کتاب (یزید بن معاویہ ۔۔۔۔)کا جواب اور اس کی حقیقت - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-06-19

کتاب (یزید بن معاویہ ۔۔۔۔)کا جواب اور اس کی حقیقت

کتاب (یزید بن معاویہ ۔۔۔۔)کا جواب اور اس کی حقیقت
(تبصرہ :کفایت اللہ سنابلی)
 ✿  ✿  ✿ 
”یزیدبن معاویہ پرالزامات کاتحقیقی جائزہ“ نامی ہماری کتاب 2015م میں شائع ہوئی تھی ، پھر کچھ ہی ماہ بعد اس کا دوسرا اڈیشن بھی شائع ہوا، اس کے بعد ہم نے ارادہ کیا کہ اس کا اگلا اڈیشن تین سال بعد شائع کریں گے اور اس دوران کتاب پر وارد اعتراضات کا جائزہ بھی لے لیا جائے گا۔ لیکن تین سال گذرنے کے بعد بھی ہم نے اس کا اگلااڈیشن شائع نہیں کیا کیونکہ بعض لوگ یہ خبردے رہے تھے کہ اس کا مفصل جواب آرہا ہے ، بالخصوص عمر صدیق صاحب کی طرف سے بہت زور وشور کے ساتھ یہ بات عام کی جارہی تھی ، اس لئے ہم نے اس کی اگلی اشاعت ملتوی کردی کہ یہ جواب موعود آجائے اس کے بعد اعتراضات کے جوابات کے ساتھ اسے شائع کرتے ہیں۔
لیکن اس انتظار میں مزید کئی سال گذرگئے بالآخر ہماری کتاب کی اشاعت کے چھ سال بعد ایک کتاب (یزید بن معاویہ کی شخصیت) چھپتی ہے اور عمرصدیق صاحب کا یہ دعوی سامنے آتا ہے کہ ہماری کتاب کے جس جواب کا انتظار تھا وہ جواب آچکا ہے۔


ہم نے یہ کتاب منگوائی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ ، اس کتاب کو ہماری کتاب کا جواب کہنا محض ایک دعوی ہے اور سچائی کچھ اور ہے ملاحظہ ہو:
.
 ① اس کتاب کے نام میں یا ٹائٹل پرکہیں یہ نہیں لکھا ہواہے کہ یہ ہماری کتاب کا جواب ہے ۔ہاں کتاب چھپنے کے بعد نام کے نیچے ایک اسٹیکر بنواکر چپکادیا گیاہے۔جس پر لکھا ہے :
 ”سنابلی صاحب کے شبہات کا ازالہ“ 


عمرصدیق صاحب نے اپنی وال پر جو صفحہ پیش کیا وہ صفحہ اس کتاب کا ہے ہی نہیں بلکہ اسے بعد میں ڈیزائن کرکے نشر کیا گیا ہے۔


.
 ② کسی بھی کتاب کا مواد کیا ہے؟ اور اس کا مقصد تالیف کیا ہے ؟ اس کی وضاحت مؤلف کی طرف سے کتاب کے شروع میں ہوتی ہے ۔ لیکن اس کتاب کے شروع میں ایک حرف بھی ایسا نہیں ہے جس میں یہ لکھا ہو کہ اس میں ہماری کتاب کا جواب دیا جائے گا۔
.
 ③ کتاب کے اخیر میں مؤلف کی طرف سے اختتام تالیف کی تاریخ 1433 یعنی ہجری تاریخ درج ہے۔ مطلب عیسوی تاریخ کے حساب سے یہ سن 2012 کی تالیف ہے۔
یعنی یہ کتاب تقریبا دس سال قبل لکھی گئی ہے اوراس وقت ہماری کتاب کی طباعت تو دور کی بات اس کی تالیف بھی عمل میں نہیں آئی تھی ۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ہماری کتاب کی تالیف سے پہلے کوئی ہماری کتاب کا جواب کیسے دے سکتاہے۔
.
 ④ ہماری کتاب میں جو ابواب ہیں اور جو ترتیب ہے ویسا اس کتاب میں بالکل بھی نہیں ہے ، نیز ہماری کتاب 913 صفحات پر مشتمل ہے ، جبکہ یہ کتاب427 صفحات پر ختم ہوگئی ہے ۔
.
 ⑤ اس کتاب میں بہت سے مقامات پر نہ جانے کن کن لوگوں کے اعتراضات نقل کرکے ان کے جوابات دئے گئے ہیں ، بھلا ان اعتراضات وجوابات کا ہماری کتاب سے کیا تعلق ہے ۔
.
 ⑥ اسی طرح کتاب میں بہت سے مقامات پر دوسروں کے ایسے مضامین شامل کئے گئے جو شاید ہماری کتاب کی تالیف سے بھی پہلے لکھے گئے ہیں۔
.
 ⑦ اس کتاب میں بعض ایسے استفتاء اوران کے جوابات شامل کئے گئے ہیں جو ہماری کتاب کی تالیف سے پہلے تحریر کئے گئے ہیں۔
.
 ⑧ اس کتاب میں بہت سے مقامات پر ایسی ضعیف ومردود اورجھوٹی روایات کا انبار لگادیا گیا ہے جن کو صحیح کہنے کی جرات خود مؤلف نے بھی نہیں کی ہے۔
اب غور کیا جائے کہ صحیح روایات کی روشنی میں لکھی گئی کتاب کا جواب یہ ہوتاہے کہ اس کے مقابل میں ایسی مردود اور گھڑنتو روایات نقل کردی جائیں جن کو صحیح کہنے کی ہمت خود مولف بھی نہ کرسکے۔
.
 ⑨ ہماری کتاب کے بعض مباحث کا جواب دینے کے بجائے ہمارے خلاف لکھی ان تحریروں کا حوالہ دینے پراکتفاء کیا گیاہے جن تحریروں کا جواب اپنی اسی کتاب میں ہم نے دے دیا ہے۔
.
 ⑩ ہماری کتاب میں جیش مغفور پر مفصل بحث ہے جو 65 صفحات تک پھیلی ہوئی ہے اس کے جواب میں دامانوی صاحب نے مختصر بات کرکے اپنی دوسری کتاب (جیش مغفور ۔۔۔) کاحوالہ دینے پر اکتفاء کیا ہے۔ حالانکہ دامانوی صاحب کی یہ کتاب ہماری کتاب کی تالیف سے پہلے چھپ چکی ہے۔اور یہ کتاب اور اس موضوع پر لکھی گئی ساری تحریروں میں جو کچھ تھا سب کا جواب ہم دے چکے ہیں۔ 
.
 ● دراصل یہ کوئی پرانی کتاب تھی ، جس میں بعض مقامات پر سنابلی صاحب۔۔۔ ، سنابلی صاحب ۔۔۔ کا اضافہ کرکے چھاپ دیا گیا اور کتاب چھپنے کے بعد الگ سےاسٹیکر پر (سنابلی صاحب کے شبہات کاازالہ) لکھ کر کتاب کے ٹائٹل پرچسپاں کیا گیا ، اور پھر یہ دعوی کردیا گیا کہ یہ سنابلی صاحب کی کتاب کا جواب ہے۔
اب آگے ہم مؤلف کتاب کے بارے میں بات کریں گے ، قارئین منتظر رہیں۔
(جاری ہے ۔۔۔)
.
کتاب (یزید بن معاویہ ۔۔۔۔ )کا جواب اور اس کی حقیقت (2) 
(تبصرہ:کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿ 
#مؤلف_کتاب_ڈاکٹر_ابوجابردامانوی_صاحب_کا_تعارف:
اس کتاب کے مؤلف ڈاکٹر ابوجابر دامانوی صاحب ہیں ، ڈاکٹرکا سابقہ دیکھ کر بہت سارے لوگوں کو لگے گا کہ یہ کوئی علمی ڈگری ہے اورانہوں نے کسی موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہوگی ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صاحب کوئی علمی ڈاکٹر نہیں ہیں بلکہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں،اسی وجہ سے نام کے شروع میں ڈاکٹر لکھتے ہیں۔ان کے پاس دینی علم کی کوئی ڈگری نہیں ہے ۔
.
عالم عرب میں ایک صاحب عبدالمعطی قلعجی کے نام سے جانے جاتے ہیں ،یہ بھی خود کو دکتور لکھتے ہیں ،اور کتابوں کی تحقیق کا شوق پال رکھاہے ،لیکن یہ شرعی علوم میں ڈاکٹر نہیں بلکہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں ،یہی وجہ ہے کہ باذوق باحثین کے یہاں سب سے بدترین تحقیق انہیں کی ہوتی ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے انہیں اپنے نام کے ساتھ دکتور لکھنے پر خبیث تدلیس والا کہا ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
”ولقد بلغني عن هذا القلعجي أنه ليس دكتوراً بالمتبادر من هذه اللفظة أو اللقب ـ أي دكتور في الحديث أو على الأقل في الشريعة ـ وإنما هو طبيب فإن صح هذا فهو
تدليس حديث خبيث لا نعرف له مثييلاُ في المهتمين بالتدليس من رواة الحديث أو المؤلفين فيه والله المستعان“ ۔
 ”اس قلعجی کے بارے میں مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ اس معنی میں دکتور نہیں ہے جو معنی اس لفظ یا لقب کا سب سے پہلے ذہن میں آتاہے یعنی یہ کہ یہ علم حدیث یاکم ازکم شریعہ میں دکتور ہوگا،بلکہ یہ میڈیکل ڈاکٹر ہے ۔ اگریہ بات درست ہے تو یہ نئی قسم کی اور بدترین تدلیس ہے،رواۃ حدیث میں جو لوگ تدلیس سے متہم ہیں یا جن لوگوں نے اس فن میں کتابیں لکھی ہیں ان کے یہاں بھی ایسی خبیث تدلیس کی کوئی نظیر نہیں ہے“ ۔[سلسلة الأحاديث الضعيفة 12/ 481]
.
علامہ البانی رحمہ اللہ کاغصہ بلاوجہ نہیں ہے ۔دراصل اس طرح کے میڈیکل ڈاکٹر جب علم حدیث اور رجال واسانید پربات کرتے ہیں تو بہت ہی عجیب وغریب گل کھلاتے ہیں ۔عبدالمعطی قلعجی صاحب کی قلعی تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے کئ مقامات پر کھولی ہے۔
 یہاں ہم جس اردوداں میڈیکل ڈاکٹر کی بات کررہے ہیں ، ان کامعاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔بلکہ بعض مقامات پر تواس سے بھی بدتر ہے ۔
.
ہم ایک دلچسپ حوالہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ، سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھیں کہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر صاحب معروف مؤرخ ”المدائنی“ کی ”عبدالرحمان بن معاویہ“ سے ملاقات کی نفی ثابت کرناچاہتے ہیں اوراس کے لئے انہوں نے جو دلیل دی ہے اسے پڑھیں اور سردھنیں !
لکھتے ہیں:
(((امام المدائنی اورعبدالرحمن بن معاویہ کے درمیاں انقطاع کا ایک اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ چنانچہ تاریخ کبیر لابی خیثمہ میں نقل ہے۔
رَأَيْتُ في كتاب علي بن الْمَدِيْنِيّ: سئل يَحْيَى بن سعيد، أبو الحويرث هو أبو الحويرثة؟ قَالَ: نعم(تاريخ ابن خيثمة ،سفر الثلاث 2/ 269 رقم 2838)
اما م خیثمہ فرماتے ہیں:میں نے علی بن المدائنی کی کتاب میں دیکھاانہوں نے یحیی بن سعید سے پوچھا ابوالحویرث ہی ابوالحویرثہ ہیں ، (یحیی بن سعید) نے کہاہاں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام المدائنی کی عبدالرحمن بن معاویہ سے ملاقات نہیں تھی وگرنہ وہ یحیی بن سعید سے ان کے نام کے بارے میں معلوم نہ کرتے کہ یہ ابوالحویرث (عبدالرحمان بن معاویہ) کی کنیت ہے ))) 
(یزید بن معاویہ کی شخصیت :ص239)

.
اس اقتباس میں الفاظ کی غلطیوں کی بھرمار تو ہے ہی ساتھ ہی ترجمہ بھی کسی عجوبہ سے کم نہیں ۔
لیکن ہم الفاظ اور ترجمہ کی غلطی سے بڑھ کر کچھ اور دکھاناچاہتے ہیں ، دراصل امام ابن أبي خيثمة رحمه الله نے حدیث ورجال کے مشہور ومعروف امام ”علی بن المدینی رحمہ اللہ“ کی کتاب کے حوالے سے یحیی بن سعید رحمہ اللہ سے پوچھا گیا ایک سوال اوراس کا جواب نقل کیا ہے ۔
اور ہمارے ہومیوپیتھک ڈاکٹر صاحب نے حدیث ورجال کے معروف امام ”علی بن المدینی رحمہ اللہ“ کو مؤرخ ”المدائنی“ سمجھ لیا ۔اور عربی زبان سے ناواقفیت کی بناپر انہیں کو سائل بھی سمجھ لیا حالانکہ وہ ناقل ہیں۔
اور ایسا صرف سمجھا ہی نہیں ہے بلکہ بڑے زور شور سے اس پر استدلال کی عمارت بھی کھڑی کردی ہے ، کہ جب ”المدائنی“ یہ ”ابوالحویرث یعنی عبدالرحمن بن معاویہ“ کے نام کے بارے میں پوچھ تاچھ کررہے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ”المدائنی“ خود ”عبدالرحمان بن معاویہ“ سے نہیں ملے ہیں۔ سبحان اللہ!
چنانچہ ملاحظہ کیجئے کہ بڑے طنطنے کے ساتھ ارشاد فرمایا:
(((اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام المدائنی کی عبدالرحمن بن معاویہ سے ملاقات نہیں تھی وگرنہ وہ یحیی بن سعید سے ان کے نام کے بارے میں معلوم نہ کرتے ))(یزید بن معاویہ کی شخصیت :ص239)
.
دیکھا آپ نے !
یہ ہیں وہ مسکین لوگ جنہوں نے پانچ سال سے ایک پرانی کتاب میں پیوندکاری کرکے اسے ہماری کتاب کا جواب بنانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔اور عمر صدیق صاحب شورمچارہے ہیں کہ کتاب کا جواب آگیا!!!
(جاری ہے ۔۔۔۔)
.

No comments:

Post a Comment