پچھلا
چوتھی دلیل
تین طلاق کے وقوع پر دعائے اجماع کی حقیقت
بطلان اجماع کی پہلی وجہ: سابق مخالف اجماع:
اس اجماع کے بطلان کی زبردست دلیل یہی ہے کہ اس سے پہلےخود اس بات پر امت کا اجماع ہوچکا ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق ایک شمارہوگی، جیساکہ تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔اوراس کے بعد جب اس مسئلہ میں اختلاف ہوا تو دوبارہ کبھی بھی اجماع نہیں ہوا۔
اس اجماع کے بطلان کی زبردست دلیل یہی ہے کہ اس سے پہلےخود اس بات پر امت کا اجماع ہوچکا ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق ایک شمارہوگی، جیساکہ تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔اوراس کے بعد جب اس مسئلہ میں اختلاف ہوا تو دوبارہ کبھی بھی اجماع نہیں ہوا۔
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751)فرماتے ہیں:
أن هذا القولَ قد دل عليه الكتاب والسنة والقياس والإجماع القديم، ولم يأت بعده إجماعٌ يبطله
تین طلاق کے ایک ہونے پر کتاب ، سنت ، قیاس اوراجماع قدیم دلالت کرتے ہیں اوراجماع قدیم کے بعد کبھی ایسا اجماع نہیں ہوا جو اسے باطل کرسکے۔[إعلام الموقعين ت مشهور: 4/ 389]
بطلان اجماع کی دوسری وجہ: دعوائے اجماع عدم علم پر مبنی ہے:
کتاب وسنت سے جب اس بات کی دلیل ہی نہیں ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق تین شمار ہوگی ، تو اس پر اجماع کا منقعد ہونا نا ممکن و محال ہے ، کیونکہ بغیر نص کے اجماع کا وقوع ممکن نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے دین کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور دین قرآن و حدیث دونوں پر مشتمل ہے اس لئے دین سےمتعلق قرآن کی کوئی آیت یا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث قطعا گم نہیں ہوسکتی ، بلکہ قیامت تک محفوظ رہے گی جیسے قرآن محفوظ رہے گا۔
کتاب وسنت سے جب اس بات کی دلیل ہی نہیں ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق تین شمار ہوگی ، تو اس پر اجماع کا منقعد ہونا نا ممکن و محال ہے ، کیونکہ بغیر نص کے اجماع کا وقوع ممکن نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے دین کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور دین قرآن و حدیث دونوں پر مشتمل ہے اس لئے دین سےمتعلق قرآن کی کوئی آیت یا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث قطعا گم نہیں ہوسکتی ، بلکہ قیامت تک محفوظ رہے گی جیسے قرآن محفوظ رہے گا۔
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
”أن الله تعالى قد قال {إنا نحن نزلنا لذكر وإنا له لحافظون} فمضمون عند كل من يؤمن بالله واليوم الآخر أن ما تكفل الله عز وجل بحفظه فهو غير ضائع أبدا لا يشك في ذلك مسلم وكلام النبي صلى الله عليه وسلم كله وحي بقوله تعالى { وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى} [النجم: 3، 4] والوحي ذكر بإجماع الأمة كلها والذكر محفوظ بالنص فكلامه عليه السلام محفوظ بحفظ الله عز وجل ضرورة منقول كله إلينا لا بد من ذلك فلو كان هذا الحديث الذي ادعى هذا القائل أنه مجمع على تركه وأنه منسوخ كما ذكر لكان ناسخه الذي اتفقوا عليه قد ضاع ولم يحفظ وهذا تكذيب لله عز وجل في أنه حافظ للذكر كله ولو كان ذلك لسقط كثير مما بلغ عليه السلام عن ربه وقد أبطل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوله في حجة الوداع اللهم هل بلغت“
”اللہ تعالی نے کہہ رکھا ہے کہ : (ذکرکو ہم نے ہی نازل کیا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کریں گے )[الحجر: 9] اس آیت کی بنا پر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہرشخص کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے جس چیز کی حفاظت کا ذمہ لے لیا وہ کبھی بھی ضائع نہیں ہوسکتی ، اس میں کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی سب کی سب وحی ہیں جیساکہ اللہ نے کہا: { آپ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے بلکہ جو کچھ بھی بولتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے} [النجم: 3، 4] اور وحی بھی ذکر ہے جیساکہ اس پر ساری امت کااجماع ہے اور ذکر کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے لیا ہے ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی محفوظ ہیں ، اللہ نے ان کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لی ہے ، ان ساری احادیث کا امت تک پہنچا ضروری ہے ۔تو یہ حدیث جس کے بارے میں اس شخص نے یہ دعوی کیا کہ اس کے ترک کرنے پراور اس کے منسوخ ہونے پر لوگوں کا اتفاق ہے جیساکہ یہ شخص کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اس منسوخ حدیث کا جو ناسخ ہے وہ گم ہوگیا اور اس کی حفاظت نہیں ہوسکی ! اور ایسا کہنا اللہ تعالی کی اس بات کو جھٹلانا ہے کہ اس نے ہرذکر کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ، اگر اس طرح کی باتیں مان لی جائیں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے دین جو حصہ امت تک پہنچایا ہے ان میں سے اکثر حصہ ساقط قرار پائےگا ، نیز حجۃ االوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا بھی کوئی معنی نہیں رہ جائے گا کہ کہ اللہ گواہ رہ میں نے دین لوگوں تک پہنچا دیا ہے“ [الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم 2/ 71]
حدیث کے محفوظ ہونے سے متعلق یہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی کہہ رکھی اور عصر حاضر کے عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی وضاحت کی ہے ۔دیکھئے: [جامع المسائل لابن تيمية - 4/ 162، التوسل أنواعه وأحكامه ص: 114]
معلوم ہوا کہ اجماع بھی ناسخ کے وجود پر دلیل نہیں ہے کیونکہ اگر کسی ناسخ کا وجود ہوتا تو وہ ناسخ گم نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اللہ اسے محفوظ رکھتا ۔واضح رہے کہ اجماع کا یہ دعوی بھی محض خیالی ہے اس کی کوئی سچائی نہیں ہے ، جیساکہ آگے تفصیل آرہی ہے ۔
بطلان اجماع کی تیسری وجہ: اختلاف کا ذکر کرنے والے علماء:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے باب قائم کیا کہ:
”باب من أجاز طلاق الثلاث“ ، ”جس نے تین طلاق کو واقع قرار دیا اس بارے میں بیان“ [صحيح البخاري قبل الحدیث رقم5259]
اس کی تشریح میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وفي الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجز وقوع الطلاق الثلاث“
”اس عنوان میں اشارہ ہے کہ سلف میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو تین طلاق کے وقوع کے قائل نہ تھے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 362]
مولانا عبدلرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”امام بخاری(م 286ھ) امام بخاریؒ اپنی صحیح میں ایک باب کا عنوان تجویز فرماتے ہیں ”باب من اجاز طلاق الثلاث“ ، اس عنوان سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ایک صراحتہ ً د وسری کنایۃً ۔صراحتًہ یہ کہ امام بخاریؒ کے نزدیک یہ مسئلہ اجماعی نہیں بلکہ اختلافی ہے۔اورکنایۃ کہ امام بخاریؒ کااپنا رخ بھی مزعومہ اجماع کی طرف نہیں ہے۔ورنہ وہ ایسا عنوان تجویز ہی نہ فرماتے۔اس باب میں امام بخاریؒ صرف دو واقعات پر مشتمل تین احادیث لائے ہیں۔ایک واقعہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق ہے۔اور دوسرا رفاعہ قرظی سے متعلق گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک یہی تین احادیث ایسی ہیں جن سے قائلین تطلیق ثلاثہ استدلال فرماسکتے ہیں“ [ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل :ص 79]
امام أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے کہا:
”حدثنا روح بن الفرج قال ثنا أحمد بن صالح قال: ثنا عبد الرزاق قال: أخبرنا ابن جريج قال: أخبرني ابن طاوس , عن أبيه , أن أبا الصهباء قال لابن عباس: أتعلم أن الثلاث كانت تجعل واحدة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وثلاثا من إمارة عمر؟ قال ابن عباس: «نعم»
قال أبو جعفر: فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا , فقد وقعت عليها واحدة إذا كانت في وقت سنة , وذلك أن تكون طاهرا في غير جماع. واحتجوا في ذلك بهذا الحديث“
”امام طحاوی اپنی سند سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کوعلم ہے کہ عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں !
امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے ، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا ، ان لوگوں یہ بات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 55]
علامه عينى رحمه الله (المتوفى855) فرماتے ہیں:
”ووضع البخاري هذه الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجوز وقوع الطلاق الثلاث، وفيه خلاف. فذهب طاووس ومحمد بن إسحاق والحجاج بن أرطأة والنخعي وابن مقاتل والظاهرية إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا فقد وقعت عليها واحدة، واحتجوا في ذلك بما رواه مسلم“
”امام بخاری نے یہ ترجمہ قائم کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سلف میں کچھ لوگ ایسے تھے جو تین طلاق کے وقوع کے قائل نہ تھے ، اور اس مسئلہ میں اختلاف ہے ، چنانچہ طاووس ، محمدبن اسحاق ، حجاج بن ارطاۃ ، نخعی ، ابن مقاتل اور ظاھریہ کا کہنا ہے کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دیا تو اس پر ایک ہی طلاق واقع ہوگئی ، اس کے لئے ان اہل علم نے صحیح مسلم کی حدیث سے استدلال کیا ہے“ [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 20/ 233]
عبد الرحمن بن محمد عوض الجزيري (المتوفى 1360) لکھتے ہیں:
”وخالفهم في ذلك بعض المجتهدين، كطاوس، وعكرمة وابن اسحاق، وعلى رأسهم ابن عباس رضي الله عنهم، فقالوا: إنه يقع به واحدة لا ثلاث، ودليل ذلك ما رواه مسلم عن ابن عباس“
”جمہور کے اس موقف کی مخالفت طاوس ، عکرمہ اور ابن اسحاق نے کی ہے ، ان میں سر فہرست ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں ، ان سب نے کہا ہے کہ یہ ایک طلاق واقع ہوگی نہ کہ تین طلاق ان لوگوں نے صحیح مسلم کی ابن عباس رضی اللہ عنہ والی حدیث سے استدلال کیا ہے“ [الفقه على المذاهب الأربعة 4/ 303]
علامہ مفتی کفایت اللہ دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
”ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تینوں پڑجانے کا مذہب جمہور علماء کا ہے ، ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں ، جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کے علاوہ بعض علماء اس کے ضرور قائل ہیں کہ ایک رجعی طلاق ہوتی اور یہ مذہب اہل حدیث نے بھی اختیار کیا ہے اور حضرت ابن عباس اور طاوس اورعکرمہ و ابن اسحاق سے منقول ہے“ [اخبار الجمعیہ 16/ 44 بحوالہ عمدۃ الاثاث ص50]
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے باب قائم کیا کہ:
”باب من أجاز طلاق الثلاث“ ، ”جس نے تین طلاق کو واقع قرار دیا اس بارے میں بیان“ [صحيح البخاري قبل الحدیث رقم5259]
اس کی تشریح میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وفي الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجز وقوع الطلاق الثلاث“
”اس عنوان میں اشارہ ہے کہ سلف میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو تین طلاق کے وقوع کے قائل نہ تھے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 362]
مولانا عبدلرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”امام بخاری(م 286ھ) امام بخاریؒ اپنی صحیح میں ایک باب کا عنوان تجویز فرماتے ہیں ”باب من اجاز طلاق الثلاث“ ، اس عنوان سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ایک صراحتہ ً د وسری کنایۃً ۔صراحتًہ یہ کہ امام بخاریؒ کے نزدیک یہ مسئلہ اجماعی نہیں بلکہ اختلافی ہے۔اورکنایۃ کہ امام بخاریؒ کااپنا رخ بھی مزعومہ اجماع کی طرف نہیں ہے۔ورنہ وہ ایسا عنوان تجویز ہی نہ فرماتے۔اس باب میں امام بخاریؒ صرف دو واقعات پر مشتمل تین احادیث لائے ہیں۔ایک واقعہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق ہے۔اور دوسرا رفاعہ قرظی سے متعلق گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک یہی تین احادیث ایسی ہیں جن سے قائلین تطلیق ثلاثہ استدلال فرماسکتے ہیں“ [ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل :ص 79]
امام أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے کہا:
”حدثنا روح بن الفرج قال ثنا أحمد بن صالح قال: ثنا عبد الرزاق قال: أخبرنا ابن جريج قال: أخبرني ابن طاوس , عن أبيه , أن أبا الصهباء قال لابن عباس: أتعلم أن الثلاث كانت تجعل واحدة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وثلاثا من إمارة عمر؟ قال ابن عباس: «نعم»
قال أبو جعفر: فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا , فقد وقعت عليها واحدة إذا كانت في وقت سنة , وذلك أن تكون طاهرا في غير جماع. واحتجوا في ذلك بهذا الحديث“
”امام طحاوی اپنی سند سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کوعلم ہے کہ عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں !
امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے ، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا ، ان لوگوں یہ بات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 55]
علامه عينى رحمه الله (المتوفى855) فرماتے ہیں:
”ووضع البخاري هذه الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجوز وقوع الطلاق الثلاث، وفيه خلاف. فذهب طاووس ومحمد بن إسحاق والحجاج بن أرطأة والنخعي وابن مقاتل والظاهرية إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا فقد وقعت عليها واحدة، واحتجوا في ذلك بما رواه مسلم“
”امام بخاری نے یہ ترجمہ قائم کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سلف میں کچھ لوگ ایسے تھے جو تین طلاق کے وقوع کے قائل نہ تھے ، اور اس مسئلہ میں اختلاف ہے ، چنانچہ طاووس ، محمدبن اسحاق ، حجاج بن ارطاۃ ، نخعی ، ابن مقاتل اور ظاھریہ کا کہنا ہے کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دیا تو اس پر ایک ہی طلاق واقع ہوگئی ، اس کے لئے ان اہل علم نے صحیح مسلم کی حدیث سے استدلال کیا ہے“ [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 20/ 233]
عبد الرحمن بن محمد عوض الجزيري (المتوفى 1360) لکھتے ہیں:
”وخالفهم في ذلك بعض المجتهدين، كطاوس، وعكرمة وابن اسحاق، وعلى رأسهم ابن عباس رضي الله عنهم، فقالوا: إنه يقع به واحدة لا ثلاث، ودليل ذلك ما رواه مسلم عن ابن عباس“
”جمہور کے اس موقف کی مخالفت طاوس ، عکرمہ اور ابن اسحاق نے کی ہے ، ان میں سر فہرست ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں ، ان سب نے کہا ہے کہ یہ ایک طلاق واقع ہوگی نہ کہ تین طلاق ان لوگوں نے صحیح مسلم کی ابن عباس رضی اللہ عنہ والی حدیث سے استدلال کیا ہے“ [الفقه على المذاهب الأربعة 4/ 303]
علامہ مفتی کفایت اللہ دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
”ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تینوں پڑجانے کا مذہب جمہور علماء کا ہے ، ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں ، جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کے علاوہ بعض علماء اس کے ضرور قائل ہیں کہ ایک رجعی طلاق ہوتی اور یہ مذہب اہل حدیث نے بھی اختیار کیا ہے اور حضرت ابن عباس اور طاوس اورعکرمہ و ابن اسحاق سے منقول ہے“ [اخبار الجمعیہ 16/ 44 بحوالہ عمدۃ الاثاث ص50]
اسلامک ریسرچ سنٹر احمد آباد گجرات کی دعوت پر احمدآباد میں 4،5،6 سن 1973ء کو ایک مجلس کی تین طلاق کے موضوع پر ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی اس مجلس کی صدارت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے فرمائی ۔مفتی صاحب کے علاوہ اس مجلس میں درج ذیل علمائے کرام نے شرکت فرمائی:
مولانا محفوظ الرحمن صاحب(فاضل دیوبند) مدرس مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں
مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی سابق صدر شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی علیگڈھ
مولانا مختاراحمد صاحب ندوی ، ناظم جمعیت اہل حدیث ممبئی
مولانا عبدالرحمان مبارکپوری ابن شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری صاحب مرعاۃ المفاتیح
مولانا سید احمد صاحب عروج قادری مدیر ماہنامہ زندگی رام پور ، یو،پی
مولانا سیدحامد علی صاحب سکریٹری جماعت اسلامی ہند
مولانا شمس پیرزادہ صاحب امیر جماعت اسلامی مہاراشٹر
مقالات کی خواندگی اور تقریر کے بعد مسئلہ مذکورہ پر بحث وتمہید کا آغاز ہوا جس کے بعد مجلس مذاکرہ متفقہ طور پر جن نتائج پر پہنچی اس میں ایک یہ بھی تھا کہ:
ایک مجلس میں تین طلاق کے طلاق مغلظہ بائنہ ہونے کا مسئلہ اجماعی اورقطعی نہیں ہے اس میں سلف کے زمانے سے اختلاف موجود ہے
(دیکھئے مجموعہ مقالات ، نیز دیکھیں: ایک مجلس کی تین طلاق از حکیم محمد اسرائیل ص28)
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [ الحكم المشروع في الطلاق المجموع ، مقدمہ ص 9 تا 11]
بطلان اجماع کی چوتھی وجہ : دعوائے اجماع کو رد کرنے والے علماء:
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
”لا إجماع في المسألة“ ، ”اس (طلاق ثلاث کو تین ماننے کے) مسئلہ میں کوئی اجماع ثابت نہیں ہے“ [مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 33/ 91]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) کہتے ہیں:
”ويتعجب من بن التين حيث جزم بأن لزوم الثلاث لا اختلاف فيه وإنما الاختلاف في التحريم مع ثبوت الاختلاف كما ترى“
”اورابن التین پر تعجب ہے کہ انہوں نے تین طلاق کے وقوع کے بارے میں کہہ دیا کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اختلاف صرف اس کی حرمت میں ہے ، جبکہ اس میں اختلاف موجود ہے جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 363]
مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب طلاق ثلاثہ سے متعلق اختلاف نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”جس مسئلہ میں ہر زمانے کے ائمہ اسلام اختلاف کررہے ہوں ، اسے کہنا کہ مجمع علیہ ہے ، بڑے دل گردے کا کام ہے“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص240 ]
”جس مسئلہ میں ہر زمانے کے ائمہ اسلام اختلاف کررہے ہوں ، اسے کہنا کہ مجمع علیہ ہے ، بڑے دل گردے کا کام ہے“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص240 ]
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں :[ تسمية المفتين:ص 23 تا 26]
بطلان اجماع کی پانچویں وجہ: ہردور میں تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتوی:
گذشتہ سطور میں تفصیل پیش کی جاچکی ہے کہ ہرصدی میں تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دینے والے اہل علم موجود رہے ہیں اس لئے اس پر اجماع کا دعوی کرنا غلط ہے ۔
گذشتہ سطور میں تفصیل پیش کی جاچکی ہے کہ ہرصدی میں تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دینے والے اہل علم موجود رہے ہیں اس لئے اس پر اجماع کا دعوی کرنا غلط ہے ۔
No comments:
Post a Comment