کیا ”صحیح بخاری“ میں ”ابن عباس رضی اللہ عنہ“ کی روایت میں تیرہ رکعات ”صلاۃ الیل“ کا بیان ہے؟ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-01

کیا ”صحیح بخاری“ میں ”ابن عباس رضی اللہ عنہ“ کی روایت میں تیرہ رکعات ”صلاۃ الیل“ کا بیان ہے؟


کیا ”صحیح بخاری“ میں ”ابن عباس رضی اللہ عنہ“ کی روایت میں تیرہ رکعات ”صلاۃ الیل“ کا بیان ہے؟
تحریر: کفایت اللہ سنابلی
.
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے اندر تیرہ رکعات صلاۃ اللیل کا ذکر ہے لیکن درست نہیں ہے تفصیل ملاحظہ ہو:
✿ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”حدثنا سعيد بن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، قال: أخبرني شريك بن عبد الله بن أبي نمر، عن كريب، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: بت عند خالتي ميمونة، فتحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم مع أهله ساعة، ثم رقد، فلما كان ثلث الليل الآخر، قعد فنظر إلى السماء، فقال: {إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب}، ثم «قام فتوضأ واستن فصلى إحدى عشرة ركعة»، ثم أذن بلال، «فصلى ركعتين ثم خرج فصلى الصبح»“ 
 ”ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا کہ مجھے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے خبر دی، انہیں کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` میں ایک رات اپنی خالہ (ام المؤمنین) میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہ گیا۔ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی (میمونہ رضی اللہ عنہا) کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات چیت کی پھر سو گئے۔ جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہا تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف نظر کی اور یہ آیت تلاوت کی «إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب‏» ”بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور دن و رات کے مختلف ہونے میں عقلمندوں کے لیے (بڑی) نشانیاں ہیں۔“ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور مسواک کی، پھر گیارہ رکعتیں پڑھیں۔ جب بلال رضی اللہ عنہ نے (فجر کی) اذان دی تو آپ نے دو رکعت (فجر کی سنت) پڑھی اور باہر مسجد میں تشریف لائے اور فجر کی نماز پڑھائی“ [صحيح البخاري 6/ 41 رقم 4569]
.
اس حدیث کو بغور پڑھیں اور دیکھیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ میں پوری صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی تعداد گیارہ رکعات بتلائی ہیں جیساکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی یہی تعداد بتلائی ۔
✿ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی واقعہ دوسری احادیث میں منقول ہے اور اس میں رکعات کی تعداد تیرہ بتلائی گئی ہے، چنانچہ:
 ”حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك بن أنس، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب، أن ابن عباس أخبره: أنه بات عند ميمونة وهي خالته فاضطجعت في عرض وسادة «واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله في طولها، فنام حتى انتصف الليل - أو قريبا منه - فاستيقظ يمسح النوم عن وجهه، ثم قرأ عشر آيات من آل عمران، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شن معلقة، فتوضأ، فأحسن الوضوء، ثم قام يصلي»، فصنعت مثله، فقمت إلى جنبه، «فوضع يده اليمنى على رأسي وأخذ بأذني يفتلها، ثم صلى ركعتين، ثم ركعتين ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم أوتر، ثم اضطجع حتى جاءه المؤذن، فقام، فصلى ركعتين، ثم خرج، فصلى الصبح»“ 
 ”ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ` آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے (آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) میں تکیہ کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی“ [صحيح البخاري 2/ 24 رقم 992]
