زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (4) - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-07-10

زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (4)


زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (4)
(کفایت اللہ سنابلی)
زنا سے نسب کے اثبات ونفی کا مسئلہ
گذشتہ سطور میں یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ بالفرض زنا سے نسب کے اثبات کا مسئلہ مان لیا  جائے تب بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زانیہ حاملہ سے زانی کی شادی جائز ہے۔
اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ دلائل کی روشنی میں راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے  کہ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوگا ، تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
✿پہلی دلیل:
عن عائشة رضي الله عنها، أنها قالت: اختصم سعد بن أبي وقاص، وعبد بن زمعة في غلام، فقال سعد: هذا يا رسول الله ابن أخي عتبة بن أبي وقاص، عهد إلي أنه ابنه انظر إلى شبهه، وقال عبد بن زمعة: هذا أخي يا رسول الله، ولد على فراش أبي من وليدته، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شبهه، فرأى شبها بينا بعتبة، فقال: «هو لك يا عبد بن زمعة، الولد للفراش وللعاهر الحجر، واحتجبي منه يا سودة بنت زمعة» فلم تره سودة قط
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچے کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے وصیت کی تھی کہ یہ اب اس کا بیٹا ہے۔ آپ خود میرے بھائی سے اس کی مشابہت دیکھ لیں۔ لیکن عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ اور اس کی باندی کے پیٹ کا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی صورت دیکھی تو صاف عتبہ سے ملتی تھی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کے اے عبد! یہ بچہ تیرے ہی ساتھ رہے گا، کیونکہ بچہ فراش کے تابع ہوتا ہے اور زانی کے حصہ میں صرف پتھر (یعنی محرومی )ہے اور اے سودہ بنت زمعہ! اس لڑکے سے تو پردہ کیا کر، چنانچہ سودہ رضی اللہ عنہا نے پھر اسے کبھی نہیں دیکھا۔[صحيح البخاري 3/ 81 رقم2218]
.
اس حدیث میں ایک طرف یہ بات کہی گئی ہے کہ بچہ صاحب فراش کا ہوگا ، اور دوسری طرف  اصولی یہ بات بھی کہہ دی گئی ہے کہ ”وللعاهر الحجر“ یعنی زانی کے لئے محرومی ہے ۔
یہاں حجر یعنی پتھرسے زانی کو سنگسار کرنے کی طرف اشارہ نہیں ہے ،بلکہ محرومی بتانے کے لئے ہے، اہل عرب کسی کو محروم گرداننے کے لئے کہتے تھے اس کے لئے پتھرہے،یعنی وہ محروم ہے۔
ایک شبہہ کاازالہ:
بعض اہل علم کاکہنا ہے کہ اس حدیث میں فراش والی زانیہ کا ذکر ہے اوربچے کے دعویدار دو لوگ تھے،اس لئے اس کیس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بچہ صاحب فراش کا ہوگا۔لہٰذا اگر زانیہ فراش والی نہ ہو اور بچے کو تنہا صرف زانی ہی اپنی طرف منسوب کررہاہو تو دریں صورت بچہ کا نسب زانی سے ثابت ماناجائے گا۔
عرض ہے کہ:
اولا:
مذکورہ حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ بچہ صاحب فراش کا ہوگا ، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص صاحب فراش نہ ہو بچہ اس کا نہیں ہوسکتا ۔
 أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى 370) فرماتے ہیں:
”وَقَوْلُهُ: ”الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ“ قَدْ اقْتَضَى مَعْنَيَيْنِ: أَحَدُهُمَا: إثْبَاتُ النَّسَبِ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ، وَالثَّانِي: أَنَّ مَنْ لَا فِرَاشَ لَهُ فَلَا نَسَبَ لَهُ; لِأَنَّ قَوْلَهُ: ”الْوَلَدُ“ اسْمٌ لِلْجِنْسِ، وَكَذَلِكَ قَوْلُهُ: ”الْفِرَاشُ“ لِلْجِنْسِ، لِدُخُولِ الْأَلِفِ وَاللَّامِ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَبْقَ وَلَدٌ إلَّا وَهُوَ مُرَادٌ بِهَذَا الْخَبَرِ، فَكَأَنَّهُ قَالَ: ‌لَا ‌وَلَدَ ‌إلَّا ‌لِلْفِرَاشِ“
”حدیث کے الفاظ ”بچہ صاحب فراش کا ہوگا“ اس کے دو معانی ہیں ایک یہ کہ نسب کا اثبات صرف صاحب فراش ہی کے لئے ہوگا ، دوسرے یہ کہ جو شخص صاحب فراش نہیں ہوگا اس کے لئے کوئی نسب نہیں ہوگا ، نیز حدیث کا لفظ ”الولد“ اور ”الفراش“ جنس کے لئے ہے کیونکہ اس پر الف لام داخل ہے ، لہٰذا ہر نسب والا بچہ اس میں شامل ہے ، گویا کہ حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ بچے کا نسب صرف صاحب فراش ہی کے لئے ثابت ہوگا۔“[أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي 5/ 160] 
ثانیا:
مذکورہ حدیث میں صاحب فراش کے لئے  نسب کا حکم ہے اور زانی کے لئے الگ سے یہ حکم ہے کہ :”وللعاهر الحجر“ یعنی (زانی کے لئے محرومی ہے) ۔اور یہ دوسراحکم ہرزانی کے لئے عام ہے ،اگر یہ عام نہ ہوتا تو صرف یہ کہہ دیا جاتا ہےکہ لڑکا صاحب فراش کا ہے۔یہ کہتے ہی زانی محروم ہوجاتا،اور یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی کہ زانی کے لئے محرومی ہے۔
لیکن ایک طرف صاحب فراش لئے نسب کا حکم ، اور ساتھ ہی دوسری طرف زانی کے لئے محرومی کاحکم،اس تکرارکا سوائے اس کے کوئی مطلب نہیں کہ زانی کے لئے ہرحال میں محرومی ہے۔
الغرض مذکورہ حدیث میں زانی کے لئے ایک عمومی حکم بتادیا گیاہے کہ اس کے لئے محرومی ہے ۔اب چاہے زانیہ فراش والی ہو یانہ ہوبہرصورت زانی اس بچے سے محروم ہی ہوگا اوراس سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا۔
إبراهيم بن عبدالله بن صالح القصيّر لکھتے ہیں:
”أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم لم يجعل ولداً لغير الفراش كما لم يجعل للعاهر سوى الحجر - وهو الخيبة والحرمان - وإلحاق ولد الزنا بالزاني إلحاق للولد بغير الفراش ، ومخالفة لحرمان العاهر“ 
”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب فراش کے علاوہ کسی اور کی طرف بچہ کی نسبت نہیں کی ہے ، اور زانی کے لئے پتھر یعنی محرومی کی بات کی ہے ، اور زنا سے پیدا ہونے والے بچے کو زانی کی طرف منسوب کرنا بچہ کو غیر صاحب فراش کی طرف منسوب کرنا ہے اور زانی کے لئے جو محرومی کی بات کی گئی ہے اس کی مخالفت کرنا ہے۔“ [أحكام ولد الزنا ص97]
اس تفصیل سے مذکورہ حدیث کا ماحصل یہ سامنے آتا ہے کہ صرف صاحب فراش ہی کسی بچہ کا باپ ہوسکتا ہے ،اور زانی زنا سے پیدا ہونے والے بچہ کا باپ نہیں ہوسکتا بلکہ وہ اس بچے سے محروم ہی رہے گا۔
.
نیز درج ذیل حدیث سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے:
عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: قام رجل فقال: يا رسول الله، إن فلانا ابني عاهرت بأمه في الجاهلية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا دعوة في الإسلام، ذهب أمر الجاهلية، الولد للفراش وللعاهر الحجر»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ(فتح مکہ کے وقت) ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! فلاں میرا بیٹا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں اس طرح کا مطالبہ صحیح نہیں، زمانہ جاہلیت کی بات ختم ہوئی، بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لیے محرومی ہے“۔[سنن أبي داود 2/ 283رقم 2274وإسناده حسن،مسند أحمد ط الرسالة رقم6681 وإسناده حسن]
مسند احمد میں یہ روایت مفصل ہے اوراس میں صراحت ہے کہ:
لما فتحت مكة على رسول الله صلى الله عليه وسلم....
یعنی مذکورہ حدیث میں سائل نے فتح مکہ کے وقت سوال کیا تها[مسند أحمد ط الرسالة رقم6681 وإسناده حسن]
اس حدیث میں غور کریں کہ فتح مکہ کے وقت ایک صحابی زمانہ جاہلیت میں کسی عورت کے ساتھ زناکی بات کررہے ہیں اوروہ زانیہ فراش والی تھی یا نہیں تھی اس کا کوئی تذکرۃ نہیں کررہے ہیں ،اورنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کوئی تفصیل پوچھ رہے ہیں ، بلکہ یہ سنتے ہے یہ قانون ذکر کررہے ہیں کہ بچہ صاحب فراش کا ہوگا اور زانی کے لئے محرومی ہوگی۔ مطلب واضح ہے کہ زانی کی محرومی والی بات فراش والی زانیہ کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔[نیز دیکھیں: أحكام ولد الزنا في الفقة الإسلامي :ص 66]
.
✿دوسری دلیل:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا محمد بن راشد وهو أشبع، عن سليمان بن موسى، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده(عبد الله بن عمرو بن العاص) قَالَ: «إِنَّ النَّبِيَّ صلّى الله عليه وسلم قَضَى أَنَّ كُلَّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ، فَقَضَى أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا، فَقَدْ لَحِقَ بِمَنْ اسْتَلْحَقَهُ، وَلَيْسَ لَهُ مِمَّا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَيْءٌ، وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ، وَلَا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَمْ يَمْلِكْهَا، أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا، فَإِنَّهُ لَا يَلْحَقُ بِهِ وَلَا يَرِثُ، وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنْيَةٍ مِنْ حُرَّةٍ، كَانَ أَوْ أَمَةٍ»
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ جس لڑکے کو اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس باپ سے ملایا جائے جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اور باپ کے وارث اسے اپنے سے ملانے کا دعویٰ کریں تو اگر اس کی پیدائش ایسی لونڈی سے ہوئی ہے جو صحبت کے دن اس کے ملکیت میں رہی ہو تو ملانے والے سے اس کا نسب مل جائے گا اور جو ترکہ اس کے ملائے جانے سے پہلے تقسیم ہو گیا ہے اس میں اس کو حصہ نہ ملے گا، البتہ جو ترکہ تقسیم نہیں ہوا ہے اس میں اسے حصہ دیا جائے گا، لیکن جس باپ سے اس کا نسب ملایا جاتا ہے اس نے (اپنی زندگی میں اس کے بیٹا ہونے سے) انکار کیا ہو تو وارثوں کے ملانے سے وہ نہیں ملے گا، اگر وہ لڑکا ایسی لونڈی سے ہو جس کا مالک اس کا باپ نہ تھا یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس کے باپ نے زنا کیا تو اس کا نسب نہ ملے گا اور نہ اس کا وارث ہو گا گرچہ جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اسی نے (اپنی زندگی میں) اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہو کیونکہ وہ زنا کی اولاد ہے آزاد عورت سے ہو یا لونڈی سے۔[سنن أبي داود رقم 2265 وإسناده صحيح و حسنہ الالبانی]

امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”فهذا الحديث يرد قول إسحاق ومن وافقه، لكن فيه محمد بن راشد، ونحن نحتج بعمرو بن شعيب، فلا يعلل الحديث به، فإن ثبت هذا الحديث تعين القول بموجبه، والمصير إليه، وإلا فالقول قول إسحاق ومن معه“ 
”یہ حدیث امام اسحاق اور ان کے موافقین کے قول کی تردید کرتی ہے ، لیکن اس کی سند میں ”محمد بن راشد“ ہے ، باقی اس سند کے اوپر عمروبن شعیب کا جو سلسلہ ہے وہ ہمارے نزدیک حجت ہے لہٰذا اس کے سبب اس حدیث پرجرح نہیں کی جاسکتی ، پس اگر یہ حدیث ثابت ہوجائے تو اس کے مطابق بات کہنا اور وہی موقف اپنانا متعین ہوجائے گا، ورنہ اس حدیث کے ضعیف ہونے کی صورت میں امام اسحاق اور ان کے موافقین کا قول ہی راجح ہوگا۔“[زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 384]
عرض ہے کہ ”محمد بن راشد“ بلاشک و شبہہ ثقہ ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں ”صدوق يهم ورمي بالقدر“ کہا تو تحریر التقریب کے مؤلفین نے اس پر لکھا :
”بل: ثقة، وثقه أحمد، فقال: «ثقة ثقة» ، وابن معين، وعبد الله بن المبارك، والنسائي، وعبد الرحمن بن صالح، وقال الذهبي في الكاشف : « وثقه أحمد وجماعة» . وقال دحيم: مستقيم الحديث، وقال أبو حاتم: كان صدوقا حسن الحديث. وإنما ضعفه بعضهم بسبب ما رمي به من البدع، فقالوا: قدري، وقالوا: معتزلي، وقالوا: شيعي، وقالوا: كان يرى الخروج على الأئمة، وهي علل غير قادحة في صدقه ووثاقته، بل قال الجوزجاني: كان مشتملا على غير بدعة، وكان فيما سمعت متحريا للصدق في حديثه، وقال الساجي: صدوق، إنما تكلموا فيه لموضع القدر لا غير!“ 
 ”بلکہ یہ ثقہ ہے ، امام احمد رحمہ اللہ نے انہیں ثقہ قرار دیتے ہوئے کہا: « یہ ثقہ ہے ، یہ ثقہ ہے» ، نیز امام ابن معین ، امام ابن المبارک ، امام نسائی ، امام عبدالرحمن بن صالح نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے ، امام ذہبی نے کاشف میں کہا: «انہیں امام احمد اور ایک جماعت نے ثقہ کہا ہے » ۔ امام دحیم نے انہیں مستقیم الحدیث کہا ہے ، امام ابوحاتم نے انہیں صدوق و حسن الحدیث قرار دیا ہے ، اور بعض نے ان کی تضعیف اس سبب کی ہے کہ ان کی طرف بدعی رائے منسوب ہے چنانچہ بعض نے انہیں قدری، بعض نے معتزلی، بعض نے شیعی کہا ہے، اور بعض نے کہا کہ: یہ حکام کے خلاف خروج کے قائل تھے ، اور یہ سب ایسی علتیں ہیں جو ان کی صداقت اور ثقاہت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی ہیں ، بلکہ امام جوزجانی نے کہا ہے کہ : یہ بدعت سے پاک تھے ، اور جہاں تک میں نے سنا ہے یہ حدیث کی روایت میں سچے تھے ۔ اور امام ساجی نے کہا کہ : یہ سچے ہیں ان کے بارے میں صرف قدری رائے کے سبب کلام کیا گیا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری وجہ نہیں ۔“ [تحرير تقريب التهذيب رقم 5875]
معلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح ہے ، لہٰذا امام ابن القیم رحمہ اللہ کے بقول اس کے مطابق موقف اپنانا لازم ہے۔

فریق مخالف کے دلائل 
 ✿ پہلی دلیل :
صحیح بخاری میں ایک طویل واقعہ ہے جس میں جریج زنا سے پیدہ ہونے والے بچے سے پوچھتے ہیں کہ : 
”من أبوك يا غلام؟“ 
”اے بچے تیرا باپ کون ہے؟“ [صحيح البخاري رقم 2482]
تو بچہ کسی چرواہے کانام بتاتا ہے ۔
عرض ہے کہ:
یہاں باپ شرعی معنی میں نہیں ہے ،بلکہ لغوی معنی میں ہے یعنی جریج کے سوال کا مقصد بچے کو زانی کی طرف نسب کے اعتبار سے منسوب کرنا نہیں تھا ، بلکہ یہ پتہ کرنا تھا کہ یہ بچہ کس کے نطفے سے پیدا ہوا ہے۔ 
اس کی دلیل یہ ہے کہ دوسری حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری صراحت کے ساتھ زناسے نسب کی نفی کی ہے، [سنن أبي داود رقم 2265 وإسناده صحيح و حسنہ الالبانی]
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک دوسری حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ولد الزنا اور زانی کا ذکرکرتے ہوئے زانی کے لے ”اب“ کا لفظ استعمال کیا ہے ، یہ حدیث اوپر دوسری دلیل کے تحت گذرچکی ہے ۔
علاوہ بریں یہ پہلی شریعت کا واقعہ ہے ، اور ہماری شریعت میں زنا سے نسب کے عدم اثبات پر دلائل موجود ہیں، جیساکہ ماقبل میں ذکر کئے گئے ۔
.
 ✿ دوسری دلیل:  
حدیث لعان میں ہے:
”فإن جاءت به أكحل العينين، سابغ الأليتين، خدلج الساقين، فهو لشريك ابن سحماء“ 
 ”گر بچہ خوب سیاہ آنکھوں والا، بھاری سرین اور بھری بھری پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو پھر وہ شریک بن سحماء ہی کا ہو گا“[صحيح البخاري 4747]
ان الفاظ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ولد الزنا کو زانی کی طرف منسوب کرنی کی بات کی ہے ، اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ زنا سے بھی نسب کااثبات ہوگا ۔
عرض ہے کہ:
یہ نسبت بھی اثبات نسب کے لئے نہیں ہے بلکہ بیان سبب کے لئے ہے ۔ جیساکہ ماقبل میں  جریج والے واقعہ میں وضاحت کی گئی ۔
.
 ✿ تیسری دلیل: 
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن الأجلح، عن الشعبي، عن عبد الله بن الخليل، عن زيد بن أرقم قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل من اليمن، فقال: إن ثلاثة نفر من أهل اليمن أتوا عليا، يختصمون إليه في ولد، وقد وقعوا على امرأة في طهر واحد، فقال: لاثنين منهما طيبا بالولد لهذا فغليا، ثم قال: لاثنين طيبا بالولد لهذا فغليا، ثم قال: لاثنين طيبا بالولد لهذا فغليا، فقال: أنتم شركاء متشاكسون، إني مقرع بينكم فمن قرع فله الولد، وعليه لصاحبيه ثلثا الدية، فأقرع بينهم، فجعله لمن قرع، «فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت أضراسه أو نواجذه»
”زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں یمن کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اہل یمن میں سے تین آدمی علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے آئے، ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر (پاکی) میں جماع کیا تھا، تو علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے دو سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے دو، یہ سن کر وہ دونوں بھڑک گئے، پھر دو سے یہی بات کہی، وہ بھی بھڑک اٹھے، پھر دو سے اسی طرح گفتگو کی لیکن وہ بھی بھڑک اٹھے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: ”تم تو باہم ضد کرنے والے ساجھی دار ہو لہٰذا میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہوں، جس کے نام کا قرعہ نکلے گا، لڑکا اسی کو ملے گا اور وہ اپنے ساتھیوں کو ایک ایک تہائی دیت ادا کرے گا“ ، آپ نے قرعہ ڈالا اور جس کا نام نکلا اس کو لڑکا دے دیا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں یا کچلیاں نظر آنے لگیں۔“ [سنن أبي داود رقم 2269]
یہ روایت ضعیف ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے سنن ابی داؤد بتحقیق شعیب الارنؤوط رقم 2269۔
.
 ✿ چوتھی دلیل: 
«أن ‌عمر بن الخطاب ‌كان ‌يليط ‌أولاد ‌الجاهلية بمن ادعاهم في الإسلام». 
”زمانہ جاہلیت کے طوائفوں کی اولاد کو دور اسلام میں ان کے  باپ کی طرف منسوب کرتے تھے“[موطأ مالك - رواية يحيى 4/ 1072 ت الأعظمي ، إسناده منقطع لكنه صحيح من طرق أخري]
عرض ہے کہ:
اولا:
یہ اثرصحیح اور صریح حدیث کے خلاف ہے اس لئے یہ حجت نہیں ، اور عمر رضی اللہ عنہ کے علم میں ممکن ہے یہ حدیث نہ رہی ہو ۔
ثانیا:
یہ حکم صرف زمانہ جاہلیت کی زناکاری سے متعلق تھا ، کوئی عام حکم نہیں تھا ، لہذا عہد اسلام کی زنکاری سے متعلق اس اثر سے استدلال درست نہیں ہے ۔
أبو الحسن الماوردي (ت 450هـ) فرماتے ہیں:
«فَأَمَّا الْجَوَابُ عَنِ الْحَدِيثِ الْمَرْوِيِّ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَلِيطُ أَوْلَادَ الْبَغَايَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِآبَائِهِمْ فِي الْإِسْلَامِ ، فَهُوَ أَنَّ ذلك منه فِي عِهَارِ الْبَغَايَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ دُونَ عِهَارِ الْإِسْلَامِ، وَالْعِهَارُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَخَفُّ حُكْمًا مِنَ الْعِهَارِ فِي الْإِسْلَامِ، فَصَارَتِ الشُّبْهَةُ لَاحِقَةً بِهِ وَمَعَ الشُّبْهَةِ يَجُوزُ لُحُوقُ الْوَلَدِ، وَخَالَفَ حُكْمَهُ عِنْدَ انْتِفَاءِ الشُّبْهَةِ عَنْهُ فِي الْإِسْلَامِ»
”عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا جو یہ اثر ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت کے طوائفوں کی اولاد کو دور اسلام میں ان کے جاہلی باپ کی طرف منسوب کرتے تھے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ زمانہ جاہلیت کے طوائفوں کی زناکاری سے متعلق ہے نہ کہ اسلام آنے کے بعد ہونے والی زناکاری سے متعلق ، اور زمانہ جاہلیت میں زناکاریوں کا معاملہ عہد اسلام میں ہونے والی زناکاریوں کے بنسبت اخف ہے (کیونکہ وہ بعض طرح کی زناکاری کو بھی نکاح سمجھتے تھے) ، اس لئے ان کے ساتھ شبہہ جڑا ہے ، اور شبہ کے سببب بچے کی نسبت کرنا درست ہوتا ہے (مثلا نکاح شبہہ کے مسئلہ میں) ، اور عہد اسلام میں اس شبہہ کی گنجائش نہیں ہے (کیونکہ اسلام نے زناکاری کی ہرقسم کو نکاح کے حکم سے خارج کردیا ہے) ، اس لئے عہد اسلام میں زناکاری کا حکم بھی الگ ہوگا۔“ [«الحاوي الكبير» 8/ 163]
.
✿ پانچویں دلیل:
 ماں کی طرف نسبت پر قیاس:
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ زناسے جو بچہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا ہے جیساکہ متعدد احادیث سے ثابت ہے۔تو جب یہ بچہ زانیہ کی طرف منسوب ہوسکتاہے تو زانی کی طرف کیوں نہیں منسوب ہوسکتا؟اگر باپ زانی ہے تو ماں بھی تو زانیہ تھی ؟
عرض ہے کہ :
جس طرح متعدد احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زنا سے پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا ،اسی طرح متعدد احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ زناسے پیدا ہونے والابچہ زانی کی طرف منسوب نہیں ہوگا ۔لہٰذا جب زانی کی طر ف عدم نسبت نص سے ثابت ہے تو نص کی موجوگی میں قیاس نہیں کیا جاسکتاہے جیساکہ فقہ کا مسلم قاعدہ ہے۔
بطور مثال عرض ہے کہ فرض نماز کے اندر ایک رکعت میں دونوں سجدہ رکن ہے اب گر کوئی نمازی ایک سجدہ کرنا بھول گیاتو بھول چوک تومعاف ہے اس پر گناہ نہیں لیکن اسے وہ رکعت دوبارہ پڑھنی ہوگی کیونکہ اس سے رکن فوت ہوگیا ہے۔
دوسری طرف روزہ میں کھانے پینے سے رکنا یہ رکن ہے ، اب اگر کوئی بھول چوک سے فرض روزہ کی حالت میں کھانا کھالے تو قیاس کہتا ہے کہ بھول چوک تو معاف ہے اس پرگناہ نہیں ، لیکن ایسےشخص کو اس دن کا روزہ دوبارہ رکھنا پڑے گاکیونکہ اس سے رکن فوت ہوگیا ہے۔لیکن ہم یہاں یہ قیاس نہیں کرسکتے کیونکہ روزہ سے متعلق نص موجود ہے کہ جو کوئی بھول چوک سے کھالے وہ اپنا روزہ پورا کرے اور اس پر کوئی قضاء نہیں ہے ۔
معلوم ہواکہ نص کی موجودگی میں قیاس نہیں کیا جائے گا لہٰذا زانی کی طرف ولد الزنا کی نسبت کو زانیہ کی طرف نسبت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
.
 ✿ ایک جذباتی دلیل کاجائزہ:
بعض لوگوں کہتے ہیں ، مصلحت کا تقاضا یہ کہ والد الزنا کو زانی کی طرف منسوب کیا جائے ، پھر اس مصلحت کی تفصیل میں طرح طرح کی باتیں پیش کرتے ہیں ، مثلا یہ کہ اس سے زنا کرنے والوں گے گناہ پر پردہ ڈالاجاتا ہے اور زنا کرنے والوں کے لئے توبہ کی راہ ہموار ہوتی ہے، نیز ولد الزنا کو بچے کا نام نہ دیا جائے تو اسے اس کی بدنامی ہوتی ہے ، اوراس کا نقصان ہوتا ہے جبکہ اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔وغیرہ وغیرہ۔
عرض ہے کہ:
اولا:
یہ مصلحتیں نص سے معارض ہیں اس لئے کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ نص کی موجودگی میں قیاس ومصلحت اندیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ثانیا:
مصلحت تو یہ بھی ہے کہ زنا اور زانیوں کے لئے سزا ہو اوران کی حوصلہ شکنی ہے۔
امام السَّرَخْسِيّ (ت483ھ) فرماتے ہیں: 
«ولأن قطع النسب شرعا لمعنى الزجر عن الزنا فإنه إذا علم أن ‌ماءه ‌يضيع ‌بالزنا ‌يتحرز عن فعل الزنا» 
”شریعت میں زنا سے نسب کی نفی کا مقصد زنا سے سے روکنا ہے ، کیونکہ جب زانی کو یہ پتہ ہو تا کہ زنا کے ذریعہ ہونے والا بچہ اس کا نہیں ہوگا تو وہ زنا سے دور رہے گا“[ المبسوط للسرخسي 4/ 207] 
.
رہی بات بچے کو باپ کا نام دینے کی تو یہ شریعت سے ٹکراؤ والی بات کیونکہ جب شریعت نے زنا سے نسب کی نفی کی ہے تو زنا سے نسب کا اثبات کرنا شریعت کے خلاف ،  شریعت سازی ہے بلکہ یہ زنا سے بھی بڑا گناہ ہے چنانچہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”أما إن كان المقصود هو ستر الفاحشة التي وقعوا فيها، وتسجيل ولد الزنا باسمهما، فهذا أشد من الزنا“ 
”اگرزانیہ سے زانی کی شادی کا مقصد اس زنا پر پردہ ڈالنا ہو جس میں یہ دونوں واقع ہوئے ، اور ولد الزنا کو اپنا نام دینا ہو تو یہ زنا سے بھی بڑا جرم ہے“ [سلسلة الهدى والنور (مفرغ كاملا) 19/ 48]
یادرہے کہ ولدالزنا کو باپ کے نام سے محروم کرنے میں یقینا بچے کا نقصان ہے ، لیکن ولد الزنا کو باپ کا نام دینے میں جو فساد وبگاڑ ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کرہے۔
شریعت کے بہت سارے احکامات ایسے ہیں جن پر عمل کی صورت میں کسی بے گناہ کا نقصان ہوتا ہے، لیکن ان پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جو فساد وبگاڑ جنم لیتا ہے اس کا نقصان وضرر کئی گنا بڑھ کرہوتا ہے، اس لئے شریعت نے بڑے فساد ونقصان کی روک تھام کے لئے چھوٹے نقصان کو برداشت کرنے کی بات کہی ہے ۔
مثلا باپ اگر مرتد ہوجائے تو وارثین وراثت سے محروم ہوجائیں گے ، حالانکہ اس میں وارثین کا کوئی قصور نہیں ہے ۔
اب وارثین کی بے گناہی اور اور ان کے نقصان کاحوالہ دے کر اسلام کا یہ قانون تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
.
اسلام میں جان کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے بلکہ اسلام میں جان کی حفاظت کی خاطر جبر کی صورت میں زبان سے کفریہ وشرکیہ کلمہ کہنے کی بھی گنجائش ہے ، نیز یتیم بچوں کی پرورش اور ان کفالت پر بہت بڑے ثواب کا وعدہ ہے۔
لیکن ایک شخص جس کے کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہوں جن کی وہ پرورش کررہا ہو اس سے زنا کا جرم سرزد ہوجائے اور ثابت ہوجائے تو اس کے لئے سزائے موت ہے ، اوراس کے نتیجے میں اس کے بچے یتیم ہوجائیں گے ، اوراپنے باپ کے سائے اوراس کی پرورش سے محروم ہوجائیں گے جبکہ ان بچوں کا کوئی قصور نہیں ہے ۔  
اب یہاں اسلام میں جان کی حفاظت اور یتیموں کی کفالت وغیرہ کی اہمیت بتاکر شادی شدہ زانی  کے لئے سزائے موت کے قانون کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔
 .
رہی بات پردہ پوشی کی توپردہ پوشی کا بھی ایک دائرہ ہے ، پردہ پوشی کی وہ شکل جہاں اسلام کے کسی حکم کی پامالی ہورہی ہو وہاں پردہ پوشی کی گنجائش نہیں ہے ، چنانچہ حاملہ عورت  سے وضع حمل سے قبل شادی ناجائزہے ، یہ اسلام کا دو ٹوک اورواضح حکم ہے، اب پردہ پوشی کی خاطر اس حکم کو نہیں بدلاجاسکتا۔
علاوہ بریں ایسی پردہ پوشی سماج و معاشرے میں مزید فساد کا باعث ہے،چنانچہ:
 ❀ شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فأما أن يقول: سوف أتزوجها حتى أسترها أو حتى لا تفتضح؛ فلا يجوز .... فإذا رخص لهم في هذا كثر الزنا، وكثر الفحش، وصار كل من زنى وواقع امرأة حرص على أن يتزوجها ثم يطلقها، وطلاقه لها قد يكون الحامل له عدم ثقته بها، يقول: إذا زنت وهي غير متزوجة ‌فيمكن ‌أن ‌تزني ‌وهي ‌متزوجة، فلا آمنها فراشاً لي». 
”اگرزانیہ حاملہ سے زناکرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں اس سے شادی کرکے اس کے گناہ پر پردہ ڈالتاہوں تاکہ اس کی رسوائی نہ ہو تو یہ جائز نہیں ہے ...اگر ان زانیوں کے لئے اس طرح کی رخصت دی گئی تو فحاشی اور بدکاری اور عام ہوجائے گی ، اور ہر وہ شخص جو کسی عورت کے ساتھ زنا کرے گا وہ اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد اسے طلاق دینا ہی پسند کرے گا کیونکہ اس پر سے اس کا اعتماد اٹھ جائے گا وہ سوچے گا کہ یہ عورت اگر شادی سے پہلے کسی کے ساتھ زنا کرسکتی ہے تو شادی کے بعد بھی کسی کے ساتھ زنا کرسکتی ہے اس لئے یہ بیوی بنانے کے لائق نہیں ہے“ [شرح عمدة الأحكام لابن جبرين 64/ 7 بترقيم الشاملة آليا]
.
بلکہ یہ پردہ پوشی کتنے بڑے فساد کا باعث ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بعض اہل علم جو زنا سے نسب کے اثبات کے قائل ہیں وہ بھی علی الاطلاق اس کا فتوی دینے کے حق میں نہیں ہیں تاکہ اس کے سبب معاشرے میں بے حیائی وبدکاری عام نہ ہوجائے چنانچہ:
 ❀ شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ومن العلماء من يجوز ذلك إذا تحققت التوبة، وأنه إذا استلحقه الزاني يُلحق به. لكن هذا الباب لا يجوز إطلاقًا أن يفتح للناس، فلو كان هذا القول من الناحية النظرية قولًا صحيحًا إلا أنه لا يجوز أن يُفتى به الناس على الإطلاق؛ لأنهم لو أُفتوا به لتساهلوا في هذا الأمر، ولكان كل إنسان ‌يزني بامرأة فإذا ‌حملت ذهب يتزوجها، وأهلها سوف يضطرون إلى أن يزوجوه، وسيفتح بهذا باب شر على الناس“
 ”بعض علماء توبہ کے بعد اسے جائز بتلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرزانی اپنے لڑکے کو اپنالے تو وہ اس کا ہی مانا جائے گا، لیکن اس دروازہ کو لوگوں کےلئے علی الاطلاق کھولنامناسب نہیں ہے ،یہ قول گرچہ علمی اعتبارسے صحیح ہو اس کے باوجود بھی علی الاطلاق لوگوں کواس کے مطابق فتوی دینا درست نہیں ہے ، کیونکہ اگر علماء یہ فتوے دینے لگ جائیں تو لوگ اس معاملہ میں بے پرواہ ہوجائیں گے اور صورت حال یہ ہوگی کہ بہت سے لوگ اپنی محبوبہ سے (شادی کرنے کی خاطرہی) زناکریں گے کیونکہ جب وہ حاملہ ہوجائے گی اور اس کے بعد وہ اس سے شادی کی مانگ کریں گے تو اس کے گھر والے مجبورااس کے ساتھ اس کی شادی کردیں گے ،اوراس طرح لوگوں کے لئے ایک شر کادروازہ کھل جائے گا“ ۔[تفسير العثيمين: النساء 2/ 516]
الغرض زنا سے نسب کے اثبات میں مصلحت سے زیادہ مفسدت ہی ہے ۔لہٰذا اس لحاظ سے بھی زنا سے نسب کے اثبات کی گنجائش نہیں ہے ۔
.
خلاصہ کلام یہ کہ زانیہ حاملہ سے وضع حمل سے قبل شادی ناجائزہے خواہ شادی کرنے والا زانی ہی ہو ، کیونکہ:
 ● اول : اس حمل کا سبب گرچہ زانی ہے لیکن شرعا یہ بچہ زانی کا نہیں مانا جائے گا، کیونکہ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا۔
 ● دوم : زانیہ کاحمل حرام نطفے سے ہے ،اوراس حالت میں اس سے شادی کی گئی تو اس کے ساتھ حلال نطفہ خلط ملط ہوگا ۔لہٰذا وضع حمل سے قبل زانیہ سے زانی بھی شادی نہیں کرسکتاجیساکہ حاملہ سے شادی کی ممانعت پر شریعت کا عام اصول ہے۔واللہ اعلم۔
(ختم شد)
(تحریر : کفایت اللہ سنابلی)


No comments:

Post a Comment