(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿
تکبیرات کے ایام
ذی الحجہ کی ایک(1)تاریخ سے لیکر ذی الحجہ کی تیرہ(13)تاریخ کی شام تک تکبیر کہنا مشروع ہے ۔
دلائل ملاحظہ ہوں:
✿ عشرہ ذی الحجہ میں تکبیرات :
”عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: «ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر» ، فقالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله؟ فقال رسول الله ﷺ: «ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء» “
”عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں“ ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا“ [سنن الترمذي رقم 757 وإسناده صحيح صرح الأعمش بالسماع عند الطيالسي]
مسند احمد میں ابن عمر سے مروی اسی حدیث کے اخیر میں یہ اضافہ بھی ہے:
”فأكثروا فيهن من التهليل ، والتكبير ، والتحميد“ [مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 75]
لیکن اس کی سند ”يزيد بن أبي زياد“ کے سبب ضعیف ہے ، اور اس اضافہ والی کوئی بھی روایت سندا صحیح نہیں ہے۔
البتہ اصل صحیح حدیث میں ”العمل الصالح“ کا جوعموم ہے اس میں ”تکبیرات“ کہنا بھی شامل ہے بلکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عملا ان دنوں میں تکبیرات کہنا ثابت ہے چنانچہ:
أبو عبد الله محمد بن إسحاق الفاكهي (المتوفى: 272) نے کہا:
”حدثني إبراهيم بن يعقوب، عن عفان بن مسلم، قال: ثنا سلام بن سليمان أبو المنذر القارئ، قال: ثنا حميد الأعرج، عن مجاهد، قال: كان أبو هريرة وابن عمر رضي الله عنهما يخرجان أيام العشر إلى السوق، فيكبران، فيكبر الناس معهما، لا يأتيان السوق إلا لذلك“
”مجاہد فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ اورابن عمر رضی اللہ عنہما عشرہ ذی الحج میں بازار جاتے اور تکبیر پڑھتے تھے ان کے ساتھ لوگ بھی تکبیر پڑھتے ، یہ دونوں صحابہ اسی مقصد کے لئے بازار آتے تھے“ [أخبار مكة للفاكهي 2/ 372 ، رقم 1704 وإسناده حسن وعلقه البخاري في صحيحه]
نوٹ:-
واضح رہے کہ اس سے اجتماعی تکبیر کی یہ شکل ثابت نہیں ہوتی ہے کہ ایک شخص ایک صیغہ سے تکبیر کہے پھر سارے لوگ اس کے ساتھ اسی صیغے سے اجتماعی تکبیر کہیں ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دیگر آثار میں جو صیغے مروی ہیں وہ الگ الگ ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے وہ بازار وغیرہ میں جب ایک ساتھ پڑھتے تھے تو صرف وقت ایک ہوتا تھا لیکن صیغہ اور انداز سب کا الگ الگ ہوتا تھا ۔
✿ ایام تشریق میں تکبیرات:
ایام تشریق یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو بھی تکبیرات کہنا مشروع ہے ، دلائل ملاحظہ ہوں:
”عن نبيشة الهذلي، قال: قال رسول الله ﷺ: «أيام التشريق أيام أكل وشرب وذكر لله» “
”نبیشہ ھذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:تشریق کے دن کھانے ، پینے اوراللہ کے ذکر کے دن ہیں“ [صحيح مسلم 3/ 800 ،رقم 1141]
اس حدیث میں وارد ”ذکر“ کے اندر ”تکبیر“ بھی شامل ہے ، نیز متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایام تشریق میں تکبیرات کہنے کا ثبوت ملتا ہے ، چنانچہ:
◈ امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا يحيى بن سعيد القطان، عن أبي بكار، عن عكرمة، عن ابن عباس: أنه كان يكبر من صلاة الفجر يوم عرفة إلى آخر أيام التشريق، لا يكبر في المغرب“
”ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عرفہ کے دن نماز فجر کی صبح سے تشریق کے آخری دن تک تکبیر کہتے تھے ، اور مغرب میں نہیں کہتے تھے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 4/ 212 ، رقم 5764 وإسناده صحيح]
◈ امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا حسين بن علي، عن زائدة، عن عاصم، عن شقيق، عن علي أنه كان يكبر بعد صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق، ويكبر بعد العصر“
”علی رضی للہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عرفہ کے دن نماز فجرکے بعد سے لیکر تشریق کے آخری دن عصر تک تکبیر کہتے تھے اورعصر کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 4/ 209وإسناده حسن]
تنبیہ:
ان آثارکا بعض نے یہ مطلب سمجھا لیا کہ یوم عرفہ سے لیکر تشریق کے آخری دن تک ہی تکبیر کہنا ہے ، یعنی یکم ذی الحج سے لیکر یوم عرفہ تک تکبیرات کہنا درست نہیں ، بلکہ بعض نے تواسے بدعت تک کہا ہے چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن شعبة، قال: سألت الحكم وحمادا عن التكبير أيام العشر؟ فقالا: محدث“
”امام شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ”حکم بن عتیبہ“ اور ”حماد بن ابی سلیمان“ سے ایام عشرہ ذی الحج میں تکبیرات سے متلعق پوچھا تو انہیں نے کہا: یہ نئی ایجاد کردہ چیز ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 8/ 198 رقم14462 وإسناده صحيح ]
عرض ہے کہ:
مذکورہ آثار میں کثرت اہتمام بتلانا مقصود ہے ، یعنی یہ صحابہ نسبتا ان دنوں میں تکبیرات کا زیادہ اہتمام کرتے تھے ۔
جیسے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت ہے کہ:
”أن ابن عمر كان يغدو إلى العيد من المسجد ، وكان يرفع صوته بالتكبير حتى يأتى المصلى ويكبر حتى يأتى الإمام“
”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مسجد سے عیدگاہ کے لئے نکلتے اور تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے یہاں تک عید گاہ پہنچ جاتے ، پھر تکبیر کہتے رہتے جب تک کہ امام آنہ جائے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 3/ 279 ، أحكام العيدين للفريابي ص: 114 فریابی کی روایت میں ”عیدین“ کا لفظ ہے ، وانظر: الأوسط في السنن 4/ 250 ، أحكام العيدين للفريابي ص114 وإسناده صحيح ]
ظاہر ہے کہ اس روایت کی بناپر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صرف عید کے دن ہی تکبیر کہتے تھے ، اور اس سے قبل پورے عشرہ میں تکبیر نہیں کہتے تھے ! بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ عید کے دن تکبیر کا اہتمام زیادہ ہوتا تھا ، نیزاوپر ایک صریح روایت گذرچکی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ عشرہ ذی الحج میں بھی بازار جا کر تکبیر کہتے تھے۔
”تکبیرات مقید“ کا کوئی ثبوت نہیں
بعض لوگ تکبیرات کی دو قسمیں کرتے ہیں
➊ ”تکبیرات مطلق“
➋ ”تکبیرات مقید“
”تکبیرات مطلق“ کا مطلب یہ کہ اس کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہے یہ کبھی بھی کہیں جائیں گی ، لیکن ”تکبیرات مقید“ کا ایک مخصوص وقت ہے اور وہ نمازوں کے بعد کے اوقات ہیں ، حتی کہ بعض نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ان تکبیرات کو نمازوں کے بعد کے مسنون اذکار سے بھی پہلے کہیں گے ۔
عرض ہے کہ :
کتاب وسنت اور آثار صحابہ کی روشنی میں تکبیرات کا کوئی بھی مخصوص وقت نہیں ہے ، لہٰذا مذکورہ تقسیم بے بنیاد ہے اور ”تکبیرات مقید“ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، بلکہ یہ تقلیدی برادری کے یہاں رائج غلط امور میں سے ہے ، بعض اہل علم نے غالبا تقلیدی برادری کے ساتھ حسن ظن کی بنا پر ان کی ہاں میں ہاں ملادی ہے ، لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ بالکل بے دلیل بات ہے ، بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے تو اسے بدعت کہاہے۔
● ملاحظہ ہو یہ سوال وجواب:
”وسئل : هل يقيد التكبير في أيام التشريق فيما بعد الصلوات؟ فأجاب : لا، لا يقيد؛ بل تقييدُه مِن البدع؛ إنما التكبير بكل وقتٍ من أيام التشريق ،السائل: وأيام العشر؟ الشيخ (الالبانی): وأيام العشر كذلك“
”علامہ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ : کیا ایام تشریق میں نمازوں کے بعد تکبیر کو مقید کیا جائے گا ؟ تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواب دیا: نہیں ! نمازوں کے بعد اس کی تقیید نہیں کی جائے گی ! بلکہ نمازوں کے بعد اسے مقید کرنا بدعات میں سے ہے ، اور صحیح یہ ہے کہ تکبیر ایام تشریق میں کسی بھی وقت کہی جائے گی ۔ سائل نے مزید پوچھا کہ : کیا عشرہ ذی الحج کے ایام میں بھی ؟ تو شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا: عشرہ ذی الحج کے ایام میں بھی ایسے ہی تکبیر کہی جائے گی“ [الشريط: 410 ، الدقيقة: 00:36:12]
نوٹ:-
واضح رہے کہ کسی عمل کو ”بدعت“ کہنے میں اور کسی عامل کو ”بدعتی“ کہنے میں بڑا فرق ہے ۔
● علامہ مقبل بن هادي الوادعي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وهنا أمر أريد أن أنبه عليه وهو ما اعتاده الناس عقب الصلوات من يوم النحر بعد الفجر إلى آخر أيام التشريق ، عقب الصلوات أنهم يكبرون ، وهذا ليس بمشروع ، بل التكبير مطلق ، أعني أنك تبدأ عقب الصلوات بالأذكار المشروعة التي تقال عقب الصلوات ثم تكبر سواء عقب الصلوات أم في الضحى أم في نصف النهار ، أو آخر النهار ، أم في نصف الليل ، لكن ليست له كيفية عن النبيﷺ ، ولا يخص عقب الصلوات“
”یہاں میں ایک چیز پر تنبیہ کرنا چاہتاہوں وہ یہ کہ یوم النحر کے دن فجر کے بعد سے لیکر تشریق کے آخری دن تک نمازوں کے بعد تکبیر کہنے کا جولوگوں کا معمول ہے ، یہ غیرمشروع ہے ، کیونکہ اس کا کوئی خاص وقت نہیں ہے ، یعنی نمازوں کے بعد پہلے مشروع اذکار پڑھیں ، پھر تکبیر پڑھیں ، خواہ نمازوں کے بعد ، یا چاشت کے بعد ، یا دوپہر کے بعد ، یا شام کو یا آدھی رات کو ، لیکن نبی ﷺ سے اس کی کوئی مخصوص کیفیت منقول نہیں اور نہ ہی نمازوں کے بعد اس کا خاص وقت ہے“ [قمع المعاند 2 / 365 - 366]
● شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”لم يرد عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نص صحيح صريح في باب التكبير المقيد، لكنه آثار واجتهادات من العلماء“
”تکبیرات مقید کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بھی صحیح اور صریح نص ثابت نہیں ہے ، یہ بعض آثار اور اہل علم کے اجتہادات ہیں“[مجموع فتاوى ورسائل العثيمين 16/ 261]
تنبیہ بلیغ:-
واضح رہے کہ بعض صحابہ کے اثار میں جو یہ ملتا ہے کہ وہ عرفہ کے دن فجر بعد لیکر تشریق کے آخری دن عصرتک یا مغرب تک تکبیرات کہتے تھے (جیساکہ اوپر کچھ ایسے آثارمنقول ہیں) ، تو اس کا مطلب صرف یہ بتلانا ہے کہ یہ تکبیرکب سے تک کہنا ہے ، یہاں یہ مطلب اخذ کرلینا کہ یہ صحابہ نمازوں کے بعد کے اوقات کے ساتھ تکبیرات کو مقید جانتےتھے ، بالکل درست نہیں ہے ۔
البتہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک اثر سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ دیگر اوقات کے ساتھ نمازوں کے بعد بھی تکبیرات کا اہتمام کرتے تھے ، چنانچہ:
امام ابن المنذر رحمه الله (المتوفى319) نے کہا:
حدثنا موسى بن هارون، قال: ثنا أبي قال: ثنا محمد بن بكر، قال: أخبرنا ابن جريج، قال: أخبرني نافع، أن ابن عمر: «كان يكبر بمني تلك الأيام خلف الصلوات، وعلى فراشه، وفي فسطاطه، وفي ممشائه تلك الأيام جميعا»
”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایام منی میں نمازوں کے بعد ، اپنے بستر پر ، اپنے خیمہ میں ، اور اپنے راستے میں ان تمام دونوں میں تکبیرات کہتے تھے“ [الأوسط لابن المنذر، ط دار الفلاح: 4/ 344 وإسناده صحيح و أخرجه ايضا ابوداؤد في مسائل أحمد ص: 169 من طريق يحيي بن سعيد ، و الفاكهي في أخبار مكة 4/ 260 من طريق عبد المجيد ، كلا هما من طريق ابن جريج به]
لیکن اس اثر سے نماز کے بعد کے وقت کی تقیید ثابت نہیں ہوتی ، کیونکہ اسی اثر میں بستر ، خیمہ اور راستے کا بھی ذکر ہے ، تو کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ تکبیرات کا ان اوقات ومقامات کے ساتھ مقید ہونا ثابت ہوتا ہے ؟ ہرگز نہیں !
.
نیز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب وہ تنہا نماز پڑھتے تھے تو نمازوں کے بعد تکبیرات نہیں پڑھتے تھے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باجماعت نمازوں کے بعد ان کے تکبیر کہنے کا مقصد لوگوں کو تعلیم دینا ہوتاتھا ۔ نہ کہ ان کا یہ ماننا تھا کہ ان تکبیرات کے لئے نماز کے بعد کا وقت مخصوص ہے چنانچہ:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
”حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي، ثنا محمد بن سلمة، عن أبي عبد الرحيم، عن زيد بن أبي أنيسة، عن عمر بن نافع، عن أبيه: «أن ابن عمر كان إذا صلى وحده في أيام التشريق لم يكبر دبر الصلاة»“
”نافع کہتے ہیں کہ ابن عمررضی اللہ عنہ ایام تشریق کے دنوں میں جب تنہا نماز پڑھتے تو نمازوں کے بعد تکبیر نہیں کہتے تھے“ [المعجم الكبير للطبراني 12/ 268 ، وإسناده صحيح]
اس کی مزید وضاحت ابن عمر رضی اللہ کے عنہ کے اس اثر سے بھی ہوتی جو شروع میں پیش کیا گیا ہے جس میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بازار میں اسی مقصد کے تحت جاتے تھے کہ وہاں اکٹھا لوگوں کو تکبیر کی تعلیم دیں ۔
ظاہر ہے کہ یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تکبیرات کو بازار کے ساتھ مقید جانتے تھے ، یہی معاملہ نماز کے بعد کا بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ جب تنہا نماز پڑھتے تھے تو اس وقت تکبیر کا خصوصی اہتمام نہیں کرتے تھے ۔
اس طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اثر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ”تکبیرات مقید“ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، والحمدللہ.
.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک ضعیف اثر:
امام ابن المنذر رحمه الله (المتوفى319) نے کہا:
وحدثونا عن إسحاق بن إبراهيم، قال: أخبرنا محمد بن سلمة الجزري، عن زيد بن أبي أنيسة، عن حماد، عن إبراهيم، عن علقمة، عن ابن مسعود قال: «ليس على الواحد والاثنين تكبير أيام التشريق، إنما التكبير على من صلى في جماعة»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”ایک یا دو لوگ نماز پڑھیں تو ان کے لئے تکبیر نہیں ہے بلکہ تکبیر ان کے لئے ہے جو باجماعت نماز پڑھیں“ [الأوسط لابن المنذر، ط دار الفلاح: 4/ 352]
.
یہ اثر ضعیف ہے کیونکہ :
① ابن المنذر رحمہ اللہ نے اپنے اساتذہ کا نام نہیں بتایا ہے ۔
② نیز ”حماد بن ابی سلیمان“ اخیر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے ۔
”قالوا: وكان حماد ضعيفا في الحديث فاختلط في آخر أمره“
”محدثین کا کہنا ہے کہ حماد حدیث میں ضعیف تھے اور اخیر میں اختلاط کے شکار ہوگئے تھے“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 333]
اور جن لوگوں نے ان سے اختلاط سے قبل سنا ہے ان میں زید بن ابی انیسہ کا نام نہیں ہے۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”ولم يقبل من حديث حماد إلا ما رواه عنه القدماء شعبة وسفيان الثوري والدستوائي،ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الاختلاط“
حماد کی صرف وہی احادیث قبول کی گئ ہیں جنہیں ان کے قدیم شاگردوں شعبہ ، سفیان ثوری اور ہشام دستوائی نے ان سے روایت کیا ہے ، اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کیا ہے۔ .[مجمع الزوائد رقم 1/ 143، وانظر: سؤالات أبي داود لأحمد ص: 290]
لہٰذا یہ اثر ضعیف ہے۔
تنبیہ:- ابوحماد کی تحقیق سے مطبوع ”الاوسط“ کے نسخہ میں یہ اثر ”ابن عباس“ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے جو کہ غلط ہے۔
.
بعض لوگ جب تکبیرت مقید کو کتاب وسنت سے ثابت نہیں کرپاتے تو نام نہاد اجماع کی دہائی دینا شروع کردیتے ہیں ، سو واضح ہونا چاہئے کہ اول تو بغیر دلیل کے اجماع کا انعقاد ناممکن ہے ، دوسرے یہ کہ حجت صرف اجماع معلوم ہے ، جبکہ تقلیدی برادری دن رات جس اجماع کا رٹ لگاتے ہیں وہ اجماع مجہول ہوتا ہے، اورایسے اجماع کا حجت ہونا تو دور کی بات اس کا دعوی کرنے والا بقول امام احمد رحمہ اللہ کذاب ہے۔
اور اوپر صحیح سند سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے آثارپیش کئے گئے کہ آپ صرف نمازوں کے بعد ہی نہیں بلکہ دیگر تمام اوقات میں تکبیر کہتے تھے ، نیز آپ جب تنہا نماز پڑھتےتو نماز کے بعد تکبیر نہ کہتے یہ آثار نام نہاد اور مجہول اجماع کے مردود ہونے پر زبردست دلیل ہیں۔
تکبیرات کے الفاظ
اللہ کے نبی ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ان دنوں میں تکبیر کا کوئی بھی صیغہ منقول نہیں ہے ، اس لئے دیگر مقامات پر ثابت شدہ کسی بھی صیغہ تکبیر کے ساتھ ان دنوں میں تکبیر کہی جاسکتی ہے ، مثلا:
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے الفاظ:
➊ « اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا» [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 11/ 295 ، رقم 20581 وإسناده صحيح]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ:
➋ « الله أكبر كبيرا، الله أكبر كبيرا، الله أكبر وأجل، الله أكبر ولله الحمد» [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 4/ 214 ، رقم 5773وإسناده صحيح]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ:
➌ « اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ» [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 4/ 209]
اس کی سند ابواسحاق مدلس کے عنعنہ کے سبب ضعیف ہے ، لیکن محاملی کی روایت میں ابراہیم نخعی نے بھی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بات نقل کررکھی ہے [صلاة العيدين للمحاملي ص: 229 ، رقم 167وإسناده حسن إلي إبراهيم لكنه منقطع]
یہ روایت بھی ابراہیم اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیچ منقطع ہے لیکن یہ ہلکا ضعف ہے کیونکہ ابراہیم نخعی جب بلاواسطہ کوئی بات ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں تو اس بات کو انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کئی شاگردوں سے سنا ہوتا ہے جیساکہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے خود اس کی صراحت کردی یہے دیکھیں:[الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 272 وإسناده صحيح]
لہذا یہ منقطع روایت ابن ابی شیبہ کی روایت کے ساتھ مل کر کم ازکم حسن لغیرہ ہے ان شاء اللہ.
(کفایت اللہ سنابلی)
تکبیرات مقیّد کے متعلق تحریر پڑھ کر دل خوش ہو گیا بڑی ہی مدلل اور جامع تحریر ہے
ReplyDeleteجزاك الله خيرا وبارك فيك نفع بك الامة 💐
ReplyDeleteJazakallah
ReplyDeleteماشاء اللہ۔۔۔جزاک اللہ خیرا
ReplyDelete