کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے؟ - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-06-27

کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے؟

kalma-taiba

کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے؟
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
بعض حضرات عوام میں ایسی باتیں پھیلاتے رہتے ہیں جنہیں کوئی بھی سچامسلمان اپنی زبان پرلانے کی جرات بھی نہیں کرسکتا،انہیں میں سے یہ لوگ بھی ہیں جو آئے دن یہ آوازاٹھاتے رہتے ہیں کہ کلمہ طیبہ ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ‘‘ اکٹھا انہیں الفاظ کے ساتھ کسی بھی حدیث میں موجود نہیں ہے، اوراسی پر بس نہیں بلکہ اس انکارکے ساتھ ساتھ فریق مخالف کومناظرہ تک کے لئے چیلنج کردیتے ہیں ۔
قارئین پریشان ہوں گے کہ آخریہ لوگ کلمہ طیبہ کامسئلہ کیوں اٹھارہے ہیں ،تو عرض ہے کہ اس کے پیچھے ان کے دومقاصد ہیں:

✿ پہلامقصد:
حدیث میں کلمہ طیبہ کی موجودگی کا انکارکرکے یہ حضرات عوام کویہ بتلاناچاہتے ہیں کہ کلمہ طیبہ کی تعلیم ائمہ فقہ نے دی ہے ،لہٰذاجولوگ ائمہ فقہ کی تقلید نہیں کرتے ہیں ،وہ اپنا کلمہ بھی صحیح نہیں کرسکتے دیگراعمال کوصحیح کرنا تودورکی بات ہے۔
✿ دوسرامقصد:
اہل تقلید میں سے بعض حضرات نے اپنے مزعوم اولیاء میں سے بعض کی شان میں اس حدتک غلوکیاکہ کلمہ طیبہ سے رسول اکرم ه ﷺ کا نام خارج کرکے ا س کی جگہ اپنے مزعوم ولی کانام رکھ دیا،اناللہ واناالیہ راجعون۔

❀ لا الٰہ الااللہ اشرف علی رسول اللہ(نعوذباللہ) 
مولانا اشرف علی دیوبندی صاحب نے کے ایک مرید نے خواب دیکھا کہ وہ خواب میں کہہ رہا ہے ”لا الٰہ الَّا اللہ اشرف علی رسول اللہ“ اور پھر اٹھ کر بھی اس کے منہ سے درود پڑھتے ہوئے محمد ه ﷺ کی بجائے مولانا اشرف علی نکلتا ہے۔ [رسالہ امداد ص 35]۔
جب مرید نے خواب بیان کیا تو مولانا اشرف علی صاحب نے بجائے اسے ڈانٹنے  کے اسے ان الفاظ سے حوصلہ دیا کہ ”اس واقعے میں تسلی تھی کہ جسکی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے“ [رسالہ امداد ص 35]۔

❀ لا الٰہ الااللہ شبلی رسول اللہ(نعوذباللہ) 
اسی طرح بریلویوں کے امام الاصفیاء پیر جماعت علی شاہ لاثانی کے خلیفہ مجاز حکیم محمد شریف نے لکھا ہے:
”شیخ شبلی رحمة اللہ علیہ کے پاس دو شخص بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔ایک مولوی وضع کا تھااور ایک سادہ زمیندار تھا۔ آپ نے بیعت کرنے پر مولوی صاحب سے فرمایا۔ کہ پڑھ لاالٰہ الااللہ شبلی رسول اللہ۔ اس پر مولوی صاحب نے لاحول پڑھااور آپ نے جھڑک دیا۔ پھر زمیندار کی باری آئی ۔ آپ نے اس کوبھی اسی طرح فرمایا۔ وہ خاموش رہا۔ آپ نے زور سے فرمایا کہ بولتے کیوں نہیں ۔تم بھی مولوی صاحب سے متفق ہو۔ زمیندار بولاکہ مَیں تو آپ کوخدا تعالیٰ کے مقام پرسمجھ کر آیا تھا۔ آپ ابھی تک مقام ِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ذکر فرماتے ہیں“ [منازل الابرارص106]۔

 ❀ لا الٰہ الااللہ چشتی رسول اللہ (نعوذ باللہ)
بریلویوں کے غوث الاسلام پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا ہے:
 ”وجودِ سالک بعینہ مظہر حقیقة محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰةوالسلام شدہ در ترنم ”لاالٰہ الااللہ چشتی رسول اللہ“ سالک کا وجود بعینہ مظہر حقیقت محمدیہۖ ہو کر’’لا الٰہ الااللہ چشتی (سالک) رسول اللہ‘‘کے ترنم میں آتا ہے“ [تحقیق الحق فی کلمة الحق ص127 ،گولڑہ راولپنڈی]۔
غورفرمائیں کس قدر زورزبردستی اورکتنی بڑی خیانت ہے کہ اللہ کے رسو ل ه ﷺ کے مقام پراپنے بزرگوں کے نام لئے جاتے ہیں نعوذباللہ ۔
اہل توحید کی نظراس خیانت پرپڑی توانہوں نے اس کازبردست نوٹس لیا،ان بے چاروں سے اس کاکوئی جواب نہ بن پڑا تو یہ مطالبہ کرناشروع کردیاکہ کلمہ طیبہ میں تبدیلی کاالزام بعد میں لگاناپہلے اصل کلمہ طیبہ کاثبوت پیش کرو۔
کیونکہ کلمۂ طیبہ ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ‘‘ اکٹھاانہیں الفاظ کے ساتھ کسی بھی حدیث میں موجود نہیں ہے، اوراسی پربس نہیں بلکہ اس انکارکے ساتھ ساتھ فریق مخالف کومناظرہ تک کے لئے چیلنج کردیتے ہیں ۔عوام کومعلوم ہوناچاہئے کہ اس قسم کی باتیں محض دھوکہ وفریب اورجھوٹ ہیں ،اورسچائی یہ ہے کہ کلمۂ طیبہ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ‘‘ اکٹھاانہیں الفاظ کے ساتھ متعدد احادیث میں واردہے ، ذیل میں اس سلسلے کی ایک صحیح حدیث، سند کی تحقیق کے ساتھ پیش کی جارہی ہے اسے پڑھ کرعوام خود فیصلہ کرلیں کہ کون سچاہے اورکون جھوٹا؟

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا :
 ”أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ  ﷺ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ ه ﷺ فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ“ 
 ”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں آیات نازل کیں جن میں ایک سرکش قوم کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا: ﴿یہ وہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں تو یہ سرکشی کرنے لگتے﴾ ۔ اللہ تعالی نے مزید فرمایا: ﴿جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ہٹ دھرمی پیدا کرلی تو اللہ نے اپنے رسول اور مؤمنوں پر سکون نازل کیا اور انہیں تقوی کے کلمہ کا پابند کیا جو اس کے سب سے زیادہ حقدار اور لائق تھے﴾ اور یہ کلمہ ”لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ“ ہے جس سے مشرکین نے حدیبیہ کے دن سرکشی کی جب اللہ کے نبی   ﷺ مدت کے سلسلے میں ان سے معاہدہ کیا“ [کتاب الاسماء والصفات للبیہقی:ـ ج 1ص263 رقم 195۔ مکتبة السوادی، جدة ،الطبعة الأولی ، وإسناده صحيح وأخرجه ايضا الطبري في تفسره (٢٢/ ٢٥٢)من طريق يحيى بن سعيد ، وأخرجه ايضا الحنائي في فوائده (1/ 154) و ابن منده في الإيمان (١/ ٣٥٩) كلاهما من طريق شعيب بن أبي حمزه كلهم (أسحاق بن يحيي و يحيي بن سعيد و شعيب بن أبي حمزه) عن الزهري به]

 ❀ درجہ حدیث :ـ
یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
امام أبو القاسم الحسين بن محمد الحنائي(المتوفی459) نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا:
”هذا حديث صحيح“ 
 ”یہ حدیث صحیح ہے“ [فوائد الحنائي 1/ 154]
 اس کی سندکے سارے راوی سچے اورقابل اعتمادہے ہیں ،اس کی سند کے ہر راوی کی تفصیل اگلی سطور میں ملاحظہ ہو۔
پیش کردہ حدیث کی سند کے راویوں کاتعارف ملاحظہ ہو:

 ● سعید بن المسیب :(سعید بن المسیب بن حزن القرشی)۔
آپ بخاری ومسلم کے مرکزی راوی ہیں ،مثلاًدیکھئے بخاری رقم26،مسلم رقم21،آپ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ،حافظ ابن حجرفرماتے ہیں: ’’أحد العلماء الأثبات الفقہاء الکبار‘‘” آپ اعلی درجہ کے ثقات اوربڑے فقہاء میں سے ہیں“[تقریب التہذیب رقم2396]۔

 ● الزہری :(محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب الزہری)۔
آپ بھی بخاری ومسلم کے مرکزی راوی ہیں ،مثلاًدیکھئے بخاری رقم4،مسلم رقم20،حافظ ابن حجرفرماتے ہیں: ’’الفقیہ الحافظ متفق علی جلالتہ وتقانہ‘‘ ”آپ کی ثقاہت وجلالت پر امت کااجماع ہے“ [تقریب التہذیب ،رقم6296]۔

 ● اسحاق بن یحیی الکلبی:(اسحاق بن یحیی بن علقمة الکلبی)۔
یہ صحیح بخاری کے (شواہدکے )راوی ہیں ،دیکھئے صحیح بخاری تحت نمبرات:682، 1355، 3298، 3299، 3433، 3434،3927،7382۔
حافظ ابن حجرفرماتے ہیں :’’صدوق‘‘ ”آپ سچے تھے“ [دیکھئے :تقریب رقم(391)]۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں :’’احادیثہ صالحة‘‘ ”ان کی بیان کردہ احادیث درست ہیں“ [سؤالات الحاکم للدارقطنی:ص280]۔
امام ابن حبان نے آپ کوثقہ اورقابل اعتماد لوگوں میں ذکرکیاہے،[کتاب الثقات:ج6ص49]۔

 ● یحیی بن صالح الوحاظی : (ابوزکریا یحیی بن صالح الوحاظی الشامی)۔
آپ بخاری ومسلم کے راوی ہیں مثلادیکھئے :بخاری رقم361مسلم رقم1594نیز دیکھئے تقریب رقم7568۔امام یحیی ابن معین اور امام بخاری نے انہیں ثقہ کہ ہے[الجرح والتعدیل:9 158،کتاب الضعفاء الصغیر:145]۔

 ● محمد بن اسحاق :(ابوبکر، محمد بن اسحاق بن جعفر الصاغانی)۔
آپ صحیح مسلم کے راوی ہیں مثلا:دیکھئے :مسلم رقم14،امام ابن حجر فرماتے ہیں :’’ثقة ثبت‘‘ آپ ثقہ اورثبت ہیں ، تقریب رقم5721۔

 ● ابوالعباس محمدبن یعقوب:(ابوالعباس محمدبن یعقوب بن یوسف الاصم)۔
آپ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ،امام ذہبی فرماتے ہیں:’’الِمَامُ، المُحَدِّثُ، مُسْنِدُ العَصْرِ‘‘”آپ امام ہیں محدث ہیں مسندالعصرہیں“[سیر اعلام النبلائ:29 450]۔
امام ابوالولید فرماتے ہیں: ’’ثقة مشھور‘‘ ”آپ مشہورثقہ ہیں“ [تاریخ دمشق:65293]۔

 ● ابوعبداللہ الحافظ :(حاکم النیسابوری)۔
آپ معروف ومشہور ثقہ امام ہیں ،حدیث کی مشہور کتاب ''المستدرک'' آپ ہی کی لکھی ہوئی ہے۔آپ اپنے وقت میں محدثین کے امام تھے،[سیر اعلام النبلائ:33163،164]۔
ابن العماد فرماتے ہیں:’’ثقة حجة‘‘”آپ ثقہ اورحجت ہیں“ [شذرات الذھب:3175]۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ پیش کردہ حدیث بالکل صحیح ہے ،اور کلمہ طیبہ ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ‘‘ یہ کسی امتی کابنایاہوانہیں ہے بلکہ اس کی تعلیم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ،اب ان لوگوں کوتوبہ کرنی چاہئے جوکہتے ہیں کلمہ طیبہ پڑھنے کی تعلیم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے نہیں بلکہ فقہاء کی فقہ سے ملتی ہے نعوذ باللہ! اورعوام کوچاہئے کہ وہ ایسے تمام لوگوں سے ہوشیار رہیں جودن رات اس طرح کا مغالطہ دیتے ہیں ،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کولوگوں سے چھپاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوہدایت دے اورتمام مسلمانوں کو کتاب وسنت کی
پیروی کی توفیق دے ،آمین۔

21 comments:

  1. حیرت ہے کہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب سے متعلق اتنی سطحی بات کو سمجھے بنا ہی کلمہ اسلام میں تبدیلی کا الزام عائد کردیا ہے جبکہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے کبھی بھی اپنے نام کا کلمہ پڑھنے کی تلقین نہیں کی ہے، کفایت اللہ صاحب نے اس بارے میں لکھنے میں کھلی بددیانتی کی ہے کہ عبارت جو سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کیا ہے،
    مجھے افسوس ہے کہ کفایت اللہ سنابلی صاحب بھی اس طرح کی حرکت کرسکتے ہیں جبکہ میں حنفی ھونے کے باوجود انہیں بہت بڑا معتدل سمجھتا تھا

    ReplyDelete
    Replies
    1. بھائی بسم اللہ کریں چلیں پوری عبارت سیاق سے پیش کریں پھر بتائیں کہ کیا ایسا معنی ثابت ہو رہا تھا جو شیخ نہ نہیں بتایا

      Delete
  2. ماشاء الله

    ReplyDelete
  3. اسکی سند میں محمد بن اسحق ہے جو شدید ضعیف ہے۔ اور احکام میں اسکی روایت نہیں لی جاسکتی

    ReplyDelete
  4. محمد بن اسحاق بن یسار کون ھے
    نوٹ:۔ یہ بدبودار قسم شیعہ راوی غیرمقلدین کے کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی اور اس علاوہ دنیا میں جتنے شرکیات اور کفریات کی بنیاد مثلا مردون کا سنا تعویذات سب کی پرچار کےلیے روایات اس رافضی شیطان محمد بن اسحاق نے ان کےلیے روایات اپنے طرف سے بنایا
    1۔امام مالک ؒ :۔
    وقال مالك دجال من الدجاجلة
    امام مالکؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔
    (تہذیب التہذیب ج۹ص۴۱،تذکرہ الحفاظ ج۱ ص۱۳۰)
    امام مالکؒ فرماتے ہیں:۔
    محمد بن إسحاق كذاب.(تاریخ بغداد ج۲ص۱۹)
    محمد بن اسحاق کذاب ہے۔
    2۔ علی ن المدینی، سعید قطانؒ
    علي يعني ابن المدينى قال سمعت يحيى يعيى ابن سعيد القطان يقول قلت لهشام بن عروة ان ابن اسحاق يحدث عن فاطمة بنت المنذر فقال أهو كان يصل إليها؟ فقلت ليحيى كان محمد بن اسحاق بالكوفة وانت بها؟ قال نعم، قلت تركته متعمدا؟ قال نعم تركته متعمدا ولم أكتب عنه حديثا قط.(لجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۳)
    علی بن المدینی ؒ فرماتے ہیں میں نے سعید بن قطانؒ سے پوچھا محمد بن اسحاق اور آپ کو کوفہ میں رہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں ہم دونوں کوفہ میں ہوتے ہیں میں نے کہا آپ نے اس کو جان بوجھ کر چھوڑ رکھا ہے یحیی بن سعید نے کہا جی ہاں میں نے اس کو قصدا چھوڑ ا ہوا ہے اور میں نے اس سے کبھی بھی حدیث نہیں لکھی۔

    ReplyDelete
  5. 3۔ابو حفص فلاسؒ، سعید بن قطانؒ
    ابو حفص فلاس ؒکہتے ہیں کہ ہم وہب بن جریر ؒ کے پاس تھے اور جب لوٹے تو یحییٰ بن سعید ؒ کے پاس سے گذرے یحیی بن سعید ؒ نے پوچھا تم کہاں تھے۔
    ۔قلنا كنا عند وهب بن جرير يعنى يقرأ علينا كتاب المغازى عن أبيه عن ابن إسحاق، قال تنصرفون من عنده بكذب كثير (الجرح والتعدیل ج۷ ص۱۹۳)
    ہم وہب بن جریرؒ کے پاس تھے اور وہ ہمارے سامنے محمد بن اسحاق کی مغارزی کتاب پڑھ رہے تھے یحیی بن سیعد قطانؒ نے کہا کہ تم اس سے بہت سا جھوٹ لے کر لوٹے ہو۔
    4۔یحیی بن معینؒ
    یحیی بن معین ؒ فرماتے ہیں۔ يزل الناس يتقون حديث محمد بن اسحاق (الجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۴)
    لوگ ہمیشہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے بچتے رہے ہیں اور کبھی یو یوں فرمایا
    بذاك هو ضعيف
    محمد بن اسحاق قوی نہیں ضعیف ہے۔

    ReplyDelete
  6. 5۔عبدالرحمٰن بن ابی حاتمؒ
    عبدالرحمٰن بن ابی حاتمؒ نے اپنے باپ ابو حاتمؒ سے سنا انھوں نے فرمایا
    محمد بن اسحاق ليس عندي في الحديث بالقوى ضعيف الحديث (الجرح والتعدیل ج۷ ص۱۹۴)
    اسحاق میرے نزدیک باب حدیث میں قوی نہیں بلکہ ضعیف الحدیث ہے۔
    6۔ امام نسائی ؒ
    امام نسائی ؒ فرماتے ہیں لیس بالقوی محمد بن اسحاق قوی نہیں ہے۔ (ضعفاء صغیر للنسائی ص۵۲)
    7۔ امام دارقطنیؒ
    وقال الدارقطني: لا يحتج به.
    امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں لایحتج بہ اس کی حدیث کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔ (تذکرہالحفاظ ج۱ ص۱۳۰)
    8۔سلیمان ےتیمیؒ
    وقال سليمان التيمي: كذاب
    سلیمان تیمیؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق کذاب ہے۔ (میزان الاعتدال ج۳ ص۴۶۹)

    ReplyDelete
  7. 9۔ ہشام بن عروۃؒ
    وقال وهيب: سمعت هشام بن عروة يقول: كذاب.
    ہشام بن عروۃ ؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق کذاب ہے۔(میزان الاعتدال ج۳ ص۴۶۹)
    10۔یحیی بن سعید قطان
    یحییٰ بن سعید قطان ؒ فرماتے ہیں قال يحيى القطان: أشهد أن محمد بن إسحاق كذاب
    میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن اسحاق بہت بڑا جھوٹا ہے۔ (میزان الاعتدال ج۳ص۴۷۱)
    علامہ نوویؒ لکھتے ہیں وإذا قالوا: متروك الحديث، أو ذاهبه، أو كذاب، فهو ساقط لا يكتب حديثه
    قاعدہ یہ ہے کہ جب محدثین کسی راوی کے متعلق یہ الفاظ کہہ دیں کہ وہ متروک الحدیث ہے یا باب حدیث میں گیا گذرا ہے یا جمہور اس کو کذاب کہہ دیں تو ایسا راوی ساقط الاعتبار ہوتا ہے اور اس کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں ہوتی۔(التقریب والتیسیر للنووی ج۱ ص۵۳)
    اور یہ بات واضح رہے کہ محدثین کے نزدیک کذاب اور تہمت کذاب ایسی جرح ہے کہ جس کا ردارک نہیں ہو سکتا اس لیے محمد بن اسحاق جس کو دجال کذاب مکار کہا گیا ہے اس کی وجہ سے اس کی حدیث انتہائی ضعیف ہے اس لیے اس کی حدیث حجت نہیں بن سکتی۔
    البتہ جن بعض محدثین نے اس کو ثقہ کہا ہے اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ محمد بن اسسحاق ان کے نزدیک مغارزی اور تاریخ میں معتبر ہے ۔ لیکن شرعی احکام اور حلال و حرام میں حجت نہیں ۔

    ReplyDelete
  8. 1۔ حافظ ابن حجرؒ
    حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں وَابْن إِسْحَاق لَا يحْتَج بِمَا ينْفَرد بِهِ من الْأَحْكَام
    اس کی روایت احکام میں حجت نہیں خصوصاً جب یہ روایت کرنے میں منفرد ہو۔ اور زیر بحث اس کی جتنی بھی احادیث ہیں ان میں یہ منفرد ہے کوئی بھی ثقہ راوی اس کا متابع نہیں ہوتا۔(الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایہ جلد۲ ص۱۹)
    12۔ابو داؤد ؒ
    ابو داؤد ابن اسحاق کے متعلق ؒ فرماتے ہیں وقال أبو داود: قدري معتزلي.
    ابن سحاو ق قدری اور معتزلی ہے۔(میزان الاعتدال جلد۳ص۴۶۹)
    13۔علامہ ذھبیؒ
    علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیں والذي تقرر عليه العمل أن ابن إسحاق إليه المرجع في المغازي والأيام النبوية مع أنه يشذ بأشياء وأنه ليس بحجة في الحلال والحرام
    اور عملاً جو چیز پختہ طور پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق کی طرف مغارزی اور سیر نبویہ میں رجوع کیا جاہے لیکن اس میں بھی وہ شاذ چیزیں بیان کرتا ہے لیکن حلال حرام میں حجت نہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ ج۱ ص۱۶۳)

    ReplyDelete
  9. 14۔امام احمد بن حنبلؒ
    أما مُحَمَّد بن إِسْحَاق فَيكْتب عَنهُ هَذِه الْأَحَادِيث يعْنى الْمَغَازِي وَنَحْوهَا فَإِذا جَاءَ الْحَلَال وَالْحرَام أردنَا قوما هَكَذَا قَالَ أَحْمد بن حَنْبَل بِيَدِهِ وصم يَدَيْهِ وَأقَام أَصَابِعه الإبهامين
    امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق سے مغارزی وغیرہ کی احادیث لکھی جاتی ہیں لیکن جب حلال حرام کے مسئلہ آتے ہیں تو ہم محمد بن اسحاق سے اعراض کرکے ثقہ لوگوں کا ارادہ کرتے ہیں امام احمد بن حنبلؒ نے اس مفہوم کو اس طرح بیان ادا کیا کہ دونوں ہاتھوں کی مٹھی بند کی اور دونوں انگوٹھے کھڑے رکھے۔ (تاریخ ابن معین برویۃ الدوری ج۳ص۲۴۷، الجرح والتعدیل ج۷ ص۱۹۳ ، طبقات الحنابلہ ج۱ ص۲۳۷، المقصد الارشد ج۲ ص۲۷۹، النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح ج۲ ص۳۰۹۔ فتح المغیث ج۱ ص۳۵۰)
    15۔محمد بن ہارون فلاسؒ
    محمد بن ہارون فلاسؒ فرماتے ہیں سألت يحيى بن معين عن محمد بن اسحاق فقال ما احب ان احتج به في الفرائض
    میں نے یحییٰ بن معین ؒ سے محمد بن اسحاق کے متعلق پوچھا تو یحییٰ بن معین ؒ نے فرمایا کہ میں فرائض میں اس کی حدیث حجت نہیں پکڑنا پسند کرتا۔(الجرح والتعدیل جلد۷ص۱۹۴)

    ReplyDelete
  10. 16۔غیرمقلد علامہ البانی صاحب
    غیرمقلد البانی صاحب لکھتے ہیں وابن إسحاق
    حجة في المغازي، لا في الأحكام إذا خالف
    محمد بن اسحاق مغارزی میں حجت ہے احکام میں حجت نہیں خصوصا جب وہ دوسرے ثقات کی مخالفت کرے۔(ضعیف ابی داود ج۲ص۱۶۵)
    17۔غیرمقلد نواب صدیق حسن خان صاحب
    نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ”درسندش نیز ہماں محمد بن اسحاق است ومحمد بن اسحاق حجت نیست ۔(دلیل الطالب ص۲۳۹)
    نیز اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور محمد بن اسحاق حجت نہیں۔
    علامہ ابن رجب ؒ لکھتے ہیں ”واما من روی عن ضعیگ فاسقطہ من الاسناد بالکلیۃ فھو نوع تدلیس ومنہ مایسممی التسویۃ وھو ان یروی عن شیخ لہ ثقۃ عن رجل ضعیف عن ثقۃ فیسقط الضعیف من الواسط“
    جو راوی ضعیف سے روایت کرتا ہو اور وہ سند سے ضعیف راوی کو گرادے تو یہ ردلیس ہے اس کی ایک قسم کا نام تدلیس التسویہ ہے وہ یہ کہ راوی کا شیخ ثقہ ہو لیکن شیخ الشیخ ضعیف ہو اور شیخ الشیخ ثقہ راوی سے روایت کرے پس یہ ضعیف دو ثقہ راویوں کے درمیان میں ہے جس کو راوی حدیث حذد کر دیتا ہے۔(شرح علل الترمذی لابن رجب ج۲ ص۸۲۵)
    محدثین کرامؒ نے محمد بن اسحاق کو مدلس لکھا ہے۔

    ReplyDelete
  11. 18۔ امام احمد بن حنبلؒ
    امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں ابن اسحاق یدلس
    محمد بن اسحاق تدلیس کرتا ہے۔ (تہذیب التہذیب ج۹ص۴۳)
    اثرم کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا ما تقول في محمد بن إسحاق؟ قال
    هو كثير التدليس جدا
    آپ محمد بن اسحاق ے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ بہت زیادہ تدلیس کرتا ہے۔ (الجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۳)
    قيل له: فإذا قال أخبرني وحدثني فهو ثقة؟ قال: هو يقول أخبرني ويخالف.
    نیز امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا وہ بھت زیادہ تدلیس کرتا ہے ان سے پوچھا گیا کہ جب وہ اخبرنی اور حدثنی کے ساتھ روای کرے اس کی روایت معتبر ہے ؟امام احمد بن حنبلؒ نے فرمیا کہ وہ اخبرنی کہتا ہے پھر اس کے خلاف بھی کہہ دیتا ہے۔ (میزان الاعتدال ج۳ص۴۷۰)

    ReplyDelete
  12. 19۔علامہ نوویؒ
    علامہ نوویؒ لکھتے ہیں فَإِن ابْن إِسْحَاق مُدَلّس مَشْهُور بذلك، والمدلس إِذا قَالَ: عَن، لَا يحْتَج بِهِ بالِاتِّفَاقِ.
    محمد بن اسحاق تدلیس کرنے میں مشہور ہے اور جب مدلس عن کے ساتھ روایت کرے تو اس کی حدیث بالاتفاق حجت نہیں ہوتی۔(خلاصۃ الاحکام ج۲ ص۷۱۶)
    20۔ علامہ بصریؒ
    علامہ بصریؒ فرماتے ہیں سَنَده ابْن إِسْحَاق وَهُوَ مُدَلّس
    اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے۔ (مصباح الزجاجۃ ج۳ ص۸۲)
    21۔علامہ ابن رجبؒ
    علامہ ابن رجب ؒ لکھتے ہیں ”وابن اسحاق مدلس “ (فتح الباری لابن رجب ج۹ص۴۹۳)
    22۔علامہ عراقیؒ
    علامہ عراقیؒ فرماتے ہیں ”فی اسناد محمد بن اسحاق وقد رواہ بالعنعنہ وھو مدلس“
    اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے عن کے ساتھ روایت کی ہے۔ (طرح التہذیب ج۲ ص۷۰)

    ReplyDelete
  13. 23۔حافظ ابن حجرؒ
    حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں ”محمد بن اسحاق بن یسار امام المغارزی صدوق یدلس“
    محمد
    بن اسحاق بن یسار غزوات کے نقل کرنے میں امام ہے سچا ہے لیکمن تدلیس کرتا ہے۔ (تقریب التہذیب ص ۲۹۰)
    24۔ علامہ نور الدین الہیثمیؒ
    علامہ نور الدین الہیثمیؒ ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط ورجالہ ثقات الابن اسحاق مدلس
    اس حدیث کو کو طبرانی ؒ نے معجم اوسط میں روایت کیا ہے اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن محمد بن اسحاق مدلس ہے۔(مجمع الزوائد ج۹ص۱۵۵)

    ReplyDelete
  14. 25۔غیرمقلد علامہ البانی صاحب
    البانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ورجالہ ثقات الاان ابن اسحاق مدلس (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ج۶ص۱۰۸۷)
    اس کے راوی ثقہ ہیں مگر محمد بن اسحاق مدلس ہے۔
    26۔ غیرمقلد علامہ شوکانی صاحب
    علامہ شوکانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ”وفی اسنادہ محمد بن اسحاق وھو مدلس وقد عنعن“
    اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے اوراس نے عن کے ساتھ روایت کی ہے۔
    27۔ غیرمقلد محدث عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب
    عبدلرحمٰن مبارکپوری صاحب ایک سند کا ضعف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں فان فی سندہ محمد بن اسحاق وھو مدلس ورواہ عن فاطمۃ بنت المنذر بالعنعنۃ ومع ھذا قد تفرد ھو االلفظ ولم یقلہ غیرہ
    اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے جو مدلس ہے اور اس حدیث کو فاطمہ بن منذر سے عن کے ساتھ روایت کرتا ہے اور وہ حدیث کے ان لفظوں کے نقل کرنے میں منفرد ہے یہ لفظ کسی اور نے نقل نہیں کیے اسلیے یہ ضعیف ہے۔(ابکار المنن ص۵۳)
    محمد بن اسحاق شیعہ مذہب رکھتا تھا

    ReplyDelete
  15. 28۔حافظ ابن حجر عسقلانیؒ
    حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ محمد ابن إسحاق ابن يسار۔۔۔۔ورمي بالتشيع والقدر
    محمد بن اسحاق شیعہ مذہب کے ساتھ قدری بھی ہے یعنی تقدیر کا منکر ۔(تقریب التہذیب جلد۱ ص۴۶۷)
    29۔علامہ خطیب بغدادیؒ
    علامہ خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں وقد أمسك عن الاحتجاج بروايات ابن إسحاق غير واحد من العلماء لأسباب منها أنه كان يتشيع
    محمد بن اسحاق کی روایت کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف اسباب کی وجہ سے رک گئے ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔(تاریخ بغداد ج۱ ص۲۲۴)
    30۔علامہ ابن عساکرؒ
    علامہ ابن عساکرؒ فرماتے ہیں محمد بن إسحاق وسلمة بن الفضل يتشيعان
    محمد بن اسحاق اور سلمہ بن فضل دونوں شیعہ المذہب رکھتے تھے۔(تاریخ ابن عساکر ج۵۹ص۲۰۵)

    ReplyDelete
  16. 31۔علامہ ذھبیؒ
    علامہ ذھبیؒ لکھتے ہیں وَقَدْ أَمْسَكَ عَنِ الاحْتِجَاجِ بِرِوَايَاتِ ابْنِ إِسْحَاقَ غَيْرُ، وَاحِدٍ مِنَ العُلَمَاءِ, لأَشْيَاءَ مِنْهَا: تَشَيُّعُه۔
    محمد بن اسحاق کی روایات کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف اسباب کی وجہ سے رک گئے ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔(سیراعلام النبلا ج۷ ص۳۹)
    32۔علامہ ابن رجب الحنبلیؒ
    علامہ ابن رجب الحنبلیؒ لکھتے ہیں ولا ريب أنه كان يتهم بأنواع من البدع، ومن التشيع والقدر وغيرهما
    اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد بن اسحاق مختلف قسم کی بدعات کے ساتھ متہم تھا جیسے شیعہ اور قدری یعنی تقدیر کا منکر وغیرہ۔(شرح علل الترمذی لابنرجب ج۱ ص۴۱۹)
    علامہ نوویؒ فرماتے ہیں بدعتی کی حدیث کے بارے میں راجح مذہب یہ ہے کہ جس حدیث سے اس کی بدعت کی تقویت و تائید ہوتی ہو اس کی وہ حدیث قبول نہیں کی جاتی ۔(شرح مسلم للنوی ص۲ شرح نختبہ الفکر ص۱۱۸)
    33۔ابو حاتمؒ
    ابو حاتم ؒ محمد بن اسحاق کو ضعیف کہتے ہیں۔ (کتاب العلل جلد ۱ص۴۳۳)

    ReplyDelete
  17. 36۔امام بیہقیؒ
    امام بیہقیؒ فرماتے ہیں
    محدثین اور حفاظ حدیث ابن اسحاق کے تفردات سے گریز کرتے ہیں۔ (سنن الکبری بحوالہ الجوھر النقی جلد ۱
    ص۱۵۵)
    38۔ عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ
    عبداللہؒ فرماتے ہیں لم یکن يحتج به في السنن
    میرے باپ احمد بن حنبلؒ ابن اسحاق کو سنن اور احکام میں ان سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔(بغدای جلد۱ ص۲۳۰،تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
    حنبل بن اسحاق کا بیان ہے کہ امام احمد ؒ نے فرمایا کہ ابن اسحاق لیس بحجۃ یعنی ابن اسحاق حجۃ نہیں ہے۔(بغدادی جلد۱ ص۲۳۰، تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
    امام احمدؒ سے دریافت کیا گیا کہ ابن اسحاق جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کی حدیث حجت ہو گی؟ قال لا واللہ (بغدادی جلد۱ ص۲۳۰) بخدا ہرگز نہیں۔

    ReplyDelete
  18. 39۔ابن معینؒ
    ابن ابی خیثمہؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو لیس بذالك ،ضعیف ، اور لیس بالقوی کہا ۔ میمونی ؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔(بغدای جلد۱ ص۲۳۱ تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
    40۔علی بن المدینیؒ
    علی بن المدینیؒ کا بیان ہے لم یضعفه عندي الا روایته، عن اھل الکتاب (تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۵)
    میرے نزدیک ابن اسحاق کو صرف اس بات نے ضعیف کر دیا ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ سے روایتیں لے لے کر بیا ن کرتا ہے۔

    ReplyDelete
  19. 42۔امام ترمذیؒ
    امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ بعض محدثین نے ان کے حافظہ کی خرابی کی وجہ سے اس میں کلام کیا ہے۔ (کتاب العلل جلد۲ص۲۳۷)
    43۔امام نوویؒ
    امام نوویؒ فرماتے ہیں جو راوی صحیح کی شرطوں کے مطابق نہیں ہیں ان میں ایک محمد بن اسحاق بھی ہے۔(مقدمئہ نووی ص
    ۱۶)
    44۔امام ذھبیؒ
    علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق کی روایت درجئہ صحت سے گری ہوئی ہے اور حلال و حرام میں اس سے احتجاج درست نہیں۔ (تذکرہ جلد۱ ص۱۶۳)

    ReplyDelete
  20. آپ نے جہالت کی بہت بڑی مثال قائم کی ہے جناب ، ”محمد بن اسحاق بن یسار المدنی“ ، ثقہ ہیں یا ضعیف اس سے قطع نظر اس سند میں ان کا وجود ہی نہیں ہے ۔
    یہاں سند میں ”ابوبکر، محمد بن اسحاق بن جعفر الصاغانی“ ہیں ، آپ نے اپنی جہالت کے باعث ان کو ”محمد بن اسحاق بن یسار المدنی“ سمجھ لیا اور جرح نقل کرنے بیٹھ گئے ۔ حالانکہ مضمون نے میں ان کا تعین واضح کرنے کے لئے ان کا مختصر تعارف بھی پیش کیا گیاہے۔

    ReplyDelete