“ [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 136 رجالہ ثقات ومتنہ منکر و اخرجہ البزار فی مسندہ (9/ 286) من طریق سعیدبن جمھان بہ نحوہ ، وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 113) : رواه البزار، ورجاله ثقات ]
.
یہ روایت بھی سعید بن جمھان کی بیان کردہ ہے اور سعید تک اس کی سند صحیح ہے۔
لیکن اس میں بنوامیہ میں سے تین صحابہ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خصوصی لعنت کاذکر ہے۔یہ با ت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر احادیث کے سراسر خلاف ہے ۔اس لئے سعیدبن جمھان کی سفینہ رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ یہ روایت منکر بلکہ باطل ہے۔
دراصل اسی مضمون کی بات بعض کمی وبیشی کے ساتھ باطل ومردود سندوں سے آئی ہے (دیکھئے ہماری کتاب: امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ)۔اور سعید بن جمھان تک بھی یہ بات انہیں غیر معترذرائع سے پہونچی ہوگی لیکن سعید بن جمھان کے حافظہ نے کوتاہی کی اور انہوں نے اس مضمون کی روایت کو سفینہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے بیان کردیا ۔
● ● ●
دوسری مثال:
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
”حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء“
”سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل یہ کی کہ یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا“ [مسند البزار: 9/ 281]
.
یہ روایت بھی سعید بن جمھان کی بیان کردہ ہے اور سعید تک اس کی سند صحیح ہے۔
لیکن اس میں اول تو نبی صلی اللہ علیہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے بعد ابوبکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کی پیشین گوئی کی ہے،جبکہ صحیح بات یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا ہے۔
دوسرے یہ کہ اس روایت میں خلافت علی منہاج النبوۃ صرف ابوبکر ، عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کو کہا گیا ہے اوراس کے بعد ملوکیت کا دور بتلایا گیا ہے۔جبکہ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ علی رضی اللہ عنہ بھی خلفاء راشدین میں شامل ہیں اوران کی خلافت بھی خلافت علی منہاج النبوۃ ہے۔
دراصل یہ روایت بھی دیگر مردود ذرائع سے آئی ہے اور سعیدبن جمھان نے انہیں مردود ذرائع سے سن کر اسے سفینہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کردیا ۔
● ● ●
تیسری مثال:
امام نعيم بن حمادالمروزي (المتوفى228)نے کہا:
’’حدثنا ابن المبارك، أخبرنا حشرج بن نباتة، عن سعيد بن جمهان، عن سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لما بنى رسول الله صلى الله عليه وسلم مسجد المدينة جاء أبو بكر بحجر فوضعه، ثم جاء عمر بحجر فوضعه، ثم جاء عثمان بحجر فوضعه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هؤلاء يلون الخلافة بعدي»‘‘
’’سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی کی تعمیر کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے ایک پتھررکھا ،پھرعمرفاروق رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے ایک پتھررکھا ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے اورانہوں نے ایک پتھر رکھا،تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : یہ لوگ میرے بعد خلیفہ بنیں گے ‘‘[الفتن لنعيم بن حماد 1/ 107 رقم258]
.
یہ روایت بھی سعید بن جمھان کی بیان کردہ ہے اور سعید تک اس کی سند صحیح ہے۔
لیکن اس میں بیان کیا گیا ہےکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ابوبکر وعمر اور عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا ہے۔اور یہ بات دیگر صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
کیونکہ صحیح احادیث یہ بتلاتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی خلیفہ نامزد نہیں کیا ہے۔
❀ امام بخاری رحمہ اللہ اس روایت پر نقد کرتے ہوئے اور اسے صحیح احادیث کے خلاف بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
”لأن عمر بن الخطاب وعليا قالا لم يستخلف النبي صلى الله عليه وسلم“
”کیونکہ عمربن الخطاب اور علی رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا“ [الضعفاء للبخاري، ت ابن أبي العينين: ص: 54]
امام بخاری کی ذکر کردہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ کے لئے دیکھئے :[صحيح البخاري 9/ 81 رقم 7218]اورحدیث علی رضی اللہ عنہ کے لئے دیکھئے: [صحيح البخاري 6/ 12 رقم 4447]
❀ امام بیہقی رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پیش کرکے کہا:
”وفى هذا وفيما قبله دلالة على أن النبى -صلى الله عليه وسلم- لم يستخلف أحدا بالنص عليه“
”اس حدیث اور ماقبل کی حدیث میں دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی صراحت کے ساتھ خلیفہ نامزد نہیں کیا“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 8/ 149]
❀ امام نووی رحمہ اللہ نے ایک حدیث کی تشریح میں لکھا:
”فيه دلالة لأهل السنة أن خلافة أبي بكر ليست بنص من النبي صلى الله عليه وسلم على خلافته صريحا بل أجمعت الصحابة على عقد الخلافة له وتقديمه لفضيلته ولوكان هناك نص عليه أو على غيره لم تقع المنازعة من الأنصار وغيرهم أولا ولذكر حافظ النص ما معه ولرجعوا إليه لكن تنازعوا أولا ولم يكن هناك نص ثم اتفقوا على أبي بكر واستقر الأمر“
”اس میں اہل سنت کی اس بات کی دلیل ہے کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کی خلافت اس لئے نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی خلافت پر صریح نص موجود ہے بلکہ صحابہ کا انہیں خلیفہ بنانے پر اور فضیلت کی بنیاد پر انہیں فوقیت دینے پر اجماع ہوا ہے۔ اگر اس بات پر کوئی نص ہوتی تو انصار وغیرہم کی طرف سے شروع شروع میں کوئی اختلاف ہوتا ہی نہیں بلکہ نص یاد کرنے والا اس نص کا تذکرہ کردیتا اور سب اس کی طرف رجوع ہوجاتے ۔لیکن شروع شروع میں اختلاف ہوا کیونکہ اس معاملہ پر کوئی نص نہ تھی ، پھر سب نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اتفاق کرلیا اوراسی پر فیصلہ ہوگیا“ [شرح النووي على مسلم 15/ 154]
.
اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی صراحت کے ساتھ خلیفہ نامزد نہیں کیا اس لئے اس روایت میں خلیفہ نامزد کرنے کی جو بات ہے وہ غلط ہے۔
دراصل یہ بات بھی دیگر مردود ذرایع سے منقول ہے بلکہ ایک کذاب نے بھی اس بات کو سفینہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی بیان کررکھا ہے انہیں ذرائع سے سن کو سعیدبن جمھان نے بھی اس بات کو سفینہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کردیا۔
● ● ●
چوتھی مثال:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
’’حدثنا أبو النضر، حدثنا حشرج، حدثني سعيد بن جمهان عن سفينة مولى رسول الله، صلى الله عليه وسلم قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ألا إنه لم يكن نبي قبلي إلا حذر الدجال أمته، وهو أعور عينه اليسرى، بعينه اليمنى ظفرة غليظة، مكتوب بين عينيه كافر، يخرج معه واديان: أحدهما جنة، والآخر نار، فناره جنة وجنته نار، معه ملكان من الملائكة يشبهان نبيين من الأنبياء، لو شئت سميتهما بأسمائهما وأسماء آبائهما، واحد منهما عن يمينه والآخر عن شماله، وذلك فتنة، فيقول الدجال: ألست بربكم؟ ألست أحيي وأميت؟ فيقول له أحد الملكين: كذبت. ما يسمعه أحد من الناس إلا صاحبه، فيقول له: صدقت. فيسمعه الناس فيظنون إنما يصدق الدجال، وذلك فتنة، ثم يسير حتى يأتي المدينة فلا يؤذن له فيها، فيقول: هذه قرية ذلك الرجل، ثم يسير حتى يأتي الشام فيهلكه الله عند عقبة أفيق‘‘
’’سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا: سنو ! مجھ سے قبل جو بھی نبی آئے سب نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ، اس کی بائیں آنکھ کانی ہوگی ، اوراس کی دائیں آنکھ پر موٹی پھلی ہوگی ، اس کی پیشانی پر کافرلکھا ہوگا۔اس کے ساتھ جنت اور جہنم کی دو وادیاں ہوں گی ، جنت کی وادی حقیقت میں جہنم ہوگی اور جہنم کی وادی حقیقت میں جنت ہوگی ، اس کے پاس دو فرشتے بھی ہوں گے جو دو نبیوں کے مشابہ ہوں گے ، اگرمیں چاہوں تو ان دونوں کے نام مع ولدیت بتلادوں ، ان میں سے ایک اس کے دائیں جانب ہوگا اور دوسرا اس کے بائیں جانب ہوگا اوریہ ایک آزمائش ہوگی۔پھردجال کہے گا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ کیا میں زندگی اور موت نہیں دیتا؟ تو دونوں فرشتوں میں سے ایک اس سے کہیں گے : تو جھوٹ بولتا ہے ، اس بات کو اس کے دوسرے ساتھی کے علاوہ لوگوں میں کوئی اور نہیں سن سکے گا۔تواس سے اس کا ساتھی (دوسرا فرشتہ ) کہے گا : تم نے سچ کہا۔تو لوگ اسے سنیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ اس نے دجال کی بات کو سچ کہا اوریہ ایک آزمائش ہوگی۔ پھروہ چلے گا یہاں تک مدینہ آئے گا لیکن مدینہ کے اندر داخل ہونے کی اجازت اسے نہیں ملے گی ۔تو وہ کہے گا یہ اسی آدمی کا شہرہے۔پھروہ وہاں سے چل کر شام پہنچے گا تواللہ اسے عقبہ افیق کے پاس ہلاک کردے گا۔[مسند أحمد ط الرسالة 36/ 258]
.
یہ روایت بھی سعید بن جمھان کی بیان کردہ ہے اور سعید تک اس کی سند صحیح ہے۔
لیکن اس میں اس میں ایسی عجیب وغریب باتوں کا ذکر ہے جو اس مضمون کی دیگر صحیح احادیث میں نہیں ملتی مثلا اس میں دجال کے ساتھ دو نبی جیسے فرشتوں کا ذکر ہے اوران کے عجیب وغریب کردار ذکر ہے۔اسی طرح عقبة أفيق کے پاس دجال کے ہلاک ہونے کی بات دیگر صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
دراصل یہ باتیں بھی سعید بن جمھان تک غیرمعتبرذرائع سے پہنچی ہیں اور اس نے ان باتوں کو اس حدیث میں بھی شامل کردیا۔
فائدہ:
مسند احمد کے محققین سعید بن جمھان کی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
”ضعيف بهذه السياقة، تفرد به حشرج بن نباتة، عن سعيد بن جمهان، وقد أشار بعض أهل العلم إلى أنه يقع لهما في أحاديثهما غرائب ومناكير، وقد وقع لهما شيء من هذا في هذا الحديث كما سنبينه“
’’اس سیاق کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے، اسے سعیدبن جمھان سے بیان کرنے میں حشرج بن نباتہ منفرد ہے اوربعض اہل علم نے اشارہ کیا ہے کہ ان دونوں کی احادیث میں غریب اورمنکر باتیں ہوتی ہیں اور ان کی اس حدیث میں بھی ان دونوں کی طرف سے کچھ اسی طرح کی باتیں بیان ہوئی ہیں جیساکہ ہم آگے وضاحت کریں گے‘‘[حاشیہ نمبر (1) مسند أحمد ط الرسالة 36/ 258]
عرض ہے کہ:
سعیدبن جمھا ن یہاں بھی سفینہ سے روایت کررہاہے اس لئے یہ ساری مصیبتیں صرف اسی کی طرف سے حشرج بن نباتہ کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۔
ان مثالوں سے یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ خاص سفینہ سے سعیدبن جمھان کی منفرد روایات میں منکر باتیں ہوتی ہیں اس لئے اس طریق سے مروی اس کی روایات کی جن باتوں میں وہ منفرد ہوگا وہ باتیں ضعیف شمار ہوں گی اور زیربحث حدیث بھی اسی طریق سے ہے اور اس میں وہ عہدنبوت کے بعد دور خلافت کی مدت بتلانے میں منفرد ہےاسی طرح سفینہ رضی اللہ عنہ سے بنوامیہ کی مذمت نقل کرنے میں بھی منفرد ہے۔ اس لئے اس کی یہ باتیں منکر وضعیف و مردود ہیں۔
دوسری وجہ
اگریہ فرض کرلیا جائے کہ سعید بن جمھان کی سفینہ سے روایات بھی ضعیف نہیں ہیں تو بھی اس کی خاص اس روایت کی مذکورہ دونوں باتوں کو ضعیف مانا جائے گا کیونکہ وہ ان باتوں کی روایت میں منفرد ہے اوروہ علی الاطلاق ثقہ نہیں بلکہ اس پر جرح بھی ہوئی ہے اس کی توثیق درج ذیل محدثین نے کی ہے:
❀ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
”ثقة“ ، ”یہ ثقہ ہیں“ [علل أحمد رواية المروذي وغيره: ص: 107]
امام احمد رحمہ اللہ نے یہ توثیق راوی کی مرویات کا استقراء کرکے نہیں کی ہے بلکہ صرف ان سے بعض ثقہ رواۃ کی روایت کی بناپر کی ہے کمامضی۔
❀ امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
”ثقة“ ، ”یہ ثقہ ہیں“ [المعرفة والتاريخ 2/ 128]
❀ امام ابن حبان(المتوفى354) اور امام إبن خلْفُون رحمہمااللہ نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔[الثقات لابن حبان ط العثمانية: 4/ 278,إكمال تهذيب الكمال لمغلطاي 5/ 271]
اس توثیق کے ساتھ دیگر محدثین نے ان پر جرح کی ہے یا ہلکی توثیق کی ہے ۔
✿ امام يحيى بن سعيد القطان رحمه الله (المتوفى 198)سے منقول ہے:
”لم يرضه“ ، ”آپ اس سے راضی نہیں ہوئے“ [علل أحمد رواية المروذي وغيره: ص: 108 واسنادہ صحیح]
✿ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
”ثقة“ ، ”یہ ثقہ ہیں“ [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 114]
لیکن ابن البادی کی روایت میں کہا:
”ليس به بأس“ ، ”ان میں کوئی حرج نہیں ہے“ [سؤالات البادي عن ابن معين: ص: 47]
ابن معین رحمہ اللہ کے یہاں ”لیس بہ باس“ توثیق کے معنی میں ہے لیکن دونوں میں فرق بہرحال ہے۔
✿ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”في حديثه عجائب“ ، ”اس کی حدیث میں عجوبے ہیں“ [تاريخ البخاري الصغير بحوانہ ,إكمال تهذيب الكمال لمغلطاي 5/ 271 وانظر:تهذيب التهذيب 4/ 13]
✿ امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”سألت أبا داود، عن سعيد بن جمهان؟ فقال: هو ثقة إن شاء الله، وقوم يقعون فيه، إنما يخاف ممن فوقه وسمى رجلا.يعني سفينة“
”وہ (سعیدبن جمھان) ان شاء اللہ ثقہ ہے اور بعض لوگ اسے ضعیف قراردیتے ہیں انہیں اس سے اوپر کے طریق میں یعنی سفینہ والے طریق میں خوف ہے“ [سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 218]
✿ امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
”شيخ يكتب حديثه، ولا يحتج به“ ، ”یہ شیخ ہے،اس کی حدیث لکھی جائے گی لیکن اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 4/ 10]
نوٹ : ”لایحتج بہ“ کی جرح میں امام ابوحاتم منفرد نہیں ہیں بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی یہی کہا ہے کماسیاتی ۔
✿ امام زكريا بن يحيى الساجى رحمه الله (المتوفى307)نے کہا:
”لا يتابع على حديثه“ ، ”اس کی حدیث پر متابعت نہیں کی جاتی“ [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 4/ 14]
✿ امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
”أرجو أنه لا بأس به“ ، ”مجھے امید ہے کہ سعیدبن جمھان کے اندر کوئی حرج کی بات نہیں“ [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 458]
✿ امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
”فسعيد بن جمهان غير مشهور بالعدالة بل مذكور انه لا يقوم حديثه“ ، ”سعیدبن جمھان عدالت میں غیرمشہورہے بلکہ اس کے بارے میں یہ مذکورہے کہ وہ اپنی حدیث ٹھیک طرح سے نہیں بیان کرپاتا“ [المحلى لابن حزم: 9/ 185]
✿ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
”صالح الحديث، لا يحتج به“ ، ”یہ صالح الحدیث ہے ، اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا“ [ديوان الضعفاء ص: 156]
✿ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
”صدوق له أفراد“ ، ”یہ صدوق ہے اس کے پاس کچھ منفرد روایات ہیں“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم2279]
◈ ◈ ◈
ان اقوال جرح کے پیش نظر یہ راوی راجح قول میں علی الاطلاق ثقہ کے درجہ پر نہیں ہے بلکہ یہ صدوق وحسن الحدیث کے درجے پر ہے جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تمام اقوال کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہاہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کہا:
”صدوق وسط“ ، ”یہ اوسط درجے کا صدوق کا راوی ہے“ [الكاشف للذهبي ت عوامة: 1/ 433]
اورجو راوی اس درجہ کا ہو اس کی ہر منفرد روایت قبول نہیں ہوتی ہے بلکہ ایسے راوی کی جس روایت کے بارے میں قرائن رد پر دلالت کریں اس کی وہ روایت رد کردی جائے گی ۔
صدوق متکلم فیہ راوی کا تفرد:
اس طرح کا راوی اگر کسی حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہو اور قبولیت کے اضافی قرائن موجود نہ ہوں بلکہ اس کے برعکس رد کے قرائن موجود ہیں ، تو ایسی صورت ایسے راوی کی بیان کردہ منفرد روایت مردود ہوتی ہے ، اس بارے میں چندائمہ فن کے اقوال ملاحظہ ہوں:
❀ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
”وإن تفرد الثقة المتقن يعد صحيحا غريبا. وإن تفرد الصدوق ومن دونه يعد منكراً. وإن إكثار الراوي من الأحاديث التي لا يوافق عليها لفظا أو إسنادا يصيره متروك الحديث“
”اگر ثقہ و مضبوط حافظہ والا راوی کسی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت صحیح غریب ہوگی ، اور اگر صدوق یا اس سے کمتر راوی کسی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت منکر شمار ہوگی اور جب کوئی راوی بکثرت ایسی روایات بیان کرنے لگے جس کی لفطی یا معنوی متابعت نہ ملے تو ایسا راوی متروک قرار پائے گا“ [ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 141]
❀ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
”واحتج من قبل الزيادة من الثقة مطلقا بأن الراوي إذا كان ثقة وانفرد بالحديث من أصله كان مقبولا، فكذلك انفراده بالزيادة وهو احتجاج مردود، لأنه ليس كل حديث تفرد به أي ثقة كان يكون مقبولا“
”جولوگ ثقہ کی زیادتی مطلق قبول کرتے ہیں وہ ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ ''جب ثقہ کوئی منفرد روایت بیان کرتے تو وہ مقبول ہوتی ہے تو اسی طرح جب ثقہ کسی زیادتی کو بیان کرنے میں منفر د ہو تو وہ بھی مقبول ہونی چاہئے''۔ (حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ) لیکن یہ دلیل مردود ہے کیونکہ ہر ایسی حدیث مقبول نہیں ہوتی جسے بیان کرنے میں ثقہ منفرد ہو“ [النكت على ابن الصلاح لابن حجر: 2/ 690]۔
❀ امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795) اکثر متقدمین محدثین کے موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وأما أكثر الحفاظ المتقدمين فإنهم يقولون في الحديث - إذا تفرد به واحد - وإن لم يرو الثقات خلافه: إنه لا يتابع عليه، ويجعلون ذلك علة فيه، اللهم إلا أن يكون ممن كثر حفظه واشتهرت عدالته وحديثه كالزهري ونحوه، وربما يستنكرون بعض تفردات الثقات الكبار أيضاً، ولهم في كل حديث نقد خاص، وليس عندهم لذلك ضابط يضبطه“
متقدمین حفاظ حدیث و ائمہ کی اکثریت کا موقف یہ ہے کہ جب کوئی راوی ایک حدیث کو بیان کرنے میں منفردہوتاہے گرچہ وہ روایت ثقہ کی روایت کے خلاف نہ ہو تو ایسی حدیث کے بارے میں متقدمین حفاظ ''لایتابع علیہ '' (اس کی تائیدنہیں ملتی) کہتے ہیں، اوراس چیزکو متعلقہ حدیث میں علت شمار کرتے ہیں ، الایہ کہ اس طرح کا تفرد ایسے رواۃ سے ہو جن بہت بڑے حافظ ہوں ، جن کی عدالت و احادیث بہت زیادہ مشہور ہوں مثلا امام زہری وغیرہ ۔ اور بسااوقات متقدمین حفاظ حدیث وائمہ بڑے بڑے ثقہ راوۃ کے تفردات کو بھی منکر قرار دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے پاس کوئی خاص قاعدہ نہیں ہے جس کی وہ پابندی کرتے ہوں بلکہ ہر حدیث سے متعلق ان خاص نقد ہوتا ہے[شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 216]۔
✿ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ایک مجلس میں فرمایا:
”ومن هنا لا يجوز هدم أو إهدام حديث الصدوق مطلقا، لكن لا بد من الدقة في الاعتماد أو الثقة بحديث هذا النوع من الصدوق أو عدم الاعتماد عليه. فقال أبو عبد الله: دقة النظر؟فقال الشيخ: هو في متن الحديث أو رواة آخرين أو يدخل في الحديث الشاذ، والحديث المنكر، كل هذا يدخل في هذا المجال.فقال أبو الحسن: إلى القرائن؟ فأجاب الشيخ: نعم“
”اس بنیادپر صدوق کی حدیث کو علی الاطلاق رد کرنا درست نہیں لیکن اس طرح کے صدوق کی حدیث پر اعتماد اورعدم اعتماد کے وقت دقت نظر سے کام لینا بھی ضروری ہے۔ ابوعبداللہ (علامہ البانی کے شاگرد) نے پوچھا: دقت نظر سے آپ کی کیامرادہے ؟ علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواب دیا : متن حدیث کو دیکھاجائے یا دیگر رواۃ کو دیکھاجائے ، یا اسے شاذ و منکر حدیث کی قبیل سے سمجھا جائے یہ تمام باتیں دقت نظر میں شامل ہیں۔ابوالحسن (علامہ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد) نے پوچھا : یعنی اس معاملہ میں قرائن کو دیکھاجائے گا ؟ علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواب دیا: جی ہاں“ [سؤالات ابن أبي العينين للشيخ الألباني ص: 88]۔
.
واضح رہے کہ اصول بیانی اور اصول کی تطبیق میں ایک ہی عالم سے اختلاف ہوسکتا ہے ، یعنی یہ ممکن ہے کہ ایک عالم ایک اصول کو صحیح مانتے ہوئے بھی اس کی تطبیق میں اجتہادی غلطی کا شکار ہوجائے ، یعنی اصول کو ایسی جگہ منطبق کردے جہاں یہ اصول منطبق نہیں ہوتا ، یاجہاں یہ اصول منطبق ہوتا ہے وہاں اس کی تطبیق نہ کرسکے۔
اہل فن کے اقوال بالخصوص امام ابن رجب رحمہ اللہ کی تصریح سے معلوم ہوا کہ صدوق راوی کی منفرد روایت نہ تو علی الاطلاق قبول کی جائے گی اورنہ ہی علی الاطلاق رد کی جائے گی بلکہ قرائن کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا کہ کہاں اس کی روایت مقبول ہوگی اورکہاں مردود ۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں۔
{افراد الثقات بین القبول والرد} متعب بن خلف السلمی
{التفرد في رواية الحديث ومنهج المحدثين في قبوله أو رده} عبدالجواد حمام
.
الغرض یہ راوی صدوق کے درجہ پر ہے اور متکلم فیہ ہے ایسے راوی کے بعض تفردات قرائن کی روشنی میں مردود ہوتے ہیں یہی حال اس راوی کا اس روایت میں ہے کیونکہ اس میں اس راوی کی طرف سے بیان کردہ مذکورہ باتوں کے خلاف قرائن موجود ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:
.
✿ پہلا قرینہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت اورپھر اس کے بعد ملوکیت سے متعلق کئی صحیح روایات وارد ہوئی ہیں لیکن زیربحث روایت کے علاوہ کسی بھی صحیح روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرحلہ خلافت کی تحدید وارد نہیں ہے ۔ تفصیل ملاحظہ ہو:
● حدیث عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ :
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا سليمان بن المغيرة، حدثنا حميد بن هلال، عن خالد بن عمير العدوي، قال: خطبنا عتبة بن غزوان، فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: أما بعد، «فإن الدنيا قد آذنت بصرم وولت حذاء، ولم يبق منها إلا صبابة كصبابة الإناء، يتصابها صاحبها، وإنكم منتقلون منها إلى دار لا زوال لها، فانتقلوا بخير ما بحضرتكم، فإنه قد ذكر لنا أن الحجر يلقى من شفة جهنم، فيهوي فيها سبعين عاما، لا يدرك لها قعرا، ووالله لتملأن، أفعجبتم؟ ولقد ذكر لنا أن ما بين مصراعين من مصاريع الجنة مسيرة أربعين سنة، وليأتين عليها يوم وهو كظيظ من الزحام، ولقد رأيتني سابع سبعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما لنا طعام إلا ورق الشجر، حتى قرحت أشداقنا، فالتقطت بردة فشققتها بيني وبين سعد بن مالك، فاتزرت بنصفها واتزر سعد بنصفها، فما أصبح اليوم منا أحد إلا أصبح أميرا على مصر من الأمصار، وإني أعوذ بالله أن أكون في نفسي عظيما، وعند الله صغيرا، وإنها لم تكن نبوة قط إلا تناسخت، حتى يكون آخر عاقبتها ملكا، فستخبرون وتجربون الأمراء بعدنا»“
”سیدنا خالد بن عمیر عدوی کہتے ہیں کہ (امیر بصرہ) عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد کہا کہ بعد حمد و صلوٰۃ کے معلوم ہو کہ دنیا نے ختم ہونے کی خبر دی؟ اور دنیا میں سے کچھ باقی نہ رہا مگر جیسے برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے جس کو اس کا صاحب پیتا ہے۔ اور تم دنیا سے ایسے گھر کو جانے والے ہو جس کو زوال نہیں، پس اپنی زندگی میں نیک عمل کر کے جاؤ، اس لئے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ پتھر جہنم کے اوپر کے کنارے سے ڈالا جائے گا اور ستر برس تک اس میں اترتا جائے گا اور اس کی تہہ کو نہ پہنچے گا۔ اللہ کی قسم! جہنم بھری جائے گی۔ کیا تم تعجب کرتے ہو؟ اور ہم سے بیان کیا گیا کہ جنت کے دروازے کی ایک طرف سے لے کر دوسری طرف کنارے تک چالیس برس کی راہ ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ دروازہ لوگوں کے ہجوم سے بھرا ہوا ہو گا اور میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ میں سات شخصوں میں سے ساتواں شخص تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا درخت کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں (بوجہ پتوں کی حرارت اور سختی کے)۔ میں نے ایک چادر پائی اور اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے، ایک ٹکڑے کا میں نے تہبند بنایا اور دوسرے ٹکڑے کا سعد بن مالک نے۔ اب آج کے روز کوئی ہم میں سے ایسا نہیں ہے کہ کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھوں، لیکن اللہ کے نزدیک چھوٹا ہوں اور بیشک کسی پیغمبر کی نبوت (دنیا میں) ہمیشہ نہیں رہی بلکہ نبوت کا اثر (تھوڑی مدت میں) جاتا رہا؟ یہاں تک کہ اس کا آخری انجام یہ ہوا کہ وہ ملوکیت ہو گئی۔ پس عنقریب تم ہمارے بعد آنے والے امراء کو دیکھو گے اور تجربہ کرو گے ان امیروں کا جو ہمارے بعد آئیں گے (کہ ان میں دین کی باتیں جو نبوت کا اثر ہے، نہ رہیں گی اور وہ بالکل دنیادار ہو جائیں گے)“ [صحيح مسلم 6/ 2278]
اس حدیث میں بھی نبوت کے بعدخلافت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد ملوکیت کی پیشین گوئی ہے۔لیکن صحیح مسلم کی اس حدیث میں دورنبوت کے بعد دورخلافت کی مدت نہیں بتلائی گئی ہے۔
● حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
”حدثنا أحمد بن النضر العسكري، ثنا سعيد بن حفص النفيلي، ثنا موسى بن أعين، عن ابن شهاب (والصواب ابی شھاب)، عن فطر بن خليفة، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أول هذا الأمر نبوة ورحمة، ثم يكون خلافة ورحمة، ثم يكون ملكا ورحمة، ثم يكون إمارة ورحمة، ثم يتكادمون عليه تكادم الحمر فعليكم بالجهاد، وإن أفضل جهادكم الرباط، وإن أفضل رباطكم عسقلان“
”ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس معاملہ کا پہلا دور نبوت اور رحمت کا ہوگا ۔ پھر خلافت اور رحمت کا دور ہوگا ۔پھرملوکیت اور رحمت کا دور ہوگا ۔پھر امارت اور رحمت کا دور ہوگا ۔پھر لوگ اس معاملہ میں ایک دوسرے پر گدہوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے ۔اورتمہارا بہترین جہاد دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار رہنا ہےاورایسی بہترین تیاری کی جگہ عسقلان ہے“ [المعجم الكبير للطبراني 11/ 88 واسنادہ صحیح وانظر : الصحیحہ برقم 3270]
● حدیث حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا العلاء بن المنهال الغنوي ، حدثنا مهند القيسي ، وكان ثقة ، حدثني قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن حذيفة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنكم في نبوة ورحمة ، وستكون خلافة ورحمة ، ويكون كذا وكذا ، ويكون ملكا عضوضا ، يشربون الخمر ، ويلبسون الحرير ، ومع ذلك ينصرون إلى قيام الساعة“
”حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نبوت او ر رحمت کے دور میں ہو، اس کے بعد خلافت اور رحمت کا دور ہوگا، اس کے بعد ایسا دور اورایسا دور ہوگا ۔اس کے بعد کاٹنے والی ملوکیت کا دور ہوگا ، اس وقت لوگ شراب پئیں گے ، ریشم پہنیں گے ، اس کے باوجود بھی قیامت تک مدد کئے جاتے رہیں گے“ [مسند ابن ابی شیبہ بحوالہ المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 4/ 372 واسنادہ صحیح وصححہ البوصیری فی إتحاف الخيرة المهرة : 8/ 93 واخرجہ من طریق ابن ابی شیبہ الطبرانی فی المعجم الأوسط 6/ 345 و اخرجہ ابن الأعرابي في المعجم 2/ 803 ، والمستغفري في دلائل النبوة 1/ 370 من طریق زید بہ]
● حديث عبد الرحمن بن سهل رضی اللہ عنہ:
أبو سعيد إبراهيم بن طهمان الهروي (المتوفى 168)نے کہا:
”عن عباد بن إسحاق، عن عبد الملك بن عبد الله بن أسيد، عن أبي ليلى الحارثي، عن سهل بن أبي حثمة، عن عبد الرحمن بن سهل، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما كانت نبوة قط إلا تبعتها خلافة , ولا كانت خلافة قط إلا تبعها ملك , ولا كانت صدقة إلا صارت مكسا»“
”عبدالرحمن بن سھل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی نبوت آئی، اس کے بعد خلافت کا دور آیا، اور جب بھی خلافت آئی اس کے بعد ملوکیت کا دور آیا اورجب بھی صدقہ آیا بعد میں وہ محصول بن گیا“ [مشيخة ابن طهمان ص: 94۔واسنادہ ضعیف ومن طريق ابن طھمان اخرجہ ابن قانع في معجم الصحابة 2/ 71، وابن عساكر في تاريخ دمشق 34/ 421 ]
یہ روایت ضعیف ہے ۔ لیکن خلافت وملوکیت والے جملے کے صحیح شواہد موجود ہیں جو ماقبل میں گذرچکے ہیں ۔
● حدیث معاذ و ابو عبیدہ بن الجرح رضی اللہ عنہما:
امام ابن أبي عاصم (المتوفى 287)نے کہا:
”ثنا الفضيل بن حسين ثنا عبد الواحد بن زياد ثنا ليث بن أبي سليم عن عبد الرحمن بن سايط عن أبي ثعلبة عن معاذ بن جبل وأبي عبيدة قالا: سمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن هذا الأمر بدأ رحمة ونبوة ثم خلافة ورحمة“
معاذبن جبل اورابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: یہ معاملہ نبوت اور رحمت سے شروع ہوا ہے پھر اس کے بعد خلافت اور رحمت کا دور ہوگا [السنة لابن أبي عاصم 2/ 534 واسنادہ ضعیف ]
اس کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن اس کے صحیح شواہد ہیں کما مضی علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے [ظلال الجنة للألباني رقم1130]
● حدیث عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
”حدثنا محمد بن علي بن حبيش، ثنا أبو بكر بن أبي داود السجستاني، ثنا أسيد بن عاصم، ثنا إسماعيل بن عمرو، ثنا سفيان الثوري، عن عمرو بن عبد الله، عن سعيد بن المسيب، قال: خطب عمر الناس فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في مثل مقامي هذا: «هذا الأمر بدأ نبوة ورحمة، وسيعود سلطانا ورحمة، ثم يكون ملكا ورحمة»“
”عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام پر کہتے ہوئے سنا : یہ معاملہ نبوت اوررحمت سے شروع ہوا ہے اس کے بعد سلطنت (خلافت)اوررحمت کادورہوگا پھر اس کے بعدملوکیت اوررحمت کا دور ہوگا“ [تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان 1/ 251]
اس کی سند ضعیف ہے لیکن اس کے بھی صحیح شواہد موجود ہیں کمامضی ۔
● حدیث ماجدالصدفی رضی اللہ عنہ:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
”حدثنا أبو عامر النحوي، ثنا سليمان بن عبد الرحمن الدمشقي، ثنا حسين بن علي الكندي، مولى جرير، عن الأوزاعي، عن قيس بن جابر الصدفي، عن أبيه، عن جده: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «سيكون من بعدي خلفاء، ومن بعد الخلفاء أمراء، ومن بعد الأمراء ملوك، ومن بعد الملوك جبابرة، ثم يخرج رجل من أهل بيتي يملأ الأرض عدلا كما ملئت جورا، ثم يؤمر القحطاني، فوالذي بعثني بالحق ما هو دونه»“
”ماجد الصدفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد خلفاء ہوں گے ،اورخلفاء کے بعد امراء ہوں گے ، اور امراء کے بعد بادشاہ ہوں گے ، اور بادشاہوں کے بعد جابر حکمراں ہوں گے ، پھر میرے اہل بیت سے ایک شخص نکلے گا جو زمین کو انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم سے بھردی گئی تھی ، پھرقحطانی کو حکم ہوگا وہ نکلے گا اور قسم اس ذات کی جس نے مجھے مبعوث کیا وہ پہلے سے کم تر نہ ہوگا“ [المعجم الكبير للطبراني 22/ 374 واسنادہ ضعیف]
یہ روایت بھی ضعیف ہے لیکن عہدنبوت کے بعد دورخلافت کے تذکرہ کے صحیح شواہد موجود ہیں کما مضی ۔
● حدیث کعب الاحبار رحمہ اللہ مرسلا:
امام نعيم بن حمادالمروزي (المتوفى228)نے کہا:
”حدثنا ضمرة، عن ابن شوذب، عن يحيى بن أبي عمرو السيباني، قال: سمعت كعبا، يقول: «أول هذه الأمة نبوة ورحمة، ثم خلافة ورحمة، ثم سلطان ورحمة، ثم ملك جبرية، فإذا كان ذلك فبطن الأرض يومئذ خير من ظهرها»“
”کعب الاحبار رحمہ اللہ مرسلا روایت کرتے ہیں کہ اس امت میں نبوت اور رحمت کادور ہوگا ۔پھر خلافت اور رحمت کادور ہوگا ۔پھربادشاہت اور رحمت کا دور ہوگا ۔پھربادشاہت اور جبر کا دور ہوگا ۔اورجب یہ دورآجائے تو اس وقت زمیں کے اندر کی جگہ اس کے باہر کی جگہ سے بہترہوگی“ [الفتن لنعيم بن حماد 1/ 99 ومن طریقہ اخرجہ ابونعیم فی الحلیۃ 6/ 25 رجالہ ثقات وھو مرسل لکنہ صحیح بالشواھد]
اس کے رجال ثقہ ہیں مگریہ مرسل ہے۔لیکن شواہد کی روشنی میں یہ صحیح ہے۔
غورکریں اتنی ساری احادیث میں دورنبوت کے بعد دورخلافت کا تذکرہ ہے لیکن کسی میں بھی دورخلافت کی تحدیدوارد نہیں ہے ۔یہ بات صرف سعیدبن جمھان ہی نقل کرتاہے اور وہ متکلم فیہ ہے اس لئے اس کا بیان ناقابل اعتبارہے۔
.
