علمی تکبر اور دعوتی تعصب - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-07-14

علمی تکبر اور دعوتی تعصب


علمی تکبر اور دعوتی تعصب
 ✿  ✿  ✿ 
علمی خدمت اور دعوت دین ایک وسیع کام ہے اور ظاہر ہے کہ ہم اس کے ہر پہلو پر کام نہیں کرسکتے بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ دعوت دین کے ہر میدان میں بیک وقت کام کرنا اور اس کاحق اداکرلینا انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے ، اور سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے ساتھ یہ امتیاز بھی ختم ہوچکا ہے ، آج ہرشخص محض اپنے ذوق ، استطاعت اور محدود وسائل کے بقدر ہی کام کرسکتا ہے۔
ایسی صورت میں ہر ایک کو حسب توفیق اپنے کام میں پوری محنت ولگن کا ثبوت دینا چاہئے، اس یقین کے ساتھ کہ بہت سارے کام ایسے ہیں جن کی توفیق اللہ نے دوسروں کو دی ہے اور وہ بھی امت کے حق میں مفید بلکہ ضروری ہیں ۔
اگرکوئی شخص اس خوش فہمی میں مبتلاء ہے کہ دعوت وتبلیغ اور ارشاد امت کی ساری ذمہ داریاں اسی کے کندھے پر ہیں ، اوروہی تن تنہا ہر محاذ پر ڈتا ہوا ہے تو وہ ختم نبوت پر اپنے ایمان کی نظر ثانی کرے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین گروہ کوئی ہوسکتا ہے ، تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گروہ ہے ، علم وفقہ ، زہدوتقوی ، عبادت وریاضت ، رشدوہدایت ، دعوت وتبلیغ ، غرض کسی بھی معاملہ میں ان کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی ، ان کی تعلیم وتربیت خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ، اس کے باوجود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ صحابہ کے الگ الگ امتیازات بتلائے :
عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أرحم أمتي بأمتي أبو بكر، وأشدهم في أمر الله عمر، وأصدقهم حياء عثمان بن عفان، وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، وأفرضهم زيد بن ثابت، وأقرؤهم أبي بن كعب ولكل أمة أمين وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمررضی اللہ عنہ ہیں ، حیاء میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ، سب سے بہتر قاری ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں ، سب سے زیادہ حلال وحرام کے جاننے والے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں ، اور سب سے زیادہ فرائض (تقسیم میراث) کے جاننے والے زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں ، سنو ! ہر امت کا ایک امین ہوا کرتا ہے ، اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں ۔[سنن ابن ماجہ رقم 154،واسنادہ صحیح]
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی بعض صحابہ کے پاس کچھ ایسا ہوتا تھا جو دوسرے صحابہ کے پاس نہ ہوتا ، تو آج کے اس دور کا کوئی شخص تن تنہا ساری خوبیوں کا ٹھیکیدار کیسے ہوسکتاہے ؟ اس لئے اپنی حدوں کا علم اور دوسروں کے امتیازات کا اعتراف ضروری ہے ۔
کچھ لوگ گرچہ اپنے آپ کو ہرفن مولا نہیں سمجھتے اور اپنے کام کو بھی ناقص ہی شمار کرتے ہیں لیکن وہ اس بات پر اتراتے ہیں کہ ان کی نظر میں دین کا کام بس وہی ہے جو وہ کررہے ہیں باقی سارے لوگ فضول ، لایعنی اور غیرمفید کا موں میں لگے ہوئے ہیں ۔
● کسی نے غیر مسلموں میں قرآن کے دو چار نسخے بانٹ دئے اب مجال ہے کہ کسی عالم ، کسی ادارہ ، کسی تنظیم ، کسی تحریک کے یہاں اسے دین کی کوئی دعوت نظر آئے ، بلکہ ایسے کاموں کو دعوت کا نام دینا ہی اس کی نظر میں بہت بڑی جہالت ہے ۔
● کسی نے دو اینٹ کا مدرسہ قائم کرلیا اب اس کی نظر میں وہی اسلام کا قلعہ ہے ، جو بھی اس سے لاتعلق ہوا وہ ”ليس منا“ كا مصداق اور تباہی و بربادی کی طرف رواں دواں ہے ۔
● تقابل مسالک سے متعلق کسی نے دو چار باتیں سیکھ لیں ، اب اسی پر بحث ومناظرہ کرنے والے ہی اس کی نظر میں اسلام کے داعی ہیں، اور جو اس میں دلچسپی نہ لے یا اس کار خیر میں ان کا تعاون نہ کرے وہ جاہل اور بے غیرت انسان ہے۔
● کسی نے وعظ و نصیحت کی چند مجلسیں منعقد کرلیں ، اب زہد و تقوی کے جملہ حقوق اسی کے پاس محفوظ ہیں ، باقی سارے لوگ فاسق و فاجر ہیں ۔
غرض کہ جسے دیکھو وہی بس اپنے کام ہی کو اصل کام باور کرارہا ہے اور باقی لوگوں کو ناکام اور ناکارہ شمار کرتا پھرتا ہے۔
ان میں کچھ لوگ نا سمجھ ہیں ، اور غلط فہمی کے شکار ہیں ، جبکہ کچھ لوگ یہ ذہن بنا کر بیٹھے ہیں کہ اپنی قدر وقیمت اور اپنے کاموں کی اہمیت ثابت کرنا ہے تو دوسروں کی تنقیص و مذمت میں لگ جاؤ۔
اس طرح کی اُچھل کود کے پیچھے شہرت طلبی مقصود ہو یا اصحاب خیر کے دست تعاون کو اپنی طرف مائل کرنا مطلوب ہو ، بہر صورت یہ ایک چھچھوری حرکت ہے ، آپ ایک مفید اور نیک کام کررہے ہیں یہ بہت اچھی بات ہے ، لیکن کیا اپنے کام کو مفید اور نیک ثابت کرنے کے لئے بس یہی ایک راستہ بچا ہے کہ دوسروں کی تنقیص اور مذمت کرتے پھرو ؟؟؟
( اداریہ ”اہل السنہ“ جون 2015م سے ایک اقتباس ، از کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment