زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (1) - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-07-11

زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (1)


زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی  (1)
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿ 
حاملہ سے شادی کی ممانعت اور اس کی حکمت وعلت
  شریعت کا یہ جو عام اصول ہے کہ حاملہ عورت سے شادی ناجائز ہے، تو اس کے پیچھے حکمت وعلت یہ ہے کہ اگر حاملہ عورت سےوطی وہمبستری کی جائے تو نطفہ وخون کا اثر بچے پر پڑتا ہے، اب یہ نطفہ ڈائریکٹ بچہ پر اثرانداز ہوتا ہے یاماں کے جسم وخون میں اثرانداز ہونے کے بعد بچے بھی اثر ڈالتا ہے ، یہ اللہ ہی بہترجانتاہے لیکن حدیث سے اتنا توطے ہےکہ حاملہ کے ساتھی وطی وہمبستری کرنے پراس کےحمل پر نطفہ وخون کااثر ہوتا ہے ۔
✿چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ ‌يَسْقِيَ ‌مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَى“
”اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب حاملہ لونڈی سے جماع کرنا تھا“ [سنن أبي داود رقم 2158 وحسنہ الالبانی]
.
شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ اس حدیث سے استدال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ومن فوائد الحديث: الإشارة إلى أن ‌الجماع ‌يزيد ‌في ‌الحمل؛ لقوله: يسقي ماءه زرع غيره ، ومعلوم أن الماء إذا سقي به الزرع فإن الزرع ينمو ويزداد».
”اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دروان حمل ہمبستری سے حمل بڑھتا ہے ، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں: ”دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے“ اور یہ بات معلوم ہے کہ پانی سے جب کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے تو کھیتی کی نشو نما ہوتی ہے اور وہ بڑھتی ہے“ [فتح ذي الجلال والإكرام بشرح بلوغ المرام ط المكتبة الإسلامية 5/ 129]
.
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے ، لکھتے ہیں:
«ومعلوم أن الماء الذي يُسْقى به الزرع يزيد فيه، ويتكوّن الزرع منه»
”اور یہ بات معلوم ہے کہ جس پانی سے کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے اس سے کھیتی میں اضافہ ہوتا ہے اور کھیتی اس سے پھلتی پھولتی ہے“  [تهذيب سنن أبي داود 1/ 460]
.
✿ایک دوسری حدیث ہے:
”عَنْ ‌أَبِي الدَّرْدَاءِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « أَنَّهُ أَتَى بِامْرَأَةٍ مُجِحٍّ عَلَى بَابِ فُسْطَاطٍ، فَقَالَ: لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنًا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ، ‌كَيْفَ ‌يُوَرِّثُهُ ‌وَهُوَ ‌لَا ‌يَحِلُّ ‌لَهُ، كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ“
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم( ایک غزوہ کے موقع پر )ایک خیمہ کے دروازے پر گزرے اور وہاں ایک (حاملہ لونڈی) عورت کو دیکھا کہ قریب جننے کے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ شاید وہ شخص اس سے ارادہ جماع کا رکھتا ہے۔“ (یعنی جس کے پاس ہے) لوگوں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے چاہاکہ اس کو ایسی لعنت کروں جو لعنت قبر تک اس کے ساتھ رہے ، وہ کیونکر اس لڑکے کا وارث ہو سکتا ہے حالانکہ وہ اس کو حلال نہیں ! اور اس لڑکے کو غلام کیسے بنا دے گا حالانکہ وہ اس کو حلال نہیں !“ [صحيح مسلم رقم 1441]
.
امام ابن القیم رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
”يَعْنِي: أَنَّهُ إِنِ اسْتَلْحَقَهُ ‌وَشَرِكَهُ ‌فِي ‌مِيرَاثِهِ، لَمْ يَحِلَّ لَهُ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِوَلَدِهِ، وَإِنْ أَخْذَهُ مَمْلُوكًا يَسْتَخْدِمُهُ لَمْ يَحِلَّ لَهُ لِأَنَّهُ قَدْ شَرِكَ فِيهِ لِكَوْنِ الْمَاءِ يَزِيدُ فِي الْوَلَدِ“
 ”یعنی اس حاملہ عورت کے حمل سے جو پچہ پیدا ہوگا اگر اس نے اسے اپنا بیٹا اور وارث بنالیا تو یہ اس کے لئے حلال نہیں ہے کیونکہ یہ اس کا بچہ نہیں ہے (اس لئے کہ لونڈی اس کی ملکیت میں آنے سے قبل ہی حاملہ تھی )، اور اگر اس نے اس بچے کو غلام اور اپنا خادم بنالیا تو یہ بھی اس کے لئے جائز نہیں کیونکہ (اس کی ماں سے ہمبستری کے بعد ) اس بچے میں اس کا خون بھی شامل ہوگیا ہے ، اس لئے کہ حاملہ سے وطی  وہمبستری کرنے کے بعد نطفہ حمل میں شامل ہوتا ہے۔“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 142]