✿ دوسراقرینہ:
زیربحث حدیث سے پتہ چلتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد صرف چار یا پانچ خلیفہ بتلایاہے ۔جبکہ صحیحین کی روایت کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد صراحتا بارہ خلفاء کا تذکرہ کیا ہے۔
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حدثنا هداب بن خالد الأزدي، حدثنا حماد بن سلمة، عن سماك بن حرب، قال: سمعت جابر بن سمرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا يزال الإسلام عزيزا إلى اثني عشر خليفة»، ثم قال كلمة لم أفهمها، فقلت لأبي: ما قال؟ فقال: «كلهم من قريش»“
”جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام بارہ خلفاء تک غالب وبلند رہے گا۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات کہی جو میں سمجھ نہیں سکا ، میں نے اپنے والدسے پوچھا : آپ نے کیا فرمایا: تو انہوں نے کہا: سب کے سب(بارہ خلفاء) قریش سے ہوں گے“ [صحيح مسلم 3/ 1453 رقم 1821 واللفظ لہ ، صحيح البخاري 9/ 81 رقم 7222]
جو اہل علم تیس سال خلاف والی حدیث سفینہ کو صحیح مانتے ہیں وہ یوں تطبیق دیتے ہیں کہ تیس سال والی خلافت سے خلافت علی منہاج النبوۃ مراد ہے اور بارہ خلفاء والی حدیث میں مطلق خلافت کا ذکر ہے۔لیکن چونکہ تیس سال خلافت والی حدیث کئی بناپر ضعیف ہے اس لئے یہاں تطبیق دینا درست نہیں۔
.
✿ تیسراقرینہ:
زیربحث حدیث سے پتہ چلتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد صرف چار یا پانچ خلیفہ بتلایاہے ۔جبکہ صحیح بخاری کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کثیر تعداد میں خلفاء کا تذکرہ کیا ہے۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثني محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن فرات القزاز، قال: سمعت أبا حازم، قال: قاعدت أبا هريرة خمس سنين، فسمعته يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء فيكثرون» قالوا: فما تأمرنا؟ قال: «فوا ببيعة الأول فالأول، أعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم»“
”ابوحازم نے بیان کیا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پانچ سال تک بیٹھا ہوں۔ میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے، جب بھی ان کا کوئی نبی ہلاک ہو جاتا تو دوسرے ان کی جگہ آ موجود ہوتے، لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں میرے خلیفہ ہوں گے اور بکثرت خلیفہ ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ان کے متعلق آپ کا ہمیں کیا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے جس سے بیعت کر لو، بس اسی کی وفاداری پر قائم رہو اور ان کا جو حق ہے اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرے گا“ [صحيح البخاري 4/ 169 رقم 3455]
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد بہت سارے خلفاء کا تذکرہ کیا ہے اور ظاہرہے کہ صرف چار یا پانچ خلفاء کی تعداد پر کثرت کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
.
✿ چوتھا قرینہ:
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں کوئی ایک بات بھی ایسی نوٹ نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ ان کے دور میں ملوکیت شروع ہوگئ ہے۔
بلکہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد جو فتنہ شروع ہوا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے تک اس فتنہ کی آگ نہ بجھی ۔ لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد پوری امت ان کی خلافت پر متفق ہوگئی اور اس کے بعد ان کی وفات تک عالم اسلام میں کسی فتنہ نے سر نہیں اٹھایا۔
ایسے بابرکت دور کے خلاف صرف تنہا سعیدبن جمھان متکلم فیہ کی ایسی روایت قابل قبول نہیں ہوسکتی جس میں اس پورے دور کو خلافت سے کاٹ کر ملوکیت سے تعبیر کیا جارہاہے۔
اس لئے انصاف کی بات یہی ہے کہ سعیدبن جمھان متکلم فیہ کی یہ منفرد روایت مردود ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور بھی خلافت کا دورہے۔
علامہ ابن خلدون الإشبيلي رحمہ اللہ (المتوفى: 808)فرماتے ہیں:
”وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة، ولا ينظر في ذلك إلى حديث الخلافة بعدي ثلاثون سنة فإنه لم يصحّ، والحق أنّ معاوية في عداد الخلفاء“
”مناسب بات یہ تھی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے دور کو سابقہ خلفاء اور ان کے دور کے ساتھ ملایا جائے کیونکہ فضل ، عدالت اور صحبت میں یہ اپنے سابقہ خلفاء سے ملحق ہیں ۔اوراس سلسلے میں وہ حدیث نہیں دیکھی جائے گی جس میں آیا ہے کہ خلافت میرے بعدتیس سال رہے گی ،کیونکہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔اورحق بات یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار بھی خلفاء میں سے ہوگا“ [تاريخ ابن خلدون 2/ 650]
.
((متابعات وشواہد))
بعض روایات میں زیربحث حدیث کے لئے متابعات وشواہد بھی ملتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک روایت بھی معتبر نہیں ہے۔ متابعات تو موضوع اور من گھڑت ہیں شاید اسی لئے اس حدیث پر بحث کرنے والوں میں سے کسی نے اس حدیث کے ساتھ ان متابعات کا تذکرہ تک نہیں کیا ہے۔
اور شواہد سخت ضعیف ومنکر ومردود ہیں اس لئے وہ بھی ناقابل اعتبار ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:
متابعات کا جائزہ
بعض روایات میں سعیدبن جمہان کی متابعت منقول ہے ۔ لیکن یہ روایات حددرجہ ضعیف بلکہ بعض باطل وموضوع اور من گھڑت ہیں۔اوربہت ممکن ہے یہی باتیں گھوم پھر کر سعیدبن جمھان تک پہنچی ہوں اور سعیدبن جمھا ن نے بعد میں حافظہ کی کوتاہی سے اسے براہ راست سفینہ کے طریق سے بیان کردیا ہو۔
✿ سعید بن عمروسے منقول متابعت :
”حدثنا يحيى بن محمد بن يحيى بن أخي حرملة ، حدثنا عمي حرملة، حدثنا ابن وهب أخبرني بن لهيعة عن يزيد بن أبي حبيب عن سعيد بن عمرو عن سفينة قال بنى رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد ووضع حجرا ثم قال ليضع أبو بكر حجرا إلى جنب حجري ثم قال ليضع عمر حجرا إلى جنب حجر أبي بكر ثم قال ليضع عثمان حجرا إلى جنب حجر عمر ثم قال هؤلاء الخلفاء بعدي وبإسناده؛، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول الخلافة ثلاثون عاما ثم يكون الملك“
”سعیدبن عمرو سفینہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد بنائی اور ایک پتھررکھا پھرکہا: میرے پتھرکے پاس ابوبکررضی اللہ عنہ بھی پتھر رکھیں،پھرکہا:عمررضی اللہ عنہ ابوبکررضی اللہ عنہ کے پتھرکے پاس پتھررکھیں،پھرکہا: عثمان رضی اللہ عنہ عمررضی اللہ عنہ کے پتھرکے پاس پتھررکھیں پھرکہا یہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے ۔اوراسی سند کے ساتھ مروی ہے کہ سفینہ رضی اللہ عنہ نے کہا:خلافت تیس سال ہوگی ، اس کے بعد بادشاہت ہوگی“ [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 9/ 129]
.
ملاحظہ فرمائیں اس سند میں سعیدبن عمرو کے واسطہ سفینہ سے دوباتیں منقول ہے۔
① ایک یہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ابوبکر وعمر اورعثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا ۔یہ وہی بات ہے جسے سعیدبن جمھان نے بھی سفینہ سے روایت کیا ہےا ور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر نقد کیا ہے اور اس کے باطل ومن گھڑت ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
② اس روایت میں دوسری بات تیس سال خلافت اور اس کے بعد ملوکیت کی پیشین گوئی ہے۔اسی بات کو زیربحث روایت میں سعیدبن جمھان نے سفینہ سے روایت کیا ہے۔
یہ روایت اپنی دونوں باتوں کے ساتھ باطل ومن گھڑت ہے کیونکہ اس کی سند میں ”يحيى بن محمد التجيبي“ کذاب اور وضاع موجود ہے، یہ شخص سندیں بنابناکر احادیث گھڑتا تھا چناں چہ ، امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
”كان يضع الحديث على حرملة“
”یہ حرملہ کے طریق سے احادیث گھڑتا تھا“ [غرائب مالك للدارقطنی بحوالہ لسان الميزان لابن حجر، ت أبي غدة: 8/ 474]
اوراوپر کی روایت حرملہ ہی کے طریق سے ہے۔
یہ وہی شخص ہے جس نے مذکورہ سند کے ابتدائی طریق سے یہ حدیث گھڑی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے وقت کوفہ سے گذرے اور وہاں کی مسجد میں نماز ادا کی ۔[لسان الميزان لابن حجر، ت أبي غدة: 8/ 474]
✿ ابوریحانہ سے منقول متابعت:
”اخبرنا أبو غالب بن البناء أنا أبو الحسين بن الآبنوسي أنا عبيد الله بن عثمان الدقاق أنا إسماعيل بن علي الخطبي نا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثني أبو علي سويد الطحان نا علي بن عاصم أنا أبو ريحانة عن سفينة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال الخلافة من بعدي ثلاثون سنة قال رجل كان حاضرا في المجلس قد دخلت من هذه الثلاثين ستة شهور في خلافة معاوية فقال من ها هنا أتيت تلك الشهور كانت البيعة للحسن بن علي بايعه أربعون ألفا أو اثنان واربعون ألفا“
”ابوریحانہ سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خلافت میرے بعد تیس سال رہے گی ، مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا: ان تیس سال میں سے چھ ماہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں داخل ہوگئے ۔توانہوں نے کہا: ان چھ مہینوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان میں حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تھی ، ان سے چالیس ہزار یا بیالیس ہزار لوگوں نے بیعت کی تھی“ [تاريخ دمشق لابن عساكر: 13/ 261]
.
