امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-05-29

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں

 امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں

پہلے یہ نقطہ طے کرلیں کہ بحث کا موضوع یہ ہے کہ کیاامام ذہبی نے امام ابوحنیفہ کو ضعیف قراردیاہے۔ اس لئے اس میں جوبھی بات ہوگی حافظ ذہبی کے اعتبار سے ہی ہوگی۔دوسروں کے اعتبار سے نہیں ہوگی اورہمیں امید ہے کہ کوئی دوسراشخص بھی اس میں خلط مبحث نہ کرے گا اورجوکوئی یہ بات کرے وہ علم اوراعتماد کے ساتھ بات کرے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حافظ ذہبی امام ابوحنیفہ کے بہت مرتبہ شناس ہیں اوران کا بہت عقیدت اوراحترام کے ساتھ ذکر کرتے ہین امام صاحب کے مناقب پر کتاب بھی لکھی ہے اورجہاں کہیں امام صاحب کا تذکرہ کیاہے پوری عقیدت اورمحبت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔
پہلی مثال لیتے ہیں تذکرۃ الحفاظ کی۔ یہ بات کفایت اللہ صاحب کی بالکل صحیح ہے کہ تذکرۃ الحفاظ میں بہت سے ضعیف حفاظ کابھی تذکرہ ہے جس پر شاکر ذیب فیاض الخوالدۃ نے باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے الرواۃ الذین ترجم لھم الذہبی فی تذکرۃ الحفاظ وحکم علیھم بالضعف فی کتبہ الضعفاء واسباب ذلک اوراس کتاب میں ان تمام رواۃ کاجائزہ لیاہے جس کوانہوں نے تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیاہے اورپھرانہی حفاظ کاذکراپنی ضعفاء کی کتاب میں کیاہے۔ لہذا عمرومعاویہ صاحب کااستدلال غلط ہے ۔
اس اعتراف کے بعد اب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توثیق کے سلسلے میں اس کتاب کا حوالہ نہیں آناچاہئے۔


حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں جن حضرات کاذکر کیاہے ۔اس کے ترجمہ میں جیساکہ دیکھاجاسکتاہے حافظ ذہبی نے خود ان کے ضعف اورکذب کی تصریح کردی ہے جیساکہ کفایت اللہ صاحب کے مراسلوں میں دیکھاجاسکتاہے۔ اس کے برعکس کفایت اللہ صاحب یادوسرے حضرات خوردبین لگاکر دیکھیں ۔تذکرۃ الحفاظ میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کے تذکرہ میں کوئی ضعف یاکذب یاکسی دوسرے نامناسب امر کابیان ہے؟
اس اہم فرق کو نگاہ میں رکھیں۔
ہم نے یہ کب دعوی کیا کہ اس کتاب میں دوسرے نامناسب امر کا بیان ہے ؟؟؟
تذکرہ الحفاظ پر بحث اس لئے ہوئی کہ بعض احباب محض اس بات کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توثیق سمجھتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ’’تذکرۃالحفاظ‘‘ میں کیا ہے اور یہ ان کی توثیق کے لئے کافی نہیں ہے یہی بتانے کے لئے اوپرمثالیں دی گئی ہیں ، اوراس بات کا دعوی ہرگزنہیں کیا گیا ہے کہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف قرار دیا ہے پھربھی معلوم نہیں کیوں آپ دوربین لگانے کا مشورہ کیوں دے رہے۔

دوسری کتاب جہاں تک معین المحدثین کا ذکر ہے۔ اس میں ہم چلیں اس سے صرف نظرکرلیتے ہیں کہ صرف ثقہ راویوں کاذکر نہیں ہے
صرف نظر کرلیتے ہیں یا تسلیم کرلیتے ہیں کہ واقعی اس کتاب میں کذاب اورضعیف راویوں کا بھی تذکرہ ہے؟؟؟
تذکرۃ الحفاظ کے ساتھ ساتھ اگر آپ اس کتاب کے بارے میں بھی اس حقیقت کا اعتراف کرلیتے ہیں ، کہ اس میں بھی مجروحین کا ذکرموجود ہے تو آپ کا کیا بگڑ جاتا ؟؟؟

’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ اور قلیل الحدیث رواۃ


لیکن کم ازکم اتناتوثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ حفاظ حدٰیث کی صف میں ہیں۔
۔
امام صاحب حفاظ حدیث کی صف میں ہیں اس سے کس کو اختلاف ہے؟؟؟
احادیث کی روایت میں انہوں نے بھی حصہ لیا ہے اور اس معنی میں وہ محدث بھی ہیں اور حفاظ کی صف میں شامل بھی ہیں ، لیکن اس صف میں ان کی پوزیشن کیا ہے یہ جانناضروری ہے، حفاظ کی صف میں شامل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ موصوف بھی حافظ ہوگئے ، یہ تو بالکل وہی مثال ہوئی کی انگلی کٹا کے شہیدوں میں نام لکھانا !!!
انگلی کٹا کر کوئی شہیدوں کی صف میں تو کھڑا ہوسکتا ہے مگر شہادت کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا، صف میں کھڑے ہونے میں اورصف میں میں دوسروں کا مقام پانے میں بڑا فرق ہے ، بات امام ذہبی کی ہورہی ہے تو آپ امام ذہبی ہی کی کوئی ایسی صریح روایت پیش کردیں کہ جس میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ’’حافظ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا ہو!!!

بہرحال ہم نے پہلے مثالوں کے ذریعہ واضح کیا تھا کہ ’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ میں کذاب اورضعیف رواۃ بھی موجود ہیں ، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ عام قارئین کو یہ بات معلوم ہوگئی اس کتاب میں بھی کسی کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ثقہ ہے۔
لیکن اب یہ مسئلہ اٹھایا گیا ہے کہ اس کتاب میں ذکرکئے جانے سے کم از کم اتنا تو ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حفاظ حدیث میں شامل تھے یعنی قلیل الحدیث نہیں تھے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں۔

تو آئے اب ہم مثالوں کے ذریعہ یہ بات بھی واضح کردیتے ہیں کہ اس کتاب ’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ میں کسی راوی کے ذکر ہونے سے یہ مطلب نکالنا بھی درست نہیں
کہ وہ قلیل الحدیث کے بجائے کثیر الحدیث ہوگیا ۔
ذیل میں ہم اسی کتاب ’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ سے بعض ایسے رواۃ کے نام پیش کرتے ہیں جنہیں خود امام ذہبی رحمہ اللہ ہی نے دوسرے مقام پر صریح طور پر قلیل الحدیث کہہ رکھا ہے:

پہلی مثال:
المعین میں پہلے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’حمران مولى عثمان‘‘ ہیں[المعين فى طبقات المحدثين ص: 6]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
حُمْرَانُ بنُ أَبَانٍ الفَارِسِيُّ (ع)الفَقِيْهُ، مَوْلَى أَمِيْرِ المُؤْمِنِيْنَ عُثْمَانَ.كَانَ مِنْ سَبْيِ عَيْنِ التَّمْرِ ، ابْتَاعَهُ عُثْمَانُ مِنَ المُسَيِّبِ بنِ نَجَبَةَ.حَدَّثَ عَنْ: عُثْمَانَ، وَمُعَاوِيَةَ.
وَهُوَ قَلِيْلُ الحَدِيْثِ. رَوَى عَنْهُ: عَطَاءُ بنُ 
[سير أعلام النبلاء 4/ 182]۔

دوسری مثال:
المعین میں دوسرے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’ لحارث بن سويد التميمي‘‘ ہیں،[المعين فى طبقات المحدثين ص: 6]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
الحَارِثُ بنُ سُوَيْدٍ التَّيْمِيُّ الكُوْفِيُّ أَبُو عَائِشَةَ (ع) إِمَامٌ، ثِقَةٌ، رَفِيْعُ المَحَلِّ.حَدَّثَ عَنْ: عُمَرَ، وَابْنِ مَسْعُوْدٍ، وَعَلِيٍّ.يُكْنَى: أَبَا عَائِشَةَ.رَوَى عَنْهُ: إِبْرَاهِيْمُ التَّيْمِيُّ، وَأَشْعَثُ بنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ، وَعُمَارَةُ بنُ عُمَيْرٍ، وَجَمَاعَةٌ.وَهُوَ قَلِيْلُ الحَدِيْثِ، قَدِيْمُ المَوْتِ، قَدْ ذَكَرَهُ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ، فَعَظَّمَ شَأْنَهُ، وَرَفَعَ مِنْ قَدْرِهِ.[سير أعلام النبلاء 4/ 156]۔

تیسری مثال:
المعین میں دوسرے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’شريح القاضي أبو أمية‘‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 7]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(شريح بن الحارث) ابن قيس بن الجهم بن معاوية بن عامر القاضي: أبو أمية الكندي الكوفي قاضيها. ويقال: شريح بن شراحيل، ويقال: ابن شرحبيل، ويقال: إنه من أولاد الفرس الذي كانوا باليمن. وقد أدرك الجاهلية، ووفد من اليمن بعد النبي صلى الله عليه وسلم، وولي قضاء الكوفة لعمر. وروى عنه: وعن: علي، وعبد الرحمن بن أبي بكر. روى عنه: الشعبي، وإبراهيم النخعي، ومحمد بن سيرين، وقيس بن أبي حازم، ومرة الطيب، وتميم بن سلمة. وهو مع فضله وجلالته قليل الحديث [تاريخ الإسلام للذهبي 5/ 420]۔


چوتھی مثال :
المعین میں دوسرے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’مالك بن أوس بن الحدثان‘‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 7]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
مَالِكُ بنُ أَوْسِ بنِ الحَدَثَانِ بنِ الحَارِثِ بنِ عَوْفٍ النَّصْرِيُّ (ع)الفَقِيْهُ، الإِمَامُ، الحُجَّةُ، أَبُو سَعْدٍ - وَيُقَالُ: أَبُو سَعِيْدٍ - النَّصْرِيُّ، الحِجَازِيُّ، المَدَنِيُّ.۔۔۔ ۔۔۔۔۔قُلْتُ: كَانَ مَذْكُوْراً بِالبَلاَغَةِ وَالفَصَاحَةِ، وَهُوَ قَلِيْلُ الحَدِيْثِ. [سير أعلام النبلاء 4/ 172]۔

پانچویں مثال:
المعین میں تیسرے طبقہ یعنی ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’الحارث بن يزيد العكلي الفقيه‘‘ ہیں ،[المعين فى طبقات المحدثين ص: 10]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(الحارث بن يزيد العكلي خ م ن ق أبو علي التيمي الكوفي الفقيه تلميذ إبراهيم النخعي.) روى عنه مغيرة بن مقسم وخالد بن دينار النيلي وابن عجلان والقاسم ابن الوليد وجماعة. وهو قديم الموت قليل الحديث جداً. وثقه يحيى بن معين.[تاريخ الإسلام للذهبي 8/ 70]۔

چھٹی مثال:
المعین میں پہلے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’عمرو بن عثمان بن عفان الأموي‘‘ ہیں ۔[ المعين فى طبقات المحدثين ص: 7]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(عمرو بن عثمان بن عفان بن أبي العاص) بن أمية القرشي الأموي. روى عن: أبيه، وأسامة بن زيد، وهو قليل الحديث. روى عنه: علي بن الحسين، وسعيد بن المسيب، وأبو الزناد. توفي في حدود الثمانين، وكان زوج رملة بنت معاوية. [تاريخ الإسلام للذهبي 5/ 496]۔


ساتویں مثال:
معین میں چھٹے طبقہ میں ’’محمد بن عبدالرحمن بن أبي ذئب الفقيه‘‘ ہیں،[المعين فى طبقات المحدثين ص: 14]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ (ع) ابْنِ المُغِيْرَةِ بنِ الحَارِثِ بنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَاسْمُ أَبِي ذِئْبٍ: هِشَامُ بنُ شُعْبَةَ. الإِمَام، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو الحَارِثِ القُرَشِيُّ، العَامِرِيُّ، المَدَنِيُّ، الفَقِيْهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَكَانَ قَلِيْلَ الحَدِيْثِ.[سير أعلام النبلاء 7/ 145]۔

آٹھویں مثال:
المعین میں طبقہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی لسٹ میں ’’عثمان البتي الفقيه‘‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 12]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(عثمان البتي الفقيه أبو عمرو البصري بياع البتوت.) اسم أبيه مسلم ويقال أسلم ويقال سليمان، وأصله من الكوفة. روى عن أنس بن مالك وعبد الحميد بن سلمة والشعبي والحسن البصري. وعنه شعبة والثوري هشيم ويزيد بن زريع وابن علية وآخرون. وثقة أحمد والدار قطني وهو قليل الحديث لكنه من كبار الفقهاء.[تاريخ الإسلام للذهبي 8/ 485]۔

نویں مثال:
المعین میں طبقہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی لسٹ میں ’’عبدالله بن شبرمة الفقيه‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 12]

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(عبد الله بن شبرمة، م د ن ق، ابن الطفيل بن حسان أبو شبرمة الضبي الكوفي.) الفقيه عالم أهل الكوفة مع الإمام أبي حنيفة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وهو قليل الحديث[تاريخ الإسلام للذهبي 9/ 194]۔

دسویں مثال:
المعین میں طبقہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی لسٹ میں ’’حميد بن قيس المكي‘‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 12]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(حميد بن قيس ع أبو صفوان المكي الأعرج المقريء.) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدث عنه مالك ومعمر وابن عيينة وطائفة. وثقة أبو داود وغيره وهو قليل الحديث [تاريخ الإسلام للذهبي 8/ 403]۔

تلک عشرہ کاملہ ۔

ان مثالوں کے بعد یہ بات بہت اچھی طرح سے واضح ہوجاتی ہے کہ ’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ میں کسی راوی کے ذکر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ حفاظ کے مقام پر پہنچ گیا۔

ملاحظہ :
یہ بات بھی نوٹ کریں کہ مذکورہ مثالوں میں جنہیں قلیل الحدیث بتلایا گیا ہے ان میں اچھی خاصی تعداد کو ’’فقیہ‘‘ بھی کہا گیاہے۔
.
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قلیل الحدیث کہنے والے لوگ کون ہیں؟؟؟


امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ قلیل الحدیث ہیں یا کثیر الحدیث یہ ہماری تحریر کا موضوع بالکل نہیں تھا اس کے باوجوبھی جمشید صاحب نے جواب میں اس پر بھی بات کرنا ضروری سمجھا اگر جمشید صاحب نے سادہ لفظوں یہ بات کہی ہوتی تو موضوع سے غیر متعلق اس بات کو نظر انداز کرکے ہم آگے بڑھ جاتے مگر آن جناب نے بڑے سخت قسم کے الفاظ میں یہ بات رکھی ہے، لکھتے ہیں:
اورجولوگ امام ابوحنیفہ کو قلیل الحدیث کہتے ہیں وہ جہالت وسفاہت کامظاہرہ اورمجاہرہ دونوں کررہے ہیں۔
دیکھیں اس عبارت میں جن اہل علم نے امام صاحب کو قلیل الحدیث کہا ہے انہیں جہالت و سفاہت کا مرکب بتلایا گیا ہے، اس لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس طعن وتشنیع کی زد کن کن محدثین پر پڑتی ہے۔
تو ملاحظہ فرمائیں ان محدثین عظام کے اسماء جنہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قلیل الحدیث قرار دیا ہے:

امام عبد الله بن المبارك بن المتوفى: 181ھ رحمہ اللہ۔


آپ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شاگردی میں بھی رہ چکے ہیں اورشاگر اپنے استاذ کی کیفیت بہترانداز میں بیان کرسکتا ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ امام ابن عبدالمبارک رحمہ اللہ اپنے استاذ کی حدیث دانی کی بابت کیا گواہی دیتے ہیں:

امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا عبدان بن عثمان قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث [الجرح والتعديل موافق 8/ 449 وسندہ صحیح عبدان ھو الحافظ العالم أبو عبد الرحمن عبدالله بن عثمان بن جبلة بن أبي رواد]

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ثنا محمد بن يوسف الفربري ثنا على بن خشرم ثنا على بن إسحاق قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة في الحديث يتيم [الكامل في الضعفاء 7/ 6 وسندہ صحیح یوسف الفربری من رواۃ الصحیح للبخاری]

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت محمد بن محمود النسائي يقول : سمعت علي بن خشرم يقول : سمعت علي بن إسحاق السمرقندي يقول : سمعت ابن المبارك يقول : كان أبو حنيفة في الحديث يتيما [المجروحين لابن حبان 2/ 331 وسندہ حسن ]


ابوعمر حفص بن غياث المتوفى:194 ھ رحمہ اللہ ۔


امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثني إبراهيم سمعت عمر بن حفص بن غياث يحدث عن أبيه قال كنت أجلس إلى أبي حنيفة فاسمعه يفتي في المسألة الواحدة بخمسة أقاويل في اليوم الواحد فلما رأيت ذلك تركته وأقبلت على الحديث[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 205 واسنادہ صحیح ]۔


امام يحيى بن سعیدالقطان المتوفى: 198ھ ، رحمہ اللہ۔


امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا بن حماد حدثني صالح ثنا على قال سمعت يحيى بن سعيد يقول مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة فقال لي قيس القياس هذا أبو حنيفة فلم أسأله عن شيء قيل ليحيى كيف كان حديثه قال ليس بصاحب [الكامل في الضعفاء 7/ 7 واسنادہ صحیح]۔

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثناه محمد بن عيسى قال حدثنا صالح قال حدثنا علي بن المديني قال سمعت يحيى بن سعيد يقول مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة فقال لي تيس القياس هذا أبو حنيفة فلم أسأله عن شيء قال يحيى وكان جاري بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شيء قيل ليحيى كيف كان حديثه قال لم يكن بصاحب الحديث [ضعفاء العقيلي 4/ 283]۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا البرقاني أخبرنا محمد بن العباس بن حيويه أخبرنا محمد بن مخلد حدثنا صالح بن احمد بن حنبل حدثنا علي يعني بن المديني قال سمعت يحيى هو بن سعيد القطان وذكر عنده أبو حنيفة قالوا كيف كان حديثه قال لم يكن بصاحب حديث[تاريخ بغداد 13/ 445 واسنادہ صحیح]۔


أبو بكر عبد الله بن الزبير الحميدي المتوفى:219 ۔


امام حمیدی رحمہ اللہ کے شاگردامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام [التاريخ الصغير 2/ 43]۔


امام أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي المتوفى: 303ھ رحمہ اللہ۔


آپ فرماتے ہیں:
أبو حنيفة ليس بالقوي في الحديث وهو كثير الغلط والخطأ على قلة روايته [تسمية الضعفاء والمتروکين : 71]۔


امام محمد بن حبان التميمي، البستي، متوفي354ھ رحمہ اللہ۔


امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
وكان رجلا جدلا ظاهر الورع لم يكن الحديث صناعته، حدث بمائة وثلاثين حديثا مسانيد ماله حديث في الدنيا غيرها أخطأ منها في مائة وعشرين حديثا.إما أن يكون أقلب إسناده، أو غير متنه من حيث لا يعلم فلما غلب خطؤه على صوابه استحق ترك الاحتجاج به في الاخبار.[المجروحين لابن حبان: 2/ 321]۔


امام يحيي بن معين، متوفي 359ھ رحمہ اللہ۔


امام عبداللہ بن احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثني أبو الفضل ثنا يحيى بن معين قال كان أبو حنيفة مرجئا وكان من الدعاة ولم يكن في الحديث بشيء [السنة لعبد الله بن أحمد: 1/ 226]۔


امام عبدالله بن عدي الجرجاني، متوفي 365 ھ رحمہ اللہ۔


آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
أبو حنيفة له أحاديث صالحة وعامة ما يرويه غلط وتصاحيف وزيادات في أسانيدها ومتونها وتصاحيف في الرجال وعامة ما يرويه كذلك ولم يصح له في جميع ما يوريه الا بضعة عشر حديثا وقد روى من الحديث لعله أرجح من ثلاثمائة حديث من مشاهير وغرائب وكله على هذه الصورة لأنه ليس هو من أهل الحديث ولا يحمل على من تكون هذه صورته في الحديث [الكامل في الضعفاء 7/ 12]۔


امام أبو عبد الله الحاكم النيسابوري المتوفى: 405ھ رحمہ اللہ۔


آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
النوع الحادي والخمسون : معرفة جماعة من الرواة لم يحتج بحديثهم ولم يسقطوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هذا النوع من هذه العلوم معرفة جماعة من الرواة التابعين فمن بعدهم لم يحتج بحديثهم في الصحيح ولم يسقطوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ومثال ذلك في أتباع التابعين : موسى بن محمد بن إبراهيم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أبو حنيفة النعمان بن ثابت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فجميع من ذكرناهم في هذا النوع بعد الصحابة والتابعين فمن بعدهم قوم قد اشتهروا بالرواية ولم يعدوا في الطبقة الأثبات المتقنين الحفاظ والله أعلم[معرفة علوم الحديث ص: 337]۔

امام ذھبی شمس الدين محمد بن احمد الذهبي، متوفي748 ھ رحمہ اللہ۔


آپ مناقب ابی حنیفہ میں لکھتے ہیں:
قلت: لم يصرف الإمام همته لضبط الألفاظ والإسناد، وإنما كانت همته القرآن والفقه، وكذلك حال كل من أقبل على فن، فإنه يقصر عن غيره [مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ص: 45]۔


تلک عشرۃ کاملہ۔

یہ کل دس محدثین کے حوالہ پیش خدمت یہ تمام کے تمام امام صاحب سے کثرت حدیث دانی کی نفی کررہے ہیں اس فہرست میں ام ابن معین بھی ہیں جو جمشید صاحب کے بقول حنفی ہیں انہوں نے بھی صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’لم يكن في الحديث بشيء ‘‘ اب ایک حنفی محدث اور وہ بھی عظیم الشان محدث کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کیا دشمنی تھی کہ انہوں نے صاف لفظوں میں امام صاحب سے حدیث دانی میں مہارت کی نفی کردی !!!

جمشیدصاحب نے امام صاحب کو قلیل الحدیث کہنے والوں کےحق میں جو سخت زبان استعمال کی ہے کیا اس کی زد میں یہ اجلہ محدثین نہیں آتے ؟؟؟ پھر یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ امام صاحب کوقلیل الحدیث مان لینے میں کیا ان کی توہیں ہے؟؟؟ اس سے قبل والے مراسلے میں قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بہت سارے محدثین کو قلیل الحدیث بھی کہا ہے مگر ان کی جلالت شان اور ان کی عظمت و منقبت کو تسلیم بھی کیا ہے ، لہٰذا امام صاحب کو قلیل الحدیث مان لینے سے امام صاحب کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہے۔

میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کفایت اللہ صاحب کوبھی کوئی عذر نہ ہوگا۔
۔
اگر آپ یہ کہیں امام صاحب ایک بڑے امام تھے ، فقیہ تھے ، نیک تھے ، بزرگ تھے ، دین کی خدمت میں ان کی نیت مخلصانہ تھی ، انہوں نے دین کی خدمت میں اپنی پوری زندگی صرف کردی وغیر وغیرہ تو یقینا مجھے ان باتوں سے اختلاف نہیں ہوگا۔

لیکن میدان حدیث میں ان کا مقام کیا ہے ؟ اس سلسلے میں اسی میدان کے جلیل القدر محدثین نے جو گواہیاں دی ہیں ہم ان کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتے ۔
.
ِآپ کی اس پوری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ میں نے ملون بلون الاحمر سطور کو نقل نہ کرکے کوئی خیانت کی ہے !!!
محترم سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ نقل عبارت میں کسی حصہ کو چھوڑ دینے پر خیانت یا عیب کا الزام اس وقت درست ہوگا جب متروکہ عبارت کے نہ ہونے سے کلام کا مفہوم بدل جائے ۔
لیکن یہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے ۔
ہمارا مقصود یہ تھا کہ امام ذہی نے امام ابوحنیفہ کو ضیعف لین تسلیم کیا ہے اور جس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ بات تسلیم کی ہے وہ ’’قلت ‘‘ کی صراحت کے ساتھ شروع ہوتی ہے ۔
اس ’’قلت‘‘ کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ نے صاف اعلان کیا ہے امام صاحب ہی کی طرح اور بھی بہت سے اہل علم کو حدیث میں لین کہا گیا ہے ۔
اتنی سی بات سے یہ واضح ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لین اورضعیف کہنے جانے پرمعترض نہیں ہیں ورنہ وہ یہاں اس تلیین و تضعیف کی وجہ پیش کرنے کے بجائے اس کی تردید ضرور کرتے جیساکہ حاٍفظ موصوف دیگر مقامات پر ایسا کرتے ہیں ۔

اب اگلے مراسلے میں ہم اپنے نقل کردہ اقتباس کے ماقبل اورمابعد کی عبارتوں کو سامنے رکھ کر وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے ترک سے منقولہ عبارت کے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
.
امام ذہبی رحمہ اللہ کی پوری عبات ماقبل اور مابعد کے ساتھ ملاحظہ ہو:
فصل في الاحتجاج بحديثه اختلفوا في حديثه على قولين، فمنهم من قبله ورآه حجة، ومنهم من لينه لكثرة غلطه في الحديث ليس إلا.
قال علي بن المديني: قيل ليحيى بن سعيد القطان: كيف كان حديث أبي حنيفة؟ قال: " لم يكن بصاحب حديث۔
قلت: لم يصرف الإمام همته لضبط الألفاظ والإسناد، وإنما كانت همته القرآن والفقه، وكذلك حال كل من أقبل على فن، فإنه يقصر عن غيره , من ثم لينوا حديث جماعة من أئمة القراء كحفص، وقالون وحديث جماعة من الفقهاء كابن أبي ليلى، وعثمان البتي، وحديث جماعة من الزهاد كفرقد السنجي، وشقيق البلخي، وحديث جماعة من النحاة، وما ذاك لضعف في عدالة الرجل، بل لقلة إتقانه للحديث، ثم هو أنبل من أن يكذب "۔
وقال ابن معين فيما رواه عنه صالح بن محمد جزرة وغيره: أبو حنيفة ثقة،
وقال أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز، عن يحيى بن معين لا بأس به
وقال أبو داود السجستاني: «رحم الله مالكا كان إماما، رحم الله أبا حنيفة كان إماما»
[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ص: 46]

ملون اورمخطوط حصہ کو ہم نے نقل کیا تھا اورعبارت کے اسی حصہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا فیصلہ موجود ہے جس کی وضاحت میں پچھلے مراسلے میں کرچکا ہوں ۔
اب اسے ماقبل کی عبارت یہ ہے:

ماقبل کی عبارت

فصل في الاحتجاج بحديثه اختلفوا في حديثه على قولين:
فمنهم :
من قبله ورآه حجة۔
ومنهم :
من لينه لكثرة غلطه في الحديث ليس إلا۔
قال علي بن المديني: قيل ليحيى بن سعيد القطان: كيف كان حديث أبي حنيفة؟ قال: " لم يكن بصاحب حديث۔


ام ابوابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث سے احتجاج کا بیان ، آپ کی حدیث سے احتجاج کے سلسلے میں محدثین کے دو قول ہیں:
پہلا قول:
ابوحنیفہ مقبول اور حجت ہیں۔
دوسراقول:
ابوحنیفہ لین الحدیث ہیں کیونکہ حدیث میں یہ بکثرت غلطی کرتے تھے صرف اسی وجہ سے۔
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام یحیی بن سعیدالقطان سے پوچھا گیا کہ ابوحنیفہ کی حدیث کسی ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا :ابوحنیفہ حدیث والے نہ تھے ۔


اس کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس دوسرے قول کی تردید بالکل نہیں کی ہے جب کہ امام ذہبی کا معمول ہے کہ ایسے مواقع پر غیر درست جروح کو رد کردیتے ہیں ،

ایک مثال ملاحظہ ہو:
إبراهيم بن خالد أبو ثور الكلبى.أحد الفقهاء الاعلام.وثقه النسائي والناس.
وأما أبو حاتم فتعنت، وقال: يتكلم بالرأى فيخطئ ويصيب، ليس محله محل المسمعين في الحديث.
فهذا غلو من أبى حاتم، سامحه الله.

[ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 29]۔

لیکن یہاں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کے قول سے ہرگز اختلاف نہیں کیا ہے بلک اس کی تائید کرتے ہوئے اس کی وجہ بھی بتادی ہے کہ امام صاحب کی توجہ اس جانب تھی ہی نہیں جس کے سبب وہ حدیث میں مضبوطی لانے سے قاصر تھے پھر اس قسم کے اور لوگوں کی مثالیں دی ہیں جو حدیث کی طرف مکمل توجہ نہ دینے کے سبب لین الحدیث ہوگئے، اس سے صاف ظاہر ہے امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک امام ابوحنیفہ لین الحدیث و ضعیف الحدیث تھے۔

تنبیہ اول :
جمشید صاحب نے عربی میں پورا اقتباس تو نقل کردیا لیکن ترجمہ کرتے وقت معلوم نہیں کیوں امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کے اس قول کا ترجمہ نہیں کیا ہے جس میں امام یحیی بن سعد رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ پر جرح کی ہے ۔

تنبیہ ثانی :
امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی جو جرح نقل کی ہے وہ بسندصحیح کئی طرق سے ثابت ہے جیساکہ گذشتہ سے پیوستہ مراسلے میں نقل کیا جاچکا ہے، زاہدکوثری نے اس کے صرف ایک طریق پر بے بنیاد جرح کرکے یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ جرح امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ سے ثابت ہیں نہیں ، حالانکہ یہی جرح دیگرطرق سے بھی مروی ہے جس میں وہ راوی ہے ہی نہیں جس پر زاہدکوثری نے بے بنیاد جرح کی ہے۔


مابعد کی عبارت

ثم هو أنبل من أن يكذب۔
وقال ابن معين فيما رواه عنه صالح بن محمد جزرة وغيره: أبو حنيفة ثقة،
وقال أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز، عن يحيى بن معين لا بأس به
وقال أبو داود السجستاني: «رحم الله مالكا كان إماما، رحم الله أبا حنيفة كان إماما»


اب ذرا غورکریں کہ ان اقوال کا حافظ ذھبی کے اپنے اس فیصلہ سے کیا تعلق ہے جسے وہ پہلے پیش کرچکے ہیں ، مابعد کی اس عبارت سے صرف یہ ثابت ہوا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن معین سے توثیق کا قول بھی نقل کیا ہے ، لیکن اس بات کا ثبوت کہاں ہے کہ امام ذھبی رحمہ اللہ اس سے متفق ہیں خصوصا جبکہ امام ذہبی اس سے قبل اپنافیصلہ سنا چکے ہیں !!!

اورامام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنا یہ کوئی اصول نہیں بتایا ہے کہ میں جس قول کو آخر میں پیش کروں وہی میرا موقف ہے ، بلکہ امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ ایسی کسی ترتیب کے پابند نہیں ہیں ، مثلا:

دیوان الضعفاء میں فرماتے ہیں:
ابراہیم بن مھاجر البجلی الکوفی ، ثقة ، قال النسائی : لیس بالقوی ۔[دیوان الضعفاء:ص٢١]۔
غورکریں یہاں امام ذہبی رحمہ اللہ نے پہلے خود فیصلہ کردیا کہ ابراہم ثقہ ہیں اس کے بعد امام نسائی کی تضعیف نقل کی ہے۔
یادرہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو اپنی کتاب ’’من تكلم فيه وهو موثق‘‘ میں نقل کیا ہے دیکھیں:من تكلم فيه وهو موثق ص: 33۔

ایک اور مثال ملاحظہ ہوں ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
إبراهيم بن عبدالله الهروي الحافظ شيخ الترمذي. عنده عن هشيم وبابته.قال أبو داود: ضعيف. قال غير واحد: صدوق.وقال إبراهيم الحربى: متقن تقى.
وقال الدارقطني: ثقة ثبت حافظ قال النسائي: ليس بالقوى. 
[ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 39]۔

غورکریں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے صح کی علامت سے اشارہ دے دیا کہ یہ راوی ثقہ ہے لیکن پھر بھی اخیر میں امام نسائی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :قال النسائي: ليس بالقوى.
اب کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک ابراہیم بن عبداللہ لیس بالقوی ہیں ؟؟؟

اگر ہاں تو پھر اسی راوی کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی دوسری کتاب میں اس طرح لکھا ہے:
إبراهيم بن عبدالله بن حاتم الهروي ثم البغدادي الحافظ عن إسماعيل بن جعفر وهشيم وعنه الترمذي وابن ماجة والفريابي وأبو يعلى وخلق
قال النسائي وغيره ليس بالقوي ووثقه طائفة 
[الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة 1/ 215]۔

اب ذرا غور کریں کہ اسی راوی کے بارے میں اپنی ایک کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے سب سے آخر میں امام نسائی کی جرح نقل کی تھی اور دوسری کتاب میں اسی راوی کا ترجمہ توثیق پر ختم کرتے ہیں !!

اس کے بعد آخر میں (اورآخری کلام ہی عمومامصنف کی مراد سمجھی جاتی ہے)حافظ ذہبی نے یحیی بن معین اورامام ابوداؤد سے امام ابوحنیفہ کی توثیق نقل کی ہے۔
۔
اس کی وضاحت تو کی جاچکی ہے لیکن بطور لطیفہ عرض ہے کہ آخر میں امام ذہبی رحمہ نے کون سا قول نقل کیا ہے ذرا اسے پھر سے پڑھ لیں ، مذکورہ عبارت میں آخری قول آپ کے ترجمہ کے ساتھ پیش خدمت ہے:
وقال ابوداؤد السجسستانی:رحم اللہ مالکاکان اماما،رحم اللہ اباحنیفہ کان اماما۔۔
اورامام ابوداؤد السجستانی کہتےہیں اللہ امام مالک پر رحم کرے وہ امام تھے اللہ امام ابوحنیفہ پر رحم کرے کہ وہ امام تھے ۔

اب آپ کے اصول کے مطابق یہی آخری قول امام ذھبی رحمہ اللہ کا موقف ہونا چاہئے ، پھر یاد رہے کہ ہم نے کبھی بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی امامت سے انکار نہیں کیا ہے ، بلکہ میری اکثر تحروں میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ امام لفظ نظر آئے گا یعنی ہم بھی مانتے ہیں کہ دیگر ائمہ کی طرح یہ بھی ایک امام تھے ۔

مابعدکی عبارت میں توثیق اصطلاحی نہیں ہے۔


اب تک تو ہم نے یہ بتلایا کہ مابعد کی عبارت سے امام ذہبی رحمہ اللہ کے اتفاٖق کی صراحت نہیں ہے ، لیکن اب آئیے یہ واضح کرتے ہیں کہ مابعد کی عبارت میں میں ہے کیا ؟؟؟

تو معلوم ہونا چاہئے کہ اہل فن کبھی کبھی کسی کوثقہ کہتے ہیں تو اس سے مراد اس راوی کو صرف دینداراورسچابتلانا مقصود ہوتاہے ، نہ کہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اصطاحی معنی میں ثقہ ہیں یعنی عادل ہونے کےساتھ ساتھ ضابط بھی ہے، اوراس بات کافیصلہ ناقد کے تمام اقوال کو جمع کرنے کے بعد ہوتاہے ۔
یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ مابعد کی عبارت میں امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے جو توثیق منقول ہے وہ قطع نظر اس کے کہ ثابت ہے یا نہیں، وہ دینداری اور سچائی کے اعتبار سے ہے نہ کہ ضبط اور حفظ کے اعتبار سے کیونکہ ضبط اورحفظ کے اعتبار سے تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے صراحۃ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف کہہ رکھا ہے جس کی تفصل آگے آرہی ہے۔
یہ واضح ہوجانے کے بعد بات صاف ہوگئی کی اس مابعدکی عبارت سے قبل امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام صاحب کی جو تضعیف و تلیین کی ہے وہ اپنی جگہ پر اٹل ہے اور مابعد کی عبارت میں صرف ان کی دیانت داری والی توثیق نقل ہوئی ہے جو تضعیف و تلیین کے منافی ہے ہی نہیں ۔
اس کی پوری تفصیل تو آگے آئے گی لیکن یہاں کا سیاق دیکھ لیں تو وہ بھی اسی بات پر دلالت کرتاہے چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف کرنے کے بعد توثیق کی جوبات نقل کی ہے اس کی شروعات ان لفظوں سے ہوتی ہے :
ثم هو أنبل من أن يكذب۔۔۔
یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جھوٹ بولنے سے پاک ہیں ۔
پھر اس کے بعد فورا ابن معین سے توثیق نقل کی ہے اس سیاق سے صاف ظاہر ہے کہ مابعد کی عبارت میں امام صاحب کی جو توثیق منقول ہے وہ توثیق غیر اصطلاحی ہے، لہٰذا اس عبارت سے امام ذہبی رحمہ اللہ کی تضعیف سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
.
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل ان اقوال کی استنادی حیثیت بھی واضح کردی جائے جنہیں امام ذہبی رحمہ اللہ نے مذکورہ اقتباس میں پیش کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔

امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی جرح ثابت ہے

امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی جوجرح نقل کی ہے وہ ثابت ہے گذشتہ مراسلات میں اس کی صحیح سندیں پیش کی جاچکی ہیں۔
رہی امام ابن معین رحمہ اللہ سے نقل کردہ توثیق تو:

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے جرح کا قول بھی منقول ہے

امام ابن معین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح بھی کر رکھی ہے ، ثبوت ملاحظہ ہو:

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عثمان قال سمعت يحيى بن معين وسئل عن أبي حنيفة قال كان يضعف في الحديث [ضعفاء العقيلي 4/ 284 واسنادہ صحیح]۔

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا بن رزق أخبرنا هبة الله بن محمد بن حبش الفراء حدثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة قال سمعت يحيى بن معين وسئل عن أبي حنيفة فقال كان يضعف في الحديث [تاريخ بغداد 13/ 450 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا على بن احمد بن سليمان ثنا بن أبى مريم قال سألت يحيى بن معين عن أبى حنيفة قال لا يكتب حديثه،[الكامل في الضعفاء 7/ 6 واسنادہ صحیح]۔

ایک ہی امام سے متعارض اقوال کی صورت میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا موقف


جمع وتطبیق

امام ذہبی رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے بعض مقامات پر یہ صراحت کررکھی ہے کہ ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا ، ذیل میں امام ذہبی کی یہ صراحت ملاحظہ ہو:
امام حاکم رحمہ اللہ نے ایک راوی ’’ خارجة بن مصعب الخراسانی‘‘ کی توثیق کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کیا کہ اس توثیق سے مراد یہ ہے کہ اس راوی سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وَقَالَ الحَاكِمُ: هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ -يَعْنِي: مَا هُوَ بِمُتَّهَمٍ-.[سير أعلام النبلاء 7/ 327]۔

معلوم ہوا کہ بعض ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا اور امام ابن معین رحمہ اللہ کی توثیق ابی حنیفہ بشرط ثابت اسی معنی میں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ خود امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف فی الحدیث قرار دے رکھا ہے جیساکے حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔


تساقط قولین

ہماری نظر میں امام ابن معین سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ہی ثابت ہے جیساکہ اوپرتفصیل پیش کی گئی اس کے برخلاف توثیق ثابت نہیں ہے ، جس کی وضاحت آگے آرہی ہے لیکن جو حضرات توثیق کا قول ثابت مانیں انہیں امام ذہبی رحمہ اللہ ہی کے پیش کردہ درج ذیل اصول پر غور کرنا چاہئے۔

عبدالرحمن بن ثابت بن الصامت.عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام يصلى في بنى عبد الاشهل، وعليه كساء ملتف به، يقيه برد الحصا. رواه عنه إبراهيم بن إسماعيل بن أبى حبيبة.قال البخاري: لم يصح حديثه.وقال ابن حبان: فحش خلافه للاثبات فاستحق الترك.وقال أبو حاتم الرازي: ليس عندي بمنكر الحديث، ليس بحديثه بأس.قلت: وروى عنه ابنه عبدالله، وذكره أيضا ابن حبان في الثقات فتساقط قولاه.[ميزان الاعتدال موافق رقم 2/ 552]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا اصول معلوم ہوا کہ ایک ہی راوی سے متعلق اگر کسی ایک ناقد کے دوطرح کے اقوال ہوں تو دونوں اقوال ساقط ہوجائیں گے ۔
دریں صورت خود امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں بھی امام ابن معین رحمہ اللہ کے دونوں قسم کے اقوال مردود ہوگئے۔




امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے توثیق ابی حنیفہ ثابت نہیں

اوپر متعددطرق سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کی ہے ، اس کے برخلاف امام یحیی بن معین سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جو توثیق نقل کی جاتی ہے وہ قطعا ثابت نہیں ، لہذا امام ذہبی رحمہ اللہ کا بھی یہ اصول ہے کہ بے سند جرح کا کوئی اعتبار نہیں ، لہٰذا جب یہ معلوم ہوگیا کہ امام یحیح بن معین رحمہ اللہ سے توثیق ثابت نہیں ہے تو امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتاب میں اس کے نقل ہونے سے یہ بات قابل قبول نہیں ہوسکتی ، جیسا کہ خود مناقب ابی حنیفہ کے محقق نے بھی بلاتامل ان تمام روایا ت کو مردود قرار دیا ہے جو اس کے دعوی کے مطابق بسندصحیح ثابت نہیں ۔

اب ذیل ان روایا ت کا جائز ہ پیش خدمت ہے:

ابن صلت ، کذاب کی روایت

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا التنوخي حدثنا أبي حدثنا محمد بن حمدان بن الصباح حدثنا احمد بن الصلت الحماني قال سمعت يحيى بن معين وهو يسأل عن أبي حنيفة أثقة هو في الحديث قال نعم ثقة ثقة كان والله أورع من أن يكذب وهو أجل قدرا من ذلك [تاريخ بغداد 13/ 450 واسنادہ موضوع]۔

امام یحیی بن معین سے اس قول کا ناقل ’’احمد بن الصلت بن المغلس أبو العباس الحماني وقيل احمد بن محمد بن الصلت ويقال احمد بن عطية‘‘ ہے۔
یہ کذاب و وضاع راوی ہے مدح ابی حنیفہ میں یہ شخص جھوٹی روایات بنا بنا کر ائمہ کی طرف منسوب کی کیا کرتا تھا ، اس کے بارے میں ائمہ فن کی گواہیاں ملاحظہ ہوں:

امام خطیب بغدادی جنہوں نے مدح ابی حنیفہ میں‌ اس کی روایات نقل کی ہیں‌ وہ خود اس کذاب ووضاح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حدث بأحاديث أكثرها باطلة هو وضعها.ويحكى أَيْضًا عَنْ بشر بْن الحارث، ويحيى بْن معين، وعلي ابن المديني، أخبارا جمعها بعد أن صنعها فِي مناقب أَبِي حنيفة.[تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338]۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وما رأيت في الكذابين أقل حياء منه وكان ينزل عند أصحاب الكتب يحمل من عندهم رزما فيحدث بما فيها وباسم من كتب الكتاب باسمه فيحدث عن الرجل الذي اسمه في الكتاب ولا بالي ذلك الرجل متى مات ولعله قد مات قبل ان يولد منهم من ذكرت ثابت الزاهد وعبد لصمد بن النعمان ونظراؤهما وكان تقديري في سنه لما رأيته سبعين سنة أو نحوه وأظن ثابت الزاهد قد مات قبل العشرين بيسير أو بعده بيسير وعبد الصمد قريب منه وكانوا قد ماتوا قبل ان يولد بدهر [الكامل في الضعفاء 1/ 199]۔

امام دارقطنی فرماتے ہیں:
فضائل أبى حنيفة ۔۔۔ موضوع كله كذب وضعه احمد بن المغلس الحماني [تاريخ بغداد 4/ 209 وسندہ صحیح]۔

امام ابونعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت أبو العباس الحماني يروي عن بن أبي أويس والقعنبي وعن شيوخ لم يلقهم بالمشاهير والمناكير لا شيء [الضعفاء للأصبهاني ص: 65]۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ يضع الْحَدِيث [المجروحين لابن حبان 1/ 153]۔


امام أبو الفتح بن أبي الفوارس فرماتے ہیں:
ابْن مغلس كَانَ يضع [تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338 وسندہ صحیح]۔

امام سبط ابن العجمی فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحماني كذاب وضاع[الكشف الحثيث ص: 53]۔

امام أبو الحسن على بن محمد بن العراق الكناني فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانى وضاع[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 33]۔


امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احمد بن الصلت بن المغلس الحماني قبيل الثلاثمائةمتهم وهو احمد بن محمد بن الصلت[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 19]۔
میزان میں فرماتے ہیں:
هالك ،[ميزان الاعتدال 1/ 105]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحمد بن الصلت الحماني هو أحمد بن محمد بن الصلت هالك [لسان الميزان 1/ 188]۔


ابن صلت کذاب کی دوسری روایت


امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا الصيمري أخبرنا عمر بن إبراهيم المقرئ حدثنا مكرم بن احمد حدثنا احمد بن عطية قال سئل يحيى بن معين هل حدث سفيان عن أبي حنيفة قال نعم كان أبو حنيفة ثقة صدوقا في الحديث والفقه مأمونا على دين الله قلت احمد بن الصلت هو احمد بن عطية وكان غير ثقة [تاريخ بغداد 13/ 450 اسناہ موضوع]۔

اس روایت میں بھی اصل ناقل ابن الصلت ہے جس کا تعارف اوپر پیش کیا جاچکاہے۔

ابن سعد العوفی ، ضعیف کی روایت

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا بن رزق حدثنا احمد بن علي بن عمرو بن حبيش الرازي قال سمعت محمد بن احمد بن عصام يقول سمعت محمد بن سعد العوفي يقول سمعت يحيى بن معين يقول كان أبو حنيفة ثقة لا يحدث بالحديث إلا ما يحفظ ولا يحدث بما لا يحفظ [تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادہ ضعیف]۔

اس قول کا ناقل ’’محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد بن جنادة أبو جعفر العوفي‘‘ ہے۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
وكان لينا في الحديث [تاريخ بغداد 5/ 322]۔

امام حاکم فرماتے ہیں:
ومثال ذلك في الطبقة السادسة من المحدثين ۔۔۔ محمد بن سعد العوفي ۔۔۔۔۔۔فجميع من ذكرناهم في هذا النوع بعد الصحابة والتابعين فمن بعدهم قوم قد اشتهروا بالرواية ولم يعدوا في الطبقة الأثبات المتقنين الحفاظ والله أعلم [معرفة علوم الحديث ص: 337]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
محمد بن سعد العوفي عن يزيد وروح لينه الخطيب [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 20]۔

اس روایت میں ایک دوسرا راوی ’’محمد بن احمد بن عصام‘‘ ہے۔
اس کے حالات نامعلوم ہیں۔


ابن محرز، مجہول کی روایت

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
قرأت على البرقاني عن محمد بن العباس الخزاز حدثنا احمد بن مسعدة الفزاري حدثنا جعفر بن درستويه حدثنا احمد بن محمد بن القاسم بن محرز قال سمعت يحيى بن معين يقول كان أبو حنيفة لا بأس به وكان لا يكذب وسمعت يحيى يقول مرة أخرى أبو حنيفة عندنا من أهل الصدق ولم يتهم بالكذب ولقد ضربه بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا[تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادۃ ضعیف]۔

اس قول کا ناقل ’’ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز البغدادی‘‘ ہے۔
اس کے حالات بھی نا معلوم ہیں۔


عباس دوری رحمہ اللہ کی روایت

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا القاضي أبو الطيب طاهر بن عبد الله المطيري حدثنا علي بن إبراهيم البيضاوي أخبرنا احمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقي حدثنا عباس بن محمد الدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول وقال له رجل أبو حنيفة كذاب قال كان أبو حنيفة أنبل من أن يكذب كان صدوقا إلا أن في حديثه ما في حديث الشيوخ [تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادہ ضعیف]۔

اس روایت میں ’’احمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقي‘‘ ہے۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
كل رجاله مشهورون معروفون بالصدق الا بن الجارود فإنه كذاب [تاريخ بغداد مؤافق 2/ 247]۔

امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقال أحمد بن عبد الرحمن بن الجارود، وهو كذاب[تاريخ الإسلام للذهبي 14/ 309 وانظر:المغني في الضعفاء:21]

اورمیزان میں فرماتے ہیں:
ومن بلاياه: حدثنا هلال بن العلاء، حدثنا محمد بن مصعب، حدثنا الأوزاعي، عن ابن لمنكدر، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: جمال الرجل فصاحة لسانه.[ميزان الاعتدال 1/ 116]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی لسان المیران میں اس پر شدیر جروح نقل کی ہیں اور کوئی دفاع نہیں کیا ہے۔ [لسان الميزان 1/ 213]۔


صالح بن محمد الاسدی رحمہ اللہ کی روایت

امام مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَال صالح بن محمد الأسدي الحافظ : سمعت يحيى بن مَعِين يقول : كان أبو حنيفة ثقة في الحديث [تهذيب الكمال مع حواشيه ليوسف المزي 29/ 424 ، لایعرف اسنادہ]۔

یہ قول بے سند ہے لہٰذا بے سود ہے ۔
.
دیوان الضعفاء والمتروکین اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ۔


دیوان الضعفاء کے محقق نے کماحقہ اس کا تعارف کرادیا ہے قارئین دیوان الضعفاء کا مقدمہ ڈاؤن لوڈ کرلیں اور اسے ایک بارمکمل پڑھیں، خصوصا اس کتاب کا صفحہ نمبر ٨ اور صفحہ نمبر١١ پڑھیں ، اس کتاب کی پوری تفصیلات اس میں مل جائے گی ذیل میں ہم مختصر وضاحت کرتے ہیں:

دیوان الضعفاء کے تعلق سے تین باتیں واضح ہونی چاہئے ۔

  • ١: دیوان الضعفاء للذھبی نامی کتاب کا ثبوت ۔
  • ٢:دیوان الضعفاء للذہبی کے موجودہ نسخہ کی صحت نسبت۔
  • ٣:دیوان الضعفاء میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کا وجود۔


دیوان الضعفاء للذھبی نامی کتاب کا ثبوت


یہ بات قطعی ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس نام سے اس کتاب کی تالیف کی ہے اس کے دلائل ملاحظہ ہو:

امام ذہبی رحمہ اللہ :
خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ایک کتاب میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ انہوں نے نے دیوان الضعفاء نامی کتاب لکھی ہے ، چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی کتاب کا جو ذیل لکھا ہے اس میں صاف اعلان کرتے ہیں:
هذا ذيل علي کتابي ديوان الضعفاء التقطته من عدة تواليف [ذيل ديوان الضعفاء: مقدمه ص15].

علامہ تاج الدين عبد الوهاب بن تقي الدين السبكي المتوفى: 771فرماتے ہیں:
وَالْمِيزَان فِي الضُّعَفَاء وَهُوَ من أجل الْكتب ،وَالْمُغني فِي ذَلِك ،وكتابا ثَالِثا فِي ذَلِك ،[طبقات الشافعية الكبرى للسبكي 9/ 104]۔

علامہ يوسف بن تغري بردي، الحنفي، المتوفى: 874ھ نے لکھتے ہیں:
من توالیفہ ’’المغنی‘‘ فی الضعفاء مختصر ومختصر آخر قبلہ [المنهل الصافي بحوالہ مقدمہ دیوان الضعفاء ص:٨]۔

محمد بن عبد الرحمن السخاوي المتوفى: 902ھ فرماتے ہیں:
كما إن للذهبي في الضعفاء مختصراً سماه المغني وآخر سماه الضعفاء المتروكين وذيل عليه[الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ ص: 221]۔

علامہ محمّد بن محمّد بن عبد الرزّاق الحسيني، الزَّبيدي المتوفى: 1205 کی شہادت:
آپ اپنی مشہورکتاب تاج العروس میں فرماتے ہیں:
قُلْتُ: وأوْرَدَهُ الذَّهَبِيُّ فِي دِيوان الضُّعفاءِ [تاج العروس 22/ 177]۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
وَرَأَيْت فِي ديوَان الضُّعَفاءِ للحافظِ الذَّهَبيّ وَهُوَ مُسَوَّدةٌ بخطِّه مَا نصُّه: عبد الرَّحْمَن بن بَهْمَان تابعيٌّ مجهولٌ [تاج العروس 15/ 39]۔
ایک تیسرے مقام پر فرماتے ہیں:
قلت: ورَأَيْتُه فِي دِيوانِ الضُّعَفاءِ للحافِظِ الذَّهَبِي هَكَذَا بمُعْجَمَتَيْن وَهِي نُسخَة المُصَنِّفِ ومُسَوَّدَتُه [تاج العروس 27/ 114]۔

علامہ محمد بن جعفر بن إدريس،الكتاني المتوفى: 1345 فرماتے ہیں:
وكتاب المغني في الضعفاء وبعض الثقات للذهبي في مجلد يحكم على كل رجل بالأصح فيه بكلمة واحدة وهو نفيس جدا وللسيوطي عليه ذيل وللذهبي أيضا ديوان الضعفاء[الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة المشرفة ص: 210]۔

ایک دوسرے مقام پرخود جمشیدصاحب کا اعتراف

بطور مثال ایک نمونہ لیں۔ معمر بن راشد نے اسماعیل بن شروس الصنعانی کے بارے میں کہا کان یثبج الحدیث یعنی وہ حدیث کوٹھیک طورسے ادانہیں کرتاتھا۔ ابن عدی کے یہاں وہ تحریف ہوکر بن گیاکان یضع الحدیث،اس کو حافظ ذہبی نے میزان میں اسی طورپر نقل کیاکان یضع الحدیث پھر اس کو مغنی اوردیوان الضعفاء میں لکھا کذاب،اوربعد والوں نے اسی کواختیار کیا۔
قارئیں غور فرمائیں کہ جمشیدصاحب نے اپنی اس تحریر میں بالجزم کہاہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے’’ دیوان الضعفاء‘‘ میں ایسا لکھا، لیکن اس وقت تک شاید جمشید صاحب کو اس بات کا علم نہ تھا کہ اسی کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ بھی موجود ہے اس معلومات سے قبل آنجاب کے نزدیک یہ کتاب مستند تھی مگر جوں ہی انہیں یہ بتایا گیا کہ اسی کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ بھی موجود ہے یہ معلوم ہوتے ہی موصوف نے یک قلم اس کتاب کی صحت ہی پر سوال اٹھا دیا!!!!!!
اب اس سے ہم کیا سمجھیں قارئین خود فیصلہ کریں۔



دیوان الضعفاء کے موجودہ نسخہ کی صحت نسبت


اس بات میں بھی ذرا شک نہیں ہے کہ دیوان الضعفاء کا موجودہ نسخہ امام ذھبی رحمہ اللہ ہی کا ہے اوریہ بات بھی کتاب کے محقق نے بخوبی واضح کردی ہے معلوم نہیں جمشیدصاحب نے اس سے کیوں نظرپوشی کرلی ، بہرحال عرض ہے کہ اس کتاب کے ناسخ ایک معروف و مشہور محدث ، اوراجازہ کی حیثیت سے امام ذھبی رحمہ اللہ کے شاگردہیں ، اور اس کتاب کو ڈائرکٹ امام ذہبی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں جیساکہ مخطوطہ کے اخیر میں ان کا نام صاف لکھا ہواہے جس کی فوٹو کاپی محقق نے د ے رکھی ہے۔
دریں صورت تو امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف اس کتاب کی نسبت میں ذرا بھی شک نہیں ہے بلکہ یہ چیز تو اس کتاب کی خصوصیات میں شامل ہے جیساکہ کتاب کے محقق ان باتوں کی وضاحت کے بعد لکھتے ہیں:
بالاطلاع علي الصورة الفوتوغرافية للصفحة الأخيرة من هذالکتاب أدرکنا أن الناسخ هو-حماد بن عبدالرحيم بن علي بن حميد الدين أبوالبقا ء بن الجمال بن العلاء بن الفخر المارديني الأصل - المصري الوطن الحنفي المذهب، وهو المعروف کسفله بابن الترکماني وهو تلميذ الذهبي بالاجازة ومن الأئمة الأعلام المشهورين بهذالفن وطلبه کماجاء في ضوء الامع.
وهذه ميزة أخري من ميزات هذا الکتاب فنحمدالله حمدا کثيرا علي ماانعم به وتفضل
 [ديوان الضعفاء: مقدمه ص16].


علامہ تقی الدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن إبراهيم بن مصطفى المارديني حميد الدين الحنفي المعروف بابن التركماني.سمع على الجمال محمد بن محمد محمد بن نباتة الأديب بعض السيرة وعلى ناصر الدين محمد بن إسماعيل بن جهبل المحمدين من معجم ابن جميع.واسمع من مشايخ عصره ثم طلب بنفسه من القلانسي وطبقته.وأجاز له الحافظ الذهبي ومن في عصره.
ومات في سنة تسع عشرة وثمان مائة بالقاهرة ومولده سنة خمس وأربعين وسبعمائة.
[ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد 1/ 519]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن إبراهيم بن مصطفي المارديني الحنفي حميد الدين بن جمال الدين بن قاضي القضاء علاء الدين. ولد سنة ٧٤٥ وأجاز له الذهبي ومن كان في ذلك العصر في استدعاء كتب فيه اسمه سنة سبع وأربعين" ثم قال: "وكان شديد المحبة للحديث وأهله ولمحبته فيه كتب كثيرا من تصانيفه كتغليق التعليق وتهذيب التهذيب ولسان الميزان وغير ذلك ومات سنة ٨١٩" ا.ھ۔[معجم الحافظ ابن حجر، بحوالہ حاشیہ لحظ الألحاظ بذيل طبقات الحفاظ 1/ 82]۔

حافظ تقي الدين بن فهد المكي لکھتے ہیں:
وبالقاهرة المحدث حميد الدين حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن التركماني المصري الحنفي[ لحظ الألحاظ بذيل طبقات الحفاظ1/ 173]۔

امام سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن إبراهيم بن مصطفى بن سليمان حميد الدين أبو البقاء بن الجمال بن العلا بن الفخر المارديني الأصل المصري الحنفي ويعرف كسلفه بابن التركماني وهو حفيد قاضي الحنفية العلاء مختصر ابن الصلاح وصاحب التصانيف واسمه عبد الحميد ولكنه بحماد أشهر. ولد في رمضان سنة خمس وأربعين وسبعمائة وأسمع من مشايخ عصره ثم طلب بنفسه فسمع من القلانسي والجمال ابن نباتة وناصر الدين محمد بن إسماعيل بن جهبل ومظفر الدين بن العطار والطبقة؛ وقرأ بنفسه وكتب الطباق ولازم القيراطي، وكتب عنه أكثر شعره ودونه في الديوان الذي كان ابتدأه لنفسه ثم رحل إلى دمشق فسمع بها وأكثر من المسموع في البلدين ومن مسموعه على ابن نباتة أشياء من نظمه وبعض السيرة لابن هشام وعلي القلانسي نسخة إسماعيل بن جعفر بسماعه من ابن الطاهري وابن أبي الذكر بسماعه من ابن المقير وأجازه الآخر من القطيعي وعلي ابن جهبل المحمدين من معجم ابن جميع أنابه ابن القواس ومن شيوخه أيضاً المحب الخلاطي وأحمد بن محمد العسقلاني ولكن قيل إنه لما رحل لدمشق كتب السماع وأنه سمع قبل الوصول واعتذر عن ذلك بالاسراع؛ ولذا كان الحافظ الهيثمي يقع فيه وينهى عن الأخذ عنه؛ قال شيخنا والظاهر انه انصلح بأخرة وأجاز له الذهبي والعز بن جماعة. قال شيخنا ولازم السماع حتى سمع معنا على شيوخنا وقد خرج لبعض المشايخ يعني عبد الكريم حفيد القطب الحلبي وسمعت منه من شعر القيراطي؛ وكان شديد المحبة للحديث وأهله ولمحبته فيه كتب كثيراً من تصانيفي كتعليق التعليق وتهذيب التهذيب، ولسان الميزان وغير ذلك ورأس في الناس مدة لستوته، وكانت بيده وظائف جمة فلا زال ينزل عنها شيئاً فشيئاً إلى أن افتقر وقلت ذات يده فكان لعزة نفسه يتكسب بالنسخ بحيث كتب الكثير جداً ولا يتردد إلى القضاة، وقد أحسن إليه الجلال البلقيني على يد شيخنا قال فما أظنه وصل لبابة؛ وخطه سريع جداً لكنه غير طائل لكثرة سقمه وعدم نقطه وشكله، ولا زال يتقهقر إلى أن انحط مقداره لما كان يتعاطاه؛ وساء حاله وقبحت سيرته، حتى مات مقلاً ذليلاً بعد أن أضر بأخرة في طاعون سنة تسع عشرة بالقاهرة، وحدث أخذ عنه الأئمة كشيخنا وأورده في معجمه دون أنبائه وروى لنا عنه جماعة كالزين رضوان والموفق الأبي وحدثني بشيء من نظم ابن نباتة بواسطته. وذكره المقريزي في عقوده.[الضوء اللامع 2/ 82، ]۔


کتاب کے محقق نے امام سخاوی کی کتاب الضوء الامع سے ناسخ کا مکمل ترجمہ مختصرا پیش کیا ہے ملاحظہ ہو مقدمہ دیوان الضعفاء صفحہ ١٠ ، ١١۔


دیوان الضعفاء میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کا وجود۔


جب یہ معلوم ہوگیا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب دیوان الضعفاء ایک ثابت شدہ کتاب ہے اور موجودہ نسخہ بھی مستند ہے تو عرض ہے کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکر موجود ہے، کتاب اور نسخہ کے ثابت ہونے کے بعد اس کے الحاق کا بچکانہ دعوی کرنا محض تعصب اور اندھی عقیدت ہے، اور علم وتحقیق کی دنیا میں اس قسم کے پھسپھسے دعوے بے حقیت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضحکہ خیزبھی ہیں ۔
میزان الاعتدلال میں تو احناف نے یہ عذرلنگ پیش کیا کہ بعض نسخوں میں یہ ترجمہ نہیں ہے اس لئے یہ الحاقی ہے لیکن کیا دیوان الضعفاء کے کسی دوسرے نسخے میں بھی امام صاحب کا ترجمہ غائب ہے ؟؟؟؟؟؟

نیز اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ میں جوبات نقل ہوئی ہے وہ ائمہ فن سے ثابت ہے اوران کی اپنی کتاب میں موجود ہے لہٰذا اس پہلو سے بھی اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔

نیز امام ذہبی رحمہ اللہ کی یہ کتاب’’دیوان الضعفاء ‘‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ کا اختصار ہے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وابن الجوزي واختصره الذهبي بل وذيل عليه في تصنيفين [الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ ص: 221] ۔

خود امام ذھبی بھی لکھتے ہیں:
أبو الفرج بن الجوزى كتابا كبيرا في ذلك كنت اختصرته أولا، ثم ذيلت عليه ذيلا بعد ذيل.[ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 2]۔

اب دیوان الضعفاء جس اصل کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ لابن الجوزی کا اختصار ہے اس اصل کتاب میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ موجود ہے بلکہ وہ اصل عبارت بھی موجود ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے مختصرا دیوان میں درج کیا ہے ۔
سب سے پہلے دیوان کی عبارت ملاحظہ ہو:
النعمان الامام رحمه الله. قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث کثير الغلط علي قلة روايته وقال ابن معين: لا يکتب حديثه [ديوان الضعفاء والمتروکين، ص:٤١١ ، ٤١٢]۔

اب اصل کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ لابن الجوزی کی عبارت ملاحظہ ہو:

النعمان بن ثابت أبو حنيفة قال سفيان الثوري ليس بثقة وقال يحيى بن معين لا يكتب حديثه وقال مرة اخرى هو انبل من ان يكذب وقال النسائي ليس بالقوي في الحديث وهو كثير الغلط والخطأ على قلة روايته وقال النضر بن شميل هو متروك الحديث وقال ابن عدي عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وليس من اهل الحديث [الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي 3/ 163]۔

قارئین ذرا ٹھنڈے دل سے دونوں کتاب کی عبارتوں کا موازنہ کریں امام ذہبی رحمہ اللہ نے اختصار کے ساتھ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب سے جو نقل کیا ہے وہ حرف بحرف اصل کتاب میں موجود ہے۔

ان تمام حقائق کے بعد بھی اگر کوئی انکار کرے تو قارئین سمجھ جائے ایسا شخص کس قدرمظلوم ہے ۔


لطیفہ :
لطف تو یہ ہے کہ اس کتاب کے ناسخ ایک معروف مشہور حنفی عالم ہیں آخرانہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کیا دشمنی تھی کہ انہوں نے اس کتاب میں مستقل ان کے ترجمہ کا اضافہ کردیا؟؟؟؟؟ ایک حنفی عالم کی طرف سے اس کتاب کا نسخ اس بات کا قوی سے قوی تر ثبوت ہے کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی نہیں ہے ۔
.
دیوان الضعفاء میں ترجمہ امام ابوحنیفہ کے وجود پر
ایک اور زبردست شہادت


علامہ زين الدين ،عبد الرؤوف المناوي القاهري المتوفى: 1031ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والنعمان بن ثابت إمام أورده الذهبي في الضعفاء وقال: قال ابن عدي ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله أحاديث صالحة[فيض القدير 1/ 399]۔

قارئیں اگر دیوان الضعاء کی طرف مراجعت کریں گے تو اس میں یہی عبارت حرف بحرف موجود ملے گی، والحمدللہ۔
.
امام ذہبی رحمہ اللہ کی کسی ایک ہی کتاب میں تضعیف رواۃ کی چند مثالیں


جمشید صاحب نے اگلے مراسلات میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تضعیف امام ذہبی رحمہ اللہ کی صرف ایک ہی کتاب میں ملتی ہے ہے لہذا یہ مشکوک ہے ، اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تضعیف امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتابوں میں سے صرف ایک کتاب میں ملتی ہے ، بلکہ صرف مجھ کم علم کی معلومات کے مطابق امام ذہبی رحمہ اللہ کی چار کتابوں (میزان ، مغنی ، دیوان الضعفاء اور مناقب ابی حنیفہ) میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعف موجود ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی صرف ایک ہی کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف موجود ہے تو اس بنا پر اس کتاب موجود تضعیف کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ دوسری کتب میں موجود نہیں ہے!!! آج تک کسی نے یہ اصول پیش نہیں کیا ہے !!!
قارئین خود غورکریں کہ ایک ہی مصنف کی ہرکتاب میں اگر ہربات کا ہونا ضروی ہے تو بھلا بتلائیں کہ پھر مصنف کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ پھر اسی چیز کو دوسری کتابوں میں بھی دہرائے ، ایک مصنف جب کئی کتب لکھتا ہے تو اس کا فائدہ ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کتاب کچھ مزید باتیں ہیں جودوسری کتب میں نہیں ۔

مثال کے طور پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے ضعفاء پر تین کتابیں لکھی ہیں ۔
  • ١: ميزان الاعتدال في نقد الرجال۔
  • ٢:المغني في الضعفاء للذهبي ۔
  • ٣:ديوان الضعفاء والمتروكين۔

لیکن ان تینوں کتا بوں میں بعض ایسے رواۃ کا ذکر ہے جو بقیہ دو کتابوں میں نہیں ۔
صرف یہی نہیں بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی چند دیگرکتب میں بعض ایسے رواۃ کی تضعیف مذکور ہے جن کی تضعیف مذکورہ تینوں کتابوں میں سے کسی میں بھی مذکور نہیں ۔
ذیل میں ہم ایسی چند مثالیں پیش کرتے ہیں جن میں کسی راوی کے تعلق سے امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف سے تضعیف کا ذکر امام ذہبی رحمہ اللہ کی کسی خاص کتاب میں ہی ملتا ہے ، لیکن آج تک کسی نے ان کا انکار نہیں کیا ملاحظہ ہو:

پہلی مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ تاریخ الاسلام میں فرماتے ہیں:
قُلْتُ: أَكْثَرُ مَنْ يَرْوِي عَنْهُ ثِقَاتٌ فِيمَا عَلِمْتُ، لَكِنِ الْحَارِثَ بْنَ وَجِيهٍ وَنَابِتَةَ ضُعَّفَا.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 489]۔
اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’نابتہ نامی راوی ‘‘ کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ کی دوسری کسی کتاب میں اس تضعیف کا ہونا تو دور کی بات سرے سے اس کا تذکرہ ہی نہیں ہے ۔

دوسری مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’تاریخ الاسلام ‘‘ میں فرماتے ہیں:
شَيْطَانُ الطَّاقِ، هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي طَرِيفَةَ الْبَجَلِيُّ، أَبُو جَعْفَرٍ الْكُوفِيُّ الْمُتَكَلِّمُ الْمُعْتَزِلِيُّ الشِّيعِيُّ الْمُبْتَدِعُ،[تاريخ الإسلام ت بشار 4/ 652]۔
اس راوی کا تذکرہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے (ذات النقاب في الألقاب41) میں بھی کیا ہے مگر ضعفاء والی کتابوں میں مجھے اس کا ذکر نہیں ملا۔

تیسری مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ’’ تنقیح‘‘ میں فرماتے ہیں:
عن المنهال بن الجراح ، عن حبيب بن نجيح ، عن عبادة بن نسيٍّ ، عن معاذ بن جبل ' أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره حين وجهه إلى اليمن أن لا يأخذ من الكسر شيئاً حتَّى يبلغ أربعين درهماً ؛ فإذا بلغت أربعين درهماً ، فخذ منها درهماً ' قال الدارقطنيُّ : المنهالُ متروكٌ [تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق 1/ 340]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے’’منهال‘‘ کی تٍضعیف ذکر کی ہے ، لیکن اس کاتذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔


چوتھی مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ تاریخ الاسلام میں فرماتے ہیں:
وقد روى عنه أبو بكر بن العربي الإمام صحيح البخاري، بروايته عن الحفصي، فيما حكى ابن الحداد الفاسي، ولم يكن هذا بثقة، فالله أعلم.[تاريخ الإسلام للذهبي 35/ 128]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن الحداد الفاسی کو غیرثقہ کہا ہے ، لیکن اس کا تذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔

پانچویں مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ سیر میں فرماتے ہیں:
ثُمَّ قَالَ الخَطِيْبُ: أَنْبَأَنَا الحَسَنُ بنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنْبَأَنَا الحَسَنُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ يَحْيَى العَلَوِيُّ، حَدَّثَنِي جَدِّي يَحْيَى بنُ الحَسَنِ بنِ عُبَيْدِ اللهِ بنِ الحُسَيْنِ بنِ عَلِيِّ بنِ الحُسَيْنِ، قَالَ:كَانَ مُوْسَى بنُ جَعْفَرٍ يُدْعَى: العَبْدَ الصَّالِحَ؛ مِنْ عِبَادتِه وَاجْتِهَادِه.رَوَى أَصْحَابُنَا: أَنَّهُ دَخَلَ مَسْجِدَ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَسَجَدَ سَجْدَةً فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، فَسُمِعَ وَهُوَ يَقُوْلُ فِي سُجُوْدِه: عَظُمَ الذَّنْبُ عِنْدِي، فَلْيَحْسُنِ العَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ، يَا أَهْلَ التَّقْوَى، وَيَا أَهْلَ المَغْفِرَةِ.فَجَعَلَ يُرَدِّدُهَا حَتَّى أَصْبَحَ.وَكَانَ سَخِيّاً، كَرِيْماً، يَبلُغُه عَنِ الرَّجُلِ أَنَّهُ يُؤذِيْه، فَيَبعَثُ إِلَيْهِ بِصُرَّةٍ فِيْهَا أَلفُ دِيْنَارٍ، وَكَانَ يَصُرُّ الصُّرَرَ بِثَلاَثِ مائَةِ دِيْنَارٍ، وَأَرْبَعِ مائَةٍ، وَمائَتَيْنِ، ثُمَّ يَقسِمُهَا بِالمَدِيْنَةِ، فَمَنْ جَاءتْه صُرَّةٌ، اسْتَغنَى.حِكَايَةٌ مُنْقَطِعَةٌ، مَعَ أَنَّ يَحْيَى بنَ الحَسَنِ مُتَّهَمٌ.[سير أعلام النبلاء 6/ 271]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے یحیی بن الحسن کو متہم قراردیا ہے ، لیکن اس کاتذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔

چھٹی مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ دیوان میں فرماتے ہیں:
اسماعیل بن محمدبن مجمع ، قال ابن معین ہو وابوہ ضعیفان[دیوان الضعفاء:ص ٣٧]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن مجمع کی تٍضعیف ذکر کی ہے ، لیکن اس کاتذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی بقیہ دو کتابوں میں نہیں ملا۔

ساتویں مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ تلخیص میں ’’محمد بن عبيد بن أبي صالح‘‘ والی سند پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
على شرط مسلم كذا قال يعني الحاكم قلت ومحمد بن عبيد لم يحتج به مسلم وقال أبو حاتم ضعيف[المستدرك على الصحيحين للحاكم مع التلخیص: 2/ 216]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن مجمع کی تٍضعیف ذکر کی ہے ، لیکن اس کاتذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔

آٹھویں مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ علو میں ’’ابوکنانہ محمد بن الاشرس الانصاری‘‘ والی سند پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فأما عن أم سلمة فلا يصح لأن أبا كنانة ليس بثقة وأبو عمير لا أعرفه [العلو للعلي الغفار ص: 81]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ابوکنانہ محمد بن الاشرس الانصاری‘‘ کو غیرثقہ کہا ہے ، لیکن اس کا تذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔

تنبیہ :
میزان و مغنی میں أبو عبد الله محمد بن اشرس السلمي نيسابوري نام کا جو راوی ہے وہ دوسرا ہے ۔
امام خطیب فرماتے ہیں:
محمد بن أشرس اثنان أحدهما محمد بن أشرس ابن عمرو القتباني الكوفي ۔۔۔ ۔۔۔ والآخر محمد بن أشرس ابن موسى أبو عبدالله السلمي النيسابوري[المتفق والمفترق للخطيب البغدادي 3/ 229]۔


ان مثالوں میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایسے رواۃ کی تضعیف ذکر کی ہے جن رواۃ کی تضعیف کو خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ضعفاء والی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اب تک کسی نے ان مخصوص کتابوں کی تضعیفات کا انکار نہیں کیا ہے۔
.
المغنی میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف کا وجود۔



۔

اس کا اصل جواب تو اوپر دیا جاچکا ہے کہ اس میں امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف سے کسی راوی کا درج نہ کرنا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان کی دوسری کتاب میں بھی اس کا وجود نہیں ہوتا ، متعدد رواۃ کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی دوسری کتب میں ضعیف قرار دیا ہے لیکن مغنی میں ان کا نام ونشان تک نہیں جیساکہ چند مثالیں اوپر پیش کی گئی ہیں ، اس کے باوجود بھی آج تک کسی نے دعوی نہیں کیا کہ جن رواۃ کی تضعیف مغنی میں نہیں ہے امام ذہبی رحمہ اللہ کی دیگر کتب میں ان کا ترجمہ الحاقی ہے ۔
ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب مغنی میں بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف منقول اور اور آج تک کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے ، ملاحظہ ہو:

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت ،قال ابن عدي ثلاثتهم ضعفاء [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 37]۔
یعنی اسماعیل اور ان کے والد حماد اور ان کے والد ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ، ان سب کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ تینوں ضعیف تھے۔

قارئین آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ایک ہی جملہ میں پورے خاندان باپ ، بیٹے اور پوتے تینوں کو ضعیف قرار دیا ہے اور امام ذہبی رحمہ نے برضاء و رغبت اس جملے کو اپنی اسی کتاب ضعفاء میں نقل کردیا ہے، اس لئے یہ کہنا کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر نہیں محض قارئین کو دھوکہ دینا ہے۔

واضح رہے کہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کی تضعیف کو مستقل الگ ذکر نہیں کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کتاب میں دوسرے رواۃ کے ترجمہ کے بضمن موجود ان کی تضعیف سے نظر پوشی کرلی جائے اور بے دھڑک کہہ دیائے کہ اس کتاب میں امام صاحب کا ذکر ہی نہیں ۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے کئی رواۃ سے متعلق یہ طرز عمل اپنایا ہے کہ ان کی تضعیف کو مستقل الگ سے ذکر نہیں کیا ہے لیکن دیگر رواۃ کے ضمن میں ان کی تضعیف کردی ہے اس کی چندمثالیں ملاحظہ ہوں:

پہلی مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ میزان میں ’’ سعيد بن زرعة‘‘ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سعيد بن زرعة [ ت ].عن ثوبان في حب الدنيا.وعنه حسن ابن همام - مجهولان. [ميزان الاعتدال موافق رقم 2/ 136]۔

قارئین غورکریں کہ اس ترجمہ کے بضمن امام ذہبی رحمہ اللہ حسن بن ہمام کو بھی مجہول بتلارہے ہیں لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس پوری کتاب میں ’’حسن بن ہمام ‘‘ کا تذکرہ الگ سے کہیں نہیں ذکر کیا ہے اور میرے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی دوسری کتاب میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیاہے۔ لیکن کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو میزان میں ’’مجہول‘‘ بتلایا ہے؟؟؟؟؟؟

دوسری مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ دیوان میں فرماتے ہیں:
اسماعیل بن محمدبن مجمع ، قال ابن معین ہو وابوہ ضعیفان[دیوان الضعفاء:ص ٣٧]۔
اس ترجمہ کے بضمن بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن مجمع کے لئے بھی امام ابن معین رحمہ اللہ سے تضعیف نقل کی ہے اور اسے منظور فرمایاہے ، ، لیکن اس پوری کتاب میں کہیں بھی اس کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیا ہے، اور میرے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی دوسری کتاب میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیاہے۔ لیکن کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو دیوان میں ’’ضعیف‘‘ بتلایا ہے؟؟؟؟؟؟

تیسری مثال:
خود اسی کتاب مغنی ہی کو دیکھ لیں اس میں امام ذہبی رحمہ اللہ ’’عبدالله بن غزوان‘‘ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عبد الله بن غزوان عن عمرو بن سعد هو وشيخه مجهولان[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 33]۔

اس ترجمہ کے بضمن بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے عمروبن سعد کو ’’مجہول‘‘ کہا ہے ، لیکن اس پوری کتاب میں کہیں بھی اس کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیا ہے، اور میرے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی دوسری کتاب میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیاہے۔ لیکن کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو مغنی میں ’’مجہول‘‘ بتلایا ہے؟؟؟؟؟؟

چوتھی مثال:
اسی کتاب مغنی میں امام ذہبی رحمہ اللہ ’’حريش بن يزيد‘‘ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حريش بن يزيد عن جعفر بن محمد وعنه ابنه محمد قال الدارقطني هما ضعيفان [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 73]۔

اس ترجمہ کے بضمن بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن حريش بن يزيد کے لئے بھی امام دارقطنی رحمہ اللہ سے تضعیف نقل کی ہے اور اسے منظور فرمایاہے ، ، لیکن اس پوری کتاب میں کہیں بھی اس کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیا ہے، اور میرے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی دوسری کتاب میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیاہے۔ لیکن کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو مغنی میں ’’ضعیف‘‘ بتلایا ہے؟؟؟؟؟؟

ان مثالوں سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کبھی کبھی دوسرے رواۃ کے تراجم کے بضمن بھی کسی راوی کی تضعیف کرتے ہیں اور اس کتاب مغنی میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام بوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے ، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتاب مغنی میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف موجود ہے۔
.
میزان الاعتدلال میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف


جمشیدصاحب لکھتے ہیں:
اسی طرح حافظ ذہبی کی ضعفاء پر لکھی گئی مشہور عالم کتاب میزان الاعتدال میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں ہے جیساکہ اس کے دلائل میں اپنے مضمون مین دے چکاہوں۔
ہم کہتے ہیں یہ بات درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نہ صرف یہ کہ میزان میں تذکرہ ہے بلکہ میزان میں دوجگہ پر ان کی تضعیف بھی منقول ہے ان دوجگہوں میں سے ایک مقام کی عبارت کو بعض احناف الحاقی قرار دیتے ہیں ، اس پر تفصیل آگے آئے گی لیکن میزان ہی میں دوسرے مقام پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جو تضعیف موجود ہے ، اس کا انکار آج تک کسی نے نہیں کیا ہے نہ احناف نے نہ کسی اورنے !!
اس لئے ہم سب سے پہلے قارئین کے سامنے میزان سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف پیش کرتے ہیں:

امام ذہبی رحمہ اللہ میزان میں لکھتے ہیں:
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفى. عن أبيه. عن جده. قال ابن عدى: ثلاثتهم ضعفاء. [ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 226]۔
یعنی اسماعیل اور ان کے والد حماد اور ان کے والد ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ، ان سب کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ تینوں ضعیف تھے۔

قارئین آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ایک ہی جملہ میں پورے خاندان باپ ، بیٹے اور پوتے تینوں کو ضعیف قرار دیا ہے اور امام ذہبی رحمہ نے برضاء و رغبت اس جملے کو اپنی کتاب میزان میں نقل کردیا ہے، اس لئے یہ کہنا کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر نہیں محض قارئین کو دھوکہ دینا ہے۔

واضح رہے کہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کی تضعیف کو مستقل الگ سے بھی ذکر کیا ہے جسے احناف الحاقی کہتے ہیں لیکن اگر بفرض محال وہ عبارت الحاقی ہے تو اس کے باجود بھی اس عبارت میں جسے ہم نے دوسری جگہ سے پیش کیا ہے اس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف موجود ہے ۔
لہذا اگر جدلا مان لیا جائے کہ امام صاحب کاترجمہ علیحدہ طور پر میزان میں نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کتاب میں دوسرے رواۃ کے ترجمہ کے بضمن موجود ان کی تضعیف سے نظر پوشی کرلی جائے اور بے دھڑک کہہ دیائے کہ اس کتاب میں امام صاحب کا ذکر ہی نہیں ۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے کئی رواۃ سے متعلق یہ طرز عمل اپنایا ہے کہ ان کی تضعیف کو مستقل الگ سے ذکر نہیں کیا ہے لیکن دیگر رواۃ کے ضمن میں ان کی تضعیف کردی ہے اس کی چندمثالیں گذشتہ مراسلہ میں پیش کی جاچکی ہے ۔
.
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مستقل ترجمہ


میزان میں ایک مقام پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف تو موجود ہے جس کا انکار آج تک کسی نے نہیں کیا لیکن اسی میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ان کے مستقل ترجمہ کے ساتھ موجود ہے،

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
النعمان بن ثابت [ت، س] بن زوطى، أبو حنيفة الكوفي.إمام أهل الرأى.ضعفه النسائي من جهة حفظه، وابن عدي، وآخرون.وترجم له الخطيب في فصلين من تاريخه، واستوفى كلام الفريقين معدليه ومضعفيه.[ميزان الاعتدال 4/ 265]۔

اس عبارت پر بعض حضرات کا اعتراض ہے کہ یہ الحاقی ہے لیکن اس کی کوئی مستنددلیل اب تک پیش نہیں کی گئی ہے ،محض شبہات اٹھائے گئے ہیں جن کی حقیقت آگے بیان ہوگی یہاں ہم چند ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی نہیں ہے۔

اولا:
خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے مقدمہ میں اشارہ دے دیا ہے کہ اس کتاب میں امام حنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ پورے انصاف کے ساتھ ہوگا ، امام ذہبی رحمہ اللہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
وكذا لا أذكر في كتابي من الأئمة المتبوعين في الفروع أحدا لجلالتهم في الإسلام وعظمتهم في النفوس، مثل أبي حنيفة، والشافعي، والبخاري، فإن ذكرت أحدا منهم فأذكره على الإنصاف
[ميزان الاعتدال 1/ 3]۔

خط کشیدہ الفاظ پر دھیان دیں اس میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگرکسی کا ذکر کروں گا تو پورے انصاف کے ساتھ کروں ، یہ عبارت اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ اسی کتاب میں ائمہ متبوعین میں سے میں سے کسی نہ کسی کا تذکرہ لازمی طور پر ہوگا، ورنہ امام ذہبی رحمہ اللہ اس استثناء کی بات کرتے ہی نہیں بلکہ صاف کہہ دیتے ائمہ متبوعین میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں کروں گا، لیکن چونکہ امام ذھبی رحمہ اللہ کو ائمہ متبوعین میں سے کسی کا تذکرہ کرنا تھا اس لئے اس استثناء کو ذکر دیا۔
اب جب ہم میزان کے تمام نسخوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ائمہ متبوعین میں سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ دوسرے امام کا کسی بھی نسخہ میں نام ونشان نہیں بلکہ صرف امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ ہی کا تذکرہ ملتاہے اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہیں کہ یہی وہ امام ہیں جن کا ذکرکرنے کے لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنے کلام میں استثناء پیش کیا تھا ، اوراپنی اس بات کے مطابق واقعی امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں امام صاحب کاتذکرہ کیاہے، اورکمال انصاف سے کام لیتے ہیں ہوئے ان کے ضعیف الحفظ کے بارے میں اقوال نقل کئے ہیں ، اور دیگر اقوال کے بارے میں صرف اشارہ کردیا ہے کیونکہ مقصود امام صاحب کو ضعیف الحفظ بتلانا تھا جو مبنی برانصاف بات ہے ۔
رہے ان کے فضائل ومناقب تو یہ اس کتاب کا موضوع نہ تھا اس لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ نہ کیا ۔

ثانیا:
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’دیوان الضعفاء ‘‘ میں امام کی تضعیف جس انداز میں ذکر کی بعینہ اسی کا خلاصہ اس کتاب میں مذکور ہے، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عبارت امام ذہبی رحمہ اللہ ہی کی ہے۔
دیوان الضعفاء کی عبارت یہ ہے:
النعمان الامام رحمه الله. قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث کثير الغلط علي قلة روايته وقال ابن معين: لا يکتب حديثه [ديوان الضعفاء والمتروکين، ص:٤١١ ، ٤١٢]۔
اورمیزان کی عبارت یہ ہے:
النعمان بن ثابت [ت، س] بن زوطى، أبو حنيفة الكوفي.إمام أهل الرأى.ضعفه النسائي من جهة حفظه، وابن عدي، وآخرون.وترجم له الخطيب في فصلين من تاريخه، واستوفى كلام الفريقين معدليه ومضعفيه.[ميزان الاعتدال 4/ 265]۔

دونوں عبارتوں کے خط کشیدہ حصہ پر غور کریں معنوی طور پر بالکل یکسانیت ہے۔
معلوم ہوا کہ میزان میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی بات کو مختصرا پیش کیا ہے جسے وہ ’’دیوان الضعفاء ‘‘ میں پیش کرچکے ہیں، لہذا یہ عبارت امام ذہبی رحمہ اللہ ہی کی ہے۔

ثالثا:
علامہ ابن الوزير، محمد بن إبراهيم بن علي بن المرتضى بن المفضل الحسني القاسمي المتوفى: 840 ھ فرماتے ہیں:
وقد أشار الذّهبي إلى الاعتذار عن ذكر الإمام أبي حنيفة وأمثاله, وإلى أنّه لا قدح عليه بما ذكر فيه من الاختلاف, فقال في خطبة ((الميزان)) : ((وكذا لا أذكر من الأئمة /المتبوعين في الفروع أحداً لجلالتهم في الإسلام, وعظمتهم في النّفوس, فإن ذكرت أحداً منهم فأذكره على الإنصاف, وما يضرّه ذلك عند الله, ولا عند النّاس, إنّما يضر الإنسان الكذب, والإصرار على كثرة الخطأ, والتّجرّي على تدليس الباطل, فإنّه خيانة وجناية, فالمرء المسلم يطبع على كلّ شيء إلا الخيانة والكذب)). انتهى كلامه.[الروض الباسم في الذب عن سنة أبي القاسم - صلى الله عليه وسلم - 2/ 325]۔

اس عبارت میں علامہ ابن الوزیر رحمہ اللہ کی طرف سے صاف اشارہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ پیش کیاہے ورنہ وہ عذر کی بات نہ کرتے ، یہ بھی ایک زبردست ثبوت ہے کہ میزان میں امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کا ترجمہ موجود ہے ۔

رابعا:
اب تک میزان کی جتنی طبعات ہوئی ہیں سب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ موجود ہے حالانکہ سب کے محقق الگ الگ ہیں اورکسی ایک بھی محقق نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی ہے ، انڈیا کے قدیم طباعت میں صرف یہ ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کو حاشیہ پر رکھ دیا گیا لیکن یہاں بھی یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ یہ ترجمہ الحاقی ہے بلکہ صرف یہ کہا گیا کہ:
لما لم تکن هذه الترجمة في نسخة وکانت في أخري أوردتها علي الحاشية [بحوالہ تحقیق الکلام:١٤٤]

یعنی اس قدیم محقق کے سامنے بھی میزان کے دومخطوطے تھے اور ان میں سے ایک میں متن کے اندر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ موجود تھا لیکن اس محقق نے اصول سے روگردانی کرتے ہوئے زبردستی اس ترجمہ کو حاشہ پرڈال دیا ، حالانکہ امام ابوحنیفہ کے تراجم کی طرح اوربھی بہت سے تراجم دوسرے نسخہ میں نہ تھے لیکن ان تراجم کو حاشیہ پرنہ ڈالا۔

.
ان تمام باتوں سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض نسخوں میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ نہیں ہے لیکن یہ چیز اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی امام ذھبی رحمہ اللہ نے اپنی اس تصنیف میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کو شامل نہیں مانا ہے۔

قارئین درج ذیل نکات پرغورکریں :

اولا:
بعض نسخوں میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تراجم کی طرح اوربھی بہت سے رواۃ کے تراجم ساقط ہیں توکیا یہ دعوی کردیا جائے کہ ان رواۃ کا ترجمہ بھی الحاقی ہے ؟؟ اب تک کسی نے ایسی بات نہیں کہی ہے پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ ہی کے ساتھ ایسا رویہ کیوں ؟؟؟
ثانیا:
کتابوں میں نسخوں کا اختلاف عام بات ہے اورایک نسخہ کے نقص کو دوسرے نسخہ سے پورا کرنا تحقیق کا اصول ہے خود احناف بھی اس اصول کومانتے ہیں ، جس کی چندمثالیں علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے تحقیق الکلام میں پیش کی ہے اور عبدالحیی لکنوی کے اس دعوی کا رد کیا ہے کہ میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی ہے، قارئین تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تحقیق الکلام فی وجوب القراۃ خلاف الامام :ص ١٤٤،١٤٥

.
میزان میں ترجمہ امام ابوحنفیہ کے الحاق پر کچھ مزید شبہات اور ان کارد


بعض حضرات امام سخاوی کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں:
وَأَبِي زَكَرِيَّا السَّاجِيِّ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْحَاكِمِ وَأَبِي الْفَتْحِ الْأَزْدِيِّ وَأَبِي عَلِيِّ بْنِ السَّكَنِ وَأَبِي الْفَرَجِ بْنِ الْجَوْزِيِّ، وَاخْتَصَرَهُ الذَّهَبِيُّ، بَلْ وَذَيَّلَ عَلَيْهِ فِي تَصْنِيفَيْنِ وَجَمَعَ مُعْظَمَهُمَا فِي مِيزَانِهِ فَجَاءَ كِتَابًا نَفِيسًا عَلَيْهِ مُعَوَّلُ مَنْ جَاءَ بَعْدَهُ، مَعَ أَنَّهُ تَبِعَ ابْنَ عَدِيٍّ فِي إِيرَادِ كُلِّ مَنْ تُكُلِّمَ فِيهِ وَلَوْ كَانَ ثِقَةً، وَلَكِنَّهُ الْتَزَمَ أَنْ لَا يَذْكُرَ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ وَلَا الْأَئِمَّةِ الْمَتْبُوعِينَ [فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 4/ 348]
عرض ہے کہ اس عبارت میں امام سخاوی رحمہ اللہ امام ذہبی کی کتاب میزان کے مشمولات پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ میزان کے مقدمہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے کتاب کا جومنہج بتایا ہے اس کی طرف مختصرا اشارہ کررہے ہیں ملون الفاظ پر غورکریں ، اورپہلے بتایا جاچکا ہے کہ مقدمہ کی اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے استثناء بھی ذکر کیا ہے۔

بعض حضرت درج ذیل دوعبارتیں مزید پیش کرتے ہیں:
قارئین دونوں عبارتوں کا موازنہ کریں تو صاف معلوم ہوگا کہ امام سیوطی نے دراصل امام عراقی ہی کی بات نقل کردی ہے ، بہرحال ان عبارتوں سے متعلق بھی ظن غالب یہی ہے کہ ان اہل علم نے امام ذہبی رحمہ اللہ کے مقدمہ والی بات کاخلاصہ پیش کیا ہے نہ کہ کتاب کے مشمولات پر کوئی تبصرہ کیا ہے ، اور پہلے وضاحت کی جاچکی ہے مقدمہ کی اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے استثناء بھی ذکر کیا ہے۔
بالفرض مان لیا جائے کہ ان اہل علم نے کتاب کے مشمولات پر بات کی ہے تو انہوں نے اپنے پاس موجود ان نسخوں کی بنیاد پر یہ بات کی ہے جن میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ نہیں ہے، لیکن چونکہ دیگرنسخوں میں یہ بات ثابت ہے لہٰذا ان علماء کا ان نسخوں سے مطلع نہ ہونا ان کے غیر معتبرہونے کی دلیل نہیں ہے۔
.
محترم شاید آپ نے محقق کا پورا مقدمہ سرے سے پڑھا ہی نہیں ، میں نے محقق کے مقدمہ کا لنک مراسلہ نمبر ١٢ میں دے رکھا ہے اسے ایک بار بغور پڑھ لیں نیزاس تعلق سے آپ کی تسلی کے لئے مراسلہ نمبر١٢ اور ١٣ میں میں قدرے تفصیل پیش کردی گئی ہے۔


احتمالات کی بنیاد پر ؟؟
میں نے جن بنیادوں پر اس نسخہ کو غیر معتبربتایا تھا اس سے ذیل میں پیش کرتاہوں، قارئین پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا یہ احتمالات ہیں؟؟؟
غورفرمائیں کہ پہلی بنیاد یہ ہے کہ ناسخ کے شیوخ مجہول ہیں !
کیا یہ بے بنیاد بات ہے ، اسے بے بنیاد کہنے کے لئے آپ پر لازم ہے کہ ناسخ کے شیوخ کا نام پیش کریں ، کتنی عجیب بات ہے کہ سندمیں مجہول شیوخ ہیں ،اب ان کا ترجمہ پیش کرنے کے بجائے بڑے ہی دھڑلے کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ یہ احتمال ہے ؟؟؟
دوسری بنیاد یہ کے ناسخ کے شیوخ کوئی بھی ہوں بہرحال انہیں امام ذہبی رحمہ اللہ کی معاصرت حاصل نہیں ہے ، اب ایک ہی صورت بنتی ہے کہ ان شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہو لیکن یہ ماننے کے لئے ہمیں اہل فن سے اس چیزکی صراحت درکار ہے کہ ان شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہے ۔
ورنہ صرف امکان کی بناپر وجادۃ روایت کرنے کافیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے ، اگر ایسا ہوتا تو پھر تو شاید ہی کوئی سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف قرار پائے کیونکہ ہرانقطاع پر کہا جاسکتا ہے کہ یہاں وجادۃ روایت ہے ، لہٰذا وجادۃ روایت کا بھی ثبوت ہونا چاہے۔
اس بات کا بھی موصوف نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
تیسری نمبر پرایک داخلی شہادت پیش کی گئی تھی جو بہت واضح ہے ، صرف اس پر موصوف نے کچھ لب کشائی کی ہے جس کا جواب ابن تیمہ والے تھریڈ میں انہیں مل جائے گا۔
بہرحال جن اصل دو بنیادوں پر اس نسخہ کو غیر معتبر بتلایا گیا تھا اس کا کوئی جواب موصوف کی طرف سے نہیں آیا۔
واضح رہے کہ ہم اس بات کے منکر نہیں ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ کتاب لکھی ہے یہ بات ہمیں تسلیم ہے لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس کتاب کا مستندمخوطہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے ، اور موجودہ نسخہ غیر معتبر ہے ، اگر کوئی بھی موجودہ نسخہ کی سند کوصحیح ثابت کردے یا کوئی دوسرا معتبرنسخہ پیش کردے تو ہم اس نسخہ کو معتبرماننے میں ایک لمحہ کا بھی توقف نہیں کریں گے۔


آپ نے میزان الاعتدال اورالمغنی فی الضعفاء میں دیکھ لیاکہ امام ابوحنیفہ کاذکر وہاں نہیں ہے حالانکہ وہاں ہوناچاہئے
اورہم نے بھی قارئین کو دکھا دیا کہ ان دونوں کتابوں میں امام ابوحنیفہ کا ذکر ہے۔

کیونکہ حافظ ذہبی کے پیش نظر استعیاب مقصود ہے خواہ متکلم فیہ راوی واقعتاًاورنفس الامر میں ثقہ صدوق اورامام ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں امام علی بن مدینی تک کا تذکرہ موجود ہے اورالمغنی میں بھی بہت سارے حفاظ حدیث اورثقہ روات موجود ہیں لیکن موجود نہیں ہیں توامام ابوحنیفہ ۔
ہم نے اوپر متعدد مثالوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کتابوں میں بہت سے ضعیف رواۃ کا تذکرہ نہیں ہے ، اور ایسا بھی نہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ ان کے ضعف سے آگاہ نہ ہوں ، بلکہ خود امام ذہبی رحمہ اللہ بعض رواۃ کو اپنی دیگر کتابوں میں ٍضعیف قرار دے رکھا ہے مگر میزان یا مغنی میں ان کا تذکرہ نہیں۔
.
تاریخ اسلام اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ


۔

ان ساری باتوں کا ہماری بحث سے کیا تعلق ہے ، جناب یہاں ابوحنیفہ کے مناقب پر نہیں ان کے ضعف پر بات ہورہی ہے لیکن ان تمام باتوں کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق ہیں نہیں ہے۔
نیزاس طرح کے فضائل جو امام ابوحنفہ رحمہ اللہ سے متعلق بیان کئے جاتے ہیں وہ اکثر جھوٹے ہیں جیساکہ خود اسی کتاب میں منقول ایک روایت میں ایک بات موجود ہے۔
چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَرَوَى بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ أَبِي حَنِيفَةَ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ لِآخَرَ: هَذَا أَبُو حَنِيفَةَ لا يَنَامُ اللَّيْلَ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَاللَّهِ لا يَتَحَدَّثُ عَنِّي بِمَا لَمْ أَفْعَلْ فَكَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ صَلاةً وَدُعَاءً وَتَضَرُّعًا.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 992]۔
یعنی کسی نے امام ابوحنیفہ کی موجودگی میں کہا کہ ابوحنیفہ رات میں سوتے نہیں ہیں (یعنی عبادت کرتے ہیں ) تو یہ سنتے ہی ابوحنیفہ نے کہا کہ واللہ میرے تعلق سے ایسی بات نہ کہی جائے جسے میں کرتا ہی نہیں ، چنانچہ امام صاحب نماز و دعاء وگریہ وزاری میں شب بیداری کیا کرتے تھے۔

قارئین غورکریں کہ اس روایت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جھوٹے فضائل کا بیان تو امام صاحب کی زندگی ہی سے شروع ہوگیا تھا اب اسی سے اندازہ لگالیں کہ ان کے چاہنے والوں نے اب تک کتنے جھوٹے فضائل بیان کئے ہوں گے۔

نیز اسی کتاب میں امام صاحب سے متعلق کچھ ایسی باتیں منقول ہوئی ہیں جو کوئی بھی سچامسلمان نہیں کرسکتا، مثلا:
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ السَّمَرْقَنْدِيُّ عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَخْتِمُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَكْعَةٍ.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]
یعنی ابوحنیفہ ہر رات میں ایک رکعت میں قران ختم کرتے تھے۔
اب ذرا غورکریں کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو امام صاحب نہ صرف حدیث میں ضعیف تھے بلکہ ان کی فقاہت پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا، چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ القُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 198 واسنادہ صحیح]۔
جس نے تین دن سے کم میں قران کو ختم کیا وہ فقہ سے محروم ہے ۔

اب دیکھیں کہ اس کتاب میں بتایا جارہا ہے کہ امام ابوحنیفہ تین دن تو دور کی بات ایک ہی رات میں اوروہ بھی ایک ہی رکعت میں قران ختم کردیا کرتے تھے ۔
اب غورکریں اگر تین دن میں قران ختم کرنے والا فرمان نبوی کے مطالق فقاہت سے محروم ہے تو جوشخص ایک دن بھی نہیں بلکہ ایک رات کے اندر اور اس میں بھی صرف ایک رکعت میں قران ختم کردے ، اس سے بڑا کوئی فقاہت سے محروم شخص ہوسکتاہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ایک اورگپ دیکھیں :
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَيُرْوَى أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ سَبْعَةَ آلافِ مَرَّةٍ.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]
یعنی جس مقام پر ابوحنیفہ کی وفات ہوئی اس مقام پر انہوں نے سات ہزر بار قران ختم کیا ۔

اب ایک اور لطیفہ دیکھیں ، جمشید صاحب مجھ ناچیز کے بارے میں لکھتے ہیں:
میرایہ شک گہراہوتاجارہاہے کہ آج کل آنجناب کم سورہے ہیں اس لئے بیداری میں بھی پوری طرح بیدار نہیں رہتے بلکہ جوچاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں بغیر غوروفکر کئے ہوئے۔
نیند پوری نہ ہوایک مرتبہ براہ کرم نیندپوری کرلیں اورپھر جولکھیں پورے ہوش وحواس مین لکھیں۔
اب کس کی نیندپوی نہیں ہواکرتی تھی یہ آپ سی کتاب میں دیکھیں:
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَعَنْ أَسَدِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ صَلَّى الْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ بِوُضُوءِ أَرْبَعِينَ سَنَةً.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 992]۔
یعنی امام ابوحنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضوء سے ادا کی ۔

اب ذرا انصاف کریں کہ جسے چالیس سال تک سونا نصیب نہ ہو وہ کس قدر مخبوط الحواس شخص ہوسکتا ہے۔

اسی لئے اللہ والے لوگ انہیں نصیحت کیا کرتے تھے اورموصوف کو ان خرافات سے روکتے تھے ، جیساکہ اسی کتاب میں ہے کہ کسی نے ان سے کہا کہ اللہ کا خوف کریں :
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ كُمَيْتٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ لِأَبِي حَنِيفَةَ: اتَّقِ اللَّهَ، فَانْتَفَضَ وَاصْفَرَّ وَأَطْرَقَ وَقَالَ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مَا أَحْوَجُ النَّاسِ كُلَّ وَقْتٍ إِلَى مَنْ يَقُولُ لَهُمْ مِثْلَ هَذَا.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]

بلکہ اسی کتاب میں ہے کہ کسی نے انہیں زندیق تک کہہ ڈالا
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَقِيلَ: إِنَّ إِنْسَانًا اسْتَطَالَ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَقَالَ لَهُ: يَا زِنْدِيقُ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ هُوَ يَعْلَمُ مِنِّي خِلافَ مَا تَقُولُ.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]

وقال صالح بن محمد جزرة وغيره: سمعنا ابن معين يقول: أبو حنيفة ثقة. وروى أحمد بن محمد بن محرز عن ابن معين قال: لا بأس به، لم يهم بكذب
اس پوری کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توثیق کے سلسلے میں صرف ابن معین ہی کا قول ملتا ہے ، جو امام ابن معین رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں ہے جیساکہ پہلے تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔
نیز بفرض ثابت امام ابن معین کی توثیق والی روایات میں توثیق سے مراد اصطلاحی توثیق نہیں ہے بلکہ دیانت اور سچائی کے لحاظ سے توثیق ہے ، کیونکہ خودامام ابن معین نے انہیں حدیث میں صریح طور پر ضعیف بتلایا ہے ، اس کی مزید تفصیل اگلے مراسلے میں آرہی ہے۔
.
سیراعلام النبلاء اور امام ابوحنیفہ ۔


یہ تمام باتیں بھی موضوع سے غیر متعلق ہیں ، نیز اس کتاب میں بھی امام حنیفہ رحمہ اللہ کے جوٹھے فضائل بیان کئے جانے والی روایت موجود ہے اسی طرح وہ دیگر روایات بھی جنہیں گذشتہ مراسلہ میں تاریخ الاسلام سے نقل کیا گیا۔


امام ابن معین کی توثیق کا مفہوم

اب آئیے ہم امام ابوحنیفہ سے متعلق امام ابن معین کی توثیق کی حقیقت واضح کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ سے توثیق ابی حنیفہ صحیح سند سے ثابت ہی نہیں ہے ، جیسا کہ اس سلسلے کی تمام سندوں کی حقیقت بیان کی جاچکی ہے اس کے برعکس صحیح سندوں سے یہ ثابت ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کو صراحۃ ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی تفصیل بھی پیش کی جاچکی ہے۔

اور جن روایت میں ابن معین سے توثیق ابی حنیفہ منقول ہے اول تو وہ ثابت نہیں ثانیا بفرض ثبوت اس سے مراد دیانت اور سچائی والی توثیق ہے نہ کہ حفظ وٍضبط والی، اس کی دو دلیلیں ہیں
پہلی دلیل:
خود امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کو صراحۃ ضعیف قراردیا ہے اس لئے ان کے توثیق والے قول میں لازمی طور پر غیراصطلاحی توثیق یعنی دیانت و سچائی مراد ہے۔
دوسری دلیل:
توثیق کے جو صیغے منقول ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے تو اس سے بھی اسی طرف اشارہ ملتا ہے ، چنانچہ توثیق کے صیغے درج ذیل ہیں :


  1. قال له رجل أبو حنيفة كذاب قال كان أبو حنيفة أنبل من أن يكذب كان صدوقا إلا أن في حديثه ما في حديث الشيوخ(عباس دوری واسنادہ ضعیف)
  2. ثقة ثقة كان والله أورع من أن يكذب وهو أجل قدرا من ذلك(ابن صلت وہوکذاب)
  3. أبو حنيفة عندنا من أهل الصدق ولم يتهم بالكذب (ابن محرز وہو مجہول)
  4. كان أبو حنيفة لا بأس به وكان لا يكذب(ابن محرز وہو مجہول)
  5. كان أبو حنيفة ثقة صدوقا في الحديث والفقه مأمونا على دين الله(ابن صلت وہو کذاب)
  6. كان أبو حنيفة ثقة لا يحدث بالحديث إلا ما يحفظ ولا يحدث بما لا يحفظ (ابن سعد العوفی وہو ضعیف)
  7. كان أبو حنيفة ثقة في الحديث(صالح اسدی ولایعرف اسنادہ)



  • پہلی روایت میں دیکھیں امام ابن معین سے یہ سوال ہوا کہ کیا وہ جھوٹے ہیں جوابا فرمایا نہیں وہ جھوٹ سے بری ہیں لیکن ان کی حدیث شیوخ کی احادیث جیسی نہیں ہے ، واضح رہے کہ ’’شیخ‘‘ سب سے کمتردرجہ ہے ، یہ سوال وجواب صاف بتلاتا ہے کہ امام ابن معین سے توثیق کا صدور اس وقت ہوا تھا جب ان سے امام صاحب سے جھوٹ بولنے کے بارے میں سوال ہوا تھا اس کا وضح مطلب یہی ہے کی ان کی توثیق سے دیانت اورسچائی والی توثیق ہے جیساکہ اسی جواب میں انہوں نے وضاحت کردی کہ ان کی بیان کردہ احادیث عام شیوخ کی احادیث جیسی نہیں ہیں ۔
  • دوسری ، تیسری ، اورچوتھی روایت دیکھیں ان سب میں توثیق کے ساتھ کذب کی نفی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کی توثیق سے مراد کذب کی نفی اورصدق کا اثبات ہے بس ۔
  • پانچویں روایت میں میں بھی ان کی توثیق صدق اور مامون علی دین اللہ کے ساتھ مقترن ہے یعنی اس میں بھی ان کی توثیق سے مراد دیانت داری کا بیان ہے ۔
  • چھٹی روایت دیکھیں اس میں تو صاف اقرار ہے کہ وہ کچھ احادیث رکھتے تھے اورکچھ احادیث یاد نہیں رکھ سکتے تھے ۔
    پھر یہ بیان ہے کہ وہ صرف یاد کردہ احادیث ہی بیان کرتے تھے لیکن امام ابن معین کا یہ بیان لیکن ابن معین کا یہ بیان صرف چنداحادیث کو پرکھنے کی بناپر پر تھا کیونکہ دوسری روایات میں ابن کا صاف اعلان موجود ہےکہ ان کی احادیث ضعف حفظ کی زد میں آئی ہیں جیساکہ پہلی ہی روایت میں ہے کہ ان کی احادیث عام شیوخ کی احادیث جیسی نہیں ہیں ، نیز دوسری طرف تضعیف والی روایات بھی اس پرشاہد ہیں ۔
  • ساتویں روایت میں مطلق توثیق کا ذکر ہے جس کی تفصیل دیگرروایات میں مل جاتی ہے، یعنی موصوف حدیث بیان کرنے میں سچے تھے۔

یہ نتیجہ صرف توثیق والی روایات ضعیفہ کو یکجا کرنے سے نکلتا ہے اب اگر تضعیف والی روایات صحیحہ کو سامنے رکھ لیا جائے تو اس بات میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی توثیق والی روایت سے محض دیانت داری اور صدق کابیان مقصود ہے۔


واضح رہے توثیق سے کبھی کبھی دیانت داری اورسچائی کی طرف اشارہ کرنا یہ صرف ابن معین ہی کا عمل نہیں ہے بلکہ دیگر محدثین بھی کبھی کبھی توثیق سے یہی مراد لیتے تھے،
مثلا یہی امام ذہبی رحمہ اللہ ’’أبو جعفر محمد بن سابق‘‘ کے بارے میں ایک قول نقل کرتے ہیں:
هو ثقة، وليس ممن يوصف بالضبط.[ميزان الاعتدال موافق رقم 3/ 555]

صاحب مغانى الأخيار ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
ثقة ضعيف، وهو من أهل الصدق سيئ الحفظ[مغانى الأخيار 5/ 326، ]۔

امام مزی رحمہ اللہ ’’ربیع بن صبیح سعدی ‘‘ کے بارے میں ایک قول نقل کرتے ہیں:
رجل صالح صدوق ثقة ، ضعيف جدا [تهذيب الكمال مع حواشيه ليوسف المزي 9/ 93]

دکتور بشار اس قول پر حاشیہ لگاتے ہوئے فرماتے ہیں :
يعني : صالح صدوق ثقة في دينه وسلوكه وأخلاقه ضعيف في الحديث لعدم معرفته به ، وهذا هو الصواب.[تهذيب الكمال مع حواشيه ليوسف المزي 9/ 93 حاشیہ ٧]۔


معلوم ہوا کہ محدثین کبھی محض دیانت دار اور سچا بتلانے کے لئے کسی کو ثقہ کہ دیتے ہیں ۔

امام ذہبی رحمہ اللہ کی وضاحت

خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک مقام پر یہی وضاحت کی ہے :
امام حاکم رحمہ اللہ نے ایک راوی ’’ خارجة بن مصعب الخراسانی‘‘ کی توثیق کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کیا کہ اس توثیق سے مراد یہ ہے کہ اس راوی سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وَقَالَ الحَاكِمُ: هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ -يَعْنِي: مَا هُوَ بِمُتَّهَمٍ [سير أعلام النبلاء 7/ 327]۔

معلوم ہوا کہ بعض ناقدین کبھی کبھی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا اور امام ابن معین رحمہ اللہ کی توثیق ابی حنیفہ بشرط ثابت اسی معنی میں ہے، اورامام ذہبی رحمہ اللہ ابن معین کی جو توثیق نقل کی ہے اس سے یہی مراد کیونکہ خود امام ذہبی رحمہ اللہ ہی نے اپنی ضعفاء کی کتابوں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف کردی ہے بلکہ دیوان الضعفاء میں ابن معین ہی سے تضعیف نقل کی ہے اور کوئی دفاع نہیں کیا ہے، کمامضی ۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس طرزعمل سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں ابن معین سے جو توثیق نقل کی ہے اس سے امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں کیا مراد ہے۔
.
’’ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل‘‘ اور امام ابوحنیفہ


حافظ ذہبی کی ایک کتاب ہے جس میں انہوں نے علم حدیث کے نقاد اورائمہ جرح کا ذکر کیاہے۔یہ کتاب بہت مختصر ہے اورچند صفحات کی ہے اس کانام ہے۔ ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل ۔ یہ کتاب شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تحقیق سے شائع ہوچکی ہے۔اس میں امام ابوحنیفہ کا نام تیسرے نمبر پر ہے
قارئین تیسرے نمبر سے اس دھوکہ میں نہ آئیں جارحین کے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام صاحب کوتیسرےنمبر پررکھا ہے ، بلکہ زمانہ کے لحاظ سے ان کا تیسرا نمبر ہے ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کی عبارت ان الفاظ میں شروع ہوتی ہے :
فأول من زكى وجرح عند انقراض عصر الصحابة [ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 172]۔
اس کے بعدآگے امام صاحب کے ذکر سے پہلے ہے :
فلما كان عند انقراض عامة التابعين في حدود الخمسين تكلم طائفة من الجهابذة في التوثيق والتضعيف[ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 175]۔

معلوم ہوا کہ مذکورہ ترتیب زمانہ کے لحاظ ہے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے نہیں اس لئے قارئین دھوکہ میں نہ پڑیں۔

غلط ترجمانی تو آپ کررہے ہیں جناب ، پہلے بھی وضاحت کی جاچکی ہے کہ محدثین کی صف میں کھڑے ہوجانے سے کوئی ان کے مقام ومرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا یہاں اس صف میں امام صاحب کا ذکر صرف اس لئے آیا کہ موصوف نے بھی بعض رواۃ پر جرح کی ہے ، بس اتنی سی بات ہے ۔
ورنہ یہی کام کرنے والوں کی فہرست میں ضعیف رواۃ کا تذکرہ بھی ہے ۔
مثلا اسی کتاب میں ناقدین میں ابو الفتح محمد بن الحسين الازدي الموصلي کابھی تذکرہ ہے [ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 209]۔
اورخود حافظ ذہبی رحمہ اللہ انہیں اپنی بہت سی کتابوں میں ضعیف قرار دے چکے ہیں، جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے۔

جب یہ کتاب بھی مذکورہ کتاب ہی سے مستفاد ہے تواس کاجواب بھی وہی ہے جو اوپر مذکورہے۔
.
’’تذہیب التہذیب‘‘ اورامام ابوحنیفہ


ایک تذہیب التہذیب :قارئین سے درخواست ہے کہ ذرادھیان سے پڑھیں اورحافظ ابن حجر کی تہذیب التہذیب اوراس میں فرق کو سمجھیں۔یہ کتاب حافظ مزی کی کتاب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال کا اختصار ہے۔
اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کاذکر رقم نمبر7194کے تحت ہے۔
اس میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کے ذکر میں جرح کا ایک بھی لفظ نہیں ہے۔بلکہ اس کے مقابل ان کے معاصرین اوربعد والوں سے امام ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب منقول ہیں۔
یہ ساری باتیں امام صاحب کے فضائل سے تعلق رکھتی ہے جن کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے نیز ان کا اکثرحصہ من گھڑت اور جھوٹ ہے اور پہلے بتایا جاچکا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فضائل نقل کرنے میں اس بات کا التزام نہیں کیا ہے کہ صرف ثابت اورصحیح روایت نقل کریں گے بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ امام صاحب کے فضائل میں رطب ویابس سب نقل کردیتے ہیں چاہے وہ ثابت ہو یا من گھڑت ، امام ذہبی رحمہ اللہ نے مناقب ابی حنیفہ میں اکاذیب کا اچھاخاصہ حصہ نقل کردیا ہے جن میں سے بعض کی تردید تو خود کتاب کے محقق زاہد کوثری ( مشہور کذاب) نے بھی کررکھی ہے۔


اوراس میں ابن معین سےامام ابوحنیفہ کے حق میں توثیق کے اقوال بھی ہیں جواوپر منقول ہوچکے ہیں۔
اور امام ابن معین سے ان کی توثیق منقول ہے ۔
پہلے وضاحت کی جاچکی ہے کہ امام ابن معین کی توثیق سے مراد دیانت اورسچائی والی توثیق ہے اور اسی مفہوم میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن معین سے ان کی توثیق نقل کی ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے اصلاحی معنی میں نہیں لیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابن معین کے تضعیف والے جو دیگراقوال ہیں ان سے امام ذہبی نے کسی بھی کتاب میں اختلاف نہیں کیاہے، بلکہ دیوان الضعفاء میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف بتلاتے ہوئے انہیں امام ابن معین ہی سے تضعیف کا قول نقل کیا ہے۔
اسی طرح مناقب ابی حنیفہ میں بھی امام ابن معین کی توثیق نقل کی ہے مگرساتھ ہی اس سے پہلے ان کی تضعیف کا اعلان بھی کیا ہے۔
یہ ساری باتیں اس بات کی دلیل ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں امام ابن معین کی توثیق اس معنی میں ہرگز نہیں ہے جسے باور کیا جارہاہے۔


یہ دیکھئے حافظ ذہبی کی علم جرح وتعدیل ا ورروات پر لکھی گئی یہ مستقل کتاب ہے ۔ اسمیں امام ابوحنیفہ کاذکر 6صفحات میں ہے اورایک بھی حرف امام صاحب کی جرح میں نہیں ہے
اس کتاب میں صرف امام ابوحنیفہ ہی نہیں بلکہ اوربھی بہت سے رواۃ سے متعلق فضائل ذکر کردئے گئے ہیں اور جرح کے اقوال مذکور نہیں ہیں، آپ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی مدح میں کہا تھا:
حافظ ذہبی کا علم جرح وتعدیل میں جومقام ہے وہ معلوم ہے حتی کہ حافظ الدنیا ابن حجر نے زمزم کا پانی پی کر حافظ ذہبی جیسابننے کی تمناکی تھی۔
یہی حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب ’’تذہیب‘‘ میں بعض رواۃ کے فضائل تو بیان کردئے ہیں مگرتصحیح وتضعیف کے لئے جن اقوال کی ضرورت پڑتی ہے انہیں ذکرنہیں کیا ہے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثم رأيت للذهبي كتابا سماه "تذهيب التهذيب" أطال فيه العبارة, ولم يعد ما في التهذيب غالبا, وإن زاد ففي بعض الأحايين, وفيات بالظن والتخمين, أو مناقب لبعض المترجمين, مع إهمال كثير من التوثيق والتجريح, اللذيْن عليهما مدار التضعيف والتصحيح [تهذيب التهذيب 2/ 3]۔

آخر میں حافظ الذہبی کہتے ہیں۔
قلت:قد احسن شیخناابوالحجاج حیث لم یورد شیئا یلزم منہ التضعیف
پھر آخر میں حافظ الذہبی نے حافظ مزی کے اس صنیع کی توثیق اورتائید کی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے ذکر میں تضعیف والے اقوال نقل نہیں کئے اس سے یہ پوری طرح ثابت ہوجاتاہے کہ امام صاحب کا ضعیف ہوناحافظ ذہبی کے نزدیک متحقق نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے جیساکہ اس کے کتاب سے ظاہر ہورہاہے۔
یہاں امام ذہبی رحمہ اللہ نے صرف اس بات کی تحسین کی ہے امام مزی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سلسلے میں‌ کوئی تضعیف والی بات نقل نہیں کی لیکن اس سے یہ ثابت ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ تضعیف والی باتوں سے متفق بھی نہیں ہیں ، دراصل امام مزی کی مذکورہ کتاب خاص ضعفاء پر نہیں ہے بلکہ رواۃ کے عمومی تعارف پر ہے لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کی مصلحت یہ ہے کہ چونکہ امام ابوحنیفہ کے عقیدت مند بہت ہیں اور ان کی تضعیف والی بات سے بدک اٹھتے ہیں اس لئے ان کی تضعیف ہرجگہ ذکر کرنا مصلحۃ مناسب نہیں ہے بلکہ صرف ان کتابوں‌ میں اس کا ذکر ہو جو خاص ضعفاء پر لکھی گئی ، اور عام کتب میں صرف ان کے فضائل کے ذکر پر اکتفا کیاجائے، چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے خاص ضعفاء پر جتنی بھی کتابیں‌ لکھیں سب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ذکر کی ہے مثلا دیوان الضعفاء ، المغنی ، میزان الاعتدال۔
اورمیزان میں‌ یہ کھل کر لکھ دیا کہ اس کتاب میں ائمہ متبوعین کا تذکرہ نہیں‌ ہوگا ، اور اگرکسی کا تذکرہ ہوگا تو پورے انصاف کے ساتھ ہوگا تینوں ائمہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تو اس استثناء کے مصداق ہوہی نہیں سکتے کیونکہ ان میں سے کسی کے بارے میں بھی تضعیف کا تصور بھی احمقانہ ہے پھرلے دے کرایک ہی امام بچتے ہیں وہ ہیں امام ابوحنیفہ ، چنانچہ اس کتاب میں ابوحنفیہ کا تذکرہ کرکے اور ان کی تضعیف کرکے یہ بتلادیا کہ انصاف یہی ہے کہ ان کی تضعیف مسلم ہے، میزان ہی کی طرح دیوان الضعفاء میں بھی کئی اہل علم سے صرف امام صاحب کی تضعیف نقل کیا اوردفاع میں ایک حرف بھی نہیں لکھا ۔
حالانکہ اسی دیوان الضعاء میں ’’ابراہم بن مہاجر‘‘ کا ذکر کرکے ان کے بارے میں امام نسائی کا یہ قول نقل کیا ’’لیس بالقوی‘‘ تو ساتھ ہی میں صاف صراحت کردیا کہ ابراہم ثقہ ہیں ، دیکھئے دیوان الضعفاء :ص ٢١ترجمہ ٢٥٦۔
اسی طرح میزان میں بھی بعض ثقات کی تضعیف ذکرکرکے ان کا دفاع کیا ہے مگر اسی میزان میں ابوحنیفہ کا دوجگہ ذکر کیا اورکہیں بھی دفاع نہ کیا ۔
اس سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا موقف صاف ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بلاشک وشبہ ضعیف ہیں مگر امام ذہبی مصلحۃ ہرجگہ ان کی تضعیف ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔
.
الکاشف اور امام ابوحنیفہ۔

اس میں تذہیب التہذیب میں مذکور روات پر مختصرااحکام جرح وتعدیل ذکر کئے گئے ہیں اورایسالگتاہے کہ حافظ ابن حجر کی التقریب اسی سے ماخوذ بلکہ مستفاد ہے۔واللہ اعلم
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بے شک امام ذہبی کی کتابوں سے بہت استفادہ کیا ہے مگریہ کہنا کہ تقریب حافظ ذھبی کی کتاب کاشف سے مستفاد ہے بہت ہی عجیب غریب بات ہے ، دلچسپ کہ کاشف اور تقریب یہ دونوں کتابیں ایک غالی حنفی محمد عوامہ کی تحقیق سے بھی طبع ہوئی ہیں اورمیں نے بہت پہلے ان دونوں کتابوں میں عوامہ صاحب کے مقدمہ کا مطالعہ کیا تھا مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ غالی اورمتعصب حنفی عوامہ نے بھی کہیں یہ بات کہی ہو۔
جمشیدصاحب سے گذارش ہے کہ ایک بار تقریب اورکاشف دونوں کا مقدمہ پڑھ لین ،پھر کوئی فیصلہ کریں۔

اس میں بھی امام ابوحنیفہ کا ذکر ہے لیکن جرح کا کوئی بھی لفظ ذکر نہیں ہے۔اس میں وہ امام ابوحنیفہ کوالامام کے اعلیٰ لفظ سے ذکر کرتے ہیں ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون !!!
یہ ’’امام‘‘ توثیق کا صیغہ کب سے ہوگیا۔
اگر لفظ’’امام‘‘ توثیق کا صیغہ ہے تو پھر جمشید صاحب کو طوالت کی ضرورت ہی نہ تھی ، ان کے لئے توبس اتنا ہی کافی تھا کہ میری ہی تحریرسے ایسےتمام جملے نقل کردیتے جس میں ، میں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ ’’امام‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ، اورکہتے کہ جب آپ انہیں ’’امام‘‘ مان رہے ہیں تو ان کے ثقہ ہونے کا انکار کیا معنی رکھتاہے،
قارئین انصاف کریں لفظ ’’امام‘‘ سے توثیق ثابت کرنا ، اس سے بھی فضول بات کوئی ہوسکتی ہے۔

ویسے حقیقت یہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’الکاشف‘‘ میں ابوحنیفہ کا جوامام کہاہے تو وہ ان کا درجہ بتانے کے لئے نہیں کہا ہے پہلے امام ذہبی رحمہ اللہ کی اصل عبارت دیکھ لیں:
النعمان بن ثابت بن زوطا الامام أبو حنيفة فقيه العراق مولى بني تيم الله بن ثعلبة رأى أنسا وسمع عطاء ونافعا وعكرمة وعنه أبو يوسف ومحمد وأبو نعيم والمقرئ أفردت سيرته في مؤلف عاش سبعين عاما مات في رجب ١٥ ت س[الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة 2/ 322]۔
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اس عبارت میں امام ابوحنیفہ کے ساتھ امام کا لفظ کس سیاق میں ہے ؟؟؟
بالکل ظاہرہے کہ ان کے نام سے پہلے امام لکھا گیاہے، تو بالکل اسی طرح جیسے ہم سب ان کے نام کے ساتھ ’’امام‘‘ لکھا اور بولا کرتے ہیں، یہاں اس سیاق میں اس لفظ کے ذریعہ روایت حدیث میں ان کا مرتبہ بتلانا بالکل مقصود نہیں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امام ذہبی کی یہ کتاب ’’الکاشف‘‘ ایک حنفی محمد عوامہ ہی کی تحقیق سے طبع ہوئی ہے ، اور محمدعوامہ صاحب نے اس کتاب کے مقدمہ میں ان تمام الفاظ کی تشریح پیش کی ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے جرح وتعدیل کے لئے استعمال کئے ہیں ان کی کل تعداد محمدعوامہ صاحب کی تحقیق کے مطابق 32 ہے، لیکن اس فہرست میں مجھے کہیں بھی لفظ’’امام‘‘ نظر نہ آیا!!!!


یہ کتاب جرح وتعدیل پر مختصرالکھی گئی کتاب ہے اگر امام ابوحنیفہ ضعیف ہیں جیساکہ کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں اوراپنی بات کی تائید میں آدھے ادھورے حوالہ جات نقل کرتے ہیں توپھریہاں حافظ ذہبی کوکیاچیز مانع تھے کہ وہ امام ابوحنیفہ کی تضعیف کاذکرکرتے بلکہ وہ الامام جیسابڑالقب امام ابوحنیفہ کو دے رہے ہیں۔
صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کامسئلہ نہیں ہے بلکہ رواۃ کی ایک کثیر تعداد کے سلسلے میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے جرح کا کوئی صیغہ استعمال نہیں کیا ہے۔
سبط ابن العجمی فرماتے ہیں:
وكتاب " الكاشف " مختصره -(یعنی مختصر " تذهيب التهذيب ") - وكثيرا ما لا يذكر فيه تعديلا ولا تجريحا، ولا وفاة عض الشيوخ رمزا ولا تصريحا[نهاية السول في رواة الستة الأصول: ١/ ٦٨]۔

رہی ’’امام‘‘ جیسے بڑے لقب کی تو یہ لقب ہزاربڑا سہی لیکن توثیق کے باب میں چنداں مفید نہیں، کمامضی۔

خلاصہ کلام یہ کہ ’’الکاشف‘‘ میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کی جرح یا تعدیل سے متعلق کچھ بھی رقم نہیں فرمایاہے۔
.
پھردیوان الضعفاء


اب اخر میں ہم پھر لوٹتے ہیں دیوان الضعفاء والمتروکین کی جانب اوردیکھتے اوراس کی کچھ حقیقت جانناچاہتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ حافظ ذہبی اپنی ہرتالیف میں امام ابوحنیفہ کی توثیق میں امام جرح وتعدیل یحیی بن معین کا کلام نقل کرتے ہیں جس کی مثالیں گزر چکی ہیں لیکن اچانک دیوان الضعفاء والمتروکین میں دیکھتے ہیں کہ وہ ابن معین سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے حدیث نہ لکھی جائے۔
جی ہاں !
اس کتاب حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام معین سے تضعیف نقل کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ہم نے اپنی کتب میں ابن معین سے توثیق کے جو کلمات نقل کئے ہیں ، ان سے اصطلاحی توثیق مراد نہیں بلکہ دیانت اورسچائی مراد ہے بس !اس لئے امام ذہبی کے کلام میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔

اوریہیں درحقیقت الحاق کرنے والے چوک ہوگئی ہے اس نے حافظ ذہبی کے صنیع پر نگاہ نہیں کیا۔
اس عبارت کے ناقل اورناسخ ایک حنفی ہی ہیں آپ کیوں خواہ مخواہ اپنوں ہی کومطعون کررہے ہیں۔


اگرواقعی ابن معین حنفی ہے تو امام ابوحنیفہ پر ان کی جرح بہت ہی منصفانہ ہے، والحمدللہ۔

اس سے ایک بات تومتحقق ہے کہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابن معین سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی توثیق ہی ثابت ہے تضعیف ثابت نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ ہرجگہ حافظ ذہبی ابن معین سے امام ابوحنیفہ کی توثیق نقل کرتےہیں ۔اس میں استثناء صرف ایک مقام کاہے اور وہ ہے دیوان الضعفاء والمتروکین
امام ذہبی رحمہ اللہ نے کسی ایک بھی مقام پر یہ نہیں لکھا کہ امام ابوحنفیہ کے سلسلے میں ابن معین کی جرح ثاب نہیں ہے، اگریہ جرح ثابت نہ ہوتی امام ذہبی رحمہ اللہ کھل اس کی تردید کردیتے لیکن انہوں نے نہیں کیا بلکہ دیوان الضعفاء میں اسی جرح کو نقل بھی کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام ذہبی کی نظر میں ابن معین کی جرح ثابت ہے اور توثیق غیر اصطلاحی معنی میں ہے۔

مجھے لگتاہے کہ یہیں پر الحاق کرنے والے سے چوک ہوگئی کہ اس