![]() |
۱۹۱۰ء کے بعد اصحاب التدریسں اور خطباء کے دماغ میں یہ خبط سمایا کہ ہمارا نام ”امام جی“ یا ”امیر المومنین“ ہونا چاہیے۔ چند سفہاء کی معیت سے مسجد کے کسی گوشے میں بیٹھے بیٹھے چند منٹوں میں مولانا سے امام جی اور امیر المومنین ہو گئے ۔ وعظ اور خطبوں میں ”امارت شرعیہ“ یا ”امارت عامہ“ کی احادیث پڑھی جا رہی ہیں۔ جاہلیت کی موت سے ڈرایا جا رہا ہے۔ زکاۃ کے لیے تاکید کی جا رہی ہے کہ غرباء اور مساکین کے بجائے زکات امام جی کو دی جائے۔ لیکن مظلوموں کی اعانت ، سرحدوں کی حفاظت، حدود کے اجراء، غنڈوں کی سرزنش کا ذکر آئے تو امیر المومنین فوراً مکہ معظمہ کا رخ فرماتے ہیں اور بڑی راز داری سے فرماتے ہیں کہ ہماری فی الحال مکی زندگی ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ مکہ معظمہ میں زکات ہی فرض نہ تھی، اس کا استحقاق آپ کو کیسے ہوا؟
غرض یہ نقشہ آج کی ”امارتوں“ پر بھی پوری طرح منطبق ہوتا ہے، لیکن معلوم ہے شارع حکیم کی یہ قطعاً منشا نہیں کہ اس قسم کے نا اہل اور بے کار آدمیوں کا نام ”امیر“ یا ”امام“ رکھ لیا جائے تو شریعت کا مقصد پورا ہو جائے گا۔
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ
(نگارشات: 336/4)



No comments:
Post a Comment