مسلم شریف کی حدیث (اللہ کہاں ہے؟) پر اعتراض کا جواب درکار ہے - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-06-06

مسلم شریف کی حدیث (اللہ کہاں ہے؟) پر اعتراض کا جواب درکار ہے

allah-kahan-hai

مسلم شریف کی حدیث جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک باندی سے پوچھا ”أین الله؟“ (الله کہاں ہے؟) جواب میں باندی نے کہا فی السماء (آسمان میں ہے)۔ ( قلت یا رسول الله أفلا أعتقہا قال: ائتنی بھا، فأتیتہ بھا، فقال لہا: این الله؟ قالت: فی السماء․( صحیح مسلم باب تحریم السلام فی الصلاة، رقم الحدیث:1227)

غیر مقلدین اس حدیث سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ”أین“ سے الله کی ذات کے متعلق سوال فرمانا مکان الہی کے ثبوت پر واضح دلیل ہے ، پھر باندی کے جواب فی السماء پر خاموش رہنا بلکہ اسے مومنہ قرار دے کر آزاد کر ادینا اس بات کی دلیل ہے کہ باندی کا جواب درست تھا کہ الله تعالیٰ فی السماء یعنی جہت فوق میں ہے ۔ مذکورہ حدیث کی چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ غیر مقلدین نے جس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے عقیدے کی عمارت کھڑی کی ہے اس کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے۔

1... چناں چہ امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبہیقی، ص:422)
2... حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وفی اللفظ مخالفة کثیرة“ کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ( التلخیص الحبیر:443/3)
3... امام بزار رحمہ الله نے بھی اس حدیث کے اضطراب پر نشان دہی کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ ( کشف الأستار:14/1)
4... علامہ زاہد الکوثری رحمہ الله تعالیٰ نے بھی اس حدیث پر اضطراب کا حکم لگایا ہے ۔ ( ھامش الأسما والصفات:344)
5... نیز حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی سے بھی ”أین“ کا سوال منقول نہیں ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا کہ مشرک ہے یا موحدہ؟( شرح السیوطی علی مسلم:217/2، رقم الحدیث:537)

امام بیہقی رحمہ اللہ کا موقف

معترض نے لکھا:
1... چناں چہ امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبہیقی، ص:422)
عرض ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ہرگز اس حدیث کو مضطرب نہیں کہا ہے بلکہ انہوں نے تو اس حدیث کو پوری صراحت کے ساتھ اسی کتاب میں صحیح قرار دیا ہے چنانچہ:

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
وهذا صحيح ، قد.أخرجه مسلم مقطعا من حديث الأوزاعي ، وحجاج الصواف ، عن يحيى بن أبي كثير دون قصة الجارية
یہ حدیث صحیح ہے اور امام مسلم نے اوزاعی اور حجاج الصواف کے طریق سے یحیی بن ابی کثیر سے الگ الگ روایت کیا ہے لونڈدی والے قصہ کو چھوڑ کر[الأسماء والصفات للبيهقي 2/ 326]

واضح رہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے جو یہ کہا ہے کہ لونڈی والے قصہ کو چھوڑ کرروایت کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لونڈی کے قصہ کو سرے سے روایت ہی نہیں کیا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ لونڈی والے قصہ کو دونوں طریق(اوزاعی وحجاج) سے ایک ساتھ روایت نہیں کیا ہے ۔کیونکہ ایک طریق سے یہ قصہ صحیح مسلم میں موجود ہے ۔اوردنیا کے کسی بھی عالم نے صحیح مسلم میں اس کے وجود کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ امام بیہقی (المتوفی 458) ہی کے معاصر امام بغوی(المولود433) رحمہ اللہ نے لونڈی والے حصہ پر مشتمل حدیث کے لئے صحیح مسلم کا حوالہ دیا ہے۔دیکھئے[شرح السنة للبغوي 3/ 239]

بالفرض یہ تسلیم کرلیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں لونڈی والے حصہ کے وجود کا بھی انکار کیا ہے تو یہ امام بیہقی رحمہ اللہ کا وہم قرار پائے گا یا یہ کہا جائے گا کہ ان کے پیش نظر نسخہ ناقص تھا ۔
لیکن یہ بات ہرگز نہیں کہی جاسکتی کہ صحیح مسلم میں کسی نے یہ اضافہ کردیا ہے جیساکہ کوثری جیسے دجال وکذاب لوگوں نے محض امام بیہقی کے اس قول کی بناپر یہ بکواس کی ہے۔کیونکہ امام بیہقی کے علاوہ تمام اہل علم نے متفقہ طور پر اسے صحیح مسلم کی طرف منسوب کیا ہے حتی کہ امام بیہقی کے معاصر امام بغوی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح مسلم کی طرف منسوب کیا ہے کمامضی ۔
نیزصحیح مسلم کی جن علماء نے بھی شرح لکھی ہے سب نے اپنی اپنی شروح میں اس حدیث کو صحیح مسلم میں ثابت مانا ہے مثلا دیکھئے امام نووی کی شرح:ج5 ص26 ۔ اسی طرح جن اہل علم نے کتب احادیث کی فہرست پر کتابیں لکھیں ہیں انہوں نے بھی اپنی تالیف میں اسے صحیح مسلم کی طرف منسوب کیا ہے۔مثلا دیکھئے امام مزی کی تحفۃ الاشراف:ج8 ص426۔

بہرحال یہاں اصل بات یہ چل رہی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا کیا درجہ متعین کیا ہے تو اوپر امام بیہقی رحمہ اللہ کے الفاظ نقل کئے گیے ہیں جن میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے پوری صراحت کے ساتھ اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔اب اگرتھوڑی دیر کے لئے بالفرض یہ مان بھی لیں کہ امام بیہقی کی نظر میں یہ روایت ”صحیح مسلم“ میں نہیں ہے تو بھی اس سے اس حدیث سے متعلق امام بیہقی رحمہ اللہ کی تصحیح پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی صحت کا فیصلہ کرنے کے اس کے ماخذ کے بارے میں مذکورہ بات کہی ہے نہ کہ اس کے درجہ کے بارے میں ۔

امام بیہقی پر اضطراب کا حکم لگانے کی تہمت

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تصحیح کرنے کے بعد آگے یہ کہا :
وأظنه إنما تركها من الحديث لاختلاف الرواة في لفظه وقد ذكرت في كتاب الظهار من السنن مخالفة من خالف معاوية بن الحكم في لفظ الحديث
میں سمجھتاہوں کہ امام مسلم نے لونڈی والے قصہ کو بعض حدیث میں اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ اس کے الفاظ میں اختلاف ہے۔ اور میں نے اپنی سنن میں کتاب الظھار میں ان لوگوں کی مخالفت درج کی ہے جنہوں نے اس حدیث کے لفظ کو بیان کرنے میں معاویہ بن الحکم کی مخالفت کی ہے۔[الأسماء والصفات للبيهقي 2/ 327]

کوثری پارٹی نے امام بیہقی رحمہ اللہ کے ان الفاظ کو لیکر یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مضطرب کہا ہے حالانکہ قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے صرف یہ کہا ہے کہ اس حدیث کے بعض الفاظ کی روایت میں اختلاف ہے ۔ اوراصول حدیث کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ محض سند یا متن میں اختلاف سے اضطراب کا حکم نہیں لگتا بلکہ اضطراب کاحکم لگانے کے لئے کئی شرائط ہیں جن میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ ہرطرح کی روایات درجہ وقوت میں یکساں ہوں:

امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643)نے کہا:
المضطرب من الحديث: هو الذي تختلف الرواية فيه فيرويه بعضهم على وجه وبعضهم على وجه آخر مخالف له، وإنما نسميه مضطربا إذا تساوت الروايتان. أما إذا ترجحت إحداهما بحيث لا تقاومها الأخرى بأن يكون راويها أحفظ، أو أكثر صحبة للمروي عنه، أو غير ذلك من وجوه الترجيحات المعتمدة، فالحكم للراجحة، ولا يطلق عليه حينئذ وصف المضطرب
مضطرب وہ حدیث ہے جس کی روایت میں اس طرح اختلاف ہو کہ بعض ایک طرح روایت کریں اور بعض اس کے مخالف دوسری طرح روایت کریں ، اور ہم ایسی حدیث کو اس وقت مضطرب کہیں گے جب طرفین کی روایت مساوی اورایک درجے کی ہو ۔ لیکن اگر دونوں میں سے کوئی روایت راجح قرار پائے اس طرح کہ دوسری روایت اس کے ہم پلہ نہ ہو ، بایں طور کہ اس کے روای احفظ ہوں یا مروی عنہ کے ساتھ اس نے زیادہ مدت کذاری ہو ، یا اس کے علاوہ معتمد وجوہ ترجیحات میں سے کوئی ہو تو حکم راجح روایت کے اعتبار سے لگے گا اورایسی صورت میں یہ روایت مضطرب نہیں ہوگی۔[مقدمة ابن الصلاح: ص: 94]

امام نووي رحمه الله (المتوفى 676)نے کہا:
المضطرب هو الذي يروى على أوجه مختلفة متقاربة، فإن رجحت إحدى الروايتين بحفظ راويها أو كثرة صحبته المروي عنه، أو غير ذلك: فالحكم للراجحة، ولا يكون مضطرباً۔
مضطرب وہ حدیث ہے جو مختلف ایسے طرق سے مروی ہو جو آپس میں ہم پلہ ہوں اور اگر دو روایات میں ایک روایت راجح قرار پائے اس کے روای کے احفظ ہونے کے سبب یا مروی عنہ کے ساتھ کسی راوی کی کثرت صحبت کے سبب یا کسی اور وجہ سے تو حکم راجح روایت کے اعتبار سے لگے گا اورایسی صورت میں یہ روایت مضطرب نہیں ہوگی۔ [التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث ص: 6]۔مزید تفصیل کے لئے دیکھیں ہماری کتاب : انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر: 237 ،238۔

اورزیرنظر حدیث کی تمام روایات درجہ وقوت میں یکساں نہیں ہیں بلکہ ان میں صحیح ترین روایت وہی ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور دیگر روایات اس کے ہم پلہ نہیں بلکہ درجہ وقوت میں اس سے کم تر بلکہ بعض ضعیف ومردود ہیں ۔ لہٰذا ایسی صورت میں اضطراب کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تصحیح کرنے کے بعد الفاظ کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے یہ سیاق خود اس بات کی دلیل ہے کہ الفاظ کا یہ اختلاف قادح و مستلزم اضطراب نہیں ہے ورنہ امام بیہقی رحمہ اللہ اس کی طرف اشارہ کرنے سے قبل اس حدیث پر ”صحت“ کا حکم نہ لگاتے بلکہ ”مضطرب“ کا حکم لگاتے ہیں ۔ لیکن امام بیہقی رحمہ اللہ کے الفاظ دیکھ لیں انہوں نے اس حدیث پر صحت کا حکم لگایا ۔اس صریح اور واضح تصحیح کے باوجود بھی یہ کہنا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مضطرب کہا ہے یہ امام بیہقی رحمہ اللہ پر بہت بڑا بہتان ہے۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا موقف

معترض نے لکھا:
2... حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وفی اللفظ مخالفة کثیرة“ کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ( التلخیص الحبیر:443/3)
عرض ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ہرگز اس حدیث کو مضطرب نہیں کہا ہے بلکہ امام بیہقی کی طرح حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی پوری صراحت کے ساتھ اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے چناں چہ:

(11) حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
كما في قصة الجارية التي سألها النبي صلى الله عليه وسلم أنت مؤمنة قالت نعم قال فأين الله قالت في السماء فقال أعتقها فإنها مؤمنة وهو حديث صحيح أخرجه مسلم
جیساکہ اس لونڈی کے قصہ میں ہے جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ : کیا تم مومنہ ہو؟ تو اس نے کہا ہاں ! تو آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اللہ کہاں ہے؟ تو اس نے کہا: آسمان میں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے آزاد کردو کیونکہ یہ مؤمنہ ہے ۔یہ حدیث صحیح ہے اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔[فتح الباري لابن حجر 13/ 359]


حافظ ابن حجر رحمہ اللہ پر اضطراب کا حکم لگانے کی تہمت

کوثری پارٹی نے حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے جن الفاظ سے اضطراب کا حکم کشید کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہیں:
وفي اللفظ مخالفة كثيرة
اوراس حدیث کے الفاظ میں بڑی مخالفت ہے[تلخيص الحبير لابن حجر، ط قرطبة: 3/ 448]

عرض ہے کہ :

اولا:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ بات صحیح مسلم والی حدیث سے متعلق نہیں کہی ہے جو معاویہ بن حکم کی حدیث ہے بلکہ ابوداؤد وغیرہ کی اس حدیث کے بارے میں کہی ہے جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے پورے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وروى أحمد عن عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عبد الله، عن «رجل من الأنصار أنه جاء بأمة له سوداء، فقال: يا رسول الله إن علي عتق رقبة مؤمنة فإن كنت ترى هذه مؤمنة أأعتقها؟ فقال لها: أتشهدين أن لا إله إلا الله؟ قالت: نعم، قال: أتشهدين أني رسول الله؟ قالت: نعم، قال: أتؤمنين بالبعث بعد الموت؟ قالت: نعم، قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: فاعتقها» . وهذه الرواية تدل على استحباب امتحان الكافر عند إسلامه بالإقرار بالبعث كما قال الشافعي، ورواه أبو داود من حديث عون بن عبد الله عن عبد الله بن عتبة عن أبي هريرة: «أن رجلا أتى النبي - صلى الله عليه وسلم - بجارية سوداء، فقال: يا رسول الله إن علي رقبة مؤمنة، فقال لها. أين الله؟ . فأشارت إلى السماء بإصبعها، فقال لها: فمن أنا؟ . فأشارت إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - وإلى السماء - يعني أنت رسول الله - فقال: اعتقها فإنها مؤمنة» . ورواه الحاكم في المستدرك من حديث عون بن عبد الله بن عتبة: حدثني أبي، عن جدي فذكره، وفي اللفظ مخالفة كثيرة، وسياق أبي داود أقرب إلى ما ذكره المصنف، [تلخيص الحبير لابن حجر، ط قرطبة: 3/ 448]

غورفرمائیں یہاں پوری گفتگو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے متعلق ہورہی ہے اور یہ الگ روایت ہے اس میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ بھی الگ واقعہ ہے ۔ لیکن کوثری پارٹی نے حددرجہ خیانت سے کام لیتے ہوئے کہ اس روایت سے متعلق ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام کو معاویہ بن حکم والی حدیث پر فٹ کردیا ۔علاوہ بریں یہاں بھی صرف اختلاف کی بات ہے اضطراب کاحکم نہیں ہے ۔ اور محض اختلاف سے اضطراب کا حکم لازم نہیں آتا جیساکہ امام بیہقی کے موقف پر بحث کرتے ہوئے تفصیل پیش کی گی ۔ مزید وضاحت آرہی ہے۔

ثانیا:
بالفرض تسلیم کرلیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ بات مسلم کی روایت سے متعلق ہی کہی ہے تو حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے اس جملہ میں بھی اضطراب کا حکم نہیں بلکہ صرف بعض الفاظ میں اختلاف کی بات ہے اور محض اختلاف سے کوئی حدیث مضطرب نہیں ہوجاتی بلکہ اضطراب کے لئے ضروری ہے کہ ہرطرح کی روایات درجہ میں بھی یکساں ہوں ۔ جیساکہ اوپر امام بیہقی رحمہ اللہ کے موقف پر بحث کرتے ہوئے بات گذرچکی ہے۔
اورزیرنظر حدیث کی تمام روایات درجہ وقوت میں یکساں نہیں ہیں بلکہ ان میں صحیح ترین روایت وہی ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور دیگر روایات اس کے ہم پلہ نہیں بلکہ درجہ وقوت میں اس سے کم تر بلکہ بعض ضعیف ومردود ہیں ۔ لہٰذا ایسی صورت میں اضطراب کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔
خود حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ایسی صورت میں کسی بھی حدیث پر مضطرب کا حکم لگانے کو غلط کہا ہے ۔چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وما جنح إليه المصنف من ترجيح رواية الاشتراط هو الجاري على طريقة المحققين من أهل الحديث لأنهم لا يتوقفون عن تصحيح المتن إذا وقع فيه الاختلاف إلا إذا تكافأت الروايات وهو شرط الاضطراب الذي يرد به الخبر وهو مفقود هنا
مصنف اشتراط والی روایت کی ترجیح کی طرف جومائل ہوئے ہیں تو یہ بات محدثین میں محققین کا طریقہ رہاہے کیونکہ محدثین محض اختلاف کی وجہ سے متن کی تصحیح میں توقف نہیں کرتے جب تک روایات قوت میں برابر نہ ہوں ۔ اور یہ اضطراب کے لئے شرط ہے اور یہ چیز یہاں مفقود ہے۔[فتح الباري لابن حجر 5/ 318]
آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں امام ابن دقیق العید کا بھی اسی طرح کا قول نقل کررکھا ہے [فتح الباري لابن حجر 5/ 318]

اس لئے ناممکن ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس حدیث کو مضطرب کہیں ۔اس لئے محض بعض الفاظ میں اختلاف کے قول سے مضطرب مراد لینا حافظ ابن حجررحمہ اللہ پر سراسر بہتان ہے ۔
اوراس کے بہتان ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر صاف اور صریح طور پر اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے جیساکہ حوالہ دیا جاچکا ہے۔

امام بزار رحمہ اللہ کا موقف

معترض نے کہا:
3... امام بزار رحمہ الله نے بھی اس حدیث کے اضطراب پر نشان دہی کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ ( کشف الأستار:14/1)
کوثری پارٹی نے امام بزارحمہ اللہ کے جن الفاظ سے اضطراب کا حکم کشید کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہیں:
وهذا قد روي نحوه بألفاظ مختلفة
اوریہ حدیث اسی طرح مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔[كشف الأستار عن زوائد البزار على الكتب الستة 1/ 7]

عرض ہے کہ :
اولا:
امام بزا ر رحمہ اللہ نے مذکورہ بات مسلم کی زیر نظر معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ کی حدیث سے متعلق نہیں کہی ہے بلکہ ایک دوسری حدیث سے متعلق کہی ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ چناں چہ ملاحظہ فرمائیں امام بزار رحمہ اللہ کے پورے الفاظ:
حدثنا محمد بن عثمان ، ثنا عبيد الله ، ثنا ابن أبي ليلى ، عن المنهال بن عمرو ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال : أتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال : إن على أمي رقبة وعندي أمة سوداء ، فقال صلى الله عليه وسلم : " ائتني بها " ، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أتشهدين أن لا إله إلا الله وأني رسول الله " ، قالت : نعم ، قال : " فأعتقها " قال البزار : وهذا قد روي نحوه بألفاظ مختلفة . [كشف الأستار عن زوائد البزار على الكتب الستة 1/ 7]

قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ امام بزار رحمہ اللہ کے کلام کا تعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہے جو الگ واقعہ ہے جبکہ مسلم کی زیرنظر حدیث، معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور یہ دوسرا واقعہ ہے۔ لہٰذا دوسری روایت سے متعلق کلام کو مسلم کی حدیث پر فٹ کردینا یہ کوثری پارٹی اور ان کی روش پر چلنے والے دجالوں ہی کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔

ثانیا:
اورامام بزار رحمہ اللہ کے کلام میں جو کچھ ہے وہ صرف مخالفت کی بات ہے اور گذشتہ سطور پر واضح کیا جاچکا ہے کہ محض مخالفت سے اضطراب لازم نہیں آتا ۔ لہٰذا صرف مخالفت والی بات میں اضطراب کا مفہوم کشید کرنا باطل ہے۔


دجالوں کے دجل وفریب

4... علامہ زاہد الکوثری رحمہ الله تعالیٰ نے بھی اس حدیث پر اضطراب کا حکم لگایا ہے ۔ ( ھامش الأسما والصفات:344)
زاہد کوثری جیسے دجال وکذاب کا کام ہی ہے دجل وفریب اور مغالطہ دہی ۔ ایسے دجالوں کی چیخ وپکار کی علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔

5... نیز حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی سے بھی ”أین“ کا سوال منقول نہیں ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا کہ مشرک ہے یا موحدہ؟( شرح السیوطی علی مسلم:217/2، رقم الحدیث:537)
پہلی بات تو یہ کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر کوئی جرح نہیں کی ہے پھر پانچویں نمبر پر ان کاحوالہ پیش کرنا مغالطہ بازی نہیں تو اور کیا ہے۔
دوسرے یہ کہ یہ کوئی اصول نہیں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جس عمل ثبوت ایک ہی بار ملے اس کا انکار ہی کردیا جائے ۔
نیز امام سیوطی رحمہ اللہ کے الفاظ میں کہیں یہ نہیں ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
رہی بات امتحان لینے کی تو یہ بات درست ہے اور آج بھی کسی کے ایمان کا امتحان لینا ہو تو اس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ”اللہ کہاں ہے“ اوراگر وہ وہی جواب دے جو لونڈی نے دیا تھا تب تو ٹھیک ورنہ کچھ اور جواب دینے والا اپنے ایمان کی خیر منائے۔

خلاصہ یہ کہ ایک معلول اور شاذ روایت سے عقیدے کا استنباط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بنا کرا شاعرہ کو گم راہ او ربدعتی کہنا تو سراسر جہالت ہے یا تعصب۔ بالفرض اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا تو پھر ”أین“ کا سوال ذات باری تعالی کے مکان کے لیے نہیں، بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لیے ہو گا، یعنی ہمارے الله کامرتبہ کیا ہے ؟ یا یہ کہ الله تعالیٰ کے احکام وأوامر کا مکان کون سا ہے؟ (کذا فی شر ح النووی علی مسلم،298/2، رقم الحدیث:836)
یہ روایت شاذ اور معلول ہر گز نہیں ہے عصر حاضر کے کوثری پارٹی کے علاوہ پوری امت میں کسی نے بھی اس حدیث کو شاذ یا معلول ہرگز نہیں کہا ہے۔اورامام بیہقی ، امام بزار اور حافظ ابن حجر رحمہہم اللہ کی مضطرب کی نسبت محض ان پر تہمت ہے جیساکہ وضاحت گذرچکی ہے۔
رہی اس حدیث کی تاویل تو یہ باطل ہے کیونکہ بے دلیل اور بے بنیاد اور من مانی ہے۔

حدیث جاریہ کو صحیح قرار دینے والے محدثین


ذیل میں ایک درجن محدثین کے اسمائے گرامی ان کی تاریخ وفات کی ترتیب سے پیش کئے جاتے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے۔
ملاحظہ ہو:

(1) امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے اسے اپنی ”صحیح “ میں روایت کیا ہے۔دیکھئے:[صحيح مسلم: 1/ 381 رقم 537]

(2) امام إبن الجارود رحمه الله (المتوفى307) نے بھی اسے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔دیکھئے:[المنتقى من السنن المسندة لابن الجارود ص: 111]

(3) امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311) نے اسے ’’التوحید‘‘ میں روایت کیا ہے دیکھئے: [التوحيد لابن خزيمة 1/ 282]۔اوراس کی کتاب کی مرویات کو امام ابن خزیمہ نے اسی کتاب کے مقدمہ میں صحیح کہا ہے۔

(4) امام أبو عوانة الإسفراييني رحمه الله (المتوفى316) نے اسے اپنی ”صحیح “ میں روایت کیا ہے ۔دیکھئے:[صحيح أبي عوانة 2/ 243 رقم 1369]

(5) امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے اسے اپنی ”صحیح“ میں روایت کیا ہے ۔دیکھئے: [صحيح ابن حبان 1/ 383 رقم 165]

(6) امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
وهذا صحيح ، قد.أخرجه مسلم مقطعا
یہ حدیث صحیح ہے اور امام مسلم نے مختلف ٹکڑوں میں اسے روایت کیا ہے۔[الأسماء والصفات للبيهقي 2/ 326]

(7) امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463) نے کہا:
معاوية بن الحكم السلمي.كان ينزل المدينة، ويسكن في بني سليم. له عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث واحد حسن، في الكهانة والطيرة والخط وفي تشميت العاطس في الصلاة جاهلا وفي عتق الجارية
معاویہ بن الحکم سلمی ، یہ مدینہ میں ہوتے تھے اور بوسلیم میں سکونت پذیر تھے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہانت، بدشگونی ، خط ، نماز میں چھینکنے والے کا نادانی میں جواب دینے اور لونڈی آزاد کرنے سے متعلق ان کی ایک حسن حدیث ہے۔[الإستيعاب لابن عبد البر: 3/ 1415]

(8) امام أبو محمد البغوي رحمه الله (المتوفى516)نے کہا:
هذا حديث صحيح، أخرجه مسلم
یہ حدیث صحیح ہے اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔[شرح السنة للبغوي 3/ 239]

(9) أحمد بن إبراهيم ، عماد الدين الواسطي (المتوفى: 711 ) نے کہا:
قوله صلى الله عليه وسلم في الحديث الصحيح للجارية أين الله فقالت في السماء
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث میں لونڈی سے فرمایا: اللہ کہاں ہے؟ تو اس نے جواب دیا : آسمان میں [النصيحة في صفات الرب جل وعلا ص: 12 ]

(10)امام ذهبي رحمه الله (المتوفى:748)نے کہا:
هذا حديث صحيح
یہ حدیث صحیح ہے۔[العلو للعلي الغفار للذهبي: ص: 14]

(11) حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وهو حديث صحيح أخرجه مسلم
یہ حدیث صحیح ہے اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔[فتح الباري لابن حجر 13/ 359]

(12) امام ابن الوزير رحمه الله (المتوفى840)نے کہا:
وحديثها هذا حديث ثابت خرجه مسلم في الصحيح
ان کی یہ حدیث صحیح وثابت ہے اسے امام مسلم نے ”صحیح “ میں روایت کیا ہے۔[العواصم والقواصم في الذب عن سنة أبي القاسم 1/ 380]

اس حدیث کی صحت پر امت کا اجماع ہے

اس حدیث کی صحت پر اجماع ہونے کی دلیل یہ ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اسے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں خود صراحت کردی ہے کہ وہ اس کتاب میں صرف وہی حدیث لاتے ہیں جو باجماع امت صحیح ہوتی ہے ۔جیساکہ خود امام مسلم نے یہ وضاحت اسی کتاب میں کی ہے چنانچہ:

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
لَيْسَ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدِي صَحِيحٍ وَضَعْتُهُ هَا هُنَا إِنَّمَا وَضَعْتُ هَا هُنَا مَا أَجْمَعُوا عَلَيْهِ
ہروہ حدیث جو میرے نزدیک صحیح ہو میں اسے اس کتاب میں نہیں رکھتا ، بلکہ میں اس کتاب میں صرف وہی احادیث رکھتاہوں جس کی صحت پر امت کا اجماع ہوتاہے۔[صحيح مسلم: 1/ 304]

امام ذہبی رحمہ اللہ کے بقول یہ حدیث متواتر ہے

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى:748)نے کہا:
فمن الأحاديث المتواترة الواردة في العلو حديث معاوية بن الحكم السلمي ۔۔۔۔ هذا حديث صحيح رواه جماعة من الثقات عن يحيى بن أبي كثير عن هلال بن أبي ميمونة عن عطاء بن يسار عن معاوية السلمي أخرجه مسلم وأبو داود والنسائي وغير واحد من الأئمة في تصانيفهم يمرونه كما جاء ولا يتعرضون له بتأويل ولا تحريف
علو الہی کے سلسلے میں وارد متواتر احادیث میں سے معاویہ بن الحکم السلمی کی حدیث ہے ۔۔۔۔(حدیث پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں) ۔۔۔ یہ حدیث صحیح ہے اسے ثقہ کی ایک جماعت نے يحيى بن أبي كثير عن هلال بن أبي ميمونة عن عطاء بن يسار عن معاوية السلمي کے طریق سے روایت کیا ہے ۔ اس حدیث کی امام مسلم ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اور دیگر ائمہ نے اپنی تصانیف میں تخریج کی ہے ۔ سب اس حدیث پر ایسے ہی ایمان لاتے ہیں جیسے وارد ہے اس کی نہ تاویل کرتے ہیں نہ اس میں تحریف کرتے ہیں ۔[العلو للعلي الغفار للذهبي: ص: 14]

No comments:

Post a Comment