کیانبی ﷺ نےابن عمر کےطلاق حیض کوشمارکرنےکاحکم دیا؟ - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-07-30

کیانبی ﷺ نےابن عمر کےطلاق حیض کوشمارکرنےکاحکم دیا؟


چوتھی روایت: عامر شعبی کی مرسل روایت
کیا نبی ﷺ نےابن عمر کےطلاق حیض کوشمارکرنےکاحکم دیا؟
(کفایت اللہ سنابلی​)
✿ ✿ ✿ 
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
”نا عثمان بن أحمد الدقاق , نا الحسن بن سلام , نا محمد بن سابق , نا شيبان , عن فراس , عن الشعبي , قال: طلق ابن عمر امرأته واحدة وهي حائض فانطلق عمر إلى رسول الله ﷺ فأخبره , فأمره «أن يراجعها ثم يستقبل الطلاق في عدتها وتحتسب بهذه التطليقة التي طلق أول مرة»“ 
 ”عامر الشعبی بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس گئے اور آپ کو یہ خبر دی تو آپ ﷺنے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو واپس لیں پھر اس کی عدت میں طلاق دیں اور یہ جو پہلی بار انہوں نے طلاق دی ہے اسے شمار کیا جائے گا“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 22 رقم 3918 ، واخرجہ ایضا البيهقي فی السنن الكبرى 7/ 534 رقم 14926من طریق محمد بن سابق بہ ]

یہ روایت واضح طور پر ضعیف ہے کیونکہ ”عامر شعبی“ یہاں ”ابن عمر رضی اللہ عنہ“ کے واسطے سے کوئی روایت بیان نہیں کررہے ہیں بلکہ براہ راست ابن عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کررہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ان کے دور کا نہیں ہے اس لئے ان کی بیان کردہ یہ روایت مرسل ہے ۔

 ✿ علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”إلا أن الحديث مرسل، فإن الشعبي تابعي لم يدرك القصة“ 
 ”مگر یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ شعبی تابعی ہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ان کے دور کا نہیں ہے“ [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 689]

 ✿ علامہ البانی کے شاگرد أبو بكر رعد بن عبد العزيز حسين بكر النعيمي لکھتے ہیں:
 ”فهو منقطع لان الشعبي لم يرو عن ابن عمر کما قال ابو حاتم ، ويؤيده ان هذه الرواية جاء ت بصيغة الارسال فان الشعبي لم يقل (عن ابن عمر) و انما روي حادثة ابن عمر في زمن الرسول صلي الله عليه وسلم دون ان يخبرمن الذي نقلها اليه“ 
 ”یہ روایت منقطع ہے کیونکہ شعبی کو ابن عمر رضی اللہ عنہ کی شاگردی حاصل نہیں ہے جیساکہ امام ابو حاتم نے کہا ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہ روایت صیغہ ارسال سے ہے کیونکہ شعبی نے یہ نہیں کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے بلکہ عہدرسالت میں پیش آنے والے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو براہ راست خود روایت کردیا بغیر اس وضاحت کے کہ ان کو یہ واقعہ کس نے بتایا“ [النهي يقتضي الفساد بين العلائي وابن تيمية : ص 140]

بلکہ اگر ”عامر شعبی“ براہ راست یہ واقعہ نہ بیان کرتے ہوئے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے (عن ابن عمر ) کہہ کر بھی بیان کرتے تو بھی یہ روایت منقطع ہوتی کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عامرشعبی کا سماع ثابت نہیں بلکہ امام ابوحاتم نے اس کی نفی کی ہے چنانچہ:

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
 ”لم يسمع الشعبي من ابن عمر“ 
 ”عامر شعبی نے ابن عمر سے نہیں سنا“ [المراسيل لابن أبي حاتم ت قوجاني: ص: 160]

 اس واضح ارسال وانقطاع کے باوجود بھی اس روایت کے بار ے میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:
 ”وهذا إسناد صحيح رجاله ثقات على شرط الشيخين“ 
 ”یہ سند صحیح ہے اس کے رجال شیخین کی شرط پر ثقہ ہیں“ [إرواء الغليل للألباني: 7/ 131]

عرض ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ بغیر کسی شبہے کے غلط ہے کیونکہ جب سند منقطع و مرسل ہو تو رجال کے ثقہ ہونے سے سند صحیح نہیں ہوتی خود علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیفات میں جگہ جگہ یہی وضاحت کی ہے ۔
غالبا علامہ البانی رحمہ اللہ اس بات پر دھیان نہیں دے سکے کہ ”عامر شعبی“ اور ”ابن عمر“ اور ان کے واقعہ کے بیچ سند میں انقطاع وارسال ہے بلکہ صرف رجال سند ہی کو دیکھ کر فیصلہ کردیا ۔

اور شاید ان کے علم میں یہ بات بھی نہ تھی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عامرشعبی کا سماع ثابت نہیں ہے جیساکہ امام ابوحاتم نے کہا ہے۔
اتصال اور انقطاع سے متعلق امام ابوحاتم وغیرہ کے بعض اقوال سے عدم واقفیت کی بناپر اور بھی کئی احادیث پر حکم لگانے میں علامہ البانی رحمہ اللہ سے چوک ہوئی ہے۔چنانچہ امام ابوحاتم ہی نے المراسیل (ص 90) میں شریح اور ابو مالک الاشعری کے درمیان انقطاع بتلایا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ اس انقطاع پر آگاہ نہ ہوسکے اور رواة کی ثقاہت کو دیکھتے ہوئے شریح عن ابی مالک والی ایک سند کو صحیح قرار دیا۔ لیکن ایک طالب علم نے جب شیخ البانی رحمہ اللہ کو اس علت سے آگاہ کیااوربتایا کہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے مراسیل میں شریح اور ابومالک کے درمیان انقطاع بتلایا ہے تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے فوراً اسے قبول کرلیااورپوری وضاحت بھی کر دی۔ [دیکھئے: الضعیفة :12 / 731 رقم 1502 من طریق محمد بن سابق بہ]

بہرحال علامہ البانی رحمہ اللہ کا فیصلہ درست نہیں بلکہ حق اور صحیح فیصلہ وہی ہے جو علامہ معلمی رحمہ اللہ نے کیا ہے یعنی یہ روایت منقطع ومرسل ہونے کے سبب ضعیف و مردود ہے۔

واضح رہے کہ یہ روایت ضعیف سندا ہے اور اس کے آخری الفاظ ”وتحتسب بهذه التطليقة التي طلق أول مرة“ ”اور یہ جو پہلی بار انہوں نے طلاق دی ہے اسے شمار کیا جائے گا“ یہ اس روایت میں مرفوعا منقول نہیں ہیں بلکہ یہ عامر شعبی کا اپنا قول ہے، جیسا کہ سیاق سے ظاہر ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ سے ایک تسامح تو یہ ہوا کہ انہوں نے اس منقطع روایت کو متصل سمجھ لیا اور دوسرا سہو یہ ہوا کہ انہوں نے روایت کے ان آخری الفاظ کو مرفوع سمجھ لیا ، جبکہ یہ موقوف ہی ہیں ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اس جملہ میں ”تحتسب“ مجہول کے ساتھ ہے ، جبکہ اس سےپہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حکم منقول ہے اس میں ” ثم يستقبل“ فعل معروف کے ساتھ ہے۔ یہ دلیل ہے کہ ”تحتسب“  ولا جملہ یہ جملہ مستانفہ ہیں جو ماقبل سے منفصل ہے اور عامرشعبی کا کلام ہے۔

اگلا حصہ

1 comment:

  1. جزاکم اللّٰہ خیرا کثیرا واحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ

    ReplyDelete