آصف حسین رافضی اپنی تحریر کے آئینے میں ‏بجواب کفایت اللہ سنابلی اپنی تحقیق کے آئینے میں 3( تیسری اور آخری قسط ) - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-04-24

آصف حسین رافضی اپنی تحریر کے آئینے میں ‏بجواب کفایت اللہ سنابلی اپنی تحقیق کے آئینے میں 3( تیسری اور آخری قسط )



آصف حسین رافضی اپنی تحریر کے آئینے میں 
‏بجواب
کفایت اللہ سنابلی اپنی تحقیق کے آئینے میں
.
تحریر : انصاری محبوب (تیسری اور آخری قسط )
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر(18) کی حقیقت : 
اس تحریر میں معترض نے شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی کتاب سے دو عبارتیں نقل کی ایک میں ”عبد الوھاب“ کو ابن سعد رحمہ اللہ کی جرح کی بنیاد پر متکلم فیہ بتلایا گیا ہے اور اس کے مقابلے ایک عبارت پیش کی جس میں ایک راوی پر ابن سعد رحمہ اللہ کے تفرد کے بنیاد پر جرح کو رد کردیا گیا یعنی بیمار معترض باور یہ کرانا چاہتے ہیں ایک جگہ شیخ کفایت اللہ ابن سعد کی منفرد جرح کو قبول کر رہے ہیں اور ایک جگہ رد کررہے ہیں ۔ 
عرض ہے کہ پہلی عبارت میں راوی کو محض ”متکلم فیہ“ بتلانے کے لئے جرح پیش کی گئی تھی نا کی راوی کی ”تضعیف“ کے لئے ، جبکہ دوسرے مقام پر جو تردید کی گئی ہے وہ تضعیف کی تردید ہے ، اس لئے یہاں ابن سعد رحمہ اللہ کی منفرد جرح مردود ہوگی . اور یہ بات پہلی عبارت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ پہلی عبارت میں راوی کو ”متکلم فیہ“ بتلانے کے باوجود بھی اسے ثقہ ہی مانا گیا ہے ۔ اور اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عبدالوہاب پر جرح کی ہوئی ہے یعنی اس پر کلام کیا گیا ہے لہٰذا شیخ کا مقصد محض متکلم فیہ بتلانا ہے اور شیخ نے یہ چیز اس سیاق میں کہی ہے کہ ثقات کی جماعت سند کو ایک کیفیت سے بیان کرتی ہے جبکہ عبد الوہاب ان کے مقابل جس پر جرح بھی ہوئی ہے وہ الگ کیفیت سے بیان کرتے ہیں یعنی ایک خاص روایت میں تغلیط پر یہ چیز زیر بحث تھی نا کی راوی کی تضعیف پر پر ہمارے معترض کی عقل ہی ایسی ہے کی انہیں ہر جگہ تناقض نظر آتا ہے ۔ 
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر(19) کی حقیقت : 
یہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے  اپنی عادت سیئہ کے مطابق نام نہاد تناقض دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مقام پر شیخ حفظہ اللہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ تحقیق پیش کی کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینے سے شام گئے تھے اور اس کے مخالف ڈاکٹر صاحب نے کتاب سے یہ بات نقل کی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سبائیوں کی سازشوں سے بعض صحابہ بھی متاثر ہوگئے تھے مثلا عمار بن یاسر اور ابوذر رضی اللہ عنہما معترض کا اعتراض یہاں ہے یہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ شیخ کفایت اللہ کے مطابق مدینے سے شام چلے گئے تھے تو ان تمام کام میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا نام کیسے آسکتا ہے عرض ہے صاحب کند ذہن شیخ حفظہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ  ابوذر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام گئے تھے اس سے کب انکار کیا کی وہ واپس اس دور میں نہیں آئے بلکہ اس کے برعکس پوری بحث کی ہے جس میں ایسی روایت نقل کی جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور ہی میں مدینہ واپس آنا منقول ہے تفصیل دیکھیں(یزید بن معاویہ ۔ ۔ ۔ ۔ 194 سے 198) یہ تھی حقیقت اس نام نہاد تضاد کی ۔ 
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر(20) کی حقیقت : 
اس تحریر میں ڈاکٹر صاحب نے یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ شیخ حفظہ اللہ نے جس تفصیل مع دلائل کے ساتھ ایک روایت پر کلام کیا ہے (کتاب یزید بن معاویہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صفحہ 901 سے 907 ) اسی اصول کی مخالفت کرتے ہوئے ایک دوسری روایت کو اسی کتاب کے صفحہ 192 میں صحیح کہا  ہے۔
 جوابا عرض ہے کہ ایسا بلکل بھی نہیں ہے ، دونوں روایات کا معاملہ بلکل مختلف ہے پہلی روایت میں انقطاع کے بعد اس کے متن کا صحیح شاہد تو دور اس کے خلاف اسی مفہوم کا دوسرا واقعہ انھی کے بیٹے کا موجود تھا جو اس طرف اشارہ کررہا تھا کہ کسی غیر ثقہ سے امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے وہ واقعہ لیا تھا،  جبکہ دوسری روایت کو خود شیخ حفظہ اللہ نے شواہد کی بنیاد پر صحیح قرار دیا ہے جیسا کی تفصیل اس روایت کی تعلیق میں پیش کی گئی ہے جب دونوں روایات کا معاملہ مختلف ہے تو پھر تضاد کیسا ؟ 
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر(21) کی حقیقت : 
 ڈاکٹر صاحب نے یہ نام نہاد تناقضات والی تحریرں لکھ کر خود اپنا مزاق بنایا ہے نیز دجال کذاب خائن جیسے خطابات کے بھی لائق ہوچکے ہیں جس کی متعدد مثالیں ماضی میں پیش کی جاچکی ہیں اور یہ بھی ایک مثال ہے یہاں آصف صاحب اعتراض کچھ یوں کرتے ہیں کی شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ ایک طرف اپنی کتاب انوار البدر میں حماد بن سلمہ کو مختلط نہیں مانتے تو دوسری طرف اپنے دوسرے مضمون میں انھی کو مختلط باور کرا کے روایت پر اعتراض کر رہے ہیں۔
عرض ہے کہ اصل میں ڈاکٹر صاحب نے یہاں بدترین خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور الٹا شیخ حفظہ اللہ پر الزام ڈال دیا جس مضمون میں شیخ حفظہ اللہ نے حماد بن سلمہ پر اختلاط کی بحث کی ہے وہ تحقیقی و ذاتی موقف کے اعتبار سے نہیں بلکہ الزامی صورت کی تھی جس کی تفصیل انہوں نے متعلقہ مقام کے کچھ پہلے ہی کردی تھی چنانچہ شیخ فرماتے ہیں:
سب سے پہلے یہ واضح ہوکہ یہ دوسری علت اپنی جملہ تفصیلات کے ساتھ ہمارے نزدیک قادح نہیں ہے ، لیکن احناف اور اسی طرح زبیر علی زئی صاحب کے اصولوں کی روشنی میں الگ الگ اعتبار سے یہاں علت موجود ہے اس لئے ان حضرات کو چاہئے کہ اپنے اصولوں ہی کا لحاظ کریں اور اس روایت کو ضعیف قراردیں ۔ 
(ایام قربانی اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم مع اشکالات کا ازالہ صفحہ نمبر 34)
یہ تھی کتنی واضح بات ہے یہ علت بطور الزام شیخ حفظہ اللہ نے پیش کی تھی پر ہمارے خائن ڈاکٹر کو تضاد نظر آگیا سبحان اللہ ! ! 
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر(22) کی حقیقت : 
معترض کا یہ نام نہاد تناقض کچھ اس طرح ہے کہ شیخ حفظہ اللہ نے کتاب احکام القرآن للطحاوی میں ایک مقام پر روایت کی سند میں بعض راوی کے ساقط ہونے کی مدلل گفتگوں کی اور بطور دلیل مخطوط میں موجود نقص و اغلاط بھی پیش نظر رکھی اور اسی کتاب یعنی احکام القرآن سے بعض مقام پر اختلاف کی صورت میں دلیل بھی بیان کی جوابا ہم آپ سے یہ کہتے ہیں اب ایسا تو نہیں ہے کی کتاب میں موجود ہر عبارت ہی میں غلطی واقع ہوئی ہے جہاں دلیل خطاء پر ملے گی وہاں یہ بحث ہوگی پہلی عبارت میں شیخ حفظہ اللہ نے دلیل کی روشنی میں گفتگوں کی کہ امام طحاوی رحمہ اللہ ایک ثقہ امام ہیں پھر وہ کیسے اپنی پیدائش سے پہلے وفات پانے والے شخص سے صیغہ تحدیث کے ساتھ روایت کریں گے جبکہ دوسری عبارت میں خود ابوموسی نے بھی مومل سے علی صدرہ والے الفاظ بیان کر رکھے ہیں نیز جس متن میں مختلف ہونے کی بات کی تھی اس میں نماز کے دوسرے حصے کا ذکر ہے ہاتھ باندھنے اور اس کی کیفیت کا ذکر ہے ہی نہیں ، پھر یہاں کیسے مخطوط کی غلطی کہی جاسکتی ہے ۔ 
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر(23) کی حقیقت : 
یہ اعتراض بھی بڑا مضحکہ خیز  ہے ، سقم فہم ڈاکٹر نے پہلی عبارت میں شیخ حفظہ اللہ سے جو نقل کیا ہے اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ہم اگر ابن حجر یا امام ذہبی رحمہما اللہ یا ان کے علاوہ کوئی محدث کسی متقدم محدث سے کوئی کلام نقل کرتا ہے اور وہ کلام کا نقل کسی کتاب سے ہو چاہے اس کا ثبوت واضح طور پر یا اشارتا ملے گرچہ وہ کتابیں ہمیں نا ملی ہو یا ملی ہو پر اس میں وہ کلام موجود نہیں ایسے اقوال بھی لائق حجت ہیں، یہ بات ہے شیخ حفظہ اللہ کی ، اور اس کے مخالف جتنی دلیل بیمار ڈاکٹر نے پیش کی ان تمام کی تمام کا تعلق اس بحث سے قطعا نہیں وہاں پر کلام صاحب کتاب سے لے کر جارح کے کلام پر ہیں اور شیخ پہلی عبارت میں بحث صاحب کتاب کا صاحب کتاب سے نقل کرنے پر کر رہے ہیں ۔ 
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر(24) کی حقیقت : 
اس تحریر میں بھی موصوف معترض نے اپنی جہالت کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے ، دراصل ایک جگہ ڈاکٹر صاحب شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ سے یہ نقل کرتے ہیں کہ شیخ حفظہ اللہ نے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا صحابہ و تابعین کے دور کے بیان کو عدم دلیل کی بنیاد پر رد کردیا اور دوسرے مقام پر اسی دور کے بیان پر ابن کثیر رحمہ اللہ سے دلیل بھی پکڑ رہے ہیں۔
 جوابا عرض ہے کہ پہلے مقام پر شیخ نے  عدم دلیل کی بنیاد پر بات کو رد کیا تھا جبکہ دوسرے مقام پر دلیل کی بنیاد پر بات قبول کی ہے، اور اس کی تائید میں  ابن کثیر رحمہ اللہ کا بیان نقل کیا تھا جس کی دلیل  اسی کتاب کے صفحہ 730 پر موجود تھی ۔ 
یہ تھی ڈاکٹر صاحب کی کل کائنات جس میں انہوں نے دجل ، خیانت ، جہالت ، کند ذہنی ، کذب ان تمام اوصاف کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اور الٹا شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ پر الزامات لگائے ۔ 
ہم الزام ان کو دیتے تھے 
قصور اپنا نکل آیا
(ختم شد)

No comments:

Post a Comment