عمر صدیق صاحب اور ان کے گماشتوں کی تہمت تراشی - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-06-06

عمر صدیق صاحب اور ان کے گماشتوں کی تہمت تراشی

عمر صدیق صاحب اور ان کے گماشتوں کی تہمت تراشی
✿ ✿ ✿ 
عمر صدیق صاحب جوخود اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حدیث نبوی میں تحریف معنوی جیسے الزام کے بوجھ تلے کراہ رہے ہیں ، موصوف ابھی اس تکلیف سے نکلے بھی نہ تھے کہ نواسہ رسول حسین رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کاالزام بھی لگ گیا ،یہ سب دیکھ کر وہ اوران کے گماشتے اس حرکت پراتر آئے ہیں کہ ناچیز کی کتاب میں بعض عبارات کو سیاق وسباق سے کانٹ چھانٹ کراوراس پر خودساختہ مفہوم اور بہتان تراشی کاخول چھڑاکریہ پروپیگنڈا کرتے پھررہے ہیں کہ اس میں بعض صحابہ کی گستاخی کی گئی ہے ، نعوذباللہ من ذلک.
ایک امیج میں ان لوگو ں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اس کتاب میں سیدنا ابوذر غفاری اور سیدنا عماربن یاسررضی اللہ عنہما کو سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف سازش اورقتل میں ملوث قراردیاگیا ہے۔سبحان اللہ و هذا بهتان عظيم۔


حالانکہ ہماری کتاب کی فہرست میں ص(14) پر عنوان ہے : ”جلیل القدر صحابہ پر قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی تہمت“ ،اور محولہ مقام پر ہم نے سبائیوں کو اس جرم کا مرتکب قراردیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پراس الزام کی سختی سے تردید کی ہے ۔
کتاب میں ایک مقام پر وہ بھی الزامی جواب کے سیاق میں ہم نے یہ بتایا ہے کہ جب پروپیگنڈا شدید ہوتا ہے ،تو بسااوقات بعض بھولے بھالے لوگ بھی متاثر ہوجاتے ہیں جیسے ،منافقین نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہاپر تہمت لگاکر ایسا پروپیگنڈا کیا کہ بعض صحابہ بھی متاثر ہوگئے جن پر بعد میں حد نافذ کی گئی ہے۔یہاں پرکوئی صحابی موضوع بحث تھے ہی نہیں اور نہ ہی یہ کتاب کا موضوع ہے ، بلکہ یہاں جھوٹ اورپروپیگنڈے کی شدت کو واضح کرنا مقصود تھا ،لیکن ظالموں نے بات کو کیا سے کیا بناڈالا۔ملاحظہ ہوں اصل حقائق:
.
اس ضمن میں علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے الفاظ نقل کرکے اور ان کی کتاب کے حوالے سے ہم نے لکھا تھا:
 ”بلکہ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے بقول تو سبائیوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کوبھی عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھڑکا دیا تھا ،چنانچہ علامہ لکھتے ہیں:
 ان أبا ذر رضي الله عنه لشدة ورعه وزهده وسذاجته انطلى عليه أكاذيب عبد الله بن سبأ  ( الشيعة والتشيع ص: 126)
 ”ابوذر رضی اللہ عنہ کے بہت زیادہ متقی وپرہیزگار اور سیدھے سادھے ہونے کے سبب عبداللہ بن سبا کی جھوٹی باتیں ان پر اثر کر گئیں“ [یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ : ص 477]
.
علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی کتاب سے متعلقہ صفحہ کا عکس ملاحظہ ہو:



علامہ رحمہ اللہ کے علاوہ اوربھی کئی اہل علم نے یہ بات اپنی کتب میں نقل کررکھی ہے۔
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ یہ بات علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ اور ان کی کتاب کے حوالے سے درج کی گئی لیکن خیانت کی انتہاء دیکھئے کہ یہ اصل ماخذچھپاکر ادھور ی بات دکھلائی جارہی ہے وہ بھی اس رنگ میں کہ صحابی کی گستاخی کی گئی اورانہیں قتل عثمان میں ملوث بتایا گیا ، نعوذ باللہ ! جب کہ یہاں سبائیوں کی سازش اوران کے پروپگنڈے پر بات ہے ۔
.
اسی ضمن میں سیدنا عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کے تاثر کا بھی ذکر تھا جس کے لئے علامہ البانی رحمہ اللہ اوران کی کتاب سلسلہ صحیحہ کے حوالے سےایک روایت درج کی گئی تھی جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مسلم کی شرط پر صحیح قراردیا ہے ۔ملاحظہ ہو علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب الصحیحۃ کا عکس۔



لیکن یہاں بھی ظالموں نے اصل ماخذ کو چھپاکرسابقہ رویہ اپنا۔
اب عمرصدیق صاحب کیا علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ اور علامہ البانی رحمہ اللہ پر بھی یہ فتوی لگانے کی ہمت کریں گے ؟ 
.
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ”مشاجرات صحابہ“ میں لکھا ہے کہ سبائیوں کی فتنہ پردازی اوران کے پروپیگنڈہ سے بعض صحابہ کرام بھی متاثرہوگئے تھے۔
 ملاحظہ ہوں شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے الفاظ :
 ”سبائیوں کی فتنہ پردازی اوران کے پروپیگنڈہ سے بعض صحابہ کرام بھی متاثرہوگئے تھے ۔ اورانہوں نے حضرت عثمان رض کے خلاف سبائی اقدام میں حصہ بھی لیا ۔ بالکل اسی طرح جس طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف رأس المنافقین عبداللہ بن ابی کی ہرزہ سرائی اور یاوہ گوئی سے بعض مخلص صحابہ کرام بھی متاثر ہوگئے تھے ، انہیں میں ایک عبدالرحمن بن عدیس بھی تھے جو بیعت رضوان میں شریک ہوئے ، جن کے بارے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ”لا يدخل النار من أصحاب الشجرة أحد الذين بايعوا تحتها“ کہ جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی بھی آگ میں نہیں جائے گا (صحیح مسلم ، الصحیحہ رقم 2160)
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیح فرمان کے بعد ہمارا تو یہی عقیدہ و ایمان ہے کہ وہ اور دیگر بعض صحابہ جو حضرت عثمان رض کے خلاف فتنہ وفساد میں شریک ہوئے ، اسباب مغفرت میں سے کسی سبب کی بنا پر یقینا مغفور ہیں اور عنداللہ قابل مؤاخذہ نہیں ، حضرت ابن عدیس رض اسی فتنہ سے متاثر ہوئے ، مگر کسی صحیح روایت میں مباشرۃ حضرت عثمان کے قتل میں ان کی شراکت ثابت نہیں“ ۔ [مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف کا موقف : ص 79]




اب عمر صدیق صاحب اوران کے گماشتے کیا شیخ اثری حفظہ اللہ کے خلاف بھی یہی پروپیگنڈا کریں گے ۔
.
رہی بات سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمدبن ابی بکر کی تویہ صحابی نہیں ہیں، نیزیہ تین سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بھی وفات ہوگئی اسی لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ :
 ”ومات أبوه أبو بكر - رضي الله عنه - وعمره أقل من ثلاث سنوات ولم يكن له صحبة مع النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا قرب منزلة من أبيه“ 
 ”ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ان کی عمر تین سال سے بھی کم تھی ، انہیں نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی ، اور نہ ہی اپنے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے قرب منزلت“ [منهاج السنة النبوية 4/ 374]
.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں:
 ”والرافضة تغلو في تعظيمه على عادتهم الفاسدة في أنهم يمدحون رجال الفتنة الذين قاموا على عثمان، ويبالغون في مدح من قاتل مع علي، حتى يفضلون محمد بن أبي بكر على أبيه أبي بكر، فيلعنون أفضل الأمة بعد نبيها، ويمدحون ابنه الذي ليس له صحبة ولا سابقة ولا فضيلة، ويتناقضون في ذلك في تعظيم“ 
 ”روافض محمد بن ابی بکر کی تعظیم میں غلو کرتے ہیں جیساکہ ان کی عادت فاسدہ ہے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرنے والے فتنہ پروروں کی مدح میں غلو کرتے ہیں نیز علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کرنے والوں کی مدح میں بھی غلو کرتے ہیں ، حتی کی محمد بن ابی بکر کو ان کے والد ابوبکر ر ضی اللہ عنہ سے بھی افضل قرار دیتے ہیں ، یہ لوگ (روافض) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل شخصیت پر لعنت کرتے ہیں اور ان کے اس بیٹے کی مدح کرتے ہیں جسے نہ صحبت حاصل ہے ، نہ سبقت حاصل ہے اور نہ فضیلت حاصل ہے“ ۔[منهاج السنة النبوية 4/ 375]
.
ان کے بارے میں ہم نے یہی لکھا تھا کہ یہ بھی سبائیوں کے پروپیگنڈے سےمتاثرہوگئے تھے ، اور قاتلین کے ساتھ عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر تک بھی گئے تھے ،لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے ایک بات کہی جسے سننے کے بعد وہ واپس آگئے ۔صحابہ تو دور ، ان کو بھی ہم نے قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں ملوث نہیں لکھا ہے ، جیساکہ عمر صدیق صاحب نے جھوٹا پروپیگنڈا کیا ہے۔
.
محمدبن ابی بکر کو ہم نے نہ تو قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں ملوث قراردیا ہے اورنہ ہی ان کی ذات کو موضوع بحث بنایا ہے ، سبائیوں کی سازش سے یہ کس حدتک متاثرہوگئے تھے صرف اس کا تذکرہ کیا ہے۔ 
عمرصدیق صاحب نے یہاں جھوٹے پروپیگنڈے کے ساتھ اس بات پر بھی زوردیا ہے کہ یہ صحابی رسول ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ۔
ہم عمرصدیق صاحب سے پوچھتے ہیں کہ کیا یزید بن معاویہ ، صحابی رسول معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے نہیں ہیں؟ آپ نے یزید بن معاویہ کے تعلق سے جو جھوٹی اور من گھڑت کہانیاں بیان کرنےکا شغل اختیارکر رکھا ہے ، کیا آپ کویہاں خیال نہیں آتاکہ یہ بھی ایک جنتی صحابی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ؟
الغرض عمر صدیق صاحب اوران کے گماشتے سیاق وسباق سے کانٹ چھانٹ کرکے ہماری کتاب سے جو اقتباسات نقل کررہے ہیں ،اور اپنی طرف خودساختہ مفہوم پہنارہے ہیں بلکہ صاف اور صریح جھوٹ بھی بول رہے ہیں ، قارئین ایسے لوگوں سے پوری طرح ہوشیاررہیں ۔
نیز ہم پہلے بھی کئی بار اعلان کرچکے ہیں اور پھر عرض کررہے ہیں کہ گرچہ ایسے مقامات پر ہمارا وہ مقصود نہیں ہے جو مخالفین دکھلارہے ہیں پھر بھی ان شاء اللہ کتاب کے اگلے اڈیشن میں ایسے مقامات پرترمیم کردی جائے اور وہ حصے حذف کردئے جائیں گے جن کا خود ساختہ مفہوم ہماری طرف منسوب کیا جارہاہے ،ان شاء اللہ ۔
(کفایت اللہ سنابلی)


No comments:

Post a Comment