نبی ﷺ کا گیارہ رکعات سے زائد تراویح نہ پڑھنے کا راز - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-12-31

نبی ﷺ کا گیارہ رکعات سے زائد تراویح نہ پڑھنے کا راز


نبی ﷺ کا گیارہ رکعات سے زائد تراویح نہ پڑھنے کا راز
تحریر: کفایت اللہ سنابلی
✿ ✿ ✿
الحمدللہ ہم نے اپنی کتاب ”أنوار التوضيح لركعات التراويح“  میں یہ ثابت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی میں کبھی ایک دفعہ بھی گیارہ رکعات سے زائد صلاۃ اللیل( تراویح) نہیں پڑھی ہے ، سترہ اور پندرہ کی عدد تو ثابت ہی نہیں ہے اور تیرہ والی بعض روایت ضعیف ہے اور بعض میں فجر یا عشاء کی سنت شمار کرلی گئی ہے جیسا کہ دیگر روایات میں یہ وضاحت آگئی ہے، اس سلسلے میں مکمل تفصیل ہماری کتاب ”أنوار التوضيح لركعات التراويح“ میں ملاحظہ کی جاسکتی ۔
.
واضح رہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعات سے زائد صلاۃ اللیل تو کبھی نہیں پڑھی ہے لیکن گیارہ رکعات سے کم مثلا نو (9) یا سات (7) رکعات پڑھی ہیں ، لیکن اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل گیارہ رکعات پر ہوتا تھا ، جیساکہ یہی تعداد اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نقل کی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گیارہ رکعات سے کم بھی پڑھا کرتے تھے ، تو پھر زیادہ سے زیادہ رکعات پڑھنے کی صورت میں آپ ہمیشہ گیارہ رکعات ہی پر کیوں رک جاتے ؟ اس سے آگے مزید رکعتیں کیوں نہ بڑھاتے تھے ؟؟
.
تو اس کا راز یہ ہے کہ رات کی نماز میں”طول قنوت“ افضل ہے ، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث ہے:
”عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفضل الصلاة طول القنوت“
”جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل ترین نماز وہ ہے جس میں قنوت لمباہو“[صحيح مسلم رقم 756]
یہاں ”قنوت“ سے بالاتفاق ”قیام“ مراد ہے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”المراد بالقنوت هنا القيام باتفاق العلماء“
”یہاں قنوت سے مراد قیام ہے اس پر اہل علم کا اتفاق ہے“[شرح النووي على مسلم 6/ 35]
.
معلوم ہوا کہ رات کی نماز میں قیام جس قدر طویل ہوگا ، نماز کی فضیلت بھی اسی قدر بڑھے گی ، بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ صلاۃ الیل کی اصل روح ”طول قیام“ ہی ہےیہی وجہ ہے کہ اس نماز کا نام ہی ”قیام اللیل“ ہے یعنی طول قیام والی نماز ۔
اور گیارہ رکعات سے کم پڑھنے پر ”طول قیام“ برقرار رہتا ہے بلکہ اس میں اور اضافہ ہی ہوتا ہے ، لیکن گیارہ رکعات سے زائد پڑھنے پر ”طول قیام“ کما حقہ برقرار نہیں رہتا ، بلکہ بعض اہل علم کے بقول ”طول قیام“ کو کم کرنے ہی کے لئے بعض لوگوں نے تراویح میں گیارہ سے زائد رکعات کی ایجاد کی ہے، لیکن یہ بعض اہل علم کا محض اپنی ایجاد اور اجتہاد ہے اس پر کوئی نص موجود نہیں ہے بلکہ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی طول القنوت والی نص اس کے خلاف ہے اسی لئے امام نووی رحمہ اللہ نے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بناپر امام شافعی وغیرہ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے :
”وفيه دليل للشافعي ومن يقول كقوله إن تطويل القيام أفضل من كثرة الركوع والسجود“
”اس میں امام شافعی اوران کے موافقین کے اس موقف کی دلیل ہے کہ رات کی نماز میں طول قیام یہ کثرت رکوع و سجود سے افضل ہے“[شرح النووي على مسلم 6/ 36]
.
اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عمر میں جب کمزور ہوگئے اور رات کی نماز میں زیادہ دیر کھڑے رہنا مشقت کا باعث بن گیا تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکعات کی تعداد نہیں بڑھائی بلکہ ہر رکعت اس طرح پڑھتے کہ شروع میں بیٹھ کر طویل قرات کرتے اور پھر کھڑے ہوکر بھی تیس یا چالیس آیات تک پڑھتے پھررکوع کرتے ۔
”عن عائشة رضي الله عنها، أم المؤمنين، أنها أخبرته: أنها «لم تر رسول الله ﷺ يصلي صلاة الليل قاعدا قط حتى أسن، فكان يقرأ قاعدا، حتى إذا أراد أن يركع قام، فقرأ نحوا من ثلاثين آية - أو أربعين آية - ثم ركع“
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺکو کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ جب آپ ضعیف ہو گئے تو قرآت قرآن نماز میں بیٹھ کر کرتے تھے، پھر جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے اور پھر تقریباً تیس یا چالیس آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے“ [صحيح البخاري ،رقم 1118]
اس حدیث میں غور کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب ”طول قیام“ شاق گذرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کو مختصرکرکے رکعات کی تعداد نہیں بڑھائی بلکہ ایک ہی رکعت کے شروع میں بیٹھ کراور آخر میں قیام کرکے پڑھنا شروع کیا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”طول قرأت“ کو برقرار رکھا جو کہ طول قیام کا اصل مقصد ہے ۔
.
❀ طول قیام اور طول وقت:
یادرہے کہ ”طول قیام“ اور ”طول وقت“ میں فرق ہے ان دونوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے مثلا اگر کوئی شخص گیارہ رکعات پڑھتے ہوئے ایک گھنٹہ میں تراویح ختم کردیتا ہے اور کوئی بیس رکعات پڑھتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے میں تراویح ختم کرتا ہے ، تو وقت کی زیادتی کی وجہ سے بیس رکعات والے کی تراویح افضل قطعا نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی تراویح میں صلاۃ اللیل کی روح ”طول قیام“ کی کمی ہے گرچہ وقت کی زیادتی ہے ۔اور ”طول قیام“ کی تو فضیلت ثابت ہے لیکن طول قیام کو کم کرکے محض ”طول وقت“ کی کوئی فضلیت منصوص نہیں ہے ۔
.
❀ طول قیام ، ثلث اللیل اور طول وقت:
ایک حدیث میں رات کی نماز کے سلسلے میں داؤد علیہ السلام کی نماز کو افضل بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ :
”كان يرقد شطر الليل، ثم يقوم، ثم يرقد آخره“
”یعنی وہ آدھی رات سوتے تھے پھر بیدار ہوکرنماز پڑھتے تھے پھر سوجاتے تھے“ [ مسلم رقم 1159]
اس حدیث کا صرف اتنا حصہ ہی مرفوعا ثابت ہے ،اور اس میں صلاۃ اللیل کے لئے وقت کی مقدار کا بیان نہیں ہے ، لیکن اس حدیث کے راوی عمرو بن أوس الطائي نے اپنی طرف سے اندازے سے اس کی مقدار ”ثلث اللیل“ بتلائی ہے جیساکہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ابن جریج نے اپنے استاذ عمرو بن دینار سے پوچھا:
”قلت لعمرو بن دينار: أعمرو بن أوس كان يقول: يقوم ثلث الليل بعد شطره؟ قال: نعم“
”ابن جریج کہتے کہ : میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا کہ کیا ثلث الليل کے الفاظ عمرو بن أوس کی طرف سے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا: ہاں !“[صحيح مسلم 3/ 816 ، رقم 1159 ]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیح مسلم کی اس حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں:
”وظاهره أن تقدير القيام بالثلث من تفسير الراوي فيكون في الرواية الأولى إدراج“
”اس روایت کا ظاہر یہی کہتا ہے کہ ثلث الیل کی مقدار راوی نے اپنے اندازے سے بیان کی ہے ، لہٰذا پہلی روایت میں یہ بات مدرج ہے“[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 3/ 17]
آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مرفوع ہونے کا بھی احتمال ذکرکیاہے لیکن یہ احتمال بعید اور مسلم کی مذکورہ روایت کے ظاہری الفاظ کے بر خلاف ہے ، نیز عمرو بن أوس کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے یہ حدیث سرے سے بیان ہی نہیں کی ہے اس لئے ابن جریج کا استفسار اور عمروبن دینار کا جواب ادراج پر ہی دلالت کرتا ہے ۔
تاہم یہ مان بھی لیں کہ یہ مقدار مرفوعا ثابت ہے تو بھی اس کی افضلیت صلاۃ اللیل کی روح ”طول قیام“ کے ساتھ مشروط ہوگی جیساکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مفاد ہے۔
اور سب سے بڑی بات یہ کہ خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل منقول ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تراویح  باجماعت پڑھائی اور ہر اگلے دن وقت  کو پہلے دن کی بنسبت لمبا کیا حتی کہ آخری دن صحابہ نے اس خوف کا اظہار کیا :
”حَتَّى تَخَوَّفْنَا الفَلَاحَ“
” حتی کہ ہمیں ڈر ہوا کہ فلاح (سحری)کا وقت نہ نکل جائے“ [سنن الترمذي: 3/ 160 رقم806 واسنادہ صحیح]
لیکن اس کے باجود بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے دنوں میں طول وقت کے پیش نظر رکعات کی تعداد گیارہ سے زائد نہیں کی ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح کے وقت کو خواہ کتنا ہی طول کیوں نہ دیا جائے لیکن اس کی رکعات کو گیارہ سے زائد نہیں بڑھا سکتے ۔
خلاصہ یہ کہ رات کی نماز میں خاص مقدار وقت کی فی نفسہ کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے بلکہ طول قیام ہی کی فضیلت ثابت ہے ،لہٰذا مسنون رکعات اور طول قیام دونوں سے روگردانی کرتے ہوئے محض طول وقت کی وجہ سے کسی تراویح کو افضل قرار دینا بے بنیاد بات ہے۔اور افضل توبہت دور کی بات ہے نصوص کی روشنی میں اس کے جواز کی بھی گنجائش نہیں ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے واضح کیا ہے دیکھیں علامہ رحمہ اللہ کی کتاب صلاۃ التراویح ۔
.
سجدہ کی فضلیت والی احادیث سے استدلال:
جن روایات میں سجدہ کی فضیلت وارد ہے ان سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر گیارہ سے زائد رکعات پڑھی جائیں گے تو سجدات کی تعداد زیادہ ہوگی ، اس لئے بیس رکعات تراویح پڑھنا گیارہ رکعات تراویح پڑھنے سے زیادہ افضل ہے۔
عرض ہے کہ یہ انتہائی لغو استدلال ہے اور یہ طرز استدلال بہت ساری بدعات کا دروازہ کھولنے والا ہے ، اور اس بنا پر تو کوئی یہ بھی کہ سکتا ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کی رکعات بھی بڑھا دی جائیں تاکہ ان میں زیادہ سجدے ہونے کے سبب ان کی فضیلت مزید بڑھ جائے ، یا رکعات نہ بڑھائی جائیں تو سجدوں کی تعداد ہی بڑھا دی جائے مثلا ایک رکعت میں دو سجدوں کے بجائے چار یا اس سے بھی زائد سجدے کئے جائیں ! ظاہر ہے کہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہوگا ، علامہ البانی رحمہ اللہ مثالوں کے ذریعہ اس استدلال کے فساد کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”كمن يصلي مثلا الظهر خمسا وسنة الفجر أربعا وكمن يصلي بركوعين أو سجدات وفساد هذا لا يخفى على عاقل“ 
 ”ایسے لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو ظہر میں پانچ رکعات پڑھے ، اور سنت فجر کے طور پر چار رکعات پڑھے ، یا ایک رکعت میں دو رکوع اور دو سے زائد سجدہ کرنے لگے ، اس عمل کا فاسد ہونا کسی بھی عقلمند پر مخفی نہیں ہے ۔“ [صلاة التراويح - الألباني ص: 37]
دراصل سجدہ کی فضیلت بیان ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ  آدمی  جس نماز میں چاہے اپنی مرضی سے رکعات یا سجدہ بڑھا دے بلکہ مقصود یہ ہے کہ آدمی زیادہ سے زیادہ مشروع نمازوں کا اہتمام کرکے ، مثلا پانچ وقت کی فرض نمازیں ، ان نمازوں سے پہلے اور بعد کی سنن رواتب ، قیام اللیل ، چاشت کی نماز ، تحیۃ المسجد کی نماز وغیرہ وغیرہ ۔
.
❀ حدیث ”صلاة الليل مثنى مثنى“ کا مفہوم:
بعض حضرات ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےصلاۃ اللیل میں مطلق رکعات پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے خواہ اس کی رکعات کتنی بھی ہوں ، یہ حدیث اس طرح ہے :
”عن ابن عمر: أن رجلا سأل رسول الله ﷺعن صلاة الليل، فقال رسول الله ﷺ «صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى“
”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی“ [صحيح البخاري رقم 990]
اس حدیث میں صلاۃ اللیل کی غیر متعین تعداد کا ذکر نہیں ہے جیساکہ بعض نے سمجھ لیا ہے بلکہ اس میں صرف صلاۃ اللیل کی کیفیت کا ذکر ہے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیرا جائے جیساکہ ابن عمررضی اللہ عنہ ہی کی دوسری روایت میں بالکل صراحت ہے چنانچہ صحیح مسلم میں ہے :
”فقيل لابن عمر: ما مثنى مثنى؟ قال: «أن تسلم في كل ركعتين»“
”ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ مثنی مثنی کا کیا مطلب ہے ؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ کہ تم ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دو“[صحيح مسلم رقم 749]
غور کریں یہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا ہے دو دو رکعات جتنی چاہو پڑھو ، بلکہ یہ کہا کہ ہردو رکعت کے بعد سلام پھیردو ، اس سے واضح ہے کہ اس حدیث میں تعداد رکعات کی بات نہیں بلکہ کیفیت رکعات کی بات ہے۔
.
بلکہ اس حدیث میں آگے جو یہ الفاظ ہیں:
فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى“
”جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی“
اس سے کثرت رکعات نہیں بلکہ قلت رکعات اور طول قیام ہی کی طرف اشارہ ملتا ہے ، کیونکہ جو مختصر اور چھوٹی چھوٹی نماز پڑھے گا اسے صبح کے تعلق سے کوئی ڈر لاحق ہوہی نہیں سکتا ، کیونکہ وہ تو چند منٹوں میں اپنی نماز ختم کررہا ہے ۔اس طرح وہ زیادہ رکعات بھی پڑھ سکتا ہے اور دوران رکعت طلوع فجر کے اندیشے سے بھی بچ سکتا ہے۔
اس کے برعکس جو لمبی لمبی رکعات پڑھنے والا ہو تو وہ ایک تو بہت زیادہ رکعات نہیں پڑھ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ ہر رکعت لمبی لمبی ہونے کے سبب طلوع فجر کے خوف کا شکار ہوسکتا ہے۔
یاد کیجئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتیسرے دن جب نماز تراویح پڑھائی تھی تو قیام اتنا لمبا لمبا تھا کہ صحابہ نے اس خوف کا اظہار کیا :
”حَتَّى تَخَوَّفْنَا الفَلَاحَ“
” حتی کہ ہمیں ڈر ہوا کہ فلاح (سحری)کا وقت نہ نکل جائے“ [سنن الترمذي: 3/ 160 رقم806 واسنادہ صحیح]
ظاہر ہے کہ یہ خوف اس وجہ سے نہیں ہوا تھا کہ دو دو کرکے بہت ساری رکعات پڑھی جارہی تھیں ،بلکہ یہ خوف صرف اس وجہ سے پیدا ہوا تھا کہ لمبی لمبی رکعات پڑھی جارہی تھیں۔
.
❀ ایک ضعیف روایت:
بعض لوگ ایک صریح روایت پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سے زائد رکعات پڑھنے کی اجازت دی ہے ، چنانچہ :
امام محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِي(المتوفى294) نے کہا:
”حدثنا طاهر بن عمرو بن الربيع بن طارق، قال: حدثني أبي، أخبرنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن عراك بن مالك، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا توتروا بثلاث تشبهوا المغرب، ولكن أوتروا بخمس أو بسبع، أو بتسع، أو بإحدى عشرة وأكثر من ذلك“
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر کو مغرب کی طرح بناکر مت پڑھو ، بلکہ پانچ ، سات ، نو ، گیارہ یا اس سے زائد رکعات وتر پڑھو“ [مختصر قيام الليل لابن نصر ص: 300 ، ومن طريقه أخرجه الحاكم في ”المستدرك“ 1/ 446، و أخرجه أيضا أبو العباس الأصم في ”مصنفاته“ ص: 221 ومن طريقه أخرجه الحاكم في ”المستدرك“ 1/ 446 ، والبيهقي في ”السنن“ 3/ 46 والخطيب في ”الموضح“ 2/ 183، و أخرجه أيضا ابن المنذر في ”الأوسط“ 5/ 180 كلهم ( ابن نصر والأصم وابن المنذر ) عن طاهر به ]
عرض ہے کہ :
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا بنیادی راوی ”طاهر بن عمرو بن الربيع بن طارق“ نا معلوم التوثیق ہے ، کسی بھی امام فن سے اس کی توثیق نہیں ملتی ۔بلکہ :
امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628) نے کہا:
”طاهر لا تعرف له حال“ ، ”طاہر کی حالت کا کچھ پتہ نہیں“ [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 4/ 663]
علاوہ بریں اسی روایت کو ”عراك بن مالك“ کے طریق سے ”جعفر بن ربيعة“ نے بھی روایت کیا ہے لیکن انہوں نے اسے موقوفا روایت کیا نیز ان کی روایت میں گیارہ سے زائد پڑھنے کی بات نہیں ہے ، دیکھئے:[شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 292 وإسناده صحيح]
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے دیگرکئی شاگردوں نے اسی مفہوم کی روایت مرفوعا بیان کیا ہے اور ان میں سے کسی کی روایت میں بھی گیارہ سے زائد پڑھنے کی بات نہیں ہے دیکھئے: [التقاسيم والأنواع لابن حبان 3/ 236 وإسناده صحيح]

.
✿ خلاصہ کلام یہ کہ:
⟐ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی گیارہ رکعات سے زائد صلاۃ اللیل نہیں پڑھی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے زائد پڑھنے سے قیام طویل نہیں رہ جاتا جو کہ صلاۃ اللیل کی اصل روح ہے ۔
⟐ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محض طول وقت کی وجہ سے کوئی نماز تراویح افضل ہوسکتی ہے خواہ اس میں طول قیام ، طول قرأت اور مسنون عدد رکعات سب کو بالائے طاق رکھ دیاجائے۔
واضح رہے کہ برصغیر میں عمومی صورت حال یہ ہے کہ احناف بیس رکعات تراویح سے فارغ ہوکر گھر لوٹ جاتے ہیں لیکن اہل حدیث کی صرف آٹھ رکعات تراویح جاری رہتی ہے ۔
- : (کفایت اللہ سنابلی) : -
⟐ ⟐ ⟐

No comments:

Post a Comment