ایک دوسری کتاب میں امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہین:
 «وقد دلَّت المشاهدةُ على أنَّ الحامل إذا وُطِئت كثيرًا جاء ‌الولد ‌عَبْلًا ‌ممتلئًا، وإذا هُجِر وطؤها جاء الولد ضئيلًا ضعيفًا» 
 ”اور مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جب حاملہ سے بکثرت جماع کیا جائے تو بچہ صحت مند اور ہرا بھرا پیدا ہوتا ہے، اور جب حاملہ سے ہمبستری ترک کردی جائے تو بچہ کمزور ونحیف پیدا ہوتاہے“ . [التبيان في أيمان القرآن - ط عطاءات العلم 1/ 538]
.
امام ابن القیم رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں:
 «لأنَّ الوطء ‌يزيد ‌في ‌خِلْقَة ‌الولد، كما قال الإمام أحمد: الوطء يزيد في سمع الولد وبصره » 
 ”حاملہ سے ہمبستری بچے کی صحت میں اضافہ کرتی ہے جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ : دوران حمل ہبستری سے بچے کی سماعت اور بصارت مضبوط ہوتی ہے“ . [التبيان في أيمان القرآن 1/ 536]
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ماقبل میں مذکور سنن ابی داؤد کی حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ کے قول کی دلیل قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
”قال الإمام أحمد: ‌الوطء ‌يزيد ‌في ‌سمعه ‌وبصره. وقد صرَّح النبيُّ - صلى الله عليه وسلم بهذا المعنى في قوله: «لا يحلّ لرجلٍ أن يسقي ماءَه زرعَ غيرِه» . ومعلوم أن الماء الذي يُسْقى به الزرع يزيد فيه، ويتكوّن الزرع منه“ 
”امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ : دوران حمل ہمبستری سے بچے کی سماعت وبصارت میں اضافہ ہوتا ہے ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مفہوم کی صراحت اپنی اس حدیث میں کی ہے کہ : «کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے » ، اور یہ بات معلوم ہے کہ جس پانی سے کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے اس سے کھیتی میں اضافہ ہوتا ہے اور کھیتی اس سے پھلتی پھولتی ہے“ [تهذيب سنن أبي داود 1/ 460]
.
مذکورہ تفصیل سے شریعت کے اس حکم کی علت و حکمت  واضح ہوجاتی ہے کہ حاملہ عورت سے وضع حمل سےقبل شادی کرنا کیوں ناجائز ہے ۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ ماقبل میں مذکور صحیح مسلم کی حدیث سے استدلال کرتےہوئے لکھتے ہیں:ْ
”وَفِي هَذَا دَلَالَةٌ ظَاهِرَةٌ عَلَى تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْحَامِلِ سَوَاءٌ كَانَ حَمْلُهَا مِنْ زَوْجٍ أَوْ سَيِّدٍ أَوْ شُبْهَةٍ أَوْ زِنًى“
” اس حدیث میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حاملہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے خواہ اس کا حمل شوہر سے ہو ، یا آقا سے ہو ، یا شبہ کی بنیاد پر ہو، یا زنا سے ہو“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 142]
.
یاد رہے کہ اگرکسی عورت کے ساتھ زناکیا گیا اور پھراسے حمل ٹہرگیا تو وضع حمل( یعنی بچے کی پیدائش) سے پہلے اس عورت سے وہ زانی بھی شادی نہیں کرسکتا جس کے نطفہ سے یہ حمل ٹھرا ہے ۔
کیونکہ مذکورہ حکم کے عموم میں یہ بھی شامل ہے نیز زانیہ کا حمل حرام نطفے کا ہوتا ہے اور اس حالت میں اس کے ساتھ شادی کی جائے گی تو اس کے ساتھ حلال نطفے کا اختلاط ہوگا اور بچہ حرام اور حلال خون کا مجموعہ ہوگا اس بناپر بھی یہ شادی جائز نہیں ہے۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض وہ اہل علم جوعدم تنازع کی صورت میں زنا سے نسب کو ثابت مانتے ہیں وہ بھی زانیہ حاملہ سےاس کے زانی کی شادی وضع حمل سے پہلےجائز نہیں مانتے تاکہ حرام اور حلال خون کا اختلاط نہ ہو۔
.
◈ ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ حلال نطفہ اور حرام نطفہ میں اختلاط سے بچنے کے لئے یہ بھی تو کیا جاسکتا ہے کہ شادی کے بعد وضع حمل تک زانی کوہمبتسری کی اجازت نہ دی جائے ، جیساکہ بعض کا موقف ہے۔
توعرض ہے کہ:
اس فلسفہ کی رو سے کسی بھی حاملہ کی عدت وضع حمل نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہرحاملہ کی شادی جائز ٹہرانی چاہئے اور یہ کہنا چاہے کہ شوہر وضع حمل سےقبل ہمبستری نہ کرے ۔
مثلا کسی حاملہ عورت کا شوہر فوت ہوجائے ، یاکسی حاملہ عورت کو طلاق بائن دے دی جائے ، تو کیا کسی دوسرے شخص کو اس کے ساتھ شادی کی اجازت دی جاسکتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ وضع حمل تک اس سے ہمبستری نہیں کرے گا؟ اگر نہیں تو پھر زانیہ حاملہ کے ساتھ بھی مذکورہ شرط پر کسی کوشادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔
.
❀ حاملہ عورت سے منع نکاح کی علت اور میڈیکل سائنس:
ماقبل میں جو یہ کہا گیا کہ حاملہ سےجماع کرنے کی صورت میں مرد کے پانی کا حمل پر اثر پڑتا ہے ، تو بعض لوگ یہ کہتے ہیں یہ بات میڈیکل سائنس کے خلاف ہے ۔
عرض ہے کہ:
 ① اولا:
ابھی تک ایسی کوئی میڈیکل ریسرچ سامنے نہیں آئی ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہو کہ حاملہ سے جماع کرتے وقت مرد کے منی کا حمل پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے رحم میں حمل ٹہرنے کے بعد بچہ ہرطرف سے قید ہوجاتا ہے اور باہر کی کوئی چیز اس تک نہیں پہنچتی ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے مرد کا پانی بھی  اس بچے پر بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئی اثر نہیں ڈالتا ، بلکہ کئی اطباء دوران حمل ہبستری کے یہ فوائد بتلاتے ہیں کہ اس سے ماں کی صحت کو فائدہ پہنچتا ہے ، لہٰذا جب یہ ماں کی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے تو بالواسطہ بچے کی صحت پر بھی اس کا اثر ہوگا ۔
 ② ثانیا:
اگر یہ مان لیں کہ دوران حمل ہمبستری سے مرد کے منی کا حمل پر بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئی بھی اثر نہیں پڑتا ہے ، تو اشکال صرف زانیہ حاملہ سے منع نکاح پر نہیں ہوگا ، بلکہ دیگر حاملہ خواتین مثلا حاملہ متوفی عنہا زوجہا وغیرھا سے منع نکاح پر بھی اشکال وارد ہوگا۔
ایسی صورت میں یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ حاملہ سے منع نکاح کی علت تعبدی اور غیر معقول المعنی ہے ، جیساکہ اہل علم کی ایک جماعت کا یہ موقف ہے ۔ دیکھیں:[ بداية المجتهد ونهاية المقتصد 3/ 92] 
اورجب حاملہ عورت سے منع نکاح کی علت کو تعبدی اور غیر معقول المعنی مان لیں گے تو پھر اس حکم میں بشمول زانیہ حاملہ ہر قسم کی حاملہ عورت  شامل ہوگی کیونکہ کسی کا بھی استثناء کرنے کے لئے حکم کی تعلیل کرنے پڑے گی ، اور تعبدی حکم کی تعلیل نہیں کی جاتی ۔
الغرض یہ کہ اگر کوئی حاملہ عورت سے منع نکاح کی مذکورہ علت نہ مانے تو بشمول حاملہ زانیہ ہر حاملہ عورت سے نکاح کو ناجائز وحرام ماننا ہوگا۔
لیکن ہماری نظر میں درست بات یہ ہے کہ حاملہ سے منع نکاح کا حکم معقول العلہ ہے اور اس کی علت وہی ہے جو گذشتہ سطور میں ذکر کی گئی اور اس رو سے حاملہ زانیہ سے وضع حمل سے قبل نکاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، یہی جمہور اہل علم کا موقف ہے۔
اب اگلی سطور میں ہم جمہور اہل علم کے بعض اقوال پیش کریں گے اس کے بعد اس مسئلہ کے دلائل پر بات ہوگی ۔
.
(جاری ہے ۔۔۔۔۔)
.

No comments:

Post a Comment