اس کی سند میں ”علی بن عاصم بن صھیب“ ہے ۔
یہ سخت ضعیف راوی ہیں ، بلکہ کئی محدثین نے ان پر کذاب ہونے کی جرح کی ہے۔
✿ امام يزيد بن هارون رحمه الله (المتوفى206)نے کہا:
”ما زلنا نعرفه بالكذب“
”ہم اسے جھوٹ کے ساتھ ہی جانتے رہے“ [سؤالات البرذعي لأبي زرعة، ت الأزهري: ص: 133 واسنادہ صحیح واخرجہ ایضا العقیلی فی الضعفاء :4/ 266 والخطیب فی تاریخ بغداد:11/ 456 من طریق عثمان بہ]
✿ خالد بن مهران الحذاء رحمه الله (المتوفى141)نے کہا:
”كذاب فاحذروه“
”یہ بہت بڑاجھوٹاشخص ہے اس سے بچ کررہو“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 4/ 266 واسنادہ صحیح]
✿ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”وقال وهب بن بقية: سمعت يزيد بن زريع، قال: حدثنا علي، عن خالد ببضعة عشر حديثا، فسألنا خالدا عن حديث، فأنكره، ثم آخر فأنكره، ثم ثالث فأنكره، فأخبرناه، فقال: كذاب فاحذروه“
”بخاری ومسلم کے راوی یزیدبن زریع کہتے کہ علی بن عاصم نے ہم سے درجنوں احادیث خالد الحذاء سے بیان کی ، پھر ہم نے خالدالحذاء سے ان میں سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے اس سے انکار کیا ، پھر ہم نے ایک دوسری حدیث کے بارے میں پوچھا، اس سے بھی خالد الحذاء نے انکار کیا ، پھر ہم نے ایک تیسری حدیث کے بارے میں پوچھا اس سے بھی خالد الحذاء نے انکار کیا ۔اس کے بعد ہم نے خالد الحذاء کو یہ بات بتلادی تو خالد الحذاء نے کہا: یہ بہت بڑاجھوٹاشخص ہے اس سے بچ کررہو“ [التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 290 واسنادہ صحیح واخرجہ ایضا العقیلی فی الضعفاء 4/ 267 من طریق محمد بن المنهال الضريربہ، واسنادہ صحیح]
یہ واقعہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ علی بن عاصم نے جھوٹی احادیث بیان کی ہیں اسی سبب کئی ایک محدثین نے انہیں کذاب کہا ہے۔
بعض محدثین نے ان کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ان کی کتاب میں دوسرے لوگ ان کے نام سے جھوٹی احادیث لکھ دیتے تھے جسے یہ بیان کردیتے ۔
اگراسے تسلیم کرلین تو بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ان کی طرف سے جھوٹی احادیث بیان ہوئی ہیں لہٰذا ان کی احادیث کی شمار میں نہیں ہیں ۔
✿ علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”علي بن عاصم لا يُعتدُّ بحديثه“
”علی بن عاصم کی حدیث کسی شمار میں نہیں ہے“ [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 16/ 44]
✿ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
”أجمعوا على ضعفه يعني علي بن عاصم“
”محدثین کا ان کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے“ [المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 4/ 376]
خلاصہ یہ کہ یہ دونوں متابعات موضوع اورمن گھڑت ہیں اس لئے ان کا کوئی شمار نہیں ۔اسی وجہ سے اس حدیث پر بحث کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ان متابعات کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔
.
شواہدکاجائزہ
اس حدیث کے بعض شواہد بھی ملتے ہیں لیکن یہ شواہدبھی سخت ضعیف ومردود ہیں اس لئے یہ بھی قابل اشتشہاد نہیں تفصیل ملاحظہ ہو:
✿ صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی شاہد:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
”حدثنا محمد بن عبد الله بن فضيل ثنا بن مصفي وثنا الحسين بن عبد الله القطان ثنا سعيد بن عمرو قالاثنا بقية عن يحيى بن خالد عن روح بن القاسم عن ليث عن مجاهد عن أبى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه و سلم قال من دخل علي حجري ليضع عمر حجرا الى جنب حجر أبى بكر ثم قال ليضع عثمان حجرا الى جنب حجر عمر ثم قال هم الخلفاء بعدي وبإسناده قال سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول الخلافة ثلاثون عاما ثم يكون الملك“
”صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس کون آئے گا؟ عمرفاروق رضی اللہ عنہ آئیں اور وہ میرے رکھے ہوئے پتھرکے پاس ایک پتھررکھ کردیں ۔ پھر فرمایا: عثمان رضی اللہ عنہ آئیں اورعمررضی اللہ عنہ کے رکھے ہوئے پتھرکے پاس ایک پتھررکھ دیں۔پھرفرمایا: یہ لوگ میرے بعد خلفاء ہیں۔اوراسی سند سے راوی نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہامیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:خلافت تیس سال رہے گی پھر ملوکیت آجائے گی“ [الكامل في الضعفاء: 7/ 248 واسنادہ ضعیف جدا]
.
یہ روایت بھی باطل اور من گھڑت ہے اس میں بھی دوباتیں منقول ہے۔
① ایک یہ کہ اس میں تیس سال خلافت اور اس کے بعد ملوکیت کی پیشین گوئی ہے۔
② اوردوسری بات یہ کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد عمر اورعثمان رضی اللہ عنہما کو خلیفہ نامزد کیا ۔
یہ وہی باتیں ہیں جنہیں ”يحيى بن محمد التجيبي“ کذاب اور وضاع حدیث نے بیان کیا ہے اور انہیں باتوں کو ”سعیدبن جمھان“ نے بھی سفینہ سے روایت کردیا ! امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر نقد کیا ہے اور اس کے باطل ومن گھڑت ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
یادرہے کہ ”يحيى بن محمد التجيبي“ کذاب اور وضاع حدیث کی روایت میں سب سے پہلے ابوبکررضی اللہ عنہ کا نام ذکر ہے لیکن اس روایت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام ہی نہیں بلکہ صرف عمر اورعثمان رضی اللہ عنہما کے نام ہیں ۔
یہ روایت اپنی دونوں باتوں کے ساتھ باطل ومن گھڑت ہے ۔تفصیل ملاحظہ ہوں:
اس میں کئی علتیں ہیں:
(الف) : بقیہ سخت ضعفاء حتی کی کذابین سے بھی تدلیس کرتے تھے اس لئے ان کا عنعنہ سخت ضعیف ہے اس کے عنعنہ کے مردود ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 14]
(ب): یحیی بن خالد ابوزکریا مجہول ہے۔اوراس سند کے ساتھ یہ روایت کے بیان کرنے میں منفردہے۔دنیا کے کسی راوی نے اس سند کے ساتھ اس کی متابعت نہیں کی ہے۔جس سے پتہ چلتاہے کہ اس متن کو اس سند کے ساتھ بیان کرنا اسی کی کارنامہ ہے۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365) رحمہ اللہ اس حدیث کو صراحتا منکر قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وهذان الحديثان منكران عن روح بأسانيدهما لا يرويهما عن روح غير يحيى بن خالد، وهو من مجهولي شيوخ بقية، ولا أعلم رواهما، عن يحيى هذا غير بقية“
”یہ دونوں احادیث روح سے اپنی دونوں سندوں کے ساتھ منکر ہیں ، انہیں روح سے یحیی بن خالد کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا اوریہ بقیہ کے مجہول اساتذہ میں سے ہے، اورمیں نہیں جانتا کہ انہیں اس یحیی سے بقیہ کے علاوہ کسی اورنے روایت کیا ہو“ [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 9/ 118]
نیزدیکھئے:[ لحظ الألحاظ في الاستدراك والزيادة على ذخيرة الحفاظ: رقم 288 ۔موسوعة الأحاديث والآثار الضعيفة والموضوعة: ج 4ص 445 رقم 10349]
(ج): ليث بن أبي سليم ضعیف اورمدلس ہے ۔دیکھئے ہماری کتاب : [یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ :ص527تا529]
لیث کی بیان کردہ یہ روایت شدید نکارت والی ہے جیساکہ اس کے ایک حصہ کے باطل ہونےکی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ابوبکر،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کو خلیفہ نامزد کیا گیا ہے۔لیث وغیرہ کی جن احادیث میں اس طرح کی شدید نکارت ہواس پرموضوع کاحکم لگے گا:
علامه عبد الرحمن بن يحيى المعلمي اليماني رحمه الله (المتوفى1386)فرماتے ہیں:
”وليث كما في التقريب (صدوق اختلط أخيراً ولم يتميز حديثه فترك) ومثله: إذا جاء بالمنكر الشديد الإنكار اتجه الحكم بوضعه“
”اورلیث جیساکہ تقریب میں ہے’’صدوق ہے اور آخر میں اختلاط کا شکار ہوگیا اوراس کی حدیث کی تمیز نہیں ہوسکی اس لئے متروک قرارپایا‘‘ (معلمی فرماتے ہیں) اس طرح کا راوی جب شدید نکارت والی بات بیان کرے تو اس کے موضوع اور من گھڑت ہونے کا حکم لگے گا“ [الفوائد المجموعة ت المعلمي: ص: 470]
خلاصہ یہ کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے اور صحیح حدیث کے خلاف ہونے کے سبب باطل ، موضوع اور من گھڑت ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حدیث سفینہ کے شواہد میں پیش نہیں کیا ہے۔
.
✿ صحابی رسول معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی شاہد:
امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
”حدثنا سليمان بن عبد الرحمن الدمشقي قال : حدثنا مطر بن العلاء الفزاري قال : حدثنا عبد الملك بن يسار الثقفي قال : حدثني أبو أمية الشعباني ، وكان جاهليا ، قال : حدثني معاذ بن جبل قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ثلاثون خلافة نبوة ، وثلاثون نبوة وملك ، وثلاثون ملك وتجبر ، وما وراء ذلك فلا خير فيه“
صحابی رسول معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تیس سال خلافت نبوت ہوگی اورتیس سال ملوکیت نبوت ہوگی اورتیس سال ملوکیت جبر ہوگی ۔اس بعد جو وقت آئے گا اس میں کوئی خیر نہ ہوگا“ [المعرفة والتاريخ للفسوي: 2/ 361 ، واخرجہ الطبرانی فی الاوسط 9/ 109 وابن عساکر فی تاریخ دمشق 37/ 19من طریق سلیمان بہ]
.
