محمدبن حنفیہ کی طرف سے یزید بن معاویہ کی مدح وثنا - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-07-15

محمدبن حنفیہ کی طرف سے یزید بن معاویہ کی مدح وثنا


محمدبن حنفیہ کی طرف سے یزید بن معاویہ کی مدح وثنا
 ✿  ✿  ✿ 
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
”وقد رواه أبو الحسن على بن محمد بن عبد الله بن أبى سيف المدائنى عن صخر بن جويرية عن نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولما رجع أهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع وأصحابه إلى محمد بن الحنفية فأرادوه على خلع يزيد فأبى عليهم فقال ابن مطيع إن يزيد يشرب الخمر ويترك الصلاة ويتعدى حكم الكتاب فقال لهم ما رأيت منه ما تذكرون وقد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواضبا على الصلاة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة قالوا فان ذلك كان منه تصنعا لك فقال وما الذى خاف منى أو رجا حتى يظهر إلى الخشوع أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر فلئن كان أطلعكم على ذلك إنكم لشركاؤه وإن لم يطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا قالوا إنه عندنا لحق وإن لم يكن رأيناه فقال لهم أبى الله ذلك على أهل الشهادة فقال : '' إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ '' ولست من أمركم فى شىء قالوا فلعلك تكره أن يتولى الأمر غيرك فنحن نوليك أمرنا قال ما أستحل القتال على ما تريدوننى عليه تابعا ولا متبوعا قالوا فقد قاتلت مع أبيك قال جيئونى بمثل أبى أقاتل على مثل ما قاتل عليه فقالوا فمر ابنيك أبا القاسم والقاسم بالقتال معنا قال لو أمرتهما قاتلت قالوا فقم معنا مقاما تحض الناس فيه على القتال قال سبحان الله آمر الناس بما لا أفعله ولا أرضاه إذا ما نصحت لله فى عباده قالوا إذا نكرهك قال إذا آمر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق“ [البداية والنهاية: 8/ 233 نقلا عن المدائنی واسنادہ صحیح]
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
وَزَادَ فِيهِ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ۔۔۔۔۔[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274 نقلا عن المدائنی واسنادہ صحیح]
 ◈  ◈  ◈ 
 ”جب اہل مدینہ کے یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اوران کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمدبن حنفیہ نے ان کی اس بات سے انکار کردیا ، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزیدشراب پیتاہے ، نماز چھوڑتاہے کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیساتم کہہ رہے ہو ، جبکہ میں اس کے پاس جاچکاہوں اوراس کے ساتھ قیام کرچکاہوں ، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیرکا متلاشی ، علم دین کاطالب ، اورسنت کا ہمیشہ پاسدار پایا ۔ تولوگوں نے کہاکہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہاتھا ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتاتھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہرکرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جوبات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا ؟ اگرایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو ، اوراگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کی ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہے گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی نے اس طرح گواہی دینے کوتسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ''جو حق بات کی گواہی دیں اورانہیں اس کا علم بھی ہو'' ، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا ، تو انہوں نے کہا کہ شاید آپ یہ ناپسندکرتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کوئی اورامیر بن جائے توہم آپ ہی کو اپنا امیربناتے ہیں ، تو محمدبن حنفہ نے کہا: تم جس چیز پرقتال کررہے ہو میں تو اس کوسرے سے جائز نہیں سمجھتا: مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے ، لوگوں نے کہا: آپ تو اپنے والد کے ساتھ لڑائی لڑچکے ہیں؟ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ پھر میرے والد جیسا شخص اورانہوں نے جن کے ساتھ جنگ کی ہے ایسے لوگ لیکر تو آؤ ! وہ کہنے لگے آپ اپنے صاحبزادوں قاسم اور اورابوالقاسم ہی کو ہمارے ساتھ لڑائی کی اجازت دے دیں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: میں اگران کا اس طرح کا حکم دوں تو خود نہ تمہارے ساتھ شریک ہوجاؤں ۔ لوگوں نے کہا : اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کرلوگوں کو لڑالی پر تیار کریں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: سبحان اللہ ! جس کو میں خود ناپسندکرتاہوں اوراس سے مجتنب ہوں ، لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملوں میں اس کے بندوں کا خیرخواہ نہیں بدخواہ ہوں ۔ وہ کہنے لگے پھر ہم آپ کو مجبورکریں گے ، محمدبن حنفیہ نے کہا میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اورمخلوق کی رضا کے لئے خالق کوناراض نہ کرو“ 
 ◈  ◈  ◈ 
اس روایت کو امام ابن کثیر اورامام ذہبی رحمہمااللہ نے امام مدائنی کی کتاب سے سند کے ساتھ نقل کردیا ہے اوریہ سند بالکل صحیح ہے ، سند کے تمام رواۃ کا تعارف ملاحظہ ہو:

نافع مولى عبد الله بن عمر بن الخطاب القرشى، المدنى 
آپ بخاری ومسلم وموطا ودیگرسنن کے راوی اورزبردست ثقہ امام ہیں ، آپ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے شاگرہیں ، آپ کی اسناد : مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر کو اصح الاسانید اورسلسلہ الذھب کہا جاتاہے ، کسی ایک بھی محدث نے ان پر جرح نہیں کی ہے اورتمام محدثین نے بالاتفاق انہیں ثقہ وحجت قرار دیا ہے آپ تعارف کے محتاج نہیں ہیں ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان کے بارے میں ائمہ رجال کے اقوال کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا:
 ”ثقة ثبت فقيه مشهور“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 7086 ]

صخر بن جويرية البصرى
آپ بخاری ومسلم کے راوی اوربالاتفاق ثقہ ہیں:
 ✿ امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
 ”كان ثبتا ثقة“ [الطبقات لابن سعد: 7/ 203]
 ✿ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
 ”ثقة“ [سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 442]۔
 ✿ امام احمد رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
 ”ثقة ثقة“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 427 واسنادہ صحیح]
 ✿ امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
 ”لا بأس به“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 427 واسنادہ صحیح]
 ✿ امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
 ”لا بأس به“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 427]
 ✿ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے ثقات میں ذکرکیا:
 ”صخر بن جويرية“ [الثقات لابن حبان: 6/ 473]
 ✿ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
 ”ثقة“ [الكاشف للذهبي: 1/ 500]
فائدہ : ان پر کسی بھی ناقد کی جرح ثابت نہیں

علي بن محمد، القرشي،المدائني
آپ زبردست ثقہ اورامام ہیں کئی کتب کے مصنف ہیں کسی بھی محدث نے انہیں ضعیف نہیں کہا ہے اور :
 ✿ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
 ”ثقة ثقة ثقة“ 
 ”آپ ثقہ ہیں آپ ثقہ ہیں آپ ثقہ ہیں“ [تاريخ مدينة السلام للخطيب البغدادي 13/ 517 واسنادہ حسن]
 ✿ امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
 ”وَكَانَ من الثقات، أهل الخير“ 
 ”آپ ثقات اور اہل خیر لوگوں میں سے تھے“ [المنتظم لابن الجوزي: 11/ 95]
 ✿ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
 ”صدوق فيما ينقله“ 
 ”آپ اپنی نقل کردہ روایات میں سچے ہیں“ [تاريخ الإسلام: 5/ 638]

فائدہ :
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
 ”ليس بالقوي في الحديث“ 
 ”یہ حدیث میں قوی نہیں ہیں“ [الكامل في الضعفاء: 5/ 213]
عرض ہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کا یہ قول تضعیف پردلالت نہیں کرتا کیونکہ انہوں نے '' لیس بقوی '' نہیں بلکہ ''لیس بالقوی '' کہاہے اور ان دونوں صیغوں میں فرق ہے ۔''لیس بقوی '' بے شک راوی کے ضعیف ہونے پردلالت کرتا ہے لیکن امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ''لیس بقوی'' نہیں کہا ہے بلکہ ''لیس بالقوی'' کہا ہے اور یہ ضعیف پر دلالت نہیں کرتا چنانچہ:
 ⟐ امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”وهو إسناد متصل حسن إلا أن ابن عقيل ليس بالقوي“ 
 ”یہ سند متصل اورحسن ہے مگر ابن عقیل بہت زیادہ قوی نہیں ہے“ [علل الدارقطني: 1/ 129]
غورکریں کہ یہاں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ابن عقیل کو لیس بالقوی بھی کہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی سند کو حسن بھی کہا ہے ۔ معلوم ہوا کہ کسی راوی کا لیس بالقوی ہونا اس کے حسن الحدیث ہونے کے منافی نہیں ہے۔
 ⟐ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
 ”ليس بالقوي ليس بجَرْحٍ مُفْسِد“ 
 ”لیس بالقوی فاسد جرح نہیں ہے“ [الموقظة في علم مصطلح الحديث ص: 82]
 ⟐ امام الجرح والتعدیل علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”وكلمة «ليس بالقوي» إنما تنفي الدرجة الكاملة من القوة“ 
 ”''لیس بقوی'' کے الفاظ سے کامل درجے کی قوت کی نفی ہوتی ہے“ [التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 1/ 442]۔
 ⟐ عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”وأما الآخر فهو قول أبي حاتم ليس بالقوي: فهذا لا يعني أنه ضعيف لأنه ليس بمعني ليس بقوي، فبين هذا وبين ما قال فرق ظاهر عند أهل العلم“ 
 ”امام ابوحاتم کے قول ''لیس بالقوی'' کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ضعیف ہے کیونکہ یہ ''لیس بقوی'' کے معنی میں نہیں ہے ۔اور اہل علم کے نزدیک ان دونوں کے درمیان واضح فرق ہے“ [النصيحة بالتحذير من تخريب ابن عبد المنان لكتب الأئمة الرجيحة للشیخ الالبانی ص 183]۔
 ⟐ مولانا عبد الحئی لکھنوی فرماتے ہیں:
 ”مجرد الجرح بکون الراي ليس بالقوي لا ينافي كون حديثه حسناً ان لم يكن صحيحاً“ 
 ”راوی پر محض ''لیس بالقوی '' کی جرح اس کی حدیث کے صحیح نہیں تو کم از کم حسن ہونے کے منافی نہیں ہے“ [غيث الغمام على حواشي إمام الكلام 4/ 29]
 ⟐ زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
 ”تیسرے یہ کہ القوی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ قوی بھی نہیں ہے، واللہ اعلم“ [نور العینین،طبع جدید، ص 38]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں والحمدللہ۔

الغرض یہ کہ مذکورہ روایت سندا صحیح ہے ، دکتور محمدبن ہادی الشیبانی نے بھی اس روایت کو حسن قراردیا ہے ، دیکھئے : [مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاوية :ص 384 ]
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی محمدبن حنفیہ کی نظر میں یزید نماز کے پابند، خیرکے متلاشی ، دینی علوم سے شغف رکھنے والے اورسنت سے حددرجہ محبت کرنے والے تھے ، اوران کے خلاف شراب نوشی وغیرہ کی تہمت لگانے والوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں بس محض افواہوں پر کچھ لوگ یقین کربیٹھے تھے ۔

مذکورہ روایت پر زبیرعلی زئی صاحب کے شبہات کا ازالہ
ہمارے مذکورہ مقالہ کو یزید کے مخالفین نے زبیرعلی زئی صاحب کے سامنے پیش کیا اس امید پر کہ وہ اس کا جواب دیں اور زبیرعلی زئی صاحب نے بھی ان کی امید پوری کردی اور اس روایت کو خواہ مخواہ منقطع کہہ کررد کردیا ہم اگلی سطور میں اس کا جواب دے رہے ہیں لیکن اس سے قبل یہ واضح کردیں کہ ہمارے اس مضمون کا عنوان تھا
’’برادرحسین رضی اللہ عنہ محمدبن حنفیہ کی طرف سے یزید بن معاویہ کی مدح وثناء بسندصحیح‘‘
 لیکن زبیرعلی زئی صاحب نے جب اس روایت کو رد کیا تو اس کا عنوان لگا یا
’’کیا یزید شرابی اور تارک صلاۃ تھا‘‘[مجلہ الحدیث : 107 ص 14]
یہ عنوان پر پڑھ کر بادی النظر میں ہرقاری یہی سمجھے گا کہ شاید کسی روایت سے استدال کرتے ہوئے کسی نے یزید کو شرابی اور تارک صلواۃ کہا ہے اور زبیرعلی زئی صاحب نے اس کی تردید کررہے ہیں ۔ حالانکہ معاملہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ سچائی یہ ہے کہ اس روایت کی بنیاد پر ہم نے یہ کہا تھا کہ یزید نماز کے پابند، خیرکے متلاشی ، علم دین کے طالب ، اورسنت کے ہمیشہ پاسدار تھے۔
اب اگر زبیرعلی زئی صاحب کو ہماری تردید میں عنوان ہی لگانا تھا تو انہیں ہماری منشاء کے اعتبار سے یہ عنوان لگانا چاہئے تھا
’’ کیا یزید نماز کا پند ، سنت کا پاسدار اور علم وخیر کا متلاشی تھا‘‘ 
یا ہمارے عنوان کے حساب سے یہ عنوان لگانا چاہئے تھا
 ’’کیامحمدبن حنفیہ نے یزید بن معاویہ کی مدح وثناء کی ؟‘‘
لیکن موصوف نے ایسا نہ کرکے یہ عنوان لگایا
’’کیا یزید شرابی اور تارک صلاۃ تھا؟‘‘
بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ اس طرح کا عنوان قائم کرکے زبیرعلی زئی صاحب نے اس روایت کو رد کرنے کے لئے جذباتی دلیل دینے کی کوشش کی ہے وہ اس طرح کہ لوگوں کو جب یہ معلوم ہوگا کہ اس روایت سے تو یزید کا شرابی اور تارک صلواۃ ہونا ثابت ہوتا تو یہ بات جانتے ہی لوگ اس روایت سے متنفر ہوجائیں اور اسی روایت کے اندر یزید کی جو خوبیاں بیان ہوئی ہیں اس سے لوگ دست بردار ہوجائیں گے۔
یعنی اصل مقصد یزیدبن معاویہ سے شراب نوشی اورترک صلاۃ کی تہمت کا ازالہ نہیں بلکہ اصل مقصد تو یزید بن معاویہ کی ثابت شدہ خوبیوں کا انکار ہے لیکن چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس انکار کو دفاع یزید کے لبادہ میں چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔
حالانکہ اس روایت کو مکمل پڑھنے کے بعد ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس روایت میں مجہول و نامعلوم ذریعہ سے ابن مطیع اور ان کے ساتھیوں نے یزید کو شرابی اور تارک صلاۃ کہا تو محمدبن حنفیہ نے یزید کا دفاع کیا اور اپنی چشم دید گواہی پیش کی کہ میں نے بذات خود یزید کو نماز کا پابند ، علم و خیر کا متلاشی اور سنت پر سختی سے عمل کرنے والا پایا ہے۔
یہ چشم دید گواہی دینے کے بعد محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ نے ابن مطیع اور ان کے ساتھیوں سے ان کی طرف سے یزید پرلگائے گئے الزامات کی گواہی طلب کی لیکن ابن مطیع اور ان کے ساتھی محمدبن حنفیہ کا مطالبہ پورا نہ کرسکے اور یزید کے شرابی یا تارک صلاۃ ہونے پر کوئی گواہی نہ پیش کرسکے نہ اپنی طرف سے نہ ہی کسی دوسرے معتبر شخص کی طرف سے ۔حتی کہ ابن مطیع کے ساتھ ان کی ایک ٹیم بھی موجود تھی اور ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی چشم دید گواہی نہیں دی بلکہ الٹا یہ اعتراف کیا ہے کہ ہم نے ایسا کچھ نہیں دیکھا لیکن ہمارے نزدیک یہ بات سچ ہے۔
اس پر محمدبن حنفیہ نے ان کی اس بے دلیل اور بے سر پیر کی بات کی سختی کے ساتھ تردید کی اورقرآنی آیت پڑھ کو ان پر حجت قائم کیا کہ اس طرح کی باتوں سے گواہی ثابت نہیں ہوتی ۔ محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ کے اس استدلال اور اس تردید کے خلاف ابن مطیع اور ان کی پوری ٹیم کوئی معتبر بات پیش کرنے سے یکسر عاجز وقاصر رہی۔
غورکریں یہ پوری روایت جہاں ایک طرف یہ ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ یزید سنت کے پاسدار ، نماز کے پابند ، علم وخیر کے متلاشی تھے وہی دوسری طرف یہ روایت یزید پرلگائے گئے الزامات کی بھر پورتردید کررہی اور اس حقیقت کی نقاب کشائی کررہی ہے کہ یزید پر الزامات لگانے والے سرکردہ افراد کے پاس بھی ان الزامات کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔
لیکن دنیائے تعصب وتعسف کی کج اندیشی دیکھئے کہ بے سرپیر کی بات پرایمان لانے کی دعوت دی جارہی ہے اورکتاب وسنت کے مطابق ثابت شدہ گواہی سے آنکھ بند کرنے کی بات کہی جارہی ہے، تاللہ انھا لاحدی الکبر۔
مزید یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ بے سر پیر کی بات بھی صرف ایسی نہیں کہ کسی نے بغیر دلیل کے بیان کردیا بلکہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ اس طرح سے بے سر پیر کی بات کرنے والوں سے دلیل کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس مطالبہ پر کوئی دلیل سرے سے پیش ہی نہیں کی گئی۔
اس کے باوجود بھی اس بے سر پیر اور بے دلیل والی بے بنیاد بات کو راجح بتاکر اندھی تقلید کی طرف دعوت دی جارہی۔فاللہ المشتکی۔
.
پہلا اعتراض
زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
”مدائنی تو ٢٢٤ھ میں فوت ہوئے اور حافظ ابن کثیر ٧٠١ھ میں پیدا ہوئے تھے۔حافظ ذہبی ٦٧٣ھ میں پیدا ہوئے اور دونوں ( ابن کثیر و ذہبی ) نے یہ وضاحت و صراحت نہیں کی کہ انہوں نے یہ روایت مدائنی کی کسی کتاب یا کسی دوسری کتاب سے مدائنی کی سند سے نقل کی ہے ، لہٰذا یہ روایت سخت منقطع وبے سند یعنی مردود ہے ، جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب کا یہ کہنا : '' اس روایت کو امام ابن کثیر اور امام ذہبی رحمہما اللہ نے امام مدائنی کی کتاب سے سند کے ساتھ نقل کر دیا ہے ...'' بالکل عجیب و غریب ہے ۔ سنابلی صاحب کو کس نے بتایاہے کہ حافظ ابن کثیر اور حافظ ذہبی نے یہ روایت مدائنی کی فلاں کتاب سے نقل کی ہے ؟حوالہ پیش کریں اور مدائنی کی کتاب کا نام بھی بتائیں؟ کہ اصل کتاب تلاش کر کے یہ روایت دیکھی جا سکے“ [مجلہ الحدیث : 107 ص 14 ، 15]۔

اصل اعتراض کا جواب دینے سے قبل عرض ہے کہ امام مدانئی رحمہ اللہ کی تاریخ وفات بالجزم ٢٢٤ھ بتلانا خود زبیرعلی زئی صاحب ہی کے اصول کی روشنی میں غلط ہے کیونکہ امام مدائنی کی تاریخ وفات میں شدید اختلاف ہے۔بعض نے 215ھ ، بعض 224نے ھ، بعض نے 225ھ ، بعض نے 228ھ اوربعض نے 234 ھ دیکھئے عام کتب رجال۔
اور زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
 ”سیدنا ابواسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات میں سخت اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں 30 ھ ، بعض کہتے ہیں: 60 ھ یا 70ھ یا 80ھ یا 40 ھ دیکھئے تقریب التہذیب (6436) والاصابہ (1155، 1156 ) لہٰذا بعض الناس کا بالجزم آپ کی وفات 30 ھجری قرار دینا غلط ہے“ [نور العینین : ص 269 جدید ایڈیش نیز دیکھئے مجلہ الحدیث: 18 ص 28].
مزید لکھتے ہیں:
 ”سیدنا محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے بعض نے 43 ھ اور بعض نے 46ھ اور 47 ھ کہا ہے دیکھئے (تہذیب الکمال 17 / 240) آپ کی صحیح تاریخ وفات نامعلوم ہے ۔ یہ کہنا کہ سیدنا محمدبن سلمہ رضی اللہ عنہ 40 ھ میں فوت ہوگئے تھے دعوی بلادلیل ہے“ [نور العینین : ص 269 جدید ایڈیش نیز دیکھئے مجلہ الحدیث: 18 ص 28 ، 29]
ہمارے نزدیک بعض دلائل کے پیش نظر راجح یہی ہے کہ امام مدائنی کی تاریخ وفات 215 ھ ہے بہرحال اب ہم اصل اعتراض پرآتے ہیں۔
زبیرعلی زئی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’سنابلی صاحب کو کس نے بتایاہے کہ حافظ ابن کثیر اور حافظ ذہبی نے یہ روایت مدائنی کی فلاں کتاب سے نقل کی ہے ؟‘‘ اس کے جواب میں عرض ہے کہ :
 ❀ زبیر علی زئی صاحب امام ابن معین رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ابن رجب حنبلی نے ”شرح علل الترمذي“ میں یہ قول عثمان بن سعید دارمی کی کتاب سے نقل کیا ہے“ دیکھیں: (۲/ ۱۴۶ وفی نسخہ اخری، ص: ۴۸۳، ۵۸۳)“ [نماز میں ہاتھ باندھنے کاحکم اور مقام ص: ۱۳، ۲۳]
عرض ہے کہ ابن رجب حنبلی نے یہ قول ”وقال عثمان بن سعید“ (اور عثمان بن سعید نے کہا) کے الفاظ سے نقل کیا ہے اور ان کے کتاب کی صراحت نہیں کی ہے نہ ان کی کتاب کا نام لیا ہے۔ اب کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ زبیر علی زئی صاحب کو کس نے بتایا کہ ابن رجب حنبلی نے یہ قول عثمان بن سعید دارمی کی کتاب سے نقل کیا ہے؟ فما کان جوابکم فھوجوابنا.
بعد ازیں عرض ہے کہ امام مدائنی رحمہ اللہ بہت بڑے مؤرخ اور تاریخ سے متعلق مشہور کتابوں کے مصنف ہیں ان کا ترجمہ پیش کرنے والے اہل علم نے انہیں متعدد مشہور کتابوں کا مؤلف قرار دیا ہے۔مثلا خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
 ”وهو صاحب المصنّفات المشهورة“ 
 ”یعنی امام مدائنی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں“ [تاريخ الإسلام ت بشار 5/ 638]۔
انہیں میں سے ایک کتاب ’’الحرہ‘‘ بھی جیساکہ ابن الجوزی نے ذکرکیا ہے،دیکھئے[الرد على المتعصب العنيد ص: 67]
امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں کئی جگہ اس کتاب سے استفادہ کیاہے اور دو مقامات پر واضح طور پر اس کتاب کا نام ”کتاب الحرہ“ درج کیا ہے۔ [دیکھیں: تاریخ دمشق: 75 / 231، و 26/ 283 نیز ملاحظہ ہو: موارد ابن عساکر في تاریخ مدینہ دمشق:1 / 390]
بلکہ جس روایت پر ہم بحث کر رہے ہیں، عین اسی روایت کو انھیں الفاظ کے ساتھ ابن عساکر نے بھی روایت کیا ہے، لیکن تاریخِ دمشق کے مطبوعہ نسخے سے یہ حصہ مفقود ہے، مگر اصل کتاب میں یہ روایت موجود ہے، جیساکہ مختصر تاریخ دمشق لابن المنظور (۸۲/ ۷۲۔ ۸۲) میں مندرج ہے۔
یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ یہ روایت امام مدائنی کی کتاب میں ہے اور ابن عساکر نے ان کی کتاب سے اپنی تاریخ میں اسے نقل کیا ہے، کیوں کہ امام ذہبی اور حافظ ابن کثیر کے نقل کرنے سے قطعی طور پر ثابت ہوا کہ یہ روایت امام مدائنی کی ہے اور یہی روایت انھیں الفاظ کے ساتھ تاریخِ دمشق میں ابن عساکر نے بھی نقل کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ابن عساکر نے بھی مدائنی ہی کی اس روایت کو نقل کیا ہے اور ابن عساکر کے پاس امام مدائنی کی ”کتاب الحرہ“ موجود تھی اور یہ روایت حرہ ہی سے متعلق ہے۔
دریں صورت اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ امام ذہبی اور امام ابن کثیر نے اس روایت کو امام مدائنی کی کتاب سے نقل نہیں کیا ہے تو بھی کم ازکم اتنی بات کا توکوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ امام ذہبی اور ابن کثیر نے مدائنی سے اوپر پوری سند نقل کی ہے۔ پھر جب مدائنی کی اسی روایت کو ابن عساکرنے بھی نقل کیا ہے، جن کے پاس مدائنی کی کتاب موجود تھی تو اب مدائنی سے یہ روایت ثابت ہوگئی اور مدائنی سے اوپر سند صحیح ہے، لہٰذا یہ روایت بھی بلاشک و شبہہ صحیح ہے۔ تاہم ہماری نظر میں درست بات یہی ہے کہ امام ذہبی و امام ابن کثیر نے بھی اسے کتاب ہی سے نقل کیاہے اور صاحبِ تصنیف سے لے کر اصل روایت تک پوری سند نقل کرنا ہی اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ ناقل نے یہ روایت مصنف کی کتاب سے نقل کی ہے۔
 ❀ عصر حاضر کے محققین بھی اس کی طرح کے نقول کو حجت سمجھتے ہیں مثلاً دکتور شیبانی نے اپنی کتاب مواقف المعارضہ میں اس طرح کی کئی روایات کو امام ذہبی وغیرہ سے نقل کرکے اس کی سندوں پر صحیح یا حسن کا حکم لگایا ہے اور دیگر اہل اعلم نے اس پر اعتبار کیا ہے اور اس کا حوالہ دیا ہے۔
 ❀ محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر ایسی روایت کی تصحیح کی ہے جو اصل مصنف کی کتاب میں موجود نہیں بلکہ دیگرناقلین نے اسے اپنی کتاب میں سند کے ساتھ نقل کردیا ہے ، مثلاً ارواء میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے قنوت سے متعلق ایک روایت کو اس لئے ثابت کہا کیونکہ اس کی ایک سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کررکھا ہے ، اوراصل کتاب مفقود ہے۔دیکھئے :[ارواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل:١٦٩٢]
 ● خود زبیرعلی زئی صاحب نے بھی دو رکعت میں تورک والی حدیث کو حسن کہا ہے کیونکہ ابن سیدالناس نے اس کی سند کو نقل کررکھا ہے۔دیکھئے : [نورالعینین :ص٢٠١طبع جدید]
 ● اسی طرح موصوف نے ابن بطال کی شرح بخاری سے بزار کی ایک روایت کو نقل کرکے حسن کہا ہے اور ابن بطال نے یہاں پر محض بزار کے حوالے سے ایک سند ذکر کی ہے اور بزار کی کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔چنانچہ:
امام ابن بطال (المتوفی:٤٤٩ھ) نے کہا:
''ذکر البزار، قال:حدثنا بشر بن آدم، قال:حدثنا أبو عاصم، عن ابن جریج قال: حدثنی عبد الکریم الجزری أن مجاہدًا أخبرہ عن ابن عباس قال:(أتیت أنا والفضل علی أتانٍ، فمررنا بین یدی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) بعرفة، وہو یصلی المکتوبة، لیس بشیء یسترہ یحول بیننا وبینہ'' [شرح صحیح البخاری لابن بطال:۔١٢٩٢]۔
یہ روایت اوربھی کتب میں ہے لیکن اس میں عبدالکریم کانام بغیر کسی لقب اوربغیر کسی نسبت کے منقول ہے اور عبد الکریم یہ کون ہے اس کا تعین ایک مشکل کام ہے کیونکہ اسی نام کا ایک اور ضعیف راوی ہے اوریہ بھی اتفاق سے مجاہد کا شاگرد اور ابن جریج کا استاذ ہے اس لئے یہ پریشان کن بات ہے کہ یہ راوی کون ہے ۔لیکن حافظ زبیرعلی زئی نے اس کا تعین'' عبد الکریم الجزری'' سے کیا ہے۔ اسی وجہ سے موصوف نے اس سند کو حسن کہا ہے اور تعین کے لئے موصوف نے اس بات کو دلیل بنایا ہے کہ امام ابن بطال نے بزار کی اسی روایت کو سند کے ساتھ نقل کیا اوران کے نقل میں سند کے اندر ''عبدالکریم'' کی'' الجزری ''سے تعیین موجود ہے۔دیکھئے[موطا امام مالک مترجم از زبیرعلیزئی:۔ص: ٢٦٦]
عرض ہے کہ ”عبد الکریم“ کی تعیین کرنے والا یہ لفظ ”الجزری“ اصل کتاب مسند بزار میں یا اس وقت اس کے کسی بھی دستیاب مخطوطہ میں موجود نہیں ہے تو کیا یہ کہہ دیا جائے امام ابن بطال کی نقل کردہ سند وروایت غیر معتبر ہے ؟ انہوں نے بزار کی کسی کتاب کاحوالہ نہیں دیا اوران کی وفات اورامام بزار کی وفات میں لمبافاصلہ ہے۔
ہم نے موصوف کی زندگی میں ان پررد کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی لیکن موصوف نے اپنے اس استدالال سے نہ توبرأت ظاہرکی نہ اس کا انکار کیا نہ بزار کی سند میں عبدالکریم کے تعین کی کوئی اورتوجیہ پیش کی۔
اب ہم کہتے ہیں زبیرعلی زئی صاحب کو کس نے بتاکہ امام ابن بطال نے یہ روایت امام بزار کی فلاں کتاب سے نقل کی ہے؟ یا کسی اور کتاب سے بزار کی سند سے نقل کی ہے؟؟
 ● اسی طرح زبیرعلی زئی صاحب نے ایک مقام پر ایک جرح کو ثابت مانتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ”ابواحمدالحاکم نے کہا: ’’ربمایخالف فی بعض حدیثہ ‘‘ بعض اوقات اس کی بعض حدیث میں اس کی مخالفت کی جاتی ہے (تہذیب التہذیب10 / 469) ممکن ہے یہ قول ابواحمد الحاکم الکبیر کی کتاب میں ہو۔ واللہ اعلم“ [الحدیث : 49 / 34، 35].
عرض ہے کہ اگر یہ قول ابوحاتم کی کتاب میں ہوسکتا ہے کیونکہ انہوں نے اسماء الرجال پر کتاب لکھی ہے تو زیربحث سند اور روایت بھی امام مدائنی کی کتاب میں کیوں نہیں ہوسکتی جبکہ امام مدائنی نے بھی تاریخ پر مشہورکتابیں لکھیں ہیں بالخصوص ’’الحرہ‘‘ نامی کتاب،کمامضی۔
 ● اسی طرح زبیرعلی زئی صاحب نے ایک اور مقام پر لکھا:
 ”حافظ ابن حجر بذات خود لکھتے ہیں کہ:’’وقال الدوری عن ابن معین : روایتہ عن حذیفہ مرسلۃ ‘‘ اور (عباس) الدوری نے یحیی ابن معین سے نقل کیا کہ: بلال مذکور کی حذیفہ سے روایت مرسل ہے ۔(تہذیب التہذیب1 / 443)۔ یہ روایت عباس دوری کی تاریخ میں نہیں ملی لیکن بغیرقوی دلیل کے حافظ ابن حجر کی نقل کو ردکرنا محل نظر ہے[الحدیث: 11 ص 19]
عرض ہے ٹھیک اسی طرح بغیرکسی قوی دلیل کے امام ذہبی اور امام ابن کثیررحمہ اللہ کی نقل کو بھی رد کرنا محل نظر ہے۔
ورنہ ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ''زبیر علی زئی صاحب کو کس نے بتایاہے کہ حافظ ابن حجرنے یہ روایت عباس دوری کی فلاں کتاب سے نقل کی ہے یا کسی اور کتاب سے عباس دوری کی سند سے نقل کی ہے‘‘
واضح رہے کہ عباس دوری کی سند سے امام عقیلی وغیرہ نے بھی ابن معین کے اقوال نقل کئے ہیں۔
کیا یہاں یہ کہنا درست ہوگا کہ حافظ ابن حجر نے یہ وضاحت و صراحت نہیں کی کہ انہوں نے یہ روایت عباس دوری کی کسی کتاب یا کسی دوسری کتاب سے عباس دوری کی سند سے نقل کی ہے ، لہٰذا یہ روایت سخت منقطع وبے سند یعنی مردود ہے ؟؟؟
اگر نہیں تو زبیرعلی زئی صاحب نے ہماری پیش کردہ روایت پر یہ اعتراض کیوں کردیا؟؟؟
 ❀ حافظ ابن حجر اورابن سیدالناس اورابن بطال توبہت پرانے دور کے اہل علم ہیں، آج حال تو یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ مدرک رکوع سے متعلق ایک روایت کو مع سند مسائل احمد واسحاق سے نقل کیا ہے اوراسے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
لیکن یہ روایت مسائل احمد واسحاق کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ہے اسی طرح مسائل احمد کے جتنے بھی مخطوطات عام ہیں ان میں بھی یہ روایت نہیں ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صرف ایک مخطوطہ سے اسے مع سند نقل کیا لیکن محققین ان کی نقل کو بھی کافی سمجھتے ہیں۔دیکھئے :[سلسلة الأحادیث الصحیحة وشیء من فقہہا وفوائدہا :١٨٥٣ رقم ١١٨٨]
 ❀ موجودہ دور میں بریلوی حضرات تاریخ میلاد سے متعلق ابن ابی شیبہ سے ایک روایت پیش کرتے ہیں لیکن ابن ابی شیبہ کی کتاب میں یہ روایت موجود ہی نہیں ہے بلکہ امام ابن کثیر نے اسے ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے چنانچہ:
امام ابن کثیر رحمہ اللہ (المتوفی:٧٧٤)نے کہا:
 ”وَقَالَ أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مِینَا عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ۔قَالاَ: وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِیلِ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ الثَّانِیَ عَشَرَ مِنْ رَبِیع الْأَوَّلِ۔ وَفِیہِ بعث، وفیہ عرج بہ لی السماء ، وفیہ ہَاجَرَ، وَفِیہِ مَاتَ۔ فِیہِ انْقِطَاع“ 
 ”جابراورابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، بروز پیر بتاریخ ١٢ ربیع الاول ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اوراسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی“ [البدایة والنہایة لابن کثیر:١٠٩٣]
یہ روایت بریلوی حضرات ربیع الاول میں بڑے زور وشورسے پیش کرتے ہیں ، لیکن کیاکوئی بھی بریلوی اس روایت کو ابن ابی شیبہ کی کتاب میں دکھا سکتا ہے؟
یاد رہے کہ میلاد سے متعلق ابن کثیر رحمہ اللہ کی مع سند نقل کردہ روایت کو ہم ضعیف کہتے ہیں ، لیکن اس لئے نہیں کہ یہ روایت اصل کتاب میںموجود نہیں بلکہ اس لئے کہ نقل کردہ یہ سند ہی ضعیف ہے۔تفصیل کے لئے دیکھیں میرا مضمون ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش سے متعلق ایک روایت کاجائزہ''
الغرض یہ کہ امام ذہبی وامام ابن کثیر رحمہاللہ نے زیربحث روایت کو امام مدائنی کے حوالہ سے پوری سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور امام مدانئی تاریخ کی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں لہٰذا یہ قرینہ ہی اس بات کی دلیل ہے کہ امام ذہبی وامام ابن کثیر رحمہااللہ نے اس روایت کو امام مدائنی کی کتاب سے نقل کیا ہے دریں صورت بغیرکسی قول دلیل کے اس روایت کو رد نہیں کیا جاسکتا جیساکہ ہم نے خود زبیرعلی زئی صاحب ہی کی تحریروں کی روشنی میں اسے واضح کردیا ہے۔ والحمدللہ

دوسرا الزامی اعتراض
زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
”نیز بطورِ الزام عرض ہے کہ اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے تو یزید بن معاویہ کا شرابی اور تارک الصلوٰة ہونا ثابت ہوجاتا ہے؟ الخ ۔۔۔“ [مجلہ الحدیث : 107 ص 15 ]
عرض ہے کہ اس اقتباس میں زبیرعلی زئی صاحب کو کئی غلط فہمیاں ہوئی ہیں ذیل میں ہم بالتٍفصیل وضاحت کرتے ہیں۔

پہلی غلط فہمی
زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
 ”نیز بطورِ الزام عرض ہے کہ اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے تو یزید بن معاویہ کا شرابی اور تارک الصلوٰة ہونا ثابت ہوجاتا ہے؟ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عبد اللہ بن مطیع بن الاسود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ۖ کو دیکھا ہے ، یعنی وہ رؤیت کے لحاظ سے صحابی ہیں ۔انہیں حافظ ابن حبان ، ابن الاثیر ، ذہبی اور ابن حجر وغیرہم نے صحابہ میں ذکر کیا ۔ دیکھئے: [کتاب الثقات لابن حبان : ٢١٩٣، اسد الغابہ: ٢٦٢٣، تجرید اسماء الصحابة للذہبی: ٣٣٥١، فتح الباری: ٦ ٦١٥ تحت : ٣٦٠٢] حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں لکھا ہے :''له روية'' یعنی انہیں رؤیت حاصل ہے [٣٦٢٦] حافظ ابن کثیر نے بھی لکھا ہے :ولد فی حیاة رسول اللہ ۖ و حنکہ ودعا لہ بالبرکة۔آپ رسول اللہ ۖ کی زندگی میں پیدا ہوئے ، آپ ۖ نے انہیں گھٹی دی اور ان کے لئے برکت کی دعا فرمائی [البداية والنهاية:١٢٦٩ ، وفات ٧٣ھ]“  [مجلہ الحدیث : 107 ص 15 ]
عرض ہے کہ:
 اول تو زبیرعلی زئی صاحب نے اس بات کی کوئی صحیح سند پیش نہیں کی ہے کہ ابن مطیع نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور البدایہ والنھایہ سے موصوف نے جو یہ پیش کیا ہے کہ ’’آپ رسول اللہ ۖ کی زندگی میں پیدا ہوئے ، آپ ۖ نے انہیں گھٹی دی اور ان کے لئے برکت کی دعا فرمائی‘‘ اس بات کے لئے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے نہ تو کوئی حوالہ دیا ہے اور نہ اس کی سرے سے کوئی سند ذکر کی ہے ۔
اب یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ ایک بات اسی کتاب میں بغیر حوالہ اور بغیرسند کے بیان کریں اور زبیرعلی زئی صاحب اس سے استدلال کرتے ہوئے ابن مطیع کو صحابی قرار دیں اور اسی کتاب میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ مدائنی کے حوالے سے سند کے ساتھ ایک روایت درج کریں اور زبیرعلی زئی صاحب اس سے کسی کی صحابیت تو دور کسی کے نیک ہونے پر بھی استدلال درست نہ سمجھیں ! معلوم نہیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔
نوٹ: -ابن کثیر رحمہ اللہ کی نقل کردہ یہ بے سند بات [التاريخ الأوسط للبخاري ت زائد: 1/ 132] میں موجود ہے ، لیکن اس کی سند ضعیف ہے ، غالبا زبیر علیی زئی صاحب کو بھی یہ بات پتہ تھی اسی لئے موصوف نے اس بات کو اصل سند کے ساتھ نقل کرنے کے بجائے ابن کثیر رحمہ اللہ سے بے سند نقل کرنے میں ہی عافیت جانی۔
بہرحال اہل علم کے اقوال کی روشنی میں ہم یہ تسلیم کرلیں کہ ابن مطیع کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت حاصل ہے تو محض اتنی سی بات سے کوئی صحابی نہیں ہوجاتا بلکہ صحابی ہونے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بھی ضروری ہے۔ یہ بات اہل علم میں اس قدر معروف ومشہور ہے کہ حدیث کا مبتدی طالب علم بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے لیکن پھر بھی ہم تسلی کے لئے کچھ حوالے پیش کرتے ہیں۔
 ❀ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) رحمہ اللہ نے ایک جواب میں کہا:
 ”عن إسحق بن منصور قال قلت ليحيى محمد بن حاطب له رؤية أو صحبة قال رؤية“ 
 ”اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے امام ابن معین رحمہ اللہ سے پوچھا : محمدبن حاطب کو رویت حاصل ہے یا وہ صحابی ہیں ؟ تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے جواب دیا : انہیں رویت حاصل ہے“ [المراسيل لابن أبي حاتم ص: 183]
 ❀ أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
 ”طارق بن شهاب له رؤية وليست له صحبة“ 
 ”طارق بن شہاب کو رویت حاصل ہے یہ صحابی نہیں ہیں“ [المراسيل لابن أبي حاتم ص: 98]
 ❀ نیز ان کے بیٹے نے کہا:
 ”سئل أبي عن عبد الرحمن بن عثمان التيمي له صحبة قال لا له رؤية“ 
 ”میرے والد سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن بن عثمان تیمی کیا صحابی ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا : نہیں ، انہیں رویت حاصل ہے“ [المراسيل لابن أبي حاتم ص: 123]
 ❀ امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
 ”محمود بن الربيع ويقال بن ربيعة الخزرجي الأنصاري مدينى أدرك النبي صلى الله عليه و سلم وهو صبي ليست له صحبة وله رؤية“ 
 ”محمود بن ربیع انہیں ابن ربیعہ خزرجی انصاری مدینی بھی کہا جاتا ہے انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن میں پایا ہے یہ صحابی نہیں ہیں بلکہ انہیں صرف رویت حاصل ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 289]
 ❀ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”الادراک والرویۃ اقل افادۃ من قولہ لہ صحبہ لان الصحبۃ کما لایخفاکم یلاحظ فیھا المعنی اللغوی ولو فی حدود ضیقۃ ، اما لہ ادراک و لہ رویۃ فذلک مما لایستلزم ، قد یکون راہ وھو طفل صغیر ادرک الرسول وھو کذلک ، لکن لا ینسحب علیہ معنی الصحبۃ مھما ضیقت دائرتھا ولذلک فمن قیل فیہ : بانہ لہ صحبۃ اقرب الی ان یحشر فی الصحابہ ولا یحشر مما قیل فیہ لہ رویۃ او لہ ادراک“ 
 ”فلاں کو ادراک حاصل ہے '' یا ''فلاں کو رویت حاصل ہے'' اس قول کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ فلاں کو صحبت حاصل ہےجیساکہ ظاہرہے اس کے لغوی معنی کو کسی نہ کسی شکل میں پیش نظر رکھنا ہوگا۔ رہی یہ بات کہ ''فلاں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے'' یا ''فلاں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے'' تو اس سے صحابی ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ ممکن ہے کہ اس نے جب دیکھا ہے اس وقت وہ چھوٹا بچہ رہا ہے ، اور یہی صورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پانے میں بھی ہے۔ ایسے لوگوں پر صحابی کا اطلاق کسی بھی صورت میں نہیں ہوسکتا ۔ لہٰذا جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ''اسے صحبت حاصل ہے'' تو یہ اس بات کے قریب ہے کہ اسے صحابہ میں شمار کیا جائے ، اور جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ : ''اسے رویت حاصل ہے'' یا ''اسے ادراک حاصل ہے '' تو اس طرح کے لوگوں کا شمار صحابہ میں نہیں ہوسکتا“ [سؤالات أبي الحسن المأربي للعلامة المحدث الألباني ص: 119]۔
معلوم ہوا کہ صحابی ہونے کے لئے محض رویت کافی نہیں ہے
 اسی لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن مطیع کا تذکرہ کیا تو انہیں صحابی نہیں کہا دیکھئے :[الكاشف للذهبي: 1/ 599]۔
اسی طرح حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی ابن مطیع ذکر کیا تو انہیں صحابی نہیں کہا، دیکھئے :[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم3626]

 ◄ واضح رہے کہ بعض اہل علم ’’لہ رویۃ‘‘ والوں کو صحابی کہہ دیتے ہیں تو ان کی نظر میں صحابی کا عام اصطلاحی معنی مراد نہیں ہوتا ہے بلکہ تشریفی طور پر مقید صحبت ان کی مراد ہوتی ہے چنانچہ ایسے ہی ایک شخص کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”وَلاَ صُحْبَةَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، بَلْ لَهُ رُؤْيَةٌ، وَتِلْكَ صُحْبَةٌ مُقَيَّدَةٌ“ 
 ”عبدالرحمن صحابی نہیں ہیں بلکہ انہیں روایت حاصل ہے اور یہ ایک مقید صحبت ہے“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 484]
یعنی صحابی ہونے اورصاحب رویت ہونے میں فرق ہے ، الغرض یہ کہ ابن مطیع صحابی نہیں ہیں میرے ناقص علم کی حد تک کسی نے بھی انہیں صحابی نہیں کہا ہے۔

 ◄ اور بعض اہل علم نے صحابہ والی کتاب میں جو ان کا تذکرہ کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ انہیں صحابی مانتے ہیں بلکہ انہوں نے فقط رویت کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں صحابہ والی کتاب میں ذکر کردیا ہے۔
اور اگر صحابہ والی کتاب میں کسی کے تذکرہ سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ صحابی ہیں تو واقعہ حرہ میں مدینہ پرحملہ کرنے والی فوج کے قائد ”مسلم بن عقبہ“ تھے ان کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں موجود ہے دیکھئے:[الإصابة في تمييز الصحابة 6/ 232]۔
اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے قاتل ”عبدالرحمن بن ملجم“ کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں ہے دیکھئے:[تجريد أسماء الصحابة للذھبی: 1/ 356 ، الإصابة في تمييز الصحابة 5/ 85]۔
نیز عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کی نیت سے جانے والے ”محمدبن ابی بکر“ کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں ہے دیکھئے:[أسد الغابة ط العلمية 5/ 97 ، الاستيعاب في معرفة الأصحاب 3/ 1366]
بلکہ لطف تو یہ ہے کہ ”مختار ثقفی“ جیسے کذاب ودجال کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں ہے ، دیکھئے:[أسد الغابة ط الفكر 4/ 346 ، الاستيعاب في معرفة الأصحاب 4/ 1465]
تو کیا یہ سب کے سب صحابہ ہیں ؟؟

واضح رہے کہ ’’لہ رویۃ ‘‘ والے حضرات چونکہ صحابی نہیں ہوتے اسی لئے یہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت بیان کرتے ہیں تو محدثین اس روایت کو مرسل قرار دیتے ہیں اسے متصل نہیں مانتے جب کہ صحابہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت بیان کرتے ہیں تو انہیں متصل مانا جاتا ہے۔اس بابت بھی کچھ حوالے ملاحظہ ہوں:
 ● امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
 ”فإن كان لم يكن له إلا مُجرَّدُ رُؤْية، فقولُه: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - محمولٌ على الإرسال“ 
 ”اگرکسی کو محض اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت حاصل ہے اور وہ کہے کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : تو اس کی یہ روایت مرسل ہوگی“ [الموقظة في علم مصطلح الحديث ص: 59 ، نیز دیکھیں: سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 509]۔
 ● امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
 ”وكذلك كثير من صبيان الصحابة رأوا النبي ولم يصح لهم سماع ، فرواياتهم عنه مرسلة كطارق بن شهاب وغيره“ 
 ”صحابہ کے بچوں میں سے کئی ایک نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا نہیں اس لئے اس طرح کے لوگوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت مرسل ہوتی ہے“ [شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 58]
 ● علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے دیکھئے :[سؤالات أبي الحسن المأربي للعلامة المحدث الألباني ص: 119]۔

الغرض یہ کہ جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ’’لہ رویۃ‘‘ ان کو صحابی کہنا درست نہیں ہے اس لئے زبیرعلی زئی صاحب کا ابن مطیع کو صحابی کہنا اور ان پر صحابہ کے احکامات پر منطبق کرنا اصول حدیث کے سراسر خلاف ہے ، ہمارے ناقص علم کی حد تک پوری تاریخ اسلام میں کسی ایک بھی ثقہ و معروف محدث نے اس طرح کا موقف اختیار نہیں کیا ہے ۔اور معاصرین میں بھی زبیرعلی زئی صاحب پوری دنیا میں واحد شخص ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ ابن مطیع کو صحابی کہا ہے بلکہ ان پر صحابہ کے احکامات بھی منطبق کردیے ۔
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ ابن مطیع رحمہ اللہ صحابی نہیں ہیں۔لہٰذا انہیں صحابی کہنا سراسر غلط و بے بنیاد ہے۔

دوسری غلط فہمی
زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
”جب صحابی رضی اللہ عنہ فرمارہے ہیں کہ یزید شرابی ہے اور نمازیں بھی ترک کر دیتا ہے تو صحابی کے مقابلے میں تابعی کی بات کون سنتا ہے ؟“ [مجلہ الحدیث : 107 ص 15 ]
عرض ہے کہ:
 ●  اول تو ابن مطیع صحابی ہے ہی نہیں اسے صحابی کہنا یہ زبیرعلی زئی صاحب کی غلط فہمی ہے جیساکہ اوپر وضاحت کی گئی ۔
 ● دوسری بات یہ کہ ابن مطیع نے شراب نوشی اور ترک صلاۃ کی جوبات کہی ہے وہ ان کی اپنی بات یا ان کا اپنا مشاہدہ ہے ہی نہیں، بلکہ ابن مطیع نے کسی مجہول و نامعلوم شخص سے یہ بات سنی ہے چنانچہ پوری روایت اوپر پیش کردی گئ ہے اسے دوبارہ پڑھیں اور دیکھیں کہ ابن مطیع اور ان کے ساتھیوں نے یہ بات کہی تو محمدبن الحنفیہ نے ان سے شہادت طلب کی اور پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے خود یہ بات دیکھی ہے تو انہوں نے صاف طور سے کہا کہ ہم نے یہ بات خود نہیں دیکھی ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ بات سچ ہے۔
یعنی ابن مطیع اور ان کے ساتھ ان الزامات میں کسی اور کی بات پر یقین کررہے جس کا نام ان لوگوں نے نہیں بتایا ۔
معلوم ہوا کہ اس بات کو کہنے والا اصل شخص مجہول ہے اس کا صحابی ہونا تو دور کی بات سرے سے مسلمان ہونا بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کانام اور حال سب نامعلوم ہے بہت ممکن ہے یہ بات کہنا والا کوئی منافق سبائی ہو جس سے ابن مطیع وغیرہ دھوکہ کھا گئے ہوں۔
اس لئے یہ کہنا کہ یہ بات صحابی کی ہے سراسر غلط بیانی اور بے دلیل بات ہے۔کیونکہ اصل الزامات لگانے والے شخص کا نام وحال سرے سے نامعلوم ہے۔نتیجہ یہ نکلا کا مجہول و نامعلوم شخص نے یزید پر شراب نوشی اور ترک صلاۃ کی تہمت لگائی ہے اور اس کے برخلاف محمدبن الحنفیہ رحمہ اللہ جو جلیل القدر تابعی ہیں انہیں نے ان الزامات کی تردید ہے کہ اور اس کے برخلاف یزید کو علم وخیر کا متلاشی ، سنت کا پاسدار اور نماز کا پندبتلایا ہے ، اب جلیل القدر تابعی رحمہ اللہ کے مقابل میں ایسے مجہول و نامعلوم شخص کی بات کون سنتا ہے جس کا صحابی یا تابعی ہونا تو دور کی بات سرے سے مسلمان ہونا ہی ثابت نہیں ہے۔

تیسری غلط فہمی اثبات و نفی
”دوسرے یہ کہ صحابی کی بات میں اثبات ہے اور تابعی کی بات میں نفی ہے اور مشہور اصول ہے کہ نفی پر اثبات مقدم ہوتا ہے“ [مجلہ الحدیث : 107 ص 15 ]۔
عرض ہے کہ:
 ماقبل میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ یہ کسی صحابی کی بات نہیں ہے دوسرے یہ کہ زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں بالکل الٹی بات کہہ دی ہے ، موصوف کہتے ہیں کہ الزام لگانے والوں کی بات میں اثبات ہے اور اس کا رد کرنے والوں کی بات میں نفی ہے حالانکہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے اورحقیقت یہ ہے کہ الزامات کی تردید کرنے والوں کی بات میں اثبات ہے کیونکہ محمدبن الحنفیہ رحمہ اللہ نے یزید کو علم وخیر کا متلاشی ، سنت کا پاسدار اور نماز کا پاپند کہا ہے وہ بھی ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر یعنی ان کی بات میں یزید کی خوبیوں کا اثبات ہے وہ بھی معتبر دلیل کے ساتھ ، اور اس کے برخلاف ابن مطیع نے ان خوبیوں کا انکار کیا ہے یعنی ابن مطیع کی بات میں نفی ہے وہ بھی مجہول اور نامعلوم لوگوں کے کہنے پر یعنی بغیرکسی معتبردلیل کے ۔
اورنفی پر اثبات والی بات کو مقدم کرنے والے اصول کے پیش نظر تو محمدبن الحنفیہ کی بات مقدم ہوگی بالخصوص جبکہ اثبات کرنے والے کے پاس ٹھوس دلیل موجود ہے اور انکار کرنے والے کے پاس سرے سے کوئی دلیل موجود ہی نہیں بلکہ دلیل مانگنے پر وہ دلیل نہیں دے سکے۔
اب یہ کتنی عجیب بات ہے کہ بادلیل اثبات کے مقابل میں بے دلیل نفی کو مقدم کیا جائے !

واضح رہے ابن مطیع کے پاس یزید کے شرابی اور تارک صلاۃ ہونے کی کوئی معتبردلیل نہیں تھی اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے جب عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ انہیں سمجھانے آئے تو ابن مطیع عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے سامنے بھی یہ بات کہنے کی جرات نہ کرسکے ۔جیساکہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے چنانچہ:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)کہا:
 ”حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا أبي، حدثنا عاصم وهو ابن محمد بن زيد، عن زيد بن محمد، عن نافع، قال: جاء عبد الله بن عمر إلى عبد الله بن مطيع حين كان من أمر الحرة ما كان، زمن يزيد بن معاوية، فقال: اطرحوا لأبي عبد الرحمن وسادة، فقال: إني لم آتك لأجلس، أتيتك لأحدثك حديثا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوله: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من خلع يدا من طاعة، لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة، مات ميتة جاهلية“ 
 ”نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ واقعہ حرہ کے وقت جو یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں ہوا عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے تو ابن مطیع نے کہا ابوعبدالرحمن کے لئے غالیچہ بچھاؤ تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کو ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ سے سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اسکی گردن میں کسی کی بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا“ [صحيح مسلم 3/ 1478 رقم 1851]

اگر ابن مطیع کی پاس کوئی مضبوط دلیل ہوتی تو وہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو ضرور بتاتے کیونکہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ انہیں باغی بتلارہے تھے نیز انہیں جاہلیت کی موت والی حدیث کا مصداق بتلارہے تھے۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ روایت بالکل صحیح سند سے ثابت ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یزید بن معاویہ سنت کے پاسدار ، علم وخیر کے متلاشی اور نماز کے پابند تھے ۔
اسی طرح اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یزید پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرنا اور اس کے محاسن بیان کرنا سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے کیوں کہ محمدبن الحنفیہ نے یزید کے محاسن کا تذکرہ کیا ہے اور یزید پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔

No comments:

Post a Comment