عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، (ایک وضاحت) - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-08-23

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، (ایک وضاحت)

*عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ،(ایک وضاحت)*
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿:-
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دفاع کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کچھ امور کی وضاحت کی تو بعض لوگ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مقصود ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں سکے اور ان کے کلام میں تنقیص علی کی بات کردی ، حتی کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی لکھا:
”وكم من مبالغة لتوهين كلام الرافضي ادته أحيانا إلى تنقيص علي رضي الله عنه“ 
”اس رافضی کی تردید میں ان (ابن تیمہ)کے کئی مبالغے ایسے ہیں جنہوں نے بسا اوقات انہیں علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص تک پہنچادیا“ [لسان الميزان لابن حجر، ط الهند: 6/ 319]
ظاہر ہے کہ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسی شخصیت کی تحریر سے بھی بعض کو بلکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ جیسی علمی شخصیت کو غلط فہمی ہوسکتی ہے تو ہماری کیا حیثیت ہے ۔
.
بلکہ معاصرین ہی میں شیخ عثمان الخمیس وغیرہ کے شاگرد اور  متعدد کتابوں کے مصنف شیخ فيصل الجاسم کے تعلق بھی سے کچھ لوگوں نے یہ بات اڑا دی کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی کہا ہے جس کے بعد انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر یہ وضاحت کی :
 ”فقد أشاع عني بعض الناس هداهم الله أني أزعم أن الحسين بن علي وعبد الله الزبير رضي الله عنهما من البغاة، وأنا أبرأ إلى الله تعالى من ذلك“
 ”بعض لوگوں نے-اللہ انہیں ہدایت دے-میرے تعلق سے یہ بات عام کردی کہ میں حسین رضی اللہ عنہ اور ابن زبیررضی اللہ عنہ کو باغی مانتاہوں ، میں اللہ کی بارگاہ میں اس سے برات ظاہرکرتاہوں“ [ www.al-jasem.com]
.
راقم الحروف کے بارے میں بھی بعض حضرات کچھ ایسی ہی غلط فہمی کے شکار ہوئے اور میری طرف یہ منسوب کردیا کہ  میں نے ”عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ“ کو باغی کہا ہے معاذ اللہ !
یہ بات قطعا غلط ہے میں نے نہ تو ایسا کبھی کہا ہے اور نہ ہی ایسا کہیں لکھا ہے ، بلکہ اس کے برعکس میں نے متعدد جگہ پوری صراحت سے لکھا ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی بغاوت نہیں کی اس لئے انہیں باغی کہنا غلط ہے، مثلا ”یزید بن معاویہ“ والی کتاب میں میرے یہ الفاظ موجود ہیں:
.
*”عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی مخالفت صرف اسی حد تک تھی کہ انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں یزید کی بیعت نہیں کی تھی ،اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بھی آپ نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی ، آپ چونکہ شروع ہی سے یزید کی بیعت کے مخالفت تھے ، اس لئے ظاہر ہے کہ آپ کی عدم بیعت اور خلافت یزید سے آپ کی مخالفت کو بغاوت اور عہد شکنی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ بغاوت اورعہد شکنی کی بات اس وقت ہوتی جب کوئی پہلے کسی کی بیعت کرلے اور بعد میں بیعت توڑ دے“* [دیکھئے یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ ص 487]
.
اس کے ساتھ ہم نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کی یہ مخالفت نیک نیتی اور خلوص پر مبنی تھی وہ یہ اندیشہ محسوس کررہے تھے کہ کہیں اب یہ دستور نہ بن جائے کہ ہر اگلا  خلیفہ سابق خلیفہ کا بیٹا ہی بننے لگے اس طرح خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوجائے
.
ذیل میں ہم کچھ مزید وضاحت کرتے ہیں :
یزید بن معاویہ کی ولیعہدی کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی زندگی کے دو ادوار ہیں:
.
*✿پہلا دور:*
یزید کی ولیعہدی سے لیکر یزید کی وفات تک کا دور
*✿دوسرا دور:*
یزید کی وفات کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت تک کا دور
.
*ان دونوں ادوار میں سے کسی بھی دور میں ”عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ“ نے کسی کی بغاوت نہیں کی ، ”پہلے دور“ میں انہوں نے یزید کی بیعت کی ہی نہیں ، اور ”دوسرے دور“ میں انہوں نے اپنے لئے اس وقت بیعت لی جب مسلمانوں کا کوئی خلیفہ تھا ہی نہیں ، کیونکہ دوسرے دور میں جب یزید کی وفات ہوئی تو اس کا بیٹا کچھ دن کے لئے خلیفہ بنا پھروہ بھی دست بردار ہوگیا اور اپنے بعد کسی کو ولی عہد نہیں بنایا ، ایسے میں عالم اسلام میں کوئی خلیفہ موجود نہیں تھا ، پھر اس وقت عبداللہ بن زبیررضی اللہ نے اپنے ہاتھ پر بیعت لی اور عالم اسلام کے اکثر علاقوں نےان کی بیعت کرلی حتی کہ بعض اہل شام نے بھی بیعت کرلی ، ایسی صورت میں وہ اکثریت کے فیصلے سے شرعی طور پر خلفیہ بن چکے تھے ، اس لئے اب نہ تو ان کی شرعی بیعت کے بعد بیعت توڑنے کا کوئی جواز تھا اور نہ ہی ان کے خلاف کسی کو کوئی کا رروائی کرنے کا حق تھا، لیکن بعض اہل شام نے حجاج یوسف کے ذریعہ ان کے خلاف  لشکر کشی کی حتی کہ انہیں شہید کر ڈالا یقینا یہ بہت بڑا ظلم تھا کیونکہ عالم اسلام کی اکثریت کے ذریعہ منتخب شدہ ایک شرعی خلیفہ کو شہید کرڈالا گیا،رضی اللہ عنہ*
.
یاد رہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا یہ ”دوسرا عہد“ ہماری کتاب ”یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ“ کے موضوع سے خارج ہے اس لئے اس کتاب میں اس دوسرے عہد پر بحث نہیں ہے بلکہ ان کے پہلے عہد پر بحث ہے جس میں انہوں نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی ۔
اور اس پہلے عہد میں بھی ہماری بحث کا ماحصل یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس عہد میں بھی یزید کی صرف بیعت سے اختلاف کیا اور ان کا یہ اختلاف نیک نیتی اور اخلاص پر مبنی تھا ، انہیں اندیشہ تھا کہیں اب یہ دستور نہ بن جائے کہ ہر خلیفہ کے بعد اس کا بیٹا ہی اگلا خلیفہ بنے ، اس طرح خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوجائے اس لئے وہ سد باب کے لئے اختلاف کررہے تھے ، اور چونکہ اکثریت نے یزید کی بیعت کرلی تھی اس لئے آپ نے اس اختلاف کو بھی صرف اپنی حد تک محدود رکھا ، لیکن جس طرح ”واقعہ حرہ“ میں کچھ لوگوں نے یزید کے خلاف بغاوت کی اسی طرح ”واقعہ حصار“ میں بھی کچھ لوگوں نے یزید کے خلاف بغاوت کی اورچونکہ وہاں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ موجود تھے اس لئے ان لوگوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا نام استعمال کیا کیونکہ وہ شروع ہی سے یزید کے مخالف تھے ۔
.
*✿اصل فتنہ پرداز لوگ:*
سابقہ واقعات کے تسلسل ، بعض صحیح روایات ، بعض تاریخی بیانات اور کچھ قرائن کی روشنی میں ہمارا ماننا یہ ہے کہ جس طرح شہادت عثمان رضی اللہ عنہ سے لیکر شہادت حسین تک ہرموقع پر تمام صحابہ مخلص تھے اور اصل فتنہ پرور سبائی گروہ تھا جو ہر موقع پر اپنا کردار ادا کررہا تھا ، ”واقعہ حصار“ کے موقع پر بھی اصل فتنہ انہیں لوگوں کی طرف تھا ، بلکہ بعض تاریخی روایات جو سندا صحیح نہیں ہیں ان میں صراحت بھی کہ :
*”وكانت الخوارج قد اتته واهل الاهواء كلهم وقالوا:”عائذ بيت الله“ وكان شعاره لا حكم الا لله“*
*”خوارج اور ہرطرح کے خواہش پرست ان کے پاس آئے اور انہیں ”عائذ بیت اللہ“ کہا اور نعرہ لگایا کہ اللہ کے علاوہ کسی کاحکم نہیں چلے گا“* [تاريخ دمشق لابن عساكر: 28/ 209]
ہمارا ماننا ہے کہ ”واقعہ حصار“ میں باہر سے آنے والے یہی خوارج اور فتنہ پرست لوگ ہی تھے ، جو اصل بغاوت کی جڑ تھے ، جس طرح ”واقعہ دار“ میں بھی باہر سے خوارج آئے تھے اور ایسا فتنہ برپا کیا کہ معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک جا پہنچا، تو جب خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں باہر سے خوارج دار الخلافت مدینہ آکراس میں فتنہ برپا کرکے خلیفہ وقت کو قتل تک کرسکتے ہیں تو یزید کے دور میں خوارج کا مکہ آکر فتنہ برپا کرنا کون سی بعید بات ہے!
.
بلکہ اس کی تائید عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک صحیح روایت سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے اس گروہ کو باغی کہتے ہوئے یہ کہا:
”وأني لم أقاتل الفئة الباغية التي نزلت بنا“
”مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ میں اس باغی گروہ سے قتال نہیں کرسکا جو ہمارے بیچ آیا تھا“ [المحتضرين لابن أبي الدنيا 5/ 377]
ملاحظہ فرمائیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جس گروہ کو باغی کہہ رہے ہیں، اسے باہر سے آنے والا بتارہے ہیں ، یہ اس بات کی دلیل ہے ”حصار مکہ“ کے باغی باہر سے آئے ہوئے تھے ۔
بعض رواۃ نے اس روایت کے بعد اپنی طرف سے یہ کہہ دیا کہ یہ باہر سے آنے والا گروہ حجاج بن یوسف کا گروہ تھا [المحتضرين لابن أبي الدنيا 5/ 377]
لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا:
”قلت: هذا ظن من بعض الرواة، وإلا فهو قد قال الفئة الباغية ابن الزبير كما تقدم، والله أعلم“
”میں (امام ذہبی ) کہتاہوں کہ: یہ بعض رواۃ کا اپنا خیال ہے ،ورنہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے خودیہ کہا ہے کہ باغی گروہ ابن زبیررضی اللہ عنہ کا (یعنی ان کے ساتھ موجود) گروہ ہے جیساکہ گذرا۔ واللہ اعلم“ [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 465]
ابن عمررضی اللہ عنہ کی خود کی صراحت والی روایت امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے نقل کی ہے :
قال ابن عمر : ابن الزبير بغى على هؤلاء القوم فأخرجهم من ديارهم ونكث عهدهم . . .“
ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: ابن زبیررضی اللہ عنہ (یعنی ان کے ساتھ موجود گروہ) نے اس قوم کے خلاف بغاوت کی ہے انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا ، ان کا عہد توڑ دیا ۔۔۔“ [ السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: (8/ 172) وإسناده صحيح وأخرجه أيضا ابن عساكر في ”تاريخه“ ( 31/ 193) من طرق عن الزهري به ونقله الحافظ في الفتح (13/ 72)]
.
*ابن عمررضی اللہ عنہ کے تمام اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے واضح ہوتاہے کہ وہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی نہیں کہہ رہے بلکہ وہ اس گروہ کو باغی کہہ رہے ہیں جو باہر سے آیا تھا ، لیکن چونکہ یہ گروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل گیا تھا ، اس لئے اس کی پہچان کے لئے ابن عمررضی اللہ عنہ نے ابن زبیررضی اللہ عنہ کا نام لیا ، اور حقیقت میں ابن عمررضی اللہ عنہ کی مراد ابن زبیررضی اللہ عنہ کی شخصیت نہیں ہے،کیونکہ:*
*●اولا:-*
 ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک ”فرد“ نہیں بلکہ ایک ”گروہ“ کو باغی کہہ رہے ،اورعبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ خود کوئی گروہ نہیں ہیں ۔
*●ثانیا:-*
 ابن عمررضی اللہ عنہ نے اس گروہ کو باہر سے آنے والا کہا ہے جب کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ باہر سے آنے والے نہ تھے ۔
*●ثالثا:-*
 ابن عمررضی اللہ عنہ نےاس گروہ کو عہدشکن کہا ہے جب کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کوئی عہد کیا ہی نہیں، تو وہ عہد شکن کیسے ہوسکتے ہیں ۔
.
اس تفصیل کی روشنی میں ہمارا ماننا یہ ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے پہلے دور میں بھی کوئی بغاوت نہیں کی ہے ، اورنہ ہی ابن عمررضی اللہ عنہ نے انہیں باغی کہا ہے ، بلکہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے باہر آنے والے خوارج اور فتنہ پرستوں کو باغی کہاہے۔
*ہم نے کسی بھی تحریر میں جو بھی سخت الفاظ استعمال کئے ہیں وہ انہیں فتنہ پرداز لوگوں سے متعلق ہی ہیں ، نہ کہ کسی صحابی یا نیک شخصیت سے متعلق ، ونعوذ باللہ من ذلک، یہ ایسے ہی ہے جیسے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ، یہ علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں مل گئے تھے اور ہم قاتلین عثمان پر سخت زبان استعمال کرتے ہیں لیکن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ وتابعین اس سے قطعا مراد نہیں ہوتے۔*
”واقعہ حصار“ کے فتنہ میں کوئی صحابی یا کوئی بڑی بزرگ ہستی بھی شامل رہی ہو ہماری معلومات میں اس بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے۔
 *تاہم ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اس طرح کے فتنہ پرداز لوگوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر کچھ اچھے لوگ بھی متاثر ہوجاتے ہیں ، جیسا کہ ”واقعہ دار“ میں ”محمدبن ابی بکر“ جیسا نام سامنے آتا ہے ، بلکہ خود عہد رسالت میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور پروپیگنڈا اتنا شدید ہوتا ہے کہ دو صحابہ اور ایک صحابیہ بھی اس سے متاثر ہوجاتی ہیں ، تو کوئی بعید نہیں ہے کہ ”واقعہ حصار“ میں بھی فتنہ پردازوں کے ساتھ کچھ اچھے نام مل جائیں ، لیکن ہم ایسے لوگوں کے بارے میں قطعا کوئی بات نہیں کہتے ۔فتنہ پرداز لوگوں سے ہماری مراد صرف وہ خوارج اور خواہش پرست لوگ ہیں جو باہر سے مکہ آکر یہ فتنہ برپا کررہے تھے*
.
*✿عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کااظہاربرات:*
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا معاملہ صرف اتنا ہے کہ انہوں نے شروع ہی سے یزید کی بیعت نہیں کی تھی ، اور باہرسے آنے والے لوگ ان کے ساتھ مل گئے تھے ، لیکن ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ابن زبیررضی اللہ عنہ نے ان خارجیوں سے نفرت ظاہر کردی تھی ، اور ان سے بری ہوگئے تھے ۔
وہ روایت اس طرح ہے کہ ابوقلابہ بیان کرتے ہیں:
”أن معاوية قال لعبد الله بن الزبير رضي الله تعالى عنهم: إن الشح والحرص لن يدعاك حتى يدخلاك فلما حصر ابن الزبير قال: هذا ما قال لي معاوية، وددت أنه كان حيا“
”امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: بے شک کنجوسی اور حرص تمہارا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتے جب تک وہ تمہیں تنگ مقام تک نہ پہنچا دیں ، پس جب ابن زبیر رضی اللہ عنہ محصور ہوگئے ، تو معاویہ کی یہی بات دہراتے اورکہتے : اے کاش ! آج معاویہ زندہ ہوتے انہوں نے یہی بات مجھ سے بہت پہلے کہی تھی“ [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 366 واسنادہ صحیح، ترجمہ شیخ شمیم مدنی کے مترجم نسخے ص 443 سے منقول ہے]
.
واضح رہے کہ اس روایت میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ”شح“ اور ”حرص“ کے جو الفاظ استعمال کئے ہیں ہم اسے صحابہ ہی کے معیار پر نصیحت میں محض سختی پر محمول کریں گے نہ کہ اپنے دور کے لحاظ سے اس کا حقیقی معنی مراد لینے بیٹھ جائیں گے جیساکہ صحیحین وغیرہ میں بھی بعض صحابہ سے متعلق بعض صحابہ کے سخت الفاظ ہیں جو ان کے معیار پر محض نصیحت یا اظہاراختلاف یا وقتی خفگی کے لئے ہیں ، لیکن آج کے نادان اسے اپنے دور کے لحاظ سے حقیقی معنی پر محمول کرکے اسے دشمنی اور گالی گلوج سے تعبیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں ، نعوذ باللہ من ذلک .
کتب ستہ کے راوی امام اعمش رحمہ اللہ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہاہے:
”حدثناهم بغضب أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فاتخذوه دينا“ 
”ہم نے انہیں (اہل کوفہ) کو صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب والے واقعات بیان کئے تو انہوں نے اسے دین بنا ڈالا“ [المعرفة والتاريخ 2/ 765 وإسناده صحيح]
حدیث کے علاوہ خود قرآن کا بیان دیکھ لیں کہ ایک نبی نے اپنے بھائی کی ڈاڑھی پکڑ لی { قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي } [طه: 94]
ظاہر ہے کہ یہ ایک عظیم بھائی کا دوسرے عظیم بھائی کے ساتھ برتاؤ ہے اب اسے کوئی گستاخی پر محمول کرے تو وہ اپنے ایمان کی خیر منائے ۔
.
*✿قول معاویہ رضی اللہ عنہ کی سند پروضاحت:*
بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس روایت کو ابوقلابہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات نہیں ہے اس لئے یہ روایت منقطع ہے ۔
عرض ہے کہ:
روایت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے خود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گفتگو نقل کی ہے ، اس لئے اس کو بیان کرنے والے ابن زبیر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ، اور ابوقلابہ رحمہ اللہ ، ابن زبیررضی اللہ عنہ کے معاصر ہیں اور لقاء کا امکان بھی ہے ، لہٰذا سند کو اتصال پر محمول کیا جائے گا جیساکہ اصول حدیث میں مسلم ہے ۔
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) فرماتے ہیں:
”أن القول الشائع المتفق عليه بين أهل العلم بالأخبار والروايات قديما وحديثا، أن كل رجل ثقة روى عن مثله حديثا، وجائز ممكن له لقاؤه والسماع منه لكونهما جميعا كانا في عصر واحد، وإن لم يأت في خبر قط أنهما اجتمعا ولا تشافها بكلام فالرواية ثابتة، والحجة بها لازمة، إلا أن يكون هناك دلالة بينة أن هذا الراوي لم يلق من روى عنه، أو لم يسمع منه شيئا، فأما والأمر مبهم على الإمكان الذي فسرنا، فالرواية على السماع أبدا حتى تكون الدلالة التي بينا“
”احادیث و روایات کا علم رکھنے والے قدیم وجدید علماء کے مابین یہ بات متفق علیہ اورمشہور ہے کہ ہر ثقہ راوی جو اپنے جیسے ثقہ راوی سے کوئی حدیث بیان کرے ، اور اس کا اس سے ملنا اور اس سے سننا ممکن ہو کیونکہ دونوں ایک دور والے ہوں ، گرچہ کسی روایت میں یہ نہ آئے کہ یہ دونوں کبھی ملے ہوں ، یا کبھی ایک دوسرے سے کوئی بات چیت کی ہو ، تو ایسی روایت ثابت ہوگی اور وہ لازمی حجت ہوگی ، الا یہ کہ اس بات پر کوئی واضح دلیل موجود ہو کہ اس راوی نے جس سے روایت کیا ہے اس سے ملاقات نہیں کی ہے ، یا اس سے کچھ بھی نہیں سنا ہے ، لیکن اگر معاملہ مبہم ہو اور وہ امکان موجود ہو جو ہم نے بیان کیا تو روایت ہمیشہ سماع پر محمول ہوگی حتی کہ ویسی دلیل مل جائے جس کو ہم نے بیان کیا“ [صحيح مسلم 1/ 29]
.
رہی یہ بات کہ ابوقلابہ ارسال کرنے والے ہیں تو ابوقلابہ کی انہیں روایت پر ارسال کا حکم لگے گا جو وہ اپنے غیر معاصر سے نقل کریں، یا ایسے معاصر سے نقل کریں جن سے ائمہ نے ان کے نہ سننے کی صراحت کردی ہے ۔
رہی بات یہ کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض محققین نے یہ گمان ظاہر کیا ہے کہ ابوقلابہ نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہوگا، تو اس طرح کی بات ماننے کے لئے ناقد امام کی صراحت درکار ہے، محض عصر حاضر کے کسی محقق کا ذاتی گمان یا فیصلہ حجت نہیں ہوگا ۔
.
علامہ البانی رحمہ اللہ کے محقق بلکہ عظیم محدث ہونے میں کس کو شک ہوسکتا ہے لیکن انہوں نے بھی ابن الزبیر رضی اللہ عنہ  سے ابوقلابہ کی روایت میں انقطاع کا اعتراض نہیں کیا ہے چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”وروى ابن المنذر عن أبي قلابة قال: أول من أحدثه عبد الله بن الزبير. قلت: فإن صح هذا عن ابن الزبير، فيكون هو أول من أحدثه في الحجاز“
”ابن المنذر نے ابوقلابہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: اسے (عید میں اذان ) جس نے سب سے پہلے شروع کی وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہیں ، میں (البانی) کہتاہوں: اگر ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ثابت ہوجائے تو وہ حجاز کے اندر عید میں اذان شروع کرنے والے پہلے ہوں گے“ [مختصر صحيح الإمام البخاري 1/ 295]
یہاں غور کریں کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابن زبیررضی اللہ عنہ سے ابوقلابہ کے سماع کا انکار کرکے اس روایت کے ضعیف ہونے کا فیصلہ نہیں کیا ،بلکہ ابو قلابہ تک ابن المنذر کی سند نہ ہونے کے سبب اس کی صحت کی شرط لگائی ، اگر علامہ البانی رحمہ اللہ کی نگاہ میں ابو قلابہ تک ابن ابی شیبہ کی سند ہوتی تو وہ فورا اس کی صحت کا فیصلہ کردیتے جیساکہ ان کے اسلوب سے ظاہر ہے ۔
.
نیز معاصرمحققین میں دکتور شیبانی بھی ہیں اور انہوں نے اس روایت کو اپنی کتاب مین نقل کیا ہے اور اس کی سند کو حسن کہا ہے، دیکھئے: [مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاوية ص 625]
حیرت ہے کہ کچھ لوگ اس روایت کے نقل اور اس کی تصحیح پر راقم الحروف کو مطعون کرتے ہیں ، حالانکہ اسی روایت کو دکتورشبیانی نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا اورسند کی تحسین بھی کی ہے ، تو کیا اب دکتور شیبانی پر بھی طعن و تشنیع کیا جائے گا۔ یادرہے کہ دکتورشیبانی کی یہ کتاب کوئی عام کتاب نہیں بلکہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں لکھا گیا ماجستر کا ایک رسالہ ہے جو دکتور اکرم ضیاء کے اشراف میں تحریر کیا گیا ہے اور اس کا مناقشہ بھی ہوا ہے.
.
*دراصل اس روایت کے نقل کے ذریعہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا دفاع ہی مقصود ہے کہ وہ عہد یزید میں حصار مکہ کے وقت اصل فتنہ پروروں سے نالاں تھے اور ان سے برات ظاہر کررہے تھے، اس سے الحمدللہ ان کی ذات ان فتنہ پروروں سے بالکل الگ ہوجاتی ہے۔*
.
بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ مصنف ابن بی شیبہ میں ابوقلابہ نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے عید کے دن اذان شروع کردی تو اس سند کو صحیح ماننے کی صورت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ پریہ الزام لگتا ہے کہ انہوں نے بدعت ایجاد کرلی ۔
عرض ہے کہ مکہ میں عید کے لئے اذان شروع کرنا یہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ہے اس لئے انہیں بدعت ایجاد کرنے و الا کہنا قطعا درست نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے عید میں اذان شروع کرنے کی بات صرف ابوقلابہ نے ہی نقل نہیں کی بلکہ امام عطاء نے بھی یہی بات نقل کی ہے [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 169، الأوسط لابن المنذر، ط دار الفلاح: 4/ 298]
.
اس کی سند صحیح ہے ، سند میں ابن جریج گرچہ مدلس ہیں لیکن امام عطاء سے ان کا عنعنہ سماع پر محمول ہوتا ہے کیونکہ ابن جریج نے خود صراحت کردی ہے کہ وہ امام عطاء سے وہی بات بیان کرتے ہیں جو ان سے سنے ہوتے ہیں[تاريخ ابن أبي خيثمة 3/ 250 واسنادہ صحیح] ۔
یہی وجہ ہے کہ علامہ البانی ، علامہ معلمی ، حافظ زبیر علی زئی رحمہم اللہ وغیرہم نے وضاحت کی ہے کہ ایسی سند صحیح ہوگی ، دیکھئے: [الصحيحة 4/ 352، التنكيل 2/ 865، مقالات: ج 6 ص: 77،القراءة خلف الإمام للبخاري مترجم ص: 164، الفتح المبین: ص: 102]
.
الغرض عید میں اذان کہہ دینا یہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا اسے ان کی بدعت کہنا درست نہیں ہے ۔
صحیح بخاری ہی میں کہ ابن الزبیر رضی اللہ عنہ نے کسوف کی نماز ، فجر کی نماز کی طرح پڑھی دیکھئے :[صحيح البخاري رقم 1046]
جب کی یہ سنت کا طریقہ نہیں ، ظاہر ہے کہ اس عمل کو بھی ان کا اجتہاد ہی کہا جائے گا، علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فهذا معاوية وابن الزبير -رضي الله عنهما- قد أحدثا ما لم يكن في عهد النبي - صلى الله عليه وسلم - من الأذان، ومنه صلاة ابن الزبير صلاة الكسوف مثل صلاة الصبح“
”تو یہ معاویہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کچھ ایسی چیزوں کی شروعات کی جو عہد نبوی میں نہ تھیں ، انہیں میں سے (عید میں ) اذان ہے اور انہیں میں سے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا نماز کسوف کو ، نماز فجر کی طرح پڑھنا ہے“ [مختصر صحيح الإمام البخاري 1/ 295]
اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان صحابہ کو معاذ اللہ بدعتی کہا ہے ؟؟؟
.
*خلاصہ یہ کہ:*
اس تحریر میں ہم نے واضح کردیا ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی کہنے سے ہم بری ہیں ، ہم یزید سے پہلے یا یزید کے بعد کسی بھی دور میں ان کو باغی قطعا نہیں کہتے ، یزید کے بعد تو وہ شرعی خلیفہ بن گئے تھے ، اور یزید سے پہلے انہوں نے صرف یزید کی بیعت سے اختلاف کیا تھا ، جو ان کا حق تھا ، بعد میں ان کے اس اختلاف سے فائدہ اٹھانے کے لئے کچھ  دوسرے مخالفین ان کے ساتھ آگئے تھے ، لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے بھی برات ظاہر کردی والحمدللہ۔
.
*نوٹ:-*
*یزید بن معاویہ والی کتاب میں ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس کا مقصود بھی وہی ہے جو ہم نے اس تحریر میں واضح کیا ہے ، بعض لوگ اس کتاب میں منقول بعض صحابہ کے کسی تبصرہ کو صحابی کا نام چھپا کر میری طرف منسوب کردیتے ہیں ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تبصرہ میرا اپنا ہے ، یہ غلط رویہ ہے کیونکہ بعض تبصرے جو صحابہ کرسکتے ہیں وہ ہم نہیں کرسکتے نیز ہم ان کا وہ مفہوم بھی مراد نہیں لیتے جو مخالفین ظاہرکرتے ہیں ، بعض لوگ محض ایک دو صفحہ کو پورے سیاق سے کاٹ کرپیش کرتے ہیں جس سے کچھ الگ ہی مفہوم کشید کرتے ہیں لیکن یہ مخالفین کا کشید کردہ مفہوم ہے ہم اس سے بری ہیں ، اور اگر کسی کی نظر میں واقعی ان مقامات پر غیر مناسب الفاظ ہیں تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اسے ہمارے موقف پر نہیں بلکہ ہمارے اسلوب وبیان اور تعبیروتحریر کی کمزوری پر محمول کریں کیونکہ ہم اپنا موقف واضح کرچکے ہیں، اور الفاظ پر ہمیں قطعا اصرار نہیں ، ان شاء اللہ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں ، ہم ایسے تمام مقامات پر   اسلوب اور الفاظ تبدیل کردیں گے تاکہ کسی کو ہمارے موقف اورہماری مراد کے خلاف غلط تاثر دینے کا موقع نہ ملے ان شاء اللہ۔*
(کفایت اللہ سنابلی)
23اگست2019
***

4 comments:

  1. جزاک اللّٰہ

    ReplyDelete
  2. assalamo alaikum shekh

    mera mashwara ye hai ki aap agle edition me kuch tabdeel na kijiyega balki ye abdullah bin zubair raziallahu anhu waali poori tahreer kitaaaab ke shuru me shaamil kar dijiyega

    warna isse mirza ki toli aur khud mirza apne saamaeen ko yahi taassur dega ke aapne pahle edition me galti kii aur uski videos kii wajah se doosre edition me usme tarmeem kii

    ReplyDelete
  3. (1) ابو قلابہ : عبداللہ بن زید الجرمی ابو قلابۃ البصری
    یہ مدلس ہے اور ارسل بھی کرتے ہیں چنانچہ ابن حجر نقل کرتے ہیں "ثقة فاضل كثير الإرسال" ثقہ اور صاحب فضل ہیں کثرت سے ارسل کرتےہیں(تقریب تھذیب رقم3333)
    امام العلائی نے جامع التحصیل میں نقل کیا ہے کہ ان کا سماع معاویہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے چنانچہ لکھتے ہیں"ولم يسمع من معاوية بن أبي سفيان"(جامع التحصیل احکام مراسیل رقم362)

    ReplyDelete
  4. روایت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے خود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گفتگو نقل کی ہے ، اس لئے اس کو بیان کرنے والے ابن زبیر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ، اور ابوقلابہ رحمہ اللہ ، ابن زبیررضی اللہ عنہ کے معاصر ہیں اور لقاء کا امکان بھی ہے ، لہٰذا سند کو اتصال پر محمول کیا جائے گا جیساکہ اصول حدیث میں مسلم ہے ۔
    امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) فرماتے ہیں:
    ”أن القول الشائع المتفق عليه بين أهل العلم بالأخبار والروايات قديما وحديثا، أن كل رجل ثقة روى عن مثله حديثا، وجائز ممكن له لقاؤه والسماع منه لكونهما جميعا كانا في عصر واحد، وإن لم يأت في خبر قط أنهما اجتمعا ولا تشافها بكلام فالرواية ثابتة، والحجة بها لازمة، إلا أن يكون هناك دلالة بينة أن هذا الراوي لم يلق من روى عنه، أو لم يسمع منه شيئا، فأما والأمر مبهم على الإمكان الذي فسرنا، فالرواية على السماع أبدا حتى تكون الدلالة التي بينا“
    ”احادیث و روایات کا علم رکھنے والے قدیم وجدید علماء کے مابین یہ بات متفق علیہ اورمشہور ہے کہ ہر ثقہ راوی جو اپنے جیسے ثقہ راوی سے کوئی حدیث بیان کرے ، اور اس کا اس سے ملنا اور اس سے سننا ممکن ہو کیونکہ دونوں ایک دور والے ہوں ، گرچہ کسی روایت میں یہ نہ آئے کہ یہ دونوں کبھی ملے ہوں ، یا کبھی ایک دوسرے سے کوئی بات چیت کی ہو ، تو ایسی روایت ثابت ہوگی اور وہ لازمی حجت ہوگی ، الا یہ کہ اس بات پر کوئی واضح دلیل موجود ہو کہ اس راوی نے جس سے روایت کیا ہے اس سے ملاقات نہیں کی ہے ، یا اس سے کچھ بھی نہیں سنا ہے ، لیکن اگر معاملہ مبہم ہو اور وہ امکان موجود ہو جو ہم نے بیان کیا تو روایت ہمیشہ سماع پر محمول ہوگی حتی کہ ویسی دلیل مل جائے جس کو ہم نے بیان کیا“ [صحيح مسلم 1/ 29]
    .
    اور امام ابوقلابہ کا مدلس ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
    ”وأبو قلابة لا يعرف له تدليس“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 5/ 57]

    ReplyDelete