اس کی سند میں کئی کمزوریاں ہیں ۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو بھی ضعیف ومنکر قراردیا ہے اور اسے بھی حدیث سفینہ کے شواہد میں پیش نہیں کیا ہے ۔
● امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
”رواه يعقوب الفسوي ، والطبراني. وفي السند مجهولان“
”اسے یعقوب الفسوی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور سند میں دو مجہول راوی ہیں“ [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 12/ 400]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے دیکھئے: [سلسلة الأحاديث الضعيفة: 3/ 476]
● ’’مطر بن العلاء الفزاري‘‘ کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں ہے ، لہٰذا یہ مجہول ہے جیساکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔
اور اس کی بیشتر روایات میں اس کی کوئی متابعت نہیں کرتاہے کہ اورایسا مجہول شخص سخت ضعیف ہوا کرتاہے۔
علامہ معلمی رحمہ اللہ ایک ایسے ہی مجہول کے بارے میں فرماتے ہیں:
”نقل في اللسان أن ابن حبان ذكره في الثقات، وقال (يغرب) وإذا كان يغرب مع جهالته وإقلاله فهو تالف“
”ابن حجررحمہ اللہ نے ’’اللسان“ میں نقل کیا کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیاہے اور کہا یہ منفرد باتیں روایت کرتاہے اورجب یہ اپنی جہالت کے ساتھ منفرد باتیں روایت کرتاہے تو یہ تباہ وبرباد کرنے والا یعنی سخت ضعیف ہے“ [الفوائد المجموعة ت المعلمي: ص: 416]
ایک اورجگہ علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”والمجهول إذا روى خبرين لم يتابع عليهما، فهو تالف“
”مجہول شخص جب تو ایسی روایت بیان کردے جن پر اس کی متابعت نہ کی گئی ہے تو وہ تباہ برباد ہونے والا یعنی سخت ضعیف ہے“ [الفوائد المجموعة ت المعلمي: ص: 299]
● سند میں ان کمزوریوں کے ساتھ اس کا متن بھی نکارت سے پرہے ، کیونکہ متن میں مسلسل تیس تیس سال کی گردان کی گئی ہے جب کہ ذخیرہ احادیث میں اس جیسی کوئی اور روایت نہیں ملتی ۔
● متن میں ایک دوسری نکارت کی نشاندہی کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”ثم إن في متن الحديث نكارة من وجوه أهمها قوله في آخره: وما وراء ذلك فلاخير فيه ، فإنه مخالف لقوله صلى الله عليه وسلم في حديث حذيفة بعد أن ذكرالملك الجبري: ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، ثم سكت .وهو مخرج في الصحيحة“
”اس حدیث کے ضعیف ہونے کے ساتھ اس کے متن میں کئی اعتبار سے نکارت موجود ہے جس میں سب سے اہم اس کا آخری ٹکڑا ہے کہ ’’اس (جبری ملوکیت آجانے )کے بعد کوئی خیر نہیں ہوگا‘‘ ۔ کیونکہ یہ بات حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور اللہ کے نبی صلی اللہ علی وسلم کے اس قول کے خلاف میں ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبری ملوکیت کے ذکر کے بعد فرمایا: پھر خلافت علی منہاج النبوت ہوگی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ اس حدیث کی تخریج الصحیحہ رقم (5) میں جاچکی ہے“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة 3/ 476]
خلاصہ یہ کہ یہ شاہد سند ومتن کے اعتبار سے سخت ضعیف ومردود ہے اسی لئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حدیث سفینہ کے شواہد میں ذکر نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے خلافت کے بارے میں ایک دوسری حدیث مروی ہے اس میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے خلافت کے دور کی تحدید نہیں بتلائی ہے ۔ [السنة لابن أبي عاصم 2/ 534]
اس کی سند بھی ضعیف ہے لیکن شواہد کی روشنی میں صحیح ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے[ظلال الجنة للألباني رقم1130]
.
✿ صحابی رسول ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی شاہد:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
”وأخبرنا أبو الحسين بن الفضل أخبرنا عبد الله بن جعفر حدثنا يعقوب بن سفيان حدثنا محمد بن فضيل حدثنا مؤمل حدثنا حماد بن سلمة عن علي بن زيد عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال سمعت رسول الله يقول الخلافة نبوة ثلاثين عاما ثم يؤتي الله الملك من يشاء فقال معاوية قد رضينا بالملك“
”صحابی ابوبکررضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: خلافت نبوت تیس سال ہوگی اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا ملوکیت عطا کردے گا ،تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہم ملوکیت سے راضی ہیں“ [دلائل النبوةللبيهقى: 6/ 342 واسنادہ ضعیف جدا ومتنہ منکر واخرجہ ایضا ابن الاعرابی فی معجمہ2/ 506من طریق مؤمل بہ]
.
یہ ان دو شواہد میں سے ایک ہے جنہیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے حدیث سفینہ میں مذکور تیس سال خلافت والے جملے کی تائید میں پیش کیا ہے۔
لیکن یہ شاہد بھی سخت ضعیف ہے۔بلکہ ماقبل کے شواہد میں سب سے بدترین ہے، اس کی سند کی کیفیت پر بات کرنے سے پہلے آئیے یہ دیکھ لیں کہ اس روایت کااصل متن کیا ہے؟
توعرض ہے کہ اس روایت کو حماد بن سلمہ کے طریق سے درجنوں لوگوں نے روایت کیا ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صرف حماد کے شاگرد مؤمل کا متن پیش کیا ہے ۔لیکن اسی روایت کو حماد بن سلمہ سے ہی جب مؤمل کے علاوہ دیگررواۃ روایت کرتے ہیں تو اس کا متن کچھ اور ہی سامنے آتا ہے ملاحظہ ہو:
① عبد الصمد بن عبد الوارث کی روایت:
”حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، يعني ابن سلمة ، حدثنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدت مع أبي إلى معاوية بن أبي سفيان ، فأدخلنا عليه ، فقال : يا أبا بكرة ، حدثني بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الصالحة ويسأل عنها ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت بأبي بكرفرجحت بأبي بكر، ثم وزن أبو بكر بعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء“ [مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 44]
② عفان بن مسلم الباهلي کی روایت:
”حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، أخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدنا مع زياد إلى معاوية بن أبي سفيان ، وفينا أبو بكرة ، فلما قدمنا عليه لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، فقال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا رأيت ، كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها ، وقد قال حماد أيضا : فساءه ذاك ، ثم قال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء۔۔۔ فقال معاوية : أتقول الملك ؟ فقد رضينا بالملك“ [مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]
③ هوذة بن خليفة کی روایت:
”حدثنا هوذة بن خليفة ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، عن أبي بكرة ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، من خير الناس ؟ قال : من طال عمره ، وحسن عمله قال : فأي الناس شر ؟ قال : من طال عمره ، وساء عمله. وبإسناده ، وقال عبد الرحمن : وفدنا إلى معاوية نعزيه مع زياد ، ومعنا أبو بكرة ، فلما قدمنا لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، وإنه قال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل من القوم : أنا رأيت ميزانا دلي من السماء ، فوزنت فيه أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن فيه أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن فيه عمر وعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها النبي صلى الله عليه وسلم ، أي أولها ، فقال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء۔۔۔۔۔۔، فقال معاوية : تقول : إنا ملوك ؟ قد رضينا بالملك“ [مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]
④ ابوداؤد الطیالسی کی روایت:
”حدثنا حماد بن سلمة، قال: حدثنا علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، قال وفدنا إلى معاوية مع زياد ومعنا أبو بكرة فدخلنا عليه فقال له معاوية: حدثنا حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم عسى الله أن ينفعنا به قال: نعم، كان نبي الله صلى الله عليه وسلم تعجبه الرؤيا الصالحة ويسأل عنها فقال رجل: يا رسول الله ، إني رأيت رؤيا، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت أنت وأبو بكر فرجحت بأبي بكر ثم وزن أبو بكر بعمر فوزن أبو بكر عمر ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ثم رفع الميزان فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء ۔۔۔۔۔۔۔فقال له معاوية: لا أبا لك تخبرنا أنا ملوك فقد رضينا أن نكون ملوكا“ [ مسند أبي داود الطيالسي (2/ 196)]
⑤ قبيصة بن عقبة کی روایت:
”حدثنا قبيصة بن عقبة، عن حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه قال: وفدنا مع زياد إلى معاوية فما أعجب بوفد أعجب بنا فقال: يا أبا بكرة، حدثني بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول، وكانت تعجبه الرؤيا الحسنة يسأل عنها فيقول: «رأيت ميزانا أنزل من السماء فوزنت فيه أنا وأبو بكر فرجحت بأبي بكر، ووزن أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر، ثم وزن عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان إلى السماء»، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من يشاء»، قال: فخرج في أفنيتنا فأخرجنا“ [مصنف ابن أبي شيبة (6/ 176)]
⑥ إبراهيم بن الحجاج الناجي کی روایت:
”ثنا إبراهيم بن حجاج، ثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، أن رجلا قال: يا رسول الله، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء، فوزنت فيه أنت وأبو بكر، فرجحت بأبي بكر، ثم وزن فيه أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر بعمر، ثم وزن فيه عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان، فاستألها، يعني تأولها، ثم قال: «خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من يشاء»“ [السنة لابن أبي عاصم (2/ 538)]
⑦ حجاج بن المنهال کی روایت:
”حدثنا أبو مسلم إبراهيم بن عبد الله الكشي قثنا حجاج بن المنهال قثنا حماد، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم تعجبه الرؤيا الحسنة فيسأل عنها، فقال ذات يوم: «أيكم رأى رؤيا؟» فقال رجل: رأيت كأن ميزانا من السماء، فوزنت وأبو بكر فرجحت بأبي بكر، ووزن أبو بكر بعمر، فرجح أبو بكر بعمر، ثم وزن عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان، فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من يشاء»“ [ فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل (1/ 381)]
⑧ الأسود بن عامر کی روایت:
”فوجدنا علي بن معبد قد حدثنا قال: حدثنا الأسود بن عامر قال: أخبرنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا ويسأل عنها، فقال ذات يوم: أيكم رأى رؤيا؟ ، فقال رجل: أنا يا رسول الله، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء، فوزنت فيه أنت وأبو بكر فرجحت بأبي بكر، ثم وزن فيه أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر بعمر، ووزن فيه عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان. فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من شاء“ [شرح مشكل الآثار (8/ 413)]
⑨ موسى بن إسماعيل:
”حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ذات يوم «أيكم رأى رؤيا؟» فذكر معناه، ولم يذكر الكراهية، قال: فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، يعني فساءه ذلك، فقال: «خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من يشاء»“ [سنن أبي داود 4/ 208 ومن طریق ابی داؤد اخرجہ البیھقی فی دلائل النبوة 6/ 348]
⑩ بسام بن يزيد النقال کی روایت:
”حدثني بسام الحمال حدثنا حماد بن سلمة عن علي بن زيد عن عبدالرحمن بن أبي بكرة قال: وفد أبو بكرة مع زياد إلى معاوية، فقال: يا أبا بكرة، حدثني بشيء سمعته عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: كانت الرؤيا الحسنة تعجب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ذات يوم: أيكم رأى رؤيا؟ فقال رجل: أنا رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت فيه وأبو بكر فرجحت بأبي بكر، ثم وزن أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر، ثم وزن عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: تكون خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء فقال: فأمر فزخ في أقفيتنا فأخرجنا، فقال زياد: لا أبا لك أما وجدت غير هذا الحديث؟! ثم دعا معاوية بأبي بكرة فسأله عن الحديث فحدثه به، فأمر بإخراجه وقال: أتقول الملك، قد رضينا بالملك“ [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 232 ، بسام وثقہ ابن حبان 8/ 155و روی عنہ ابن ابی حاتم 2/ 434]
.
حماد کے ان دس شاگردوں کی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ عبدالرحمن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ۔تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ابوبکرہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث سنی ہیں ان میں سے کچھ سناؤ! تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے خواب بہت پسند تھے اورآپ اس بارے میں پوچھا کرتے تھے ۔ چناں چہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟ تو ایک شخص نے کہا : میں نے ، میں نے دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو (اس بات پر) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل کرتے ہوئے کہا: یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔
.
ملاحظہ فرمائیں حمادبن سلمہ کے یہ کل دس ثقہ شاگرد ہیں جو حماد سے اسی سند سے اسی حدیث کو مفصل یا مختصر الگ سیاق میں روایت کرتے ہیں اورسب یہ بات بیان کرنے میں متفق ہیں کہ خلافت والا جملہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس سال کی تحدید کے بغیر فرمایا ہے نیزاسے ایک ایسے خواب کی تاویل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر ابوبکر ، پھر عمر ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے۔
اس سیاق کے ساتھ اس روایت میں بدترین نکارت ہے کیونکہ اس کے مطابق :
➊ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کی صریح پیشین گوئی کی ہے جبکہ یہ بات صحیح حدیث کے خلاف ہے کما مضی ۔
➋ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان تینوں صحابہ کی خلافت کو خلافت نبوت کہا ہےا ور اس کے بعد ملوکیت کا آغاز بتلاہے اس اعتبار سے علی رضی اللہ عنہ کا دور ، خلافت نبوت سے خارج قرارپاتاہے اوریہ بات غلط ہے۔
حماد کے دس شاگردوں کے بیان کے مطابق حماد کی اس روایت کی اصل کیفیت یہی ہے جسے بیان کیا گیا ،ان دس ثقہ شاگردوں کے خلاف صرف اور صرف مؤمل ہی ایک شاگردہے جو اس روایت کو اختصار کرکے بیان کرتاہے اور الگ الفاظ میں اس طرح روایت کرتا ہے کہ خلافت والا جملہ خواب سے کاٹ دیتاہے اوراس میں تیس سال کی تحدید کا اضافہ کردیتاہے۔
مؤمل بھی ثقہ ہے لیکن اس کے حافظہ پرجرح بھی ہوئی ہے ۔دیکھئے ہماری کتاب : انورالبدر فی وضع الیدین علی الصدر ۔
اس لئے جب دس شاگردوں کے خلاف اس کی روایت ملے گو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ ایک روایت کے مطابق ”الحجاج بن محمد المصيصي“ نے بھی مؤمل جیسے الفاظ نقل کئے ہیں۔دیکھئے: [جزء ثمانون حدیثا للآجری :ص 43 رقم 38 ،جامع بيان العلم وفضله (الزهيري): 2/ 1174]۔
لیکن الحجاج ہی کی دوسری روایت کے الفاظ حماد کے مذکوردس شاگردوں کے موافق ہیں اس روایت کو ابوعبید الھروی نے غریب الحدیث میں روایت کیا ہے دیکھئے :(غریب الحدیث للھروی ج 1ص 422)اس لئے اس اختلاف کا ذمہ دار الحجاج سے نیچے کوئی دوسرا راوی ہے۔
لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حجاج نے مؤمل کی متابعت کی ہے اور متابعت مان بھی لیں تو بھی دس شاگردوں کے خلاف دو شاگردوں کی بات قطعا غیرمسموع ہے .
.
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر ہم اس روایت کو صحیح بھی مان لیں تو بھی یہ روایت زیربحث روایت کے لئے شاہد نہیں بن سکتی کیونکہ محفوظ روایت میں خلافت کے لئے تیس سال کی تحدید نہیں ہے ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سندا بھی یہ روایت سخت ضعیف ہے ۔کیونکہ اس کی سند میں ”علی بن زید“ راوی ہے جو سخت ضعیف راوی جیساکہ ہم نے اس کی تفصیل اپنی کتاب (یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص386) پر پیش کی ہے۔
یہ ”علی بن زید“ وہی راوی ہے جس نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ ”معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو میرے منبر پردیکھو توقتل کردو“ [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 343 ومن طریقہ اخرجہ ابن عساکرفی تاریخہ 59/ 156واخرجہ ایضا البلاذری فی الانساب 5/ 128من طریق الحجاج عن علی بن زید بہ ورجالھم ثقات سوعی علی بن زید]
اس کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے ”علی بن زید“ کے ۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ علی بن زید کی روایات سخت ضعیف بلکہ باطل وموضوع ہواکرتی ہیں۔
الغرض یہ کہ متن یا سند کسی بھی اعتبار سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت ، حدیث سفینہ میں مذکور تیس سال خلافت والے جملے کی شاہد نہیں بن سکتی ۔
.
✿ جابررضی اللہ عنہ سے مروی شاہد:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”والآخر: عن جابر بن عبد الله الأنصاري.أخرجه الواحدى في الوسيط (3 / 126 / 2) عن شافع بن محمد حدثنا ابن الوشاءبن إسماعيل البغدادي: حدثنا محمد بن الصباح حدثنا هشيم بن بشير عن أبي الزبيرعنه به نحوه.۔۔۔وفي الآخر شافع بن محمد حدثنا ابن الوشاء بن إسماعيل البغدادي، ولم أعرفهما ولعل في النسخة تحريفا“
”اس حدیث کا دوسرا شاہد جابربن عبداللہ الانصاری سے منقول ہے جسے واحدی نے ’’الوسیط‘‘ (3 / 126 / 2) میں شافع شافع بن محمد حدثنا ابن الوشاءبن إسماعيل البغدادي: حدثنا محمد بن الصباح حدثنا هشيم بن بشير عن أبي الزبير کی سند سے جابر رضی اللہ عنہ سے تقریبا اسی طرح روایت کیا ہے۔۔۔۔اس دوسرے شاہد میں شافع بن محمد اور ابن الوشاء بن اسماعیل البغدادی کا ذکر ہے اور اور ان دونوں کو میں نہیں جان سکا ہوسکتاہے نسخہ میں ہی تحریف ہو“ [سلسلة الأحاديث الصحيحة 1/ 823]
.
یہ وہ دوسرا اور آخری شاہد ہے جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے حدیث سفینہ کے شواہد میں پیش کیا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کا متن ذکر نہیں کیا ہے اور امام واحدی کی اس کتاب کے مطبوعہ نسخہ میں یہ روایت میں تلاش نہیں کرسکا تاکہ مکمل متن وسند پر نظر ثانی کی جاتی ۔تاہم شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند نقل کردی ہے اور سند کی ابتداء سے مسلسل دو رواۃ سے اپنی عدم معرفت کا اظہار کیا ہے۔
چونکہ ان دونوں رواۃ کا کچھ اتا پتا نہیں ہے اور کذابین کے یہاں اس روایت کا سراغ مل گیا ہے اس لئے ایسے مجہولین کی روایت کا کچھ اعتبار نہیں ۔
.
✿ ایک بے سند مرسل روایت :
أبو العباس، أحمد بن عبد الله بن محمد، محب الدين الطبري (المتوفى: 694) نے نقل کیا:
”وعن سهل بن أبي خيثمة قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: ألا وإن الخلفاء بعدي أربعة, والخلافة بعدي ثلاثون سنة نبوة ورحمة, ثم خلافة ثم ملك ثم جبرية وطواغيت ثم عدل وقسط, ألا إن خير هذه الأمة أولها وآخرها أخرجه أبو الخير القزويني الحاكمي“
سھل بن ابی خیثمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو ! میرے بعد چار خلفاءہوں گے ۔اورمیرے بعدتیس سال تک خلافت نبوت ورحمت رہے گی ، پھراس کے بعد ملوکیت کا آغاز ہوگا،پھراس کے بعدجبریت اور طاغوتیت کا آغازہوگا ،پھر اس کے بعد عدل وانصاف کا دور ہوگا۔سنو! اس امت کے بہترین لو گ اس کے شروع اور آخر کے لوگ ہیں‘‘اس حدیث کو ابوالخیرالقزوینی الحاکمی نے روایت کیا ہے۔[الرياض النضرة في مناقب العشرة 1/ 55]
’’سهل بن أبي خيثمة‘‘ اگریہ ’’سهل بن أبي حثمة‘‘ ہیں تو یہ صحابی ہیں[العلل للدارقطني، ت محفوظ السلفي: 6/ 235]
لیکن یہ اگر ’’سھل بن ابی خیثمہ‘‘ ہیں تو تابعی ہیں[معجم الصحابة للبغوي - ط: مبرة الآل والأصحاب 4/ 34]
یہاں ان کے شاگرد کا ذکر نہیں ہے اور نہ کسی اور مقام پر یہ روایت مل سکی کہ پتہ لگایا جاسکے کہ کون ہیں ۔
بہرحال اگریہ تابعی ہیں تو یہ روایت بےسند ہونے کے ساتھ مرسل ہے اور اگر صحابی ہیں تو بھی یہ روایت بے سند ذکر کی گئی ہے اور کسی عالم سے اس کی تصحیح بھی منقول نہیں ہے اس لئے یہ روایت بھی مفقود السند ہونے کے سبب بے سود ہے۔
.
نیز اس روایت میں ایک شدید نکارت یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف گنتی کے چار خلیفہ بتائے گئے ہیں ، اس لئے اس حدیث کی روشنی میں حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ شمار نہیں ہوں گے،جبکہ یہ بات مسلم ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ تمام شواہد سخت ضعیف و ناقابل اعتبار ہیں ۔
.
((کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟))
امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں نے پہلے بادشاہ کہا ہے ان کی بنیادی دلیل وہی سعیدبن جمھان کی منفرد روایت ہے جس کی حقیقت اوپر پیش کردی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص سعیدبن جمھان کے تفرد کی حقیقت سامنے آجانے کے بعد بھی محض ظاہرپرستی کا ثبوت دیتے ہوئے ضد کرے کہ سعدبن جمھان مختلف ومتکلم فیہ ہونے کے باوجود بھی جب صدوق وثقہ ہے تو اس کی روایت قابل قبول ہے ۔لہٰذا اس کی روایت کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں ۔
تو ایسے شخص کی خدمت میں عرض ہے کہ اصول حدیث میں اس ظاہر پرستی کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ثابت ہوجائیں گے کیونکہ ان کے پہلے بادشاہ ہونے سے متعلق بھی ایک حدیث سعیدبن جمھان عن سفینہ ہی کے طریق سے وارد ہوئی ہے ملاحظ ہو:
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
”حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء“
”سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل یہ کی کہ یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا“ [مسند البزار: 9/ 281]
.
یہ حدیث بھی سفینہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے ۔اوریہاں بھی سفینہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کرنے والا سعیدبن جمھان ہی ہے اور اس کے نیچے کی مکمل سند صحیح ہے۔
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840) نے اسی حدیث کو اسی سند ومتن کے ساتھ نقل کرنے کے بعد فرمایا:
”هذا إسناد صحيح“
”یہ سند صحیح ہے“ [إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 5/ 11]
اب اس حدیث میں غور کیجئے اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے ابوبکر ،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا ہے اوراس کے بعد ان کے دور کو خلافت نبوت کا دور قراردیاہے اور پھر اس کے بعد ملوکیت کا دور بتلایا ہے۔
اب سوال یہ کہ کیا اس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا شروع کردیا جائے کہ علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟
یاد رہے کہ اس حدیث کے بھی شواہد موجود ہیں بلکہ اس کا ایک شاہد تو بالکل اسی سند سے ہے جس سند سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے تیس سال خلافت والی حدیث کا پہلا شاہد پیش کیا ہے۔ملاحظہ ہو:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
”حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، أخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدنا مع زياد إلى معاوية بن أبي سفيان ، وفينا أبو بكرة ، فلما قدمنا عليه لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، فقال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا رأيت ، كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها ، وقد قال حماد أيضا : فساءه ذاك ، ثم قال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء“
”عبدالرحمان بن ابی بکرۃ کہتے ہیں کہ ہم زیاد کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، اورہمارے ساتھ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، تو جب ہم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جس قدر ہمارے وفد کی آمد پر خوش ہوئے اس طرح کسی اور وفد پرخوش نہ ہوئے ، پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ ! آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی سنائے ! تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے خواب پسند تھے اورآپ اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ۔تو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ تو ایک صحابی نے کہا : میں نے دیکھا ہے۔ میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات ناگوار گذری اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس خواب کی تاویل کرتے ہوئے ) فرمایا: یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا“ [مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]
.
اورجس طرح امیر معاویہ رضی اللہ کے دور کو بعض علماء نے ملوکیت کا دور قراردیا ہے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی ایک صحابی کا یہ بیان ملتا ہے کہ انہوں نے اس دور کو ملوکیت کا بلکہ جبری ملوکیت کا دور قراردیا ہے چناں چہ :
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثنا موسى حدثنا وهيب عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي الأشعث كان ثمامة القرشي على صنعاء وله صحبة فلما جاءه قتل عثمان بكى فأطال وقال اليوم نزعت الخلافة من أمة محمد صلى الله عليه وسلم وصارت ملكا وجبرية من غلب على شيء أكله“
”ابوالاشعث روایت کرتے ہیں کہ صحابی رسول ثمامۃ القرشی رضی اللہ عنہ صنعاء میں تھے ، انہیں جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرملی تو رو پڑے اوردیر تک روئے پھر فرمایا: آج امت محمدیہ سے خلافت لے لی گئی ہے اور اب جبری ملوکیت کادور شروع ہوگیا ہے جو جس چیز پرغلبہ پائے اسے کھا جائے“ [التاريخ الأوسط للبخاري، ن الرشد: 1/ 600 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم وایوب تابعہ النضر بن معبد کما اخرجہ ابن عساکر 11/ 158 بسند صحیح عنہ ، والنضر بن معبد ،قال عنہ ابن حبان فی المجروحين : 3/ 51 ’’فأما عند الوفاق فإن اعتبر به معتبر فلا ضير ‘‘ انتھی ۔ ولہ شاہد عن قتادہ ابن شبة فی تاریخہ: 4/ 1273]
.
دکتوراکرم ضیاء العمری نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے دیکھئے: [عصرالخلافة الراشدة ،محاولة لنقد الرواية التاريخية وفق منهج المحدثين ، 1/442،]
اب کیا ان روایات کی بناپر یہ کہا جائے گا کہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی ملوکیت بلکہ جبری ملوکیت کا دور ہے ؟
ہماری نظر میں علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی مرفوع روایت اسی طرح ضعیف ہے جس طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت بتانے والی روایت ضعیف ہے۔
اس لئے نہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت کا دور مانتے ہیں اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ، بلکہ ہمارے نزدیک دونوں صحابہ کرام کا دور خلافت کا دور ہے، البتہ اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے فضل و مقام میں بڑھ کر ہیں ۔
Shaikh Kifayatullah inshallah aap ke khidmat rehte dunya tk yaad rakhe jaen ge Sahaba ke difa ma
ReplyDeleteجزاک اللہ خیرا
ReplyDeleteبہت جامع تحقیق ہے۔۔۔۔۔جھوٹے عاشقین کو ایسی تحقیقات کب گلے اترتی ہے؟؟ اللہ تعالی جزائے خیر دے
ReplyDeleteحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمار ابن یاسر کو ایک جہنمی گروں قتل کرے گی وہ عمار ابن یاسر کو معاویہ قاتل نے شہید کیا تو مسلم کی اس حدیث سے ثابت ہوا معاویہ جہنمی ہے ۔۔
ReplyDeleteحضور پاک کا ایک اور حدیث ہے جس میں ابن عباس فرماتے ہے کہ رسول اللہ ص نے معاویہ کو بد دعا دی کہ معاویہ کا پیٹ خدا کبھی نہ بھرے راوی کہتا ہے کہ یہ بد دعا امیر شام کو لگ گئی تھی اور وہ ہمیشہ بھوکا رہا۔۔
مسند بزار میں حضور پاک نے معاویہ اور اس کے ظالم باپ پر لعنت کی ہے۔۔
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ کا قتل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کی طرف سے کسی نے کیا ہے ، البتہ یہ طے ہے کہ ان کا قتل باغی گروہ نے کیا ہے اور اس وقت باغی گروہ وہی لوگ تھے جنہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرکے ان کو شہید کیا اورلوگوں کی جہنم کی طرف بلایا۔
ReplyDeleteبعض لوگوں کا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کو باغی باورا کرانا سراسر خلاف حقیقت ہے، کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہ تو کسی امام کی بیعت توڑی ہے ، اور نہ کسی کے ساتھ کوئی بدعہدی کی ہے ، اور باغی اسے کہتے ہیں جو پہلے کسی کی بیعت کرلے بعد میں یہ بیعت توڑ دے ، لیکن جس نے کسی کی شروع ہی سے بیعت نہیں کی وہ اس کا باغی کیسے ہو گا ؟
دراصل حدیث عمار رضی اللہ عنہ میں فئۃ باغیۃ کا مصداق نہ تو علی رضی اللہ عنہ کا گروہ ہے اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ کیونکہ ان لوگوں نے کسی کی بیعت کرکے ان کی بیعت نہیں توڑی ہے ۔
البتہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین یہ پہلے عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرچکے ہیں اور بعد میں ان کی بیعت توڑدی حتی کہ عثمان رضی اللہ عنہ قتل بھی کردیا بعد میں یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل گئے اس لئے یہی لوگ حدیث میں مذکور فئۃ باغیہ کے مصداق ہیں ۔یہی لوگ جہنم کی طرف بلانے والے تھے۔
✿ ✿ ✿
”الفئة الباغية“ سے اہل شام کو مراد لینے والوں پر امام دحیم (المتوفى245) رحمہ اللہ کا شديد رد
● ● ●
امام دحیم (المتوفى245) کے معاصر امام عجلى رحمه الله (المتوفى261) فرماتے ہیں:
”عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي ويعرف بدحيم أبو سعيد ثقة كان يختلف إلى بغداد سمعوا منه فذكروا الفئة الباغية هم أهل الشام فقال من قال هذا فهو ابن الفاعلة“
”عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي یہ دحیم کے لقب سے معروف ہیں ، ان کی کنیت ابو سعید ہے یہ ثقہ ہیں ، آپ بغداد آیا جایا کرتے تھے ، وہاں کے لوگوں نے ان سے احادیث سنی ، ایک دن لوگوں نے ان کے سامنے ذکر کیا کہ ”الفئة الباغية“ (باغی گروہ) اہل شام ہیں ، اس پر امام دحیم رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص ایسا کہے وہ فاحشہ كی اولاد ہے“ [معرفة الثقات للعجلي ، ت البستوی: 2/ 72 ، رقم 1016 ، تاريخ بغداد للخطيب. بشار: 11/ 549]
.
❀ فائدہ:-
امام دحیم رحمہ اللہ زبردست ثقہ ، حافظ اور متقن امام ہیں ، صحیح بخاری ، سنن نسائی ، سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ میں ان کی احادیث موجود ہیں ، جرح وتعدیل میں ان کا بہت بڑا مقام ہے ، بالخصوص شام کے لوگوں کے بارے میں ان کی رائے فیصلہ کن ہے ۔
.
● امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446) فرماتےہیں:
”أحد حفاظ الأئمة , متفق عليه ، يعتمد عليه في تعديل شيوخ الشام وجرحهم“
”ائمہ حفاظ میں سے ایک ہیں ، ان کے ثقہ ومستند ہونے پر اجماع ہے ، شام کے مشائخ کی تعدیل اوران پر جرح میں ان ہی کے اقوال پر اعتماد کیا جاتا ہے“[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 1/ 450]
.
● امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) فرماتے ہیں:
”من المتقنين الذي يحفظون علماء أهل بلده بشيوخهم وأنسابهم“
”یہ ان زبردست ثقہ ائمہ میں سے ہیں جو اپنے شہر کے علماء ، ان کے مشائخ اور ان کے نسب وخاندان کے حالات یاد رکھتے تھے“[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 8/ 381]
.
●امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) فرماتے ہیں:
”دحيم حجة، لم يكن بدمشق في زمانه مثله“
”دحیم حجت ہیں ، ان کے زمانہ میں دمشق میں ان کے ہم پلہ کوئی نہ تھا“[سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 237]
.
●حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
”ثقة حافظ متقن“
”آپ ثقہ ، حافظ اور متقن ہیں“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3793]
.
❀ نوٹ:-
راقم الحروف کی نظر میں بھی یہی بات راجح ہے کہ ”الفئة الباغية“ سے مراد اہل شام یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ نہیں ہے بلکہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرکے انہیں شہید کیا اور بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپس میں لڑوایا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے بد دعاء نہیں بلکہ دعاء ہے
ReplyDeleteتفصیل ذیل کے لنک پر موجود ویڈیو میں دیکھیں
https://www.youtube.com/watch?v=7EPFhepY9ic
مسند بزار والی روایت جھوٹی ہے اس کی تفصیل اوپر موجود اصل مضمون میں موجود ہے
ReplyDeleteحَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قال : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قال : حَدَّثَنِي أَسْوَدُ بْنُ مَسْعُودٍ ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ خُوَيْلِدٍ الْعَصَرِيِّ ، قال : إِنِّي لَجَالِسٌ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ ، إِذْ أَتَاهُ رَجُلَانِ يَخْتَصِمَانِ فِي رَأْسِ عَمَّارٍ , كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَقُولُ : أَنَا قَتَلْتُهُ , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : لِيَطِبْ بِهِ أَحَدُكُمَا نَفْسًا لِصَاحِبِهِ ؛ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ " , فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : أَلَا تُغْنِي عَنَّا مَجْنُونَكَ يَا عَمْرُو ؟ فَمَا بَالُكَ مَعَنَا ؟ قَالَ : إِنِّي مَعَكُمْ ، وَلَسْتُ أُقَاتِلُ , إِنَّ أَبِي شَكَانِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَطِعْ أَبَاكَ مَا دَامَ حَيًّا وَلَا تَعْصِهِ , فَأَنَا مَعَكُمْ , وَلَسْتُ أُقَاتِلُ "
ReplyDeleteالمصنف ابن ابی شیبہ حدیث حدیث نمبر 37152 باب ما ذکر فی الصفین
عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَخْبَرَهُ ، قَالَ : " لَمَّا قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ دَخَلَ عَمْرُو بْنُ حَزْمٍ عَلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَقَالَ : قُتِلَ عَمَّارٌ ، وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ " , فَقَامَ عَمْرٌو يُرَجِّعُ فَزِعًا حَتَّى دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ : مَا شَأْنُكَ ؟ فَقَالَ : قُتِلَ عَمَّارٌ ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ : قُتِلَ عَمَّارٌ فَمَاذَا ؟ قَالَ عَمْرٌو : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ " ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ : دُحِضْتَ فِي قَوْلِكَ ، أَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ ، إِنَّمَا قَتَلَهُ عَلِيُّ وَأَصْحَابُهُ ، جَاءُوا بِهِ حَتَّى أَلْقَوْهُ تَحْتَ رِمَاحِنَا ، أَوْ قَالَ : بَيْنَ سُيُوفِنَا "
مسند احمد بن حنبل خلافت و امارت کے مسائل باب 5 حدیث نمبر 12347
الجامع لمعمر بن راشد باب اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر 1038
محمد بن عمروبن حزم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو عمر و بن حزم، عمرو بن عاص کے پاس گئے اور انہیں بتلایاکہ عمار رضی اللہ عنہ قتل ہوگئے ہیں، جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر عمروبن عاص گھبرا گئے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے معاویہ کے پاس پہنچ گئے، معاویہ نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ عمار قتل ہوگئے ہیں، معاویہ نے کہا: عمار قتل ہوگئے تو پھر کیا ہوا؟ عمرو بن العاص نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا ہے کہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر معاویہ نے ان سے کہا: تم اپنے پیشاب میں ہی پھسلتے ہو، کیا ہم نے اس کو قتل کیاہے؟ اسے تو علی اور ان کے ساتھیوں نے مروایا ہے، وہ لوگ انہیں لے آئے اور لا کر ہمارے نیزوں یا تلواروں کے درمیان لا کھڑا کیا
جی ان صحیح السند روایات پر بھی تبصرہ فرمائیے شکریہ
ReplyDeleteاوپر کی دونوں روایات ضعیف ہیں
Deleteبارك الله فيك شيخ!
ReplyDeleteآپ نے جو یہ فرمایا کہ یہ اوپر کی دونوں روایتیں ضعیف ہیں، اس کی تفصیلات کیا ہیں؟