![]() |
کسی ناقد کی طرف سے ”عدمِ معرفت“ کا اظہار محض اپنی حد تک لاعلمی اور عدمِ اطلاع کا اعتراف ہوتا ہے جس کی بنیاد مکمل تحقیق وتفتیش پر نہیں ہوتی۔ لیکن جب کوئی ناقدکسی راوی پر ”غیرمعروف“ یا ”مجہول“ کاحکم لگاتا ہے تو وہ ایک کلی حکم ہوتاہے اور مکمل تحقیق وتفتیش کے بعد ہی یہ حکم صادرکرتاہے۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ زید نامی ڈاکٹر آپ کو سرسری طور پر دیکھ کر یہ کہہ دے کہ:
◈ ”مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے جسم میں کوئی بیماری ہے“
جبکہ بکر نامی ڈاکٹر آپ کو پوری طرح مکمل چیک کرکے یہ کہہ دے کہ:
◈ ”آپ کے جسم میں کوئی بیماری نہیں ہے“
تو ان دونوں ڈاکٹروں کا بیان ایک درجے کا ہرگز نہیں ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر زید کے بیان کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے جسم میں کوئی بیماری ہے“ کے بعد کوئی اور ڈاکٹر آپ سے یہ کہہ دے کہ ”آپ کے اندر کوئی بیماری ہے“ ۔ تو آپ ڈاکٹر زید کی بات کو اس کے عدمِ علم پر محمول کر کے نظر انداز کر دیں گے اور دوسرے ڈاکٹر کے بیان کو اس کے علم پر محمول کرکے یہ سمجھیں گے کہ اس نے اپنے پختہ علم اور مکمل تفتیش کے بعد یہ نتیجہ پیش کیاہے۔
لیکن ڈاکٹر بکر کے بیان ”آپ کے جسم میں کوئی بیماری نہیں۔“ کے بعد اگر کوئی اور ڈاکٹر آپ سے یہ کہہ دے کہ ”آپ کے جسم میں بیماری ہے۔“ تو یہاں آپ ڈاکٹر بکر کے بیان کو نظر انداز نہیں کر سکتے، کیوں کہ اس نے بھی اپنے پختہ علم اور اپنی تفتیش کو بروئے کار لاتے ہوئے نتیجہ پیش کیا تھا۔اس لیے یہاں آپ ان دونوں میں سے اس ڈاکٹرکے بیان کو ترجیح دیں گے جو آپ کی نظر میں زیادہ تجربہ کار اور زیادہ مہارت والا ہے۔
.
یہی حال ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال کا بھی ہے کہ ان میں اگر کوئی ناقد محض اپنی حد تک اپنی لا علمی اور عدمِ معرفت کا اظہار کرے تو اسے صرف اس وقت نظر انداز کیا جا سکتا ہے جب دوسرا ناقد اس کے معارض کوئی بات کہہ دے۔
لیکن اگر کوئی ناقد کسی راوی سے متعلق بالجزم ”غیرمعروف“ یا ”مجہول“ کا فیصلہ صادرکر دے تو اس کے معارض قول آنے پر بھی اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ بالجزم ”غیرمعروف“ اور ”مجہول“ کا حکم مکمل تحقیق و جستجو اور بھرپور معلومات کے بعدہی صادر ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے معاملے میں ہم دونوں ناقدین کی مہارت اور ان کے رتبے اور قرائن وغیرہ کی روشنی میں ترجیح دیں گے کہ کس کی بات زیادہ وزنی ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ اس اہم فرق سے غافل ہوتے ہیں اور پھر وہ دو طرح کی غلطیاں کرتے ہیں:
باقی مضمون نیچے کے لنک پر جاکر پڑھیں:



No comments:
Post a Comment