ماہ شعبان اور سنن وبدعات - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-03-13

ماہ شعبان اور سنن وبدعات

ماہ شعبان اور سنن وبدعات
کفایت اللہ
ماہ شعبان کی فضیلت
اس مہینے کی فضیلت میں صرف اور صرف ایک ہی بات ثابت ہے وہ یہ کہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
”أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو الْغُصْنِ، شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ، قَالَ: ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ“ 
”اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: ”رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں“ [سنن النسائي 4/ 201 واسنادہ حسن]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔اوراعمال کی یہ پیشی سالانہ پیشی ہوتی ہے اس کے ساتھ ہردن رات اور ہرہفتہ بھی اعمال کی پیشی ہوتی ہے جیساکہ دیگرروایات سے معلوم ہوتاہے۔

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ“ 
”ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان کھڑے ہوکر چارچیزوں پر مشتمل خطبہ دیا: بے شک اللہ تعالی سوتا نہیں ہے اورنہ سونا اس کے شایان شان ہے۔وہ میزان کے پلڑوں کو جھکا تا اوراوپراٹھاتا ہے ۔رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اوردن کے اعمال رات سے پہلے اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ۔اس کا پردہ نورہے“ [صحيح مسلم 1/ 161]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندوں کے اعمال ہردن اور ہررات بھی اللہ کی بارگاہ پیش کئے جاتے ہیں یہی بات صحیح بخاری کی حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ“ 
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے“ [صحيح البخاري 1/ 115]

اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ ہررات نماز فجر کے بعد اورہردن نماز عصرکے بعد بندوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ۔ اس سے ان دونوں نمازوں کی اہمیت کا بھی پتہ چلتاہے اسی لئے احادیث میں ان دونوں نمازوں کی خصوصی تاکید وارد ہوئی ہے۔
ہردن اوررات کے ساتھ ساتھ ہرہفتہ بھی بندوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں جیساکہ اس حدیث سے پتہ چلتاہے :

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ، وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تُعْرَضُ أَعْمَالُ النَّاسِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّتَيْنِ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ، إِلَّا عَبْدًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: اتْرُكُوا، أَوِ ارْكُوا، هَذَيْنِ حَتَّى يَفِيئَا“ 
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کے اعمال ہرہفتہ میں دو بار پیش کئے جاتے ہیں ، پیرکے دن اور جمعرات کے دن ۔اورہرایمان رکھنے والے بندے کی مغفرت کردی جاتی ہے اس بندے کے سوا جس کے اور اس کے بھائی کے درمیان عدوات اوربغض ہو۔تو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑ دو، یا موخر کردو یہاں تک کہ دونوں عداوت چھوڑ کر ایک دوسرے کی طرف واپس آجائیں“ [صحيح مسلم 3/ 1988]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہرہفتہ دو دن پیر اور جمعرات کو بھی بندوں کے اعمال اللہ کی بارہ گاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ۔اس مناسبت سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں دنوں میں بھی روزوں کا اہتمام کرتے تھے جیساکہ حدیث ہے:

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
”حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تُعْرَضُ الأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالخَمِيسِ، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ“ 
”ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں“ [سنن الترمذي ت شاكر 3/ 113 واسنادہ حسن]

ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ ہردن رات اور ہر ہفتہ اور ہر سال بندوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور جب بندہ وفات پاجاتاہے تو پوری زندگی کے اعمال ایک ساتھ پیش ہوتے ہیں ۔یعنی بندوں کے اعمال کی پیشی کی کل چار قسمیں ہیں :
1۔یومیہ پیشی
2۔ ہفتہ واری پیشی
3۔ سالانہ پیشی
4۔ موت کے بعد زندگی بھر کے اعمال کی پیشی

امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751)نے کہا:
”فإن عمل العام يرفع في شعبان كما أخبر به الصادق المصدوق أنه شهر ترفع فيه الأعمال فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم ويعرض عمل الأسبوع يوم الاثنين والخميس كما ثبت ذلك في صحيح مسلم وعمل اليوم يرفع في آخره قبل الليل وعمل الليل في آخره قبل النهار ۔ فهذا الرفع في اليوم والليلة أخص من الرفع في العام وإذا انقضى الأجل رفع عمل العمر كله وطويت صحيفة العمل“ 
”سال بھر کے اعمال شعبان میں پیش کئے جاتے ہیں جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ شعبان وہ مہینہ ہے جس میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس لئے میں پسند کرتاہوں کہ روزے کی حالت میں میرے اعمال پیش کئے جائیں ۔اورہفتہ کے اعمال پیر اورجمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں جیساکہ صحیح مسلم کی حدیث سے یہ ثابت ہے۔اوردن کا عمل دن کے آخری حصہ میں رات سے قبل اور رات کا عمل رات کے آخری حصہ میں دن سے قبل پیش کیا جاتاہے۔دن رات کی یہ پیشی خصوصی طور پر ہوتی ہے جبکہ سال میں ایک بار عمومی طور پر اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور جب بندے کو موت آتی ہے تو پوری زندگی کے اعمال پیش کردئے جاتے ہیں اور نامہ اعمال بند کردیا جاتاہے“ [حاشیہ ابن القيم علی سنن ابی داؤد: 12/ 313]
تنبیہ :
بعض لوگ یوم عرفۃ کی فضیلت بتاتے ہوئے یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ عرفہ کے دن بھی بندوں کے اعمال اللہ کے یہاں پیش کئے جاتے ہیں لیکن یہ بات کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

الغرض یہ کہ جس ماہ میں اعمال کی سالانہ پیشی ہوتی ہے وہ شعبان کا مہینہ ہے اس لئے اس لحاظ سے یہ مہینہ فضیلت والا ہے۔اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مناسبت سے بکثرت روزے رکھتے تھے۔
اس کے علاوہ اس ماہ کی کوئی اورفضیلت ثابت نہیں ۔اس ماہ کی فضیلت میں جو دیگر روایات پیش کی جاتی ہیں وہ سب کی سب ضعیف یا موضوع ومن گھڑت ہیں ۔

ماہ شعبان میں مسنون عمل
ماہ شعبان میں خصوصی طور پرصرف اور صرف ایک ہی عمل کا ثبوت ملتاہے اوروہ ہے بکثرت روزے رکھنا جیساکہ ماہ شعبان کی فضیلت سے متعلق پیش کردہ مذکورہ حدیث میں اس کا ذکر ہے اس کے علاوہ اس سلسلے میں اور بھی کئی احادیث ہیں مثلا:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: لاَ يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لاَ يَصُومُ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ“ 
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفل روزہ رکھنے لگتے تو ہم (آپس میں) کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھنا چھوڑیں گے ہی نہیں۔ اور جب روزہ چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ میں نے رمضان کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینے کا نفلی روزہ رکھتے نہیں دیکھتا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا“ ۔[صحيح البخاري 3/ 38]

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
”حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، سَمِعَ عَائِشَةَ تَقُولُ: كَانَ أَحَبَّ الشُّهُورِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَصُومَهُ: شَعْبَانُ، ثُمَّ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ“ 
”ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ روزے رکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کا مہینہ سب سے زیادہ پسند تھا پھر آپ اسے (گویا) رمضان ہی سے ملا دیتے تھے“ [سنن أبي داود 2/ 323]

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ شعبان میں بکثرت نفلی روزے رکھنا ثابت ہے۔لیکن اس ماہ میں نفلی روزہ رکھتے ہوئے درج ذیل تین چیزوں کا لحاظ ضروری ہے۔

(الف) ماہ شعبان کا مکمل روزہ رکھنا درست نہیں:
رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی ماہ کے مکمل روزے رکھنا درست نہیں اس لئے شعبان میں بھی پورے ماہ کا روزہ نہیں رکھنا چاہئے ۔ماقبل میں مذکور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پوری صراحت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی ماہ کا مکمل روزہ نہیں رکھا۔

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: أَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرًا كُلَّهُ؟ قَالَتْ: «مَا عَلِمْتُهُ صَامَ شَهْرًا كُلَّهُ إِلَّا رَمَضَانَ، وَلَا أَفْطَرَهُ كُلَّهُ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»“ 
”عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا ؟ کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل ماہ کا روزہ رکھتے تھے ؟ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ: مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کا مکمل روزہ رکھا۔ اورنہ ہی کسی ماہ کو بغیر بعض دنوں کا روزہ رکھئے ہوئے گذرا یہاں تک آپ اپنی راہ (آخرت) کے لئے روانہ ہوگئے“ [صحيح مسلم 3/ 810 رقم1156] 

صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت کے بارے میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
”وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ“ 
”ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، یا رات بھر صبح تک عبادت کی ہو، یا پورے مہینے روزے رکھے ہوں، سوائے رمضان کے“ [صحيح مسلم 2/ 513 رقم746]

رہی یہ روایت:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، حَدَّثَتْهُ قَالَتْ: لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ“ 
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ اور کسی مہینہ میں روزے نہیں رکھتے تھے، شعبان کے پورے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے رہتے“ [صحيح البخاري 3/ 38 رقم 1970]

اس حدیث میں ’’كله‘‘ سے مراد ’’ أكثره ‘‘ہے جیساکہ ماقبل والی روایت میں خوداماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی صراحت موجودہے۔اورعربی زبان میں اکثر کے لئے کل کا بھی اطلاق ہوتاہے۔

(ب) رمضان کے استقبال میں شعبان کے آخری ایک یادو دنوں میں روزہ رکھنا درست نہیں:
جو شخص شعبان کے نصف اول کا روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ شعبان کے نصف ثانی کا روزہ رکھنا چاہے تو اس کے لئے یہ جائزہے لیکن ایسے شخص کو رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنا بند کردینا چاہئے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ، فَلْيَصُمْ ذَلِكَ اليَوْمَ»“ 
”ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے (شعبان کی آخری تاریخوں میں) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے“ [صحيح البخاري 3/ 28 رقم 1914]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان سے ایک یا دو دن قبل یعنی شعبان کی آخری ایک یا دو دنوں میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔
استثنائی صورت:
البتہ اگر کسی شخص کی یہ عادت رہی ہے کہ اس کے نفلی روزے ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں پڑتے ہوں تو ایسا شخص شعبان کی آخری تاریخوں میں یعنی رمضان سے اک یا دو دن قبل بھی روزہ رکھ سکتا ہے جیساکہ ماقبل کی حدیث میں اس کی رخصت موجودہے۔
درج ذیل حدیث میں بھی اسی چیز کا بیان ہے:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ - وَلَمْ أَفْهَمْ مُطَرِّفًا مِنْ هَدَّابٍ - عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ - أَوْ لِآخَرَ -: «أَصُمْتَ مِنْ سُرَرِ شَعْبَانَ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَإِذَا أَفْطَرْتَ، فَصُمْ يَوْمَيْنِ»
”عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کی تم نے شعبان کے آخری دنوں کا روزہ رکھا؟ تو انہوں نے کہا : نہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان گذرجائے تو دو روزے رکھ لینا“ [صحيح مسلم 3/ 820 رقم 1161]
اس حدیث سے بظاہریہی معلوم ہوتاہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کا یہ معمول تھا کہ وہ مہینہ کے آخری دنوں میں بھی روزہ رکھتے تھے لیکن شعبان میں انہوں نے روزہ نہیں رکھا کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ سے منع فرمایا تھا۔تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی کیونکہ ان دنوں روزہ رکھنا ان کا معمول تھا۔

ماہ شعبان کی بدعات وخرافات
ماہ شعبان سے متعلق بدعات وخرافات:
 ● فضائل:
ماہ شعبان کی فضیلت میں صرف وہی احادیث پیش کی جاسکتی ہیں جن کا ماقبل میں تذکرہ ہوا اس کے علاوہ اس ماہ کی خصوصی فضیلت میں جتنی احادیث بھی ملتی ہیں وہ سب ضعیف ہیںِ
 ● اعمال:
ماہ شعبان میں نفلی روزوں کا علاوہ کوئی بھی مخصوص عمل ثابت نہیں ہے ۔بعض حضرات ماہ شعبان میں ایصال ثواب اور قرآنی خوانی کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں یہ عمل بدعت ہے ماہ شعبان کیا کسی بھی ماہ میں ان اعمال کا ثبوت نہیں ۔

پندرہویں شعبان کی رات سے متعلق بدعات وخرافات:
 ● فضائل:
شعبان کی پندرہوں تاریخ کے فضائل سے متعلق کوئی روایت ثابت نہیں ہے اس ضمن میں جو باتیں بھی بیان کی جاتی ہیں سب کی سب بے بنیاد ہیں ۔

شب برات:
بعض حضرات شعبان کی پندرہویں شب کی یہ فضیلت بتلاتے ہیں کہ اس رات لوگوں اللہ کے عذاب سے یا گناہوں سے برات ملتی ہے اسی لئے وہ اس رات کو ’’شب برات‘‘ کہتے ہیں ۔ ان باتوں کی بھی کوئی حقیقت نہیں ۔

’’شب برات‘‘ اور’’اللیلہ المبارکۃ‘‘
بعض حضرات شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت بیان کرتے ہوئے یہ آیت پیش کرتے ہیں:
{إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ} ،( ہم نے اسے (قران کو) بابرکت رات میں نازل کیا )[الدخان: 3]
یہ آیت پیش کرکے بعض حضرات کہتے ہیں اس سے شب برات مراد ہے ۔جبکہ یہ سراسرغلط ہے یہاں میں ’’لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ‘‘ سے مراد شب قدرہے اس کی تفسیرخود قران نے ہی کردی ہے ، سورۃ القدرمیں ہے:
{إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ} ، (ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا) [القدر: 1]
اور’’لَيْلَةِ الْقَدْرِ‘‘ رمضان میں ہوتی ہے نہ کی شعبان میں اس کی وضاحت بھی خود قران میں ہے اللہ کا ارشادہے:
{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ} ،( رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا) [البقرة: 185]۔

اس قرآنی تفسیر سے رو گردانی کرنے کی خاطر بعض حضرات نے یہ شوشہ چھوڑا کہ قرآن دو بار نازل کیا گیا ایک بار شب قدر میں اور ایک بار شب برات میں ۔اس کی دلیل یہ حضرات یہ دیتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ’’لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ‘‘ کی تفسیر پندرہویں شعبان کی شب یعنی شب برات سے کی ہے۔

عرض ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیر ثابت ہی نہیں کیونکہ اس کی سند میں ’’نضربن اسماعیل بجلی ‘‘ ہے دیکھئے:[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري 2/ 139] 
اوریہ سخت ضعیف راوی ہے ۔
امام ابن معین فرماتے ہیں:
”ليس بشيء“ ، ”اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے“ [تاريخ ابن معين - رواية الدوري 3/ 274]۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں:
”كَانَ مِمَّن فحش خَطؤُهُ وَكثر وهمه اسْتحق التّرْك من أَجله“ ، ”اس سے فحش غلطیاں ہوئیں اور بکثرت اوہام ہوئے جس کے سبب یہ متروک قرارپایا“ [المجروحين لابن حبان 3/ 51]۔
اس کے برخلاف صحیح سند سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عباس
 رضی اللہ عنہ نے کہا:
” {إنا أنزلناه في ليلة مباركة} يعني ليلة القدر“ ، ”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل کیا یعنی شب قدر میں“ [شعب الإيمان 3/ 321 ،فضائل الأوقات للبيهقي ص: 215 واخرجہ ایضا الحاکم فی المستدرك على الصحيحين:2/ 487 واسنادہ صحیح]

نزول باری تعالی کی روایات:
بعض روایت میں آتاہے کہ پندرہ شعبان کی رات اللہ تعالی کا نزول ہوتا ہے اور بہت سارے بندوں کی مغفرت ہوتی ۔اس طرح کی تمام روایات ضعیف و مردود ہیں ان میں سے کوئی ایک روایت بھی ثابت نہیں ہے۔ نیز یہ روایات سخت ضعیف یا منکر ہیں اس لئے یہ آپس میں مل کرحسن لغیرہ بھی نہیں بن سکتیں۔
 ● اعمال:
پندرہ شعبان کی رات یا اس تاریخ میں جو بھی اعمال کئے جاتے ہیں وہ سب غیر ثابت ، بے بنیاد اوربے اصل ہیں مثلا:
صلاۃ الفیہ:
شعبان کی نصف کی رات کو بعض لوگ صلاۃ البراۃ یا صلاۃ الالفیۃ ادا کرتے ہیں جس میں سو رکعات میں سے ہر رکعت میں ۱۰ بار قل ھواللہ (سورۂ اخلاص) پڑھی جاتی ہے۔ اس کا ثبوت کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔
اس بدعتی نمازکے بارہ میں امام ابن الجوزی الموضوعات میں متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ '' اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں مجھے کوئی شک نہیں اس روایت کے رواۃ مجہول ہیں کچھ تو بہت زیادہ ضعیف ہیں ۔ اس روایت کا حدیث رسول ہونا ناممکن ہے۔ ( الموضوعات ۲/ ۱۲۷۔۱۳۰)
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے اور اس حدیث میں رات کی عبادت کا اہتمام کرنے والوں کے لیے جو ثواب بیان ہوا ہے ۔ ارباب بصیرت کے نزدیک اس روایت کے موضوع ہونے کے لیے کافی ہے ۔ اس حدیث کے تمام رواۃ مجہول ہیں ۔ (الفوائد المجموعۃ ص: ۵۱۔۵۲)

قرات یسن:
بعض لوگ پندرہ شعبان کی رات سورہ یسن کی تلاوت کرتے ہیں اس کا ثبوت بھی کسی روایت میں نہیں۔

قبروں کی زیارت:
بعض لوگ اس رات قبرستان کی زیارت کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں بلکہ بعض زیارت کے نام پر قبرستان میں بہت ساری خرافات کرتے ہیں ان تمام باتوں کا کسی بھی صحیح حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

روحوں کی آمد کا عقیدہ:
عوام الناس میں یہ سوچ بھی سرایت کرچکی ہے کہ اس رات مردوں کی روحیں اپنے اپنے گھروں میں آتی ہیں حالانکہ باری تعالیٰ نے اس نظریہ کی تردید اپنے اس فرمان میں بخوبی کی ہے کہ {وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ} ،( اور ان (مرنے والوں) کے درمیان دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ایک آڑ حائل ہوگی) [ المؤمنون : 100] 

آتش بازی :
شب برأت کی مروجہ خرافات میں سے معروف ترین خرافات اس شب آتش بازی کا مظاہرہ کرنا ہے ۔ دین اسلام کی تعلیمات نے خوشی کے مواقع پر کیا طرز عمل ہونا چاہیے پوری شرح وبسط سے بیان کیا ہے ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو فضول اور سطحی قسم کی حرکات سے باز رکھتاہے۔ آتش بازی سے مال کا ضیاع لازم آتاہے شریعت نے فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ شب برات کے موقع پر مساجد میں خصوصی چراغاں کرنا اور اس کو خوشبودار بنانا دراصل برامکہ کی گھناؤنی سازش کا نتیجہ ہے جیسا کہ شیخ ابن العربی اپنی کتاب المنکرات ص 76 میں تحریر فرماتے ہیں '' مسجدوں میں خوشبو کی دھونی رکھنے کا سب سے پہلے رواج یحی بن خالد برمکی نے ڈالا ، یحی بن خالد برمکی خلیفہ وقت کا وزیر اور درباری تھا اس کا مقصد مجوسیت کا احیاء تھا۔
آتش بازی وغیرہ میں ہندؤوں کی دیوالی اور عیسائیوں کے کرسمس ڈے سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ دین اسلام نے ہمیں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

حلوہ خوری :
شب برأت میں حلوہ خوری کی رسم بد قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ یہ طرز عمل دنیا پرست علماء نے رائج کیا تاکہ وہ اپنے شکم کو مال حرام سے بھر سکیں ، حلوہ خور علماء اپنے اس فعل کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے واقعہ احد کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اس میں رسول مکرم ﷺ کے دانت مبارک شہید ہوئے تھے تو رسول معظم ﷺ نے حلوہ تناول فرمایا تھا مگر مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ دندان مبارک کی شہادت کا واقعہ ماہ شوال 3 ہجری میں واقع ہوا اس کا ماہ شعبان یا شعبان کی پندرہویں تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بفرض محال اگر اس مفروضہ کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو کامل اتباع کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلے اپنے دانت توڑے جائیں پھر حلوہ خوری کا ''شوق '' پورا کیا جائے۔ حاصل یہ کہ شب برأت میں حلوہ خوری عبادت نہیں بلکہ بدعت ہے جس سے کلی گریز ضروری ہے۔

ماہ شعبان اور شعبان کی پندرہ تاریخ سے متعلق یہ چندبدعات وخرافات ہمارے یہاں رائج ہیں اللہ ہم سب کو ان سے محفوظ رکھے آمین۔

No comments:

Post a Comment