.
ملاحظہ فرمائیں دونوں احادیث کو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد کریب نے ہی یبان کیا ہے اور دونوں میں رات گذارنے کا واقعہ ہے اس حدیث کے تمام طریق کو جمع کرنے کے بعد بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”والحاصل أن قصة مبيت بن عباس يغلب على الظن عدم تعددها“ 
 ”حاصل بحث یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے رات گذارنے کے واقعہ سے متعلق غالب ظن یہی ہے کہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 2/ 484]
.
لہٰذا جب ایک ہی واقعہ ہے کہ تو ایک ساتھ گیارہ رکعات یا تیرہ رکعات دونوں کی تعداد صحیح نہیں ہوسکتی اس لئے تطبیق دینا لازم ہے اور تطبیق کی صرف یہی صورت ہے کہ تیرہ رکعات والی حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سنت عشاء کو بھی شامل کرکے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خوب بحث و تحقیق کے بعد بالآخر یہی رائے دی ہے کہ :
 ”والمحقق من عدد صلاته في تلك الليلة إحدى عشرة وأما رواية ثلاث عشرة فيحتمل أن يكون منها سنة العشاء“ 
 ”اور محقق بات یہی ہے کہ اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی تعداد گیارہ رکعات ہی تھی اور جس روایت میں تیرہ رکعات کا بیان ہے اس میں احتمال ہے کہ سنت عشاء کو بھی شامل کرکے بیان کیا گیا ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 2/ 484]
.
✿ بلکہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان رکعات میں سنت عشاء کو بھی شامل کیا تھا چنانچہ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ”حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا الحكم، قال: سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: بت في بيت خالتي ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم وكان النبي صلى الله عليه وسلم عندها في ليلتها، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم العشاء، ثم جاء إلى منزله، فصلى أربع ركعات، ثم نام، ثم قام، ثم قال: «نام الغليم» أو كلمة تشبهها، ثم قام، فقمت عن يساره، فجعلني عن يمينه، فصلى خمس ركعات، ثم صلى ركعتين، ثم نام، حتى سمعت غطيطه أو خطيطه، ثم خرج إلى الصلاة“ 
 ”ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان کو حکم نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ` ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی، پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے“ [صحيح البخاري 1/ 34 رقم 117]
اس روایت میں غور کریں کہ عشاء کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پہنچتے ہی ابن عباس رضی اللہ عنہ چار رکعات پڑھنا بیان کررہے ہیں جو صاف دلیل ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیان کردہ تعداد میں سنت عشاء کو بھی شامل کیا ہے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ بخاری کی اس روایت میں کل چار اور پھر پانچ یعنی کل نو رکعات کا ذکر ہے ، اور اس نو میں بھی شروع کی دو رکعات سنت تھی، تو اصل قیام کی کل تعداد صرف سات ہوتی ہے !
توعرض ہے کہ اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد سعید بن جبیر نے یا ان سے نیچے کسی راوی نے صرف ابتداء کی چار رکعات بشمول سنت عشاء بیان کی ہے اور پھر آخر میں خاص وترکی پانچ رکعات بیان کردی ہے اور اختصار کرتے ہوئے بیچ کی چار رکعات کا ذکر نہیں کیا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ خود سعید بن جبیر نے ہی دوسری روایت میں درمیاں کی چار رکعات بھی بیان کردی ہے چنانچہ
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
 ”أخبرني محمد بن علي بن ميمون قال نا القعنبي قال ثنا عبد العزيز وهو بن محمد الدراوردي عن عبد المجيد عن يحيى بن عباد عن سعيد بن جبير أن بن عباس حدثه : أن عباس بن عبد المطلب بعثه في حاجة له إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم وكانت ميمونة ابنة الحارث خالة بن عباس فدخل عليها فوجد رسول الله صلى الله عليه و سلم في المسجد قال بن عباس فاضطجعت في حجرتها وجعلت أحصي كم يصلي رسول الله صلى الله عليه و سلم فجاء وأنا مضطجع في الحجرة بعد أن ذهب الليل فقال أرقد الوليد قال فتناول ملحفة على ميمونة فارتدى ببعضها وعليها بعض ثم قام فصلى ركعتين ركعتين حتى صلى ثماني ركعات ثم أوتر بخمس۔۔۔الخ“ 
 ”سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک ضرورت کے تحت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے لیکن اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہاپھر میں ان کے کمرے میں لیٹ گیا اور ارادہ کیا کہ میں گنوں گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعات پڑھتے ہیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لائے اور میں کمرے میں لیٹا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کا بچہ سوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میمونہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ لحاف میں سوگئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے پھر دو دو رکعات یعنی چار رکعات پڑھیں یہاں تک کہ کل آٹھ رکعات ہوگئیں (یعنی گھرآتے ہی پہلے جو چار پڑھ چکے تھے ان کے ساتھ یہ کل آٹھ رکعات ہوئیں)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعات وتر پڑھیں۔۔الخ“ [سنن النسائي الكبرى 1/ 424 رقم 1342 واسنادہ صحیح]
اس روایت میں غور کریں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سعیدبن جبیر ہی کی روایت میں پانچ رکعات وترسے قبل آٹھ رکعات کا بیان ہے، یعنی مذکورہ روایت میں درمیان کی جن چار رکعات کا ذکر نہیں تھا اس کا ذکر اس روایت میں آگیا ہے، جو دلیل ہے کہ مذکورہ روایت میں اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف ابتداء کی چار رکعات اور آخر کی پانچ رکعات وتر کا ذکر ہے، اور درمیان کی مزید چار رکعات کا ذکر نہیں ہے ۔
جہاں تک اس آخری روایت( سنن النسائي الكبرى 1342) کے سیاق کی بات ہے تو اس سیاق میں بھی پہلی روایت (صحيح البخاري 117)کے سیاق کی کوئی صریح مخالفت نہیں ہے کیونکہ اس آخری روایت کی توجیہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آتے ہی عشاء بعد فورا ان چار رکعات کا تفصیلا ذکر نہیں ہے، جس کا بیان اوپر کی حدیث میں ہے؛ لیکن رات میں اٹھنے کے بعد چار رکعات کا ذکر ہے اور پھر مجموعی تعداد آٹھ بتا دی گئی ، جس کا مطلب یہ نکلا کہ اس سےقبل کی چار رکعات کو شامل کرکے کل آٹھ رکعات کی تعداد بتائی گئی ، اس کے بعد پانچ رکعت وتر کا بیان ہوا۔
اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اوپر والی حدیث یعنی سعیدبن جبیر کی صحیح بخاری والی حدیث میں چار رکعت کی ادائیگی کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پوچھا کہ نام الغليم ؟ یعنی کیا یہ بچہ سوگیا ؟
جبکہ اس دوسری روایت یعنی سنن نسائی والی روایت میں بھی یہ سوال ان الفاظ میں ہے : أرقد الوليد ؟ کیا بچہ سوگیا ؟ لیکن اس سوال سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے اورچاررکعت نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے جس کا مطلب یہ نکلا کہ اس روایت میں شروع کی چار رکعات کا تفصیلا ذکر نہیں ہے، لیکن درمیان کی چار رکعات ذکر کرتے وقت شروع کی چار رکعات بھی شمار کی گئی ہیں ۔
.
 ✿ الغرض یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کی دونوں روایات کو ملا کر نتیجہ یہ نکلا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں بعض دفعہ عشاء کے بعد کی سنت کو بھی شمار کیا ہے اس لئے کل تیرہ رکعات کی تعداد بتلائی ہے ۔
اور جس روایت میں عشاء کی سنت کو شمار نہیں کیا اس میں کل گیارہ رکعات کی تعداد بتلائی ہے ، اس طرح نہ صرف یہ کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تمام روایات میں تطبیق ہوجاتی ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اماں عائشہ رضی اللہ عنہ ہی کی طرح اصل صلاۃ اللیل کی کل گیارہ کی تعداد ہی بیان کی ہے۔
رہی بات یہ کہ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کریب کی جو دوسری روایت ہے جس میں تیرہ رکعات کا ذکر ہے اس کا سیاق کہتا ہے کہ ساری رکعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھی رات کے بعد ایک ساتھ اداکی تھیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ساری رکعات آدھی رات کی بعد پڑھی گئی ہیں اور آدھی رات کے بعد پڑھی جانے والی رکعات میں سنت عشاء کی شمولیت بعید ہے ۔
تو عرض ہے کہ یہ سیاق اس دلالت پر صریح نہیں ہے جبکہ دوسری طرف ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد سعیدبن جبیر کی روایت صحیح بخاری ہی سے اوپر درج کی جاچکی ہے جس میں پوری صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد گھر آتے ہی چار رکعات پڑھ کر سوگئے تھے اور جب دوبارہ بیدار ہوئے تھے تو باقی ماندہ رکعات ہی پڑھی تھیں ۔
لہٰذا اس صریح روایت کے ہوتے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کریب والی مجمل روایت کا یہی مفہوم طے ہوگا کہ اس میں اختصار کرتے ہوئے اجمالا ایک ساتھ ہی ساری رکعات کا ذکرکردیا گیا ہے ،چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
 ”فيمكن أن يحمل قوله صلى ركعتين ثم ركعتين أي قبل أن ينام ويكون منها سنة العشاء وقوله ثم ركعتين إلخ أي بعد أن قام“ 
 ”ممکن ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پہلے جو دو دو رکعت (یعنی چار رکعات) بیان کیا ہے، اسے سونے سے قبل کے وقت پر محمول کیا جائے جس میں سنت عشاء کا بھی بیان ہے، اور آگے جو دو دو رکعت کا بیان ہے (یعنی بقیہ نو رکعات تو) اسے سونے کے بعد کے وقت پر محمول کیا جائے“ [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 2/ 484]
.
یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ وقت میں یہ رکعات پڑھی تھیں لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک روایت میں ایک ساتھ آخر میں بیان کردیا ہے ۔
اس توجیہ سے الحمدللہ یہ اشکال جڑ سے ختم ہوجاتا ہے کہ آدھی رات کے بعد پڑھی جانی والی رکعات میں سنت عشاء کیسے شامل کرسکتے ہیں ۔کیونکہ ابتدائی چار رکعات آدھی رات سے قبل ہی پڑھی گئی تھیں لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں ساری رکعات کو ایک ساتھ مجملا بیان کردیا ہے ۔
تاہم اگر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھی رات کے بعد ہی سنت عشاء پڑھی تھی تو بھی اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔کیونکہ صحیحین ہی کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کے بعد کی سنت عصر کے بعد پڑھی ہے دیکھئے صحیح بخاری رقم (1233) صحیح مسلم رقم (834)۔
لہٰذا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار ظہر کے بعد کی سنت عصرکے بعد ادا کرسکتے ہیں تو عشاء کے بعد کی سنت آدھی رات کے بعد کیوں نہیں پڑھ سکتے ؟
اس تفصیل سے بعض حضرات مثلا طاہر گیاوی صاحب (العدد الصحیح ص 25) کے اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی کہ آدھی رات کے بعد سنت عشاء کیسے پڑھی جاسکتی ہے۔
.
خلاصہ کلام :
یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ اللیل کی تعداد گیارہ رکعات ہی بتلائی جیساکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی بیان ہے۔ 
.
.

4 comments:

  1. مجھے شیخ السنابلی حفظہ اللہ من کل سوء سے اللہ کے لیے محبت ہے۔

    ReplyDelete
  2. آپ کی محبت کا بہت بہت شکریہ
    أحبك ‌الله الذي أحببتني له

    ReplyDelete
    Replies
    1. ماشاءاللہ
      شیخ محترم اللہ آپ کو جزاء خیر دے آپ نے بہت ہی علمی گفتگو اپنی اس تحریر میں کی ہے ۔مجھے امید ہے کہ اس تحریر کےبعد معترضین کے اعتراض دھرے کے دھرےرہ جائیں گے ان شاء اللہ

      Delete
  3. جزاکم اللہ خیرا

    ReplyDelete