عمرصدیق صاحب اور ان کے گماشتوں کا دجل و فریب - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-06-05

عمرصدیق صاحب اور ان کے گماشتوں کا دجل و فریب

عمرصدیق صاحب اور ان کے گماشتوں کا دجل و فریب
 ❀  ❀  ❀  ❀ 
عمرصدیق صاحب اور ان کے گماشتوں نے جھوٹ ، دجل اور بددیانتی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے میری کتاب پر یہ بہتان باندھاکہ اس میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ کو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل بتایا گیاہے۔نعوذ باللہ من ذلک ۔
پھرانہوں نے اپنی  طرف سےلکھا کہ:
((( ابن زیاد کے پاس سرلایا جانا اگر قاتل ہونے کی دلیل ہے تو سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا سربھی قاتل لے کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درپار پرحاضر ہوا )))


یہ الفاظ ہماری کتاب کے نہیں ہیں لیکن ظالموں نے  ایسی تلبیس کاری کی ہے کہ پڑھنے والے کو لگے گا کہ یہ ہماری کتاب کا اقتباس ہے۔ کتاب سے متعلقہ صفحات کا عکس ہم پیش کررہے ہیں ، قارئین ملاحظہ فرمالیں:




دراصل ہماری کتاب میں ایک مقام پر یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اگرکوئی قاتل کسی کا سر کاٹ کرکسی شخص کے پاس لاتا ہے ، تو قاتل کی اس حرکت کی بناپر اس شخص کو مطعون نہیں کیا جاسکتا جس کے پاس مقتول کا سر لایا گیاہے۔
.
اس بات کوسمجھانے کے لئے طبقات ابن سعد سے بسند صحیح ایک روایت پیش کئی تھی جو مع سند ومتن وترجمہ یہ ہے:
”أخبرنا الفضل بن دكين قال: أخبرنا عمران بن زائدة بن نشيط، عن أبيه، عن أبي خالد يعني الوالبي قال: دعا الأحنف بني تميم فلم يجيبوه، ثم دعا بني سعد فلم يجيبوه، فاعتزل في رهط، فمر الزبير على فرس له يقال له: ذو النعال، فقال الأحنف: هذا الذي كان يفسد بين الناس، قال: فاتبعه رجلان ممن كان معه فحمل عليه أحدهما فطعنه، وحمل عليه الآخر فقتله، وجاء برأسه إلى الباب فقال: ائذنوا لقاتل الزبير، فسمعه علي فقال: «بشر قاتل ابن صفية بالنار» ، فألقاه وذهب“ .
”ابوخالد الوالبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احنف نے بنوتمیم کو دعوت دی مگر انہوں نے قبول نہ کی ، پھر اس نے بنوسعد کی دعوت دی انہوں نے بھی قبول نہ کی ، پس ایک دن زبیررضی اللہ عنہ اپنے ایک گھوڑے پر جارہے تھے جس کا نام ذوالنعال تھا ، تو احنف نے کہا: یہی وہ شخص ہے جو لوگوں کے مابین فساد برپاکرتاہے ، راوی کہتے ہیں کہ پھر احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔ اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا اوراورکہا: زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل کو اجازت دیں ، علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ، پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔“ . [الطبقات الکبریٰ لابن سعد:3/ 110 واسنادہ صحیح] 
.
ملاحظہ فرمائیں اس روایت کو اسی طرح ترجمہ کے ساتھ کتاب میں پیش کیا گیا ہے ، اس میں نہ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل بتایاگیا ہے اور نہ ہی  ترجمہ میں یا کہیں بھی ایسی کوئی بات کہی گئی ہے ۔بلکہ ابن زیاد کے پاس سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر لائے جانے والے حوالے پر بات کرتے ہوئے یہ سمجھایا ہے کہ اگرکوئی قاتل کسی کا سر کاٹ کرکسی شخص کے پاس لاتا ہے ، تو قاتل کی اس حرکت کی بناپر اس شخص کو مطعون نہیں کیا جاسکتا جس کے پاس مقتول کا سر لایا گیا ہے۔
.
لیکن جو لوگ حدیث نبوی کے ترجمہ میں معنوی تحریف کرسکتے ہیں اورایسی تحریف جس سے ان پر اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا الزام لگایاگیا، ان کے لئے ہماری کتاب پر بہتان باندھنا کون سی بڑی بات ہوسکتی ہے۔
.
واضح رہے کہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ”خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت“ میں لکھا ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل ان کا سر کاٹ کرحضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، چنانچہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”حضرت عماررضی اللہ عنہ سے پہلے جنگ جمل میں حضرت زبیررضی اللہ عنہ کے سرکے ساتھ یہی سلوک ہوچکاہے،ان کا قاتل ان کاسرکاٹ کرحضرت علی رضی اللہ عنہ پاس لے کر آیا“ ۔ [خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت :520]



دوسری جگہ لکھتے ہیں:
 ”یہ ایسے ہی بعض لوگوں نے سنگدلی کا مظاہرہ کیا، جس طرح اس سے پہلے حضرت زبیررضی اللہ عنہ کے سرکےساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعض مداحوں نے کیا ،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس طریقے پر اظہار خفگی فرمایا،حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی بالیقین اس طرز عمل کی مذمت ہی کی ہوگی ،ان کاحلم تو ضرب المثل تھا ،ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کاسرلانے والوں کو احسنت کہاہو؟ جب حضرت زبیرکے سرکے ساتھ ایساسلوک کرنے پرہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید نہیں بناتے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بناپرمورد طعن بنانابھی صحیح نہیں ہے“ ۔ [ خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت : 521]


اب عمر صدیق صاحب اور ان کے گماشتے کیا مفسرقرآن حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ پر یہ بہتان تراشی کریں گے کہ انہوں نے نعوذ باللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کاقاتل بتایا ہے؟؟؟


No comments:

Post a Comment