”اجماع معلوم“ اور ”اجماع مجہول“ - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-08-14

”اجماع معلوم“ اور ”اجماع مجہول“

”اجماع معلوم“ اور ”اجماع مجہول“ 
(کفایت اللہ سنابلی)
✿✿✿
کسی مسئلہ میں ”اجماع“ کا حوالے دینے سے پہلے یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ ”اجماع“ کی دو قسمیں ہیں:

✿ پہلی قسم : اجماع معلوم( اجماع قطعی ):
اس سے مراد وہ اجماع ہے جس کا انعقاد تواتر اور صراحت کے ساتھ ہوا ہو، اور یہ اس قدر عام ہو کہ کسی بھی عالم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے تو ایک ہی جواب ملے ۔
اس طرح کا اجماع حجت ہے ، اس کی حجیت پر تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے ، اس کا ماننا سب پر لازم اور ضروی ہے ، اگر کوئی اس سے انکار کرے تو وہ گمراہ ہے اور سخت سزا کا مستحق ہے ۔
بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو ایک مقام پر ایسے اجماع کے منکر کو بالاتفاق کافر قراردیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
”والإنسان متى حلل الحرام - المجمع عليه - أو حرم الحلال - المجمع عليه - أو بدل الشرع - المجمع عليه - كان كافرا مرتدا باتفاق الفقهاء“ 
”جب کوئی انسان بالاجماع کسی حرام چیز کو، حلال کردے ، اور بالاجماع کسی حلال چیز کو، حرام کہہ دے ، اوربالاجماع ثابت شدہ کسی شرعی مسئلہ کو بدل دے تو وہ باتفاق فقہاء کافر و مرتد ہوجائے گا“ [مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 3/ 267]
واٖضح رہے کہ بغیر نص کے حقیقی اجماع کا انعقاد ناممکن ہے اسی لئے اجماع قطعی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ نص بھی موجود ہوتی ہے۔

✿ دوسری قسم : اجماع مجہول( اجماع ظنی ):
اس سے مراد ایسا اجماع ہے جس کا انعقاد تواتر اور صراحت کے ساتھ نہ ہوا ہو ، اور اس کے وقوع پر کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو۔
اس طرح کے اجماع کے ”امکان وقوع“میں بھی اختلاف ہے ، اوراس کی ”حجیت“ میں بھی اختلاف ہے ۔
اور راجح بات یہ ہے کہ یہ اجماع ممکن بھی ہے اور حجت بھی ہے لیکن امکان اور حجیت دونوں اعتبار سے اس کا معاملہ ”اجماع قطعی“ جیسا نہیں ہے۔

 ●  جہاں تک امکان وقوع کی بات ہے تو اس سلسلے میں سب سے معتدل قول ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے ، کہ صحابہ کی جماعت میں اس طرح کے اجماع کا حقیقی انعقاد تو بہت ممکن ہے، لیکن صحابہ کے بعد کےادوار میں اس طرح کے اجماع کا حقیقی انعقاد کافی مشکل ہے کیونکہ عہد صحابہ کے بعد زمین کے بہت سارے حصوں میں علماء ومجتہدین وجود میں آگئے اور جس طرح صحابہ کے اقوال وفتاوی کو جمع کرنے اورانہیں بیان کرنے کا اہتمام تھا ، بعد کے علماء و مجتہدین کے ساتھ یہ معاملہ نہیں رہا ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ساتھ یہی موقف امام ابن حبان ، امام ابن حزم ، علامہ رازی وغیرہم کا بھی ہے ، امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ظاہر ہوتا ہے۔ بلکہ امام احمد رحمہ اللہ تو اس طرح کے معاملے میں لفظ اجماع کے استعمال ہی کو درست نہیں جانتے ان کا کہنا ہے اس معاملے میں صرف اختلاف سے لاعلمی کی صراحت کی جائے اور اجماع کا لفظ استعمال نہ کیا جائے ۔
بطور مثال عرض ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ سے سات لوگوں کی جانب سے بھینس کی قربانی کا سوال ہوا تو انہوں نے جواب دیا:
 ”لا أعرف خلاف هذا“ ، ”مجھے اس کے خلاف کوئی قول معلوم نہیں“ [مسائل أحمد وإبن راهويه، ت الجامعة الإسلامية: 8/ 4027]
یہاں امام احمد رحمہ اللہ نے اختلاف کی عدم معرفت کی بنیاد پر اجماع واتفاق کا دعوی نہیں کیا کیونکہ اس مسئلہ میں اختلاف کا عدم علم اس بات کو مستلزم نہیں کہ اختلاف کا وجود ہی نہ ہو۔
((((نوٹ: - واضح رہے کہ یہاں امام احمد رحمہ اللہ نے مطلق بھینس کی قربانی سے متعلق اختلاف کی نفی نہیں کی ہے بلکہ بھینس کی قربانی میں سات افراد کی شراکت سے متعلق اختلاف کی نفی کی ہے ، اور دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ مثال کے طورپر میت کی طرف سے قربانی کے قائل کسی عالم سے سوال کیا جائے کہ : «میت کی طرف سے قربانی کردہ جانور کا گوشت خود کھاسکتے ہیں یا نہیں ؟» تو وہ جواب دے کہ : «اس کے جواز کے خلاف مجھے کوئی بات معلوم نہیں» ، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ وہ تمام اہل علم کی نظر میں میت کی طرف سےقربانی میں اختلاف کی نفی کررہا ہے بلکہ مطلب صرف یہ ہوگا کہ صرف قائلین قربانی عن المیت کے مابین اس مسئلہ میں اختلاف کی نفی مقصود ہے۔ لہٰذا امام احمد رحمہ اللہ کے مذکورہ قول میں جس اختلاف کی نفی ہے وہ مطلق بھینس کی قربانی سے متعلق نہیں ہے، بلکہ بھینس کی طرف سے سات افراد کی شراکت سے متعلق ہے، اور اس کا تعلق صرف اس گروہ سے ہے جو بھینس کی قربانی کو جائز سمجھتاہے۔
البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ بھینس کی قربانی کے قائل تھے ، اور ہمارے ناقص مطالعہ کی حد تک امام احمد رحمہ اللہ پہلے شخص ہیں جن سے بھینس کی قربانی کے جواز کا فتوی ثابت ہے ، ان سے قبل کسی بھی عالم سے بھینس کی قربانی کے جواز کا فتوی ثابت  نہیں ، سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بھی جواز کا فتوی مروی ہے مگراس کی سند صحیح نہیں ہے ۔))))

 ● رہی بات اجماع مجہول( اجماع ظنی) کی حجیت کے اعتبار سے تو یہ اس درجہ میں حجت ہے کہ کسی مجتہد کو اس پر اطمینان ہو تو اس پر اعتماد کرسکتا ہے ، اس کے سہارے فتوی دے سکتا ہے ، بالخصوص اگر اس کا تعلق صحابہ وتابعین سے ہو تو نصوص کے فہم میں اسے ترجیح دینا ہی اقرب الصواب ہے ۔ لیکن بہرحال یہ ایسی حجت نہیں ہے کہ دوسروں پر اسے مسلط کیا جاسکے اور دوسرں کے لئے بھی اسے لازم الاتباع قراردیاجاسکے ۔
.
✿ اجماع کی مذکورہ دونوں قسموں کو اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ تقلیدی برادری ان دونوں کو بہت خلط ملط کرتی ہے ۔
یادرہے کہ تقلیدی برادری میں جس اجماع کی دن رات گردان ہوتی ہے وہ ننوانے فی صد دوسری قسم ہی کا اجماع یعنی ”اجماع مجہول“ ہی ہوتا ہے ، لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہ لوگ دعوی تو دوسری قسم والے اجماع (اجماع مجہول) کا کرتے ہیں ، لیکن اسے پہلے قسم والے اجماع (اجماع معلوم) کی حیثیت دے بیٹھتے ہیں ۔
یادرہے کہ اختلاف کے عدم علم پر دعوائے اجماع کی شروعات معتزلہ اور جہمیہ کی طرف سے ہوئی ہے ، اور اس کے پیچھے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس کے سہارے کتاب وسنت کا رد کیا جائے ۔
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
 ”وفي مثل هذه المسائل قال الإمام أحمد من ادعى الإجماع فهو كاذب فإنما هذه دعوى بشر وابن علية يريدون أن يبطلوا السنن بذلك يعني الإمام أحمد رضي الله عنه أن المتكلمين في الفقه من أهل الكلام إذا ناظرتهم بالسنن والآثار قالوا هذا خلاف الإجماع“ 
 ”اس طرح کے مسائل میں امام احمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جو اجماع کا دعوی کرے وہ کذاب ہے ، کیونکہ یہ طریقہ ”بشر“ اور ”ابن علیہ“ کا ہے یہ لوگ اس کے ذریعہ سنتون کا ابطال کرنا چاہتے ہیں ، امام احمد ر حمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ جب ان جیسے اہل کلام سے کسی فقہی مسئلہ میں آپ بحث کرتے ہوئے احادیث و آثار پیش کریں گے تو ان کا جواب یہ ہوگا کہ یہ اجماع کے خلاف ہے“ [مجموع الفتاوى، ت حسنين: 6/ 282]

معتزلہ اور جہمیہ کی اسی پالیسی اور اسی طریقہ واردات کو بعد میں تقلیدی برادری نے بھی اپنا لیا ، اور ”اجماع مجہول“ کا سہارا لیکر قرآن وحدیث کے دلائل کو رد کرنے لگے ۔
امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
 ”وحين نشأت هذه الطريقة توَّلد عنها معارضة النصوص بالإجماع المجهول، وانفتَح بابُ دعواه، وصار من لم يعرف الخلاف من المقلدين إذا احتُج عليه بالقرآن والسنة قال: هذا خلافُ الإجماع“ 
 ”جب یہ طریقہ شروع ہوگیا تو پھر ”اجماع مجہول“ کے سہارے نصوص کے معارضہ کی فکر نے جنم لیا ، اور ایسے اجماعات کے دعوے کا دروازہ کھل گیا ، اور حالت یہ ہوگئی کہ مقلدین میں سے جس کسی کو بھی کسی مسئلہ میں اختلاف کا علم نہ ہوا اس کے سامنے اس مسئلہ کے خلاف جب قرآن وحدیث کو پیش کیا جاتا تو وہ کہتا یہ اجماع کے خلاف ہے“ [إعلام الموقعين ت مشهور: 3/ 558]
بلکہ کچھ لوگوں کی حالت تو یہ ہوگئی ہے کہ وہ کسی ایسے مسئلہ میں ”اجماع“ کا دعوی کرلیتے ہیں جس کا سلف میں سے کوئی سرے سے قائل ہی نہیں ہوتا ہے چہ جائے کہ اس سے کسی کا اختلاف ثابت نہ ہو ۔
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
 ”ولا تعبأ بما يفرض من المسائل ويدعي الصحة فيها بمجرد التهويل أو بدعوى أن لا خلاف في ذلك وقائل ذلك لا يعلم أحدا قال فيها بالصحة فضلا عن نفي الخلاف فيها“ 
 ”ایسے مسائل کو خاطر میں مت لائیے جنہیں فرض کرکے اس پر صحت کا دعوی کرلیا جاتا ہے ، محض دھونس پٹی کے سہارے ، یا یہ کہہ کر کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ، اور ایسی بات کہنے والا کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کسی نے اسے صحیح بھی کہا ہے ، چہ جائے کہ اس سے کسی کا اختلاف معلوم نہ ہو“ [مجموع الفتاوى، ت حسنين: 6/ 282]
.
 ⟐ حاصل یہ کہ :
کتاب وسنت کے سچے متبع کو ہر دعوائے ”اجماع“ پر کان نہیں دھرنا چاہئے گرچہ اس مسئلہ میں اختلاف کا علم نہ ہو ، کیونکہ بیشتر دعوائے اجماع بالخصوص تقلیدی برادری کے یہاں پائے جانے والے نوے فی صد ”اجماعات“ کا حال یہی ہے کہ وہ ”اجماع معلوم“ نہیں بلکہ ”اجماع مجہول“ ہوتے ہیں۔
بطور مثال عیدین میں خطبوں کی تعداد ہی کو لیجئے تمام تقلیدی برادری حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی اس بات پر متفق ہیں کہ عیدین میں دو خطبے ہوں گے ، اوراسی پر ان کے یہاں مسلسل عمل چلا آرہا ہے ،بلکہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی عیدین میں دو خطبہ بتاکر یہ کہہ دیا:
 ”كل هذا لا خلاف فيه“ ، ”ان باتوں میں کسی کا اختلاف نہیں ہے“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 3/ 293]
اور حقیقت یہی ہے کہ اس کے خلاف کسی بھی عالم کا کوئی صریح قول اسلام کی فقہی تاریخ میں مروی نہیں ہے ، اس بناپر بعض نے یہ دعوی بھی کردیا کہ عیدین کے دو خطبے ہونے پر امت کا ”اجماع“ ہے ۔
ہماری معلومات کی حد تک علامہ البانی رحمہ اللہ (المتوفی1420) سے پہلے اس کے خلاف کسی بھی عالم کا کوئی صریح کلام مروی نہیں ہے [ ➊]، علامہ صنعانی ( المتوفی1182) نے صرف اشارہ کیا ہے لیکن صریح اور دو ٹوک لفظوں میں انہوں نے بھی کوئی بات نہیں کہی ہے ۔
لیکن آج اگرکوئی تقلیدی شخص کھڑا ہوکر یہ کہے کہ عیدین میں دوسرے خطبہ کا انکار سب سے پہلے علامہ البانی رحمہ اللہ نے کیا ہے ، اس سے پہلے اس پر سارے علماء کا اتفاق چلا آرہا تھا ، یا اس پر امت کا ا جماع تھا ، تو ہم ایسے تقلیدی شخص کی بات کو ذرا بھی خاطر میں نہیں لائیں گے کیونکہ احادیث کی روشنی میں عیدین میں صرف اور صرف ایک ہی خطبہ کا ثبوت ملتا ہے۔
رہی بات دعوائے اجماع کی تو اس تحریر میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ یہ معلوم اور قطعی اجماع نہیں بلکہ یہ ”اجماع مجہول“ ہے جو اختلاف سے لاعلمی کی عمارت پر کھڑا ہے ، اور اختلاف کا عدم علم اختلاف کے عدم وجود پر دلالت نہیں کرتا ہے۔
 الحمدللہ ہندوستان میں اہل حدیثوں کے یہاں عام عمل یہی ہے کہ عیدین میں ایک ہی خطبہ دیاجاتاہے ، اور ظن غالب ہے کہ ہر دور میں ایک جماعت کا موقف و عمل یہی تھا یہ اور بات ہے کہ اسلام کی فقہی تاریخ میں اس کا ذکر نہیں ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے صرف کتاب وسنت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے نہ کہ امتیوں کے اقوال کی بھی۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرما تے ہیں: 
”لأن الله تعالى لم يتعهد لنا بحفظ أسماء كل من عمل بنص ما من كتاب أو سنة وإنما تعهد بحفظهما فقط كما قال:: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ [الحجر: 9] فوجب العمل بالنص سوءا علمنا من قال به أو لم نعلم“ 
 ”اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ضمانت نہیں لی ہے کہ وہ کتاب و سنت پرعمل کرنے والے جملہ حضرات کے اسماء کی حفاظت کرے گا، بلکہ اس نے صرف کتاب و سنت کی حفاظت کی ذمے داری لی ہے جیساکہ فرمایا: ﴿ذکر کو ہم نے ہی نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے﴾ [الحجر: 9] پس کسی بھی ثابت شدہ نص پرعمل کرنا واجب ہوگا، خواہ اس کے قائلین یا اس پرعمل کرنے والوں کے نام معلوم ہوں یا نہ ہوں“ [آداب الزفاف في السنة المطهرة :267]
◈ خلاصہ کلام یہ کہ : 
جو مسئلہ قرآن اور صحیح حدیث سے ثابت ہوجائے اور وہ صحابہ وتابعین کی متفقہ فہم کے خلاف نہ ہو اسی کو اپنانا چاہئے گرچہ تقلیدی برادری اس کے خلاف فتوی بازی اور تعامل پر اتفاق کرلے اوراسلام کی فقہی تاریخ میں بھی اس کے خلاف کوئی چیز نظر نہ آئے۔

 _   _  _  _  _  _  _  _  _  _
[ ➊]ا لبتہ ہندوستان کے اہل حدیثوں کے یہاں ایک ہی خطبہ پرعمل ہے اور یہ بہت پہلے سے ہے


No comments:

Post a Comment