حدیث سعید بن المسیب رحمہ اللہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-02-24

حدیث سعید بن المسیب رحمہ اللہ


پچھلا
بارہویں حدیث : حدیث سعید بن المسیب رحمہ اللہ
سحنون بن سعيد التنوخي رحمه الله (المتوفى240) نے کہا:
”عن أشهب عن القاسم بن عبد الله أن يحيى بن سعيد حدثه أن ابن شهاب حدثه أن ابن المسيب حدثه «أن رجلا من أسلم طلق امرأته على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ثلاث تطليقات، فقال له بعض أصحابه إن لك عليها رجعة، فانطلقت امرأته حتى وقفت على رسول الله صلى الله عليه وسلم -، فقالت: إن زوجي طلقني ثلاث تطليقات في كلمة واحدة فقال لها رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: قد بنت منه ولا ميراث بينكما»“
”سعید بن المسیب نے بیان کیا کہ اسلم کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو عہد رسالت میں تین طلاق دے دی ، تو اس کے بعض ساتھیوں نے کہا کہ تم رجوع کرسکتے ہو ، تو اس کی بیوی نکل پڑی یہاں تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر کھڑی ہوگی اورکہا : میرے شوہر نے ایک ہی جملے میں مجھے تین طلاق دے دی ہے ؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس سے جدا ہوچکی ہو اورتم دونوں کے مابین میراث جاری نہیں ہوگی“[ المدونة 2/ 5]

یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔
اس کی سند میں موجود ”القاسم بن عبد الله“ یہ ”القاسم بن عبد الله بن عمر بن حفص العدوى العمرى“ ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
”كان يكذب“ ، ”یہ جھوٹ بولتا تھا“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 3/ 186]
نیز کہا:
”كذاب، كان يضع الحديث“ ، ”یہ بہت بڑا جھوٹا ہے ، یہ حدیث گھڑتا تھا“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 111وإسناده صحيح]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے کہا:
”كذاب خبيث“ ، ”یہ بہت بڑا جھوٹا اور خبیث ہے“ [المجروحين لابن حبان، تزايد: 2/ 212 وإسناده صحيح]

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
”متروك الحديث“ ، ”یہ متروک الحدیث ہے“ [معرفة الثقات للعجلي: 2/ 210]

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) نے کہا:
”لا يساوي شيئا، متروك الحديث، منكر الحديث“ ، ”یہ کسی کام کا نہیں ہے ، یہ متروک الحدیث اور منکر الحدیث ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 111]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
”متروك الحديث“ ، ”یہ متروک الحدیث ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 111]

ان ائمہ کے علاوہ اور بھی بہت سے ائمہ نے اس پر سخت جرح کی ہے ، حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے بھی کہا ہے :
”متروك“ ، ”یہ متروک ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5468]

کسی بھی محدث نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔افسوس ہے کہ صاحب نے اس جھوٹے ، کذاب اور وضاع حدیث کی یہ روایت پیش کرنے کے بعد یہ بحث کرنے لگے کہ یہ روایت گرچہ مرسل ہے لیکن سعید بن المسیب کی مرسل روایات صحیح ہوتی ہیں۔ سبحان اللہ !
محترم ! پہلے سعید بن المسیب تک اس کی سند کو ثابت تو کیجئے ! پھر مرسل کی بحث شروع کیجئے ۔
واضح رہے کہ سعید ابن المسیب کی صرف وہ مرسل احادیث صحیح ہوتی ہیں جو دوسروں کے یہاں متصل سندوں سے ثابت ہوتی ہیں ، کیونکہ ان کی اکثر مرسل احادیث ایسی ہیں جنہوں دوسرے رواۃ نے متصل سندوں سے روایت کررکھا ہے ۔اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے بعض محدثین نے کہا ہے کہ ان کی مرسل احادیث صحیح ہوتی ہیں ، اس اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کی جس مرسل روایت کی کوئی متصل سند موجود ہی نہ اسے بھی صحیح تسلیم کرلیا جائے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے کہ سعید بن المسیب کی مرسل روایات صحیح ہوتی ہیں لیکن یہ علی الاطلاق نہیں ہے ۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) اسی چیز کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”فالشافعي رحمه الله، يقبل مراسيل كبار التابعين إذا انضم إليها ما يؤكدها، وقد ذكرنا في «كتاب المدخل» من أمثلتها بعضها، وإذا لم ينضم إليها ما يؤكدها لم يقبله سواء كان مرسل ابن المسيب أو غيره.وقد ذكرنا في غير هذا الموضع مراسيل لابن المسيب لم يقل بها الشافعي حين لم ينضم إليها ما يؤكدها“
”امام شافعی رحمہ اللہ کبار تابعین کی مرسل روایات کو اس وقت قبول کرتے ہیں جب اس کے ساتھ ایسی چیزیں بھی ہوں جو اس کی تائید کرتی ہوں ، اور ہم نے «كتاب المدخل» میں اس کی بعض مثالیں پیش کی ہیں ، اور جب مرسل روایات کے ساتھ ان کی تائید کرنے والی چیزیں نہ ہوں تو امام شافعی نے ایسی مرسل روایات کو قبول نہیں کیا ہے ، چاہئے یہ سعید بن المسیب کی مرسل روایت ہو یا کسی اور کی ہو ، اور ہم نے دوسری جگہوں پر سعید ابن المسیب کی ایسی مرسل روایات ذکر کی ہیں جنہوں امام شافعی رحمہ اللہ نے قبول نہیں کیا ہے کیونکہ ان کی تائید کرنی والی دوسری چیزیں موجود نہیں ہیں“ [مناقب الشافعي للبيهقي 2/ 32]

معلوم ہوا کہ سعید ابن المسیب کی مرسل ہو یا کسی اور تابعی کی مرسل ہو کسی کی بھی مرسل روایات کو علی الاطلاق کسی نے بھی صحیح نہیں کہا ہے ۔
بہر حال یہاں تو سعید بن المسیب کی طرف منسوب یہ مرسل روایت ثابت ہی نہیں ہے ، کیونکہ اس کی سندمیں جھوٹا اور حدیث گھڑنے والا راوی موجود ہے۔
اس لئے یہ روایت بلا شک وشبہ موضوع و من گھڑت ہے۔



No comments:

Post a Comment