دوران حمل ہمبستری کرنے پر حمل کی صحت وتندرستی میں اضافہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-04-25

دوران حمل ہمبستری کرنے پر حمل کی صحت وتندرستی میں اضافہ


دوران حمل ہمبستری کرنے پر حمل کی صحت وتندرستی میں اضافہ
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿ 
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں  کہ شریعت کا یہ جو عام اصول ہے کہ حاملہ عورت سے شادی ناجائز ہے، تو اس کے پیھچے حکمت وعلت یہ ہے کہ اگر حاملہ عورت سےوطی کی جائے تو نطفہ وخون کا اثر بچے پر پڑتا ہے، اب یہ نطفہ ڈائریکٹ بچہ پر اثرانداز ہوتا ہے یاماں کے جسم وخون میں اثرانداز ہونے کے بعد بچے بھی اثر ڈالتا ہے ، یہ اللہ ہی بہترجانتاہے لیکن حدیث سے اتنا توطے ہےکہ حاملہ کے ساتھی وطی کرنے پراس کےحمل پر نطفہ وخون کااثر ہوتا ہے ۔
✿چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ ‌يَسْقِيَ ‌مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَى“
”اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب حاملہ لونڈی سے جماع کرنا تھا“ [سنن أبي داود رقم 2158 وحسنہ الالبانی]
.
شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ اس حدیث سے استدال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ومن فوائد الحديث: الإشارة إلى أن ‌الجماع ‌يزيد ‌في ‌الحمل؛ لقوله: يسقي ماءه زرع غيره ، ومعلوم أن الماء إذا سقي به الزرع فإن الزرع ينمو ويزداد».
”اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دروان حمل ہمبستری سے حمل بڑھتا ہے ، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں: ”دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے“ اور یہ بات معلوم ہے کہ پانی سے جب کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے تو کھیتی کی نشو نما ہوتی ہے اور وہ بڑھتی ہے“ [فتح ذي الجلال والإكرام بشرح بلوغ المرام ط المكتبة الإسلامية 5/ 129]
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے ، لکھتے ہیں:
«ومعلوم أن الماء الذي يُسْقى به الزرع يزيد فيه، ويتكوّن الزرع منه»
”اور یہ بات معلوم ہے کہ جس پانی سے کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے اس سے کھیتی میں اضافہ ہوتا ہے اور کھیتی اس سے پھلتی پھولتی ہے“  [تهذيب سنن أبي داود 1/ 460]
.
✿ایک دوسری حدیث ہے:
”عَنْ ‌أَبِي الدَّرْدَاءِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « أَنَّهُ أَتَى بِامْرَأَةٍ مُجِحٍّ عَلَى بَابِ فُسْطَاطٍ، فَقَالَ: لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنًا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ، ‌كَيْفَ ‌يُوَرِّثُهُ ‌وَهُوَ ‌لَا ‌يَحِلُّ ‌لَهُ، كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ“
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم( ایک غزوہ کے موقع پر )ایک خیمہ کے دروازے پر گزرے اور وہاں ایک (حاملہ لونڈی) عورت کو دیکھا کہ قریب جننے کے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ شاید وہ شخص اس سے ارادہ جماع کا رکھتا ہے۔“ (یعنی جس کے پاس ہے) لوگوں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے چاہاکہ اس کو ایسی لعنت کروں جو لعنت قبر تک اس کے ساتھ رہے وہ کیونکر اس لڑکے کا وارث ہو سکتا ہے حالانکہ وہ اس کو حلال نہیں ،اور اس لڑکے کو غلام کیسے بنا دے گا حالانکہ وہ اس کو حلال نہیں۔“ [صحيح مسلم رقم 1441]
.
امام ابن القیم رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
”يَعْنِي: أَنَّهُ إِنِ اسْتَلْحَقَهُ ‌وَشَرِكَهُ ‌فِي ‌مِيرَاثِهِ، لَمْ يَحِلَّ لَهُ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِوَلَدِهِ، وَإِنْ أَخْذَهُ مَمْلُوكًا يَسْتَخْدِمُهُ لَمْ يَحِلَّ لَهُ لِأَنَّهُ قَدْ شَرِكَ فِيهِ لِكَوْنِ الْمَاءِ يَزِيدُ فِي الْوَلَدِ“
 ”یعنی اس حاملہ عورت کے حمل سے جو پچہ پیدا ہوگا اگر اس نے اسے اپنا بیٹا اور وارث بنالیا تو یہ اس کے لئے حلال نہیں ہے کیونکہ یہ اس کا بچہ نہیں ہے (اس لئے کہ لونڈی اس کی ملکیت میں آنے سے قبل ہی حاملہ تھی )، اور اگر اس نے اس بچے کو غلام اور اپنا خادم بنالیا تو یہ بھی اس کے لئے جائز نہیں کیونکہ (اس کی ماں سے ہمبستری کے بعد ) اس بچے میں اس کا خون بھی شامل ہوگیا ہے ، اس لئے کہ حاملہ سے وطی کرنے کے بعد نطفہ حمل میں شامل ہوتا ہے۔“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 142]


ایک دوسری کتاب میں امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہین:
 «وقد دلَّت المشاهدةُ على أنَّ الحامل إذا وُطِئت كثيرًا جاء ‌الولد ‌عَبْلًا ‌ممتلئًا، وإذا هُجِر وطؤها جاء الولد ضئيلًا ضعيفًا» 
 ”اور مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جب حاملہ سے بکثرت جماع کیا جائے تو بچہ صحت مند اور ہرا بھرا پیدا ہوتا ہے، اور جب حاملہ سے ہمبستری ترک کردی جائے تو بچہ کمزور ونحیف پیدا ہوتاہے“ . [التبيان في أيمان القرآن - ط عطاءات العلم 1/ 538]
.
امام ابن القیم رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں:
 «لأنَّ الوطء ‌يزيد ‌في ‌خِلْقَة ‌الولد، كما قال الإمام أحمد: الوطء يزيد في سمع الولد وبصره » 
 ”حاملہ سے ہمبستری بچے کی صحت میں اضافہ کرتی ہے جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ : دوران حمل ہبستری سے بچے کی سماعت اور بصارت مضبوط ہوتی ہے“ . [التبيان في أيمان القرآن 1/ 536]
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ماقبل میں مذکور سنن ابی داؤد کی حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ کے قول کی دلیل قرار دیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
”قال الإمام أحمد: ‌الوطء ‌يزيد ‌في ‌سمعه ‌وبصره. وقد صرَّح النبيُّ - صلى الله عليه وسلم بهذا المعنى في قوله: «لا يحلّ لرجلٍ أن يسقي ماءَه زرعَ غيرِه» . ومعلوم أن الماء الذي يُسْقى به الزرع يزيد فيه، ويتكوّن الزرع منه“ 
”امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ : دوران حمل ہمبستری سے بچے کی سماعت وبصارت میں اضافہ ہوتا ہے ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مفہوم کی صراحت اپنی اس حدیث میں کی ہے کہ : «کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے » ، اور یہ بات معلوم ہے کہ جس پانی سے کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے اس سے کھیتی میں اضافہ ہوتا ہے اور کھیتی اس سے پھلتی پھولتی ہے“ [تهذيب سنن أبي داود 1/ 460]
.
مذکورہ تفصیل سے شریعت کے اس حکم کی حکمت  وضح ہوجاتی ہے کہ حاملہ عورت سے وضع حمل سےقبل شادی کرنا کیوں ناجائز ہے ۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ ماقبل میں مذکور صحیح مسلم کی حدیث سے استدلال کرتےہوئے لکھتے ہیں:ْ
”وَفِي هَذَا دَلَالَةٌ ظَاهِرَةٌ عَلَى تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْحَامِلِ سَوَاءٌ كَانَ حَمْلُهَا مِنْ زَوْجٍ أَوْ سَيِّدٍ أَوْ شُبْهَةٍ أَوْ زِنًى“
” اس حدیث میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حاملہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے خواہ اس کا حمل شوہر سے ہو ، یا آقا سے ہو ، یا شبہ سے ہو( یعنی انجانے میں اس کے ساتھ کسی نے وطی کی ہو) ، یا زنا سے ہو“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 142]
یاد رہے کہ اگرکسی عورت کے ساتھ زناکیا گیا اور پھراسے حمل ٹہرگیا تو وضع حمل( یعنی بچے کی پیدائش) سے پہلے اس عورت سے وہ زانی بھی شادی نہیں کرسکتا جس کے نطفہ سے یہ حمل ٹھرا ہے ۔
کیونکہ مذکورہ حکم کے عموم میں یہ بھی شامل ہے نیز زانیہ کا حمل حرام نطفے کا ہوتا ہے اور اس حالت میں اس کے ساتھ شادی کی جائے گی تو اس کے ساتھ حلال نطفے کا اختلاط ہوگا اور بچہ حرام اور حلال خون کا مجموعہ ہوگا اس بناپر بھی یہ شادی جائز نہیں ہے۔
.
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض وہ اہل علم جوعدم تنازع کی صورت میں زنا سے نسب کو ثابت مانتے ہیں وہ بھی زانیہ حاملہ سےاس کے زانی کی شادی وضع حمل سے پہلےجائز نہیں مانتے تاکہ حرام اور حلال خون کا اختلاط نہ ہو۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ جو عدم تنازع کی صورت میں نسب کے اثبات کو ترجیح دیتے ہیں وہ لکھتے ہیں:
«ولأنّ ماء الزاني وإن لم يكن له حُرْمة فماء الزوج محترم، فكيف يسوغ له أن يخلطه ‌بماء ‌الفجور؟». 
”کیونکہ زانی کے نطفہ(خون) کا گرچہ کوئی احترام نہیں ہے لیکن شوہر کا نطفہ (خون)قابل احترام ہے ، تو شوہر کے لئے کیسے جائز ہوسکتاہے کہ حرام نطفہ (خون)کے ساتھ اپنے حلال نطفہ (خون)کو خلط ملط کرے“ [تهذيب سنن أبي داود - ط عطاءات العلم 1/ 453]
مالکیہ اورحنابلہ کی یہی رائے ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، امام ابن القیم ، شیخ بن باز اور شیخ البانی رحمہم اللہ وغیرہم کی بھی یہی رائے ہے اور ہماری نظر میں یہی بات راجح ہےواللہ اعلم۔
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment