کیا امیر معاویہ نے بغض علی رضی اللہ عنہ میں سنت رسول کو ترک کردیا؟ - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-07-11

کیا امیر معاویہ نے بغض علی رضی اللہ عنہ میں سنت رسول کو ترک کردیا؟


کیا امیر معاویہ نے بغض علی رضی اللہ عنہ میں سنت رسول کو ترک کردیا؟
تحریر: کفایت اللہ سنابلی
✿ ✿ ✿ 
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
”أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم الأودي، قال: حدثنا خالد بن مخلد، قال: حدثنا علي بن صالح، عن ميسرة بن حبيب، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، قال: كنت مع ابن عباس، بعرفات، فقال: «ما لي لا أسمع الناس يلبون؟» قلت: يخافون من معاوية، فخرج ابن عباس، من فسطاطه، فقال: «لبيك اللهم لبيك، لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض علي»“ 
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات میں تھا تو وہ کہنے لگے: کیا بات ہے، میں لوگوں کو تلبیہ پکارتے ہوئے نہیں سنتا۔ میں نے کہا: لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈر رہے ہیں، (انہوں نے لبیک کہنے سے منع کر رکھا ہے) تو ابن عباس رضی اللہ عنہما (یہ سن کر) اپنے خیمے سے باہر نکلے، اور کہا: «لبيك اللہم لبيك لبيك» (افسوس کی بات ہے) علی رضی اللہ عنہ کی عداوت میں لوگوں نے سنت چھوڑ دی ہے[سنن النسائي 5/ 253 رقم 3006]
 ❀ ❀ ❀ 
ہماری نظر میں یہ روایت ضعیف ۔
اس کی سند میں ایک ”خالد بن مخلد القطواني“ ہے۔
بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے جبکہ بعض نے اس پر جرح کی ہےچنانچہ:

●  امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
 ”كان منكر الحديث في التشيع مفرطا وكتبوا عنه ضرورة“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 406]

●  امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
 ”له أحاديث مناكير“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 2/ 17]

●  امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
 ”خالد بن مخلد: كان شتاماً معلناً بسوء مذهبه“ [أحوال الرجال للجوزجاني، ت البَستوي: ص: 131]

●  امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
 ”صدوق، ولكنه يتشيع“ [سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 80]

ان اقوال کی بنیاد پربعض اہل علم نے اس راوی کوضعیف قراردیا ہے چنانچہ :

تحرير التقريب كے مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)اس راوی کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ”ضعيف يعتبر به“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1677]

اس پر نکارت کی جرح ہونے کے ساتھ ساتھ اس پرشیعیت کی بھی جرح ہے جیساکہ اس کے شاگرد امام ابن سعد رحمہ اللہ نے گواہی دی ہے۔نیز دیگراہل علم نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
اورزیر نظر روایت میں اس کی شیعیت بہت نمایاں ہے اسی لئے تو اہل تشیع اسے مزے لے لے کربیان کرتے ہیں۔

❀ اوربعض اہل علم کی تحقیق یہ ہے کہ یہ راوی جب اہل مدینہ سے روایت کرے گا تو اس کی روایت مقبول ہوگی مگر جب وہ اہل مدینہ کے علاوہ دیگرلوگوں سے روایت کرے تو اس کی روایت غیرمقبول ہوگی چنانچہ:

امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
 ”ذكر الغلابي في تاريخه. قال: القطواني يؤخذ عنه مشيخة المدينة، وابن بلال فقط يريد سليمان بن بلال.ومعنى هذا أنه لا يؤخذ عنه إلا حديثه عن أهل المدينة، وسليمان بن بلال منهم، لكنه أفرده بالذكر“ [شرح علل الترمذي لابن رجب، ت همام: 2/ 776]

اوریہ زیرنظر روایت میں اس نے یہ روایت اہل مدینہ سے نہیں بیان کی ہے بلکہ اہل کوفہ سے بیان کی ہے اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔

واضح رہے کہ یہ بخاری ومسلم کا راوی ہے اوربخاری ومسلم کے راوی عام طور سے ثقہ ہوتے ہیں لیکن بعض ضعیف بھی ہوتے اوربخاری ومسلم کی علاوہ دیگرکتب میں ان کی روایات ضعیف قراردی جاتی ہیں ۔
مثلا بخاری ومسلم کا ایک راوی ”الفضيل بن سليمان النمیری“ ہے۔
بخاری میں اس راوی کی بیسوں احادیث ہیں ۔اور مسلم میں بھی کئی احادیث ہیں۔لیکن یہ ضعیف راوی ہیں ۔
اسی راوی نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاتے تھےیعنی ہاتھ اٹھاکردعاکرتے تھے۔

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
 ”حدثنا سليمان بن الحسن العطار، قال: حدثنا أبو كامل الجحدري، قال: حدثنا الفضيل بن سليمان، قال: حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلا رافعا يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»“ [المعجم الكبير للطبراني 13/ 129]

لیکن اہل علم نے اس کی حدیث کو ”الفضيل بن سليمان النمیری“ کی وجہ سے ضعیف کہا ہے حالانکہ یہ بخاری ومسلم کاراوی ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب بخاری ومسلم کے اس راوی کو ضعیف قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس کا راوی ”الفضيل بن سليمان النمیری“ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے ، صحیحین میں اس کی تمام روایات شواہد ومتابعات کی وجہ سے صحیح ہیں [فتاوي علمية: ج 1 ص: 464 ایضا 468]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو ضعیف کہا ہے ،دیکھئے:[سلسلة الأحاديث الضعيفة 6/ 56 رقم2544]
 اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
اس لئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی راوی بخاری مسلم کا ہو تو لازمی طورپرثقہ ہیں ۔بلکہ بخاری ومسلم کے رجال میں بعض ضعیف رواۃ بھی ہیں اور امام بخاری ومسلم متابعات وشواہداورجانچ پڑتال کی بنیاد پرایسے رواۃ کی احادیث بھی ان کی سندوں میں امتیازی خوبیوں کے باعث لے لیتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ درج بالا روایت ضعیف ہے۔
کیونکہ اس کی سند میں موجود ”خالدبن مخلد“ ۔
متکلم فیہ ہے۔
اس کے اندر کٹرشیعیت ہے۔
اس روایت کو اس نے اہل مدینہ کے بجائے اہل کوفہ سے نقل کیاہے۔
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment