ایام قربانی اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-08-09

ایام قربانی اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم

ایام قربانی اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم 
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿ 
دین اسلام ، اللہ کے نبی ﷺ کے دور میں مکمل ہوچکا ہے، اللہ کے نبی ﷺ کی وفات کے بعد اہل علم اپنے فہم و تدبر سے دین کی تشریح وتعبیرتو کرسکتے ہیں لیکن دین سازی ہرگز نہیں کرسکتے۔
لہٰذا عہد رسالت کے بعد کسی امتی کا کوئی قول جو اصل دلیل کتاب وسنت یعنی وحی سے خالی ہو وہ دین ہو ہی نہیں سکتا ، اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس قول کے قائل کے پاس دلیل تو ہوگی لیکن بعد میں مفقود ہوگئی کیونکہ دین کا کوئی حصہ مفقود نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اللہ تعالی نے اپنے دین کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔لہٰذا دلیل سے خالی اس طرح کے اقوال کو زیادہ سے زیادہ اجتہادی آراء کہہ سکتے ہیں لیکن انہیں دین کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔
سخت حیرت کی بات کہ کچھ لوگ ایام قربانی کے بارے میں یہ اعتراف کرتے ہیں قرآن وحدیث حتی کہ اجماع سے بھی اس بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے پھر اس اعتراف کے بعد وہ صحابہ کے مختلف فیہ اقوال میں سے صرف ایک قول لیکر اسے ہی دین باور کراتے ہیں حالانکہ اگر ان کے اعتراف کے مطابق ایام قربانی کے بارے میں کتاب وسنت یعنی اصل دین (وحی) سے کوئی دلیل نہیں ہے تو پھراس بارے میں کسی کا قول اصل دلیل کتاب وسنت یعنی (وحی) سے خالی ہونے کے سبب دین بن ہی نہیں سکتا۔
مزید یہ کہ اس مسئلہ میں اختلاف مسلم ہےاور کسی مسئلہ میں اختلاف کی صورت میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ اسے کتاب وسنت کی طرف پلٹاو یعنی اختلاف کی صورت میں صرف وہی بات معتبر ہوگی جوبراہ راست قرآن وحدیث سے ہی معلوم ہو۔
لہٰذا کوئی ایسا قول جس کے بارے میں یہ مسلم ہو کہ وہ متفق علیہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن یا حدیث سے وہ ثابت بھی نہیں ہے تووہ قول دین ہرگزنہیں بن سکتا۔
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456)نے اس بات كي تصديق كرتے ہوئےكہا:
”فلا توجد شريعة باختلاف لا نص فيه“ 
 ”جس مسئلہ میں اختلاف ہو اور نص نہ ہو تو وہ مسئلہ شریعت نہیں بن سکتا“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 6/ 42]
ایام قربانی سے متعلق صرف تین دن والے قول کی یہی حیثیت ہے کیونکہ حصر کے ساتھ صرف تین دن کا قول نہ قرآن سے ثابت ہے نہ کسی صحیح حدیث سے حتی کہ کسی ضعیف یا من گھڑت حدیث میں بھی اس کا سراغ نہیں ملتا۔بس صرف ایک صحابی قول ہےاور اس سے بھی دوسرے صحابہ کا اختلاف موجود ہے۔

 ایام قربانی اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم :
اس وقت مسند کتب احادیث کا جو ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے اس میں صحابہ کے حوالے سے صحیح سند کے ساتھ صرف اور صرف دو روایت ملتی ہے ۔اوران دونوں روایات سے ظاہر یہی ہے کہ ان صحابہ کے موقف کی بنیاد قرآن یا حدیث کی کوئی صریح نص نہیں ہے۔پہلی روایت یعنی تین دن والے قول کا تو قربانی والے کسی نص سے دور دور تک کوئی ادنی تعلق بھی نہیں ہے البتہ دوسری روایت میں مذکور موقف کا قربانی والے نصوص سے کچھ نہ کچھ تعلق ہے اسی لئے امام ابن حزم نے اس قول کو اختیار کرتے ہوئے کہا ہے:
 ”والنص يجيز قولنا على ما نأتي به بعد هذا إن شاء الله تعالى“ 
 ”اورنص سے ہمارے قول کی گنجائش نکلتی ہے جیساکہ ہم آگے بیان کریں گے ان شاء اللہ“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 6/ 42]

دراصل خاص عیدالاضحی کے دن قربانی سے متعلق متعدد احادیث موجود ہیں لیکن ان احادیث میں حصر کا مفہوم نہیں ہے کہ یہ قربانی صرف اور صرف یوم النحر ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اس لئے مذکورہ صحابہ نے قربانی کے حکم کو محض عید الاضحی ہی کے دن تک محصور نہیں مانا ہے بلکہ اس میں وسعت کا معنی سمجھا ہے لیکن اس وسعت کی حد کیا ہوگی اس سلسلے میں ان صحابہ کے سامنے کوئی واضح نص نہ تھی اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ وسعت تین دن تک بتلائی ،غالبا ان کے پیش نظر یہ بات رہی ہوگی کہ دیگر کئی مقامات پربعض معاملات میں تین کی عدد ہی زیادہ عام ہے اس لئے یہ وسعت تین دن سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے ۔مثلا ولیمہ ہی کا مسئلہ دیکھ لیں اس میں کھانے کھلانے ہی کی بات ہے مگر اس کی مدت تین ایام ہی بتلائی گئی ہے دیکھیں: [آداب الزفاف للالبانی:ص: 146]
جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ کی ایک جماعت نے وسعت کی تحدید میں کوئی نص نہ پانے کے سبب اسے یوم النحر کے بعد پورے ماہ ذی الحجہ تک عام رکھاہے کیونکہ اسی ماہ کی دسویں تاریخ کو اس کاحکم ہے اور کوئی تحدید وارد نہیں ہے اس لئے پورے ماہ تک یہ جائز ہے ، بعض صحابہ کے ساتھ بعد کے بعض اہل علم نے بھی یہی موقف اختیار کیا اورابن الحزم رحمہ اللہ نے بھی اپنی یہی رائے دی ہے، اورمعاصرین میں سے بھی بعض اہل علم کی یہی رائے ہے۔
اب ان دونوں موقف سے متعلق صحابہ کے آثار ملاحظہ ہوں:

① ابن عمر رضی اللہ عنہ 
نافع کی روایت کے مطابق ان کا قول یہ ہے کہ قربانی تین دن ہے [موطأ مالك ت الأعظمي:3/ 695 وإسناده صحيح]
اور نافع رحمہ اللہ ہی کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
”سأل أبو سلمة عبد الله بن عمر رضى الله عنهما بعد النحر بيوم فقال : إنى بدا لى أن أضحى فقال ابن عمر رضى الله عنهما : من شاء فليضح اليوم ثم غدا إن شاء الله“ 
”نافع کہتے ہیں کہ ابوسلمہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عیدالاضحی کے ایک دن بعد پوچھا: میرا خیال ہے کہ میں (آج بھی) قربانی کروں؟ توابن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جو چاہے وہ آج بھی قربانی کرلے اور کل بھی ان شاء اللہ“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 9/ 297 رقم 19729 واسنادہ صحیح]
اس روایت سے پتہ چلتاہے کہ بوقت سوال ابوسلمہ رحمہ اللہ یوم النحر کے بعد بھی قربانی کے سلسلے میں کوئی واضح نص نہیں جانتے تھے مگر یوم النحر میں قربانی سے متعلق احادیث میں یہ وسعت سمجھتے تھے کے یوم النحر کے بعد بھی اس کی گنجائش ہے جس کی بناپر انہوں نے دوسرے دن بھی قربانی کرنے کا ارادہ کیا اور اس پر مزید اطمینان حاصل کرنے کے لئے انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا جس پر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے اس وسعت کو دوسرے دن کے ساتھ تین دن تک مانا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ”ان شاء اللہ“ کے ساتھ جواب دیا ہے، جواس بات کی دلیل ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فتویٰ صریح نص کی بنیاد پر نہ تھا، بلکہ ان کا اپنا اجتہاد تھا .
یہیں سے بعض حضرات کے اس قول کی بھی زبردست تردید ہوجاتی ہے جسے انھوں نے امام طحاوی رحمہ اللہ سے نقل کر رکھا ہے:
”فإن مثلہ لا یقال من جہۃ الرأي فدل أنہ توقیف“
”اس طرح کی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی، لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات توقیفی ہے“ [مختصر اختلاف العلماء 3/ 218]
لطف کی بات یہ ہے کہ حافظ زبیر علی زئی صاحب نے بھی اعتراف کیا ہے کہ بعض صحابہ کا موقف پورے ماہ ذی الحجہ تک قربانی کرنے کا تھا، چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں: 
”ان کے مقابلے میں صرف سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے آخری ذوالحجہ تک قربانی کرنے کا قول آیا ہے، السنن الکبریٰ للبیہقي (9/ 297۔ 298) وسندہ صحیح “ [مقالات 4/ 340]
اب سوال یہ ہے کہ کیا ”سیدنا ابوامامہ بن سہل بن حنیف  رضی اللہ  عنہ “ کی یہ بات بھی رائے سے نہیں کہی جاسکتی، لہٰذا یہ بھی توقیفی ہے؟! اگر ایسا نہیں ہے پھر تین دن والا قول توقیفی کیونکر ہوسکتاہے؟
صحیح بات یہ ہے کہ تین دن کا موقف ہو یا پورے ماہ والا، یہ سب اجتہاد ہی پر مبنی ہے۔ نیز ”سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف  رضی اللہ  عنہ “ کی روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام طحاوی کا یہ کہنا بھی غلط ہے:
”ولم یرو عن غیرہم من الصحابۃ خلافہ“ 
”اور ان صحابہ کے خلاف دوسرے صحابہ سے کچھ مروی نہیں ہے “[مختصر اختلاف العلماء 3/ 218]
حیرت ہے کہ حافظ زبیر علی زئی صاحب کے بعض متوسلین نے امام طحاوی سے یہ بات بھی نقل کر دی، لیکن یہ بھول گئے کہ خود ان کے استاد حافظ زبیر علی زئی صاحب بھی تین دن قربانی والا موقف تمام صحابہ کا نہیں بلکہ جمہور صحابہ کا مانتے تھے، چنانچہ حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اس بابت اپنے مضمون کا عنوان ہی یہ قائم کیا ہے: 
 ”جمہور صحابہ کرام اور ایامِ قربانی “ 
پھر اس عنوان کے تحت بعض صحابہ کرام رضی اللہ  عنہم  کے آثار پیش کرنے کے بعد، ان کے خلاف ”سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ  عنہ “ کا قول پیش کرتے ہوئے کہا: 
”ان کے مقابلے میں صرف سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ  عنہ  سے آخری ذوالحجہ تک قربانی کرنے کا قول آیا ہے، السنن الکبریٰ للبیہقي (9/ 297۔ 298) وسندہ صحیح “ [مقالات 4/ 340]
الغرض تین دن قربانی والا موقف نہ توقیفی ہے اور نہ ہی اجماعی ہے۔ 

② صحابہ کی ایک جماعت 
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
”أخبرنا أبو حامد أحمد بن على الحافظ أخبرنا زاهر بن أحمد حدثنا أبو بكر النيسابورى حدثنا محمد بن إبراهيم بن مسلم حدثنا معلى بن منصور حدثنا عباد بن العوام حدثنا يحيى بن سعيد قال سمعت أبا أمامة بن سهل بن حنيف يقول : إن كان المسلمون يشترى أحدهم الأضحية فيسمنها فيذبحها بعد الأضحى آخر ذى الحجة“ 
” ابوامامہ بن سہل رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ : مسلمان قربانی کے جانوروں کو خریدتے اوراسے (کھلا پلا کر) موٹا تازہ کرتے پھر عیدالاضحی کے بعد سے لیکر ذی الحجہ کی آخری تاریخ تک قربانی کرتے رہتے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 9/ 297 رقم 19734 وإسناده صحيح، وأخرجه أيضا أبو نعيم في مستخرجه على صحيح البخاري كما في (تغليق التعليق لابن حجر: 5/ 6)من طريق أحمد بن حنبل عن عباد بن العوام به، وعلقه البخاري بصيغة الجزم في صحيحه (7/ 100) مختصرا]

اس روایت کے مطابق  ابوامامہ بن سہل رضي الله عنه نے اپنے دور کے مسلمانوں کا عمل پیش کیا ہے کہ یہ لوگ عید الاضحی کے بعد پورے ماہ تک قربانی کرتے تھے، لہٰذا یہ صرف کسی ایک کا عمل نہیں ، بلکہ ایک جماعت کا عمل ہے ، چنانچہ یہ ایسے ہی ہے جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:
 ”کان المؤمنون یفر أحدہم بدینہ إلی اللہ تعالی، وإلی رسولہ ﷺ، مخافۃ أن یفتن علیہ، فأما الیوم فقد أظہر اللہ الإسلام، والیوم یعبد ربہ حیث شاء، ولکن جہاد ونیۃ“ 
 ”ایک وقت تھا جب مسلمان اپنے دین کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف عہد کر کے آتے تھے اس خطرے کی وجہ سے کہ کہیں وہ فتنے میں نہ پڑ جائے، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا ہے اور آج (سر زمین عرب میں) انسان جہاں بھی چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے، البتہ جہاد اور نیت باقی ہے“ [صحیح بخاری رقم 3900]

یادرہے کہ ابو امامہ کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے تاہم ان کی پیدائش اللہ کے نبی ﷺ کی حیات میں ہوئی اور پیدائش کے بعد یہ اللہ کے نبی ﷺ کے پاس لائے گئے اور اللہ کے نبی ﷺ نے ان کی تحنیک کی اوران کا نام رکھا ۔[معجم الصحابة للبغوي 1/ 94 وإسناده صحيح وصححه ابن حجر في التهذيب ط الهند: 1/ 265]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول امام ابن مندہ(المتوفى 395 ) نے امام أبو بكر بن أبي داود رحمہ اللہ ( سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا : ابوامامہ نے اللہ کے نبی ﷺ سے بیعت کیا اور آپ کی صحبت اختیار کی[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 1/ 265 والظاهر أنه نقله من كتابه معرفة الصحابة لابن منده]
لیکن اس بات کی صحیح سند نہیں مل سکی اگر مل جائے تو ان کا صحابی ہونا صراحتا ثابت ہوجائے گا۔
ليكن کئی محدثین نے ان کو صحابہ میں شمار کیا ہے مثلا ابو بكر بن ابي داود ، ابو منصور الباوردي ،  الدولابي، وابن حبان ، جعابي  اور ابن القیم  رحمہم اللہ نے انہیں صحابی شمار کیا ہے۔
تین دن قربانی کے قائلین کے پیشوا زبیرعلی زئی صاحب کے اصول سے یہ صحابی ہیں بلکہ موصوف نے صراحتا ان کو ”سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ صحابی صغیر“ لکھا ہے۔دیکھئے:[مقالات: ج 3 ص: 261]
بہرحال اس روایت میں انہوں نے بغیر کسی رد وقدح کے مذکورہ بات کو بیان کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ان کا موقف بھی یہی ہے ۔نیز ان کے الفاظ ”المسلمون“ میں ان کے دور کے صحابہ شامل بدرجہ اولی شامل ہیں ۔
 معلوم ہوا کہ یہ موقف ابوامامہ رحمہ اللہ سمیت دیگر کئی صحابہ حضرات کا بھی تھا ۔یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فتوی کے مقابل میں صحابہ کی اس جماعت کا موقف یہ تھا کہ قربانی کا حکم صرف یوم النحر ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تخصیص وتحدید کی دلیل نہ ہونے کے سبب اس ماہ کے اخیر تک یہ عمل انجام دیا جاسکتاہے۔
اگر اس مسئلہ سے متعلق صریح حدیث کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر قرآنی آیات کی تفسیر میں صحابہ کا اختلاف ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مؤخرالذکر قول ہی قابل ترجیح ہوگا کیونکہ خیرالقرون کے صحابہ وتابعین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے نیز کسی حد تک یہ موقف قربانی والی نص سے تعلق رکھتا ہے اس طرح کہ جب شارع کی طرف سے عدم تحدید ہو تو پھر امتیوں کی طرف سے تحدید نہیں کی جاسکتی، امام ابن حزم فرماتے ہیں:
 ”فلم يخص تعالى وقتا من وقت ولا رسوله - عليه السلام -، فلا يجوز تخصيص وقت بغير نص، فالتقريب إلى الله تعالى بالتضحية حسن ما لم يمنع منه نص أو إجماع، ولا نص في ذلك ولا إجماع إلى آخر ذي الحجة“ 
 ”اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لئے کسی وقت کو خاص نہیں کیا ہے اس لئے بغیر نص کے اس کی تخصیص جائز نہیں ہے پس قربانی کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کرنا بہتر ہوگا جب تک کہ نص یا اجماع اس کے مانع نہ ہو اور ذی الحجہ کے آخری دن تک قربانی سے مانع نہ تو کوئی نص ہے اور نہ ہی کوئی اجماع“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 6/ 42]

عصر حاضر میں صحیح مسلم ، سنن نسائی اور سنن اربعہ وغیرہ کے شارح اور مختلف علوم کے ماہر شیخ محمد بن علي بن آدم الإثيوبي نے بھی اسی قول کو اپنایا ہے لکھتے ہیں:
 ”والحاصل أن الحقّ جواز التضحية إلى آخر ذي الحجة. والله تعالى أعلم“ 
 ”حاصل کلام یہ کہ حق بات یہی ہے کہ ذی الحجہ کے آخری دن تک قربانی کرنا جائز ہے ،والله تعالى أعلم“ [ذخيرة العقبى في شرح المجتبى:33/ 343]

لیکن صحیح حدیث میں چاردن کی تحدید موجود ہے جس کا علم مذکورہ صحابہ وتابعین اسی طرح ابن حزم رحمہ اللہ کو نہیں ہوسکا جس کے سبب ان لوگوں نے قربانی کے حکم کو ذی الحجہ کے اخیرتک عام مانا۔

بعض حضرات ایام قربانی سے متعلق صریح نص حدیث کو بے بنیاد علتوں اور بے کار بہانوں کا سہارا لیکر رد کرتے ہیں ہم ایسے لوگوں کی مکرر اور سہ کرر تردید کرچکے ہیں ۔لیکن اگر کوئی اب بھی بضد ہو کہ ایام قربانی سے متعلق صریح نص ثابت نہیں ہے تو پھر ان حضرات کو تین دن قربانی والے موقف کے بالمقابل ابوامامہ رحمہ اللہ کی روایت میں مذکور موقف ہی کو ترجیح دینا چاہئے کیونکہ اس کا قربانی سے متعلق نص سے کچھ نہ کچھ تعلق ہے نیز صحابہ میں اسی موقف کے حاملین کی تعداد زیادہ کیونکہ ابوامامہ رحمہ اللہ نے مسلمانوں کی جماعت کی طرف یہ موقف منسوب کیا ہے جس میں متعدد صحابہ کا شامل ہونا بلکل واضح ہے۔لہٰذا صحابہ کی ایک جماعت کے بالمقابل تنہا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح نہیں دی جاسکتی ۔
یاد رہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور صحابی سے تین دن قربانی والا قول بسند صحیح ثابت نہیں ہے ، مزید تفصیل کے دیکھئے ہماری کتاب :[چاردن قربانی، کتاب وسنت کی روشنی میں ص 168 تا 258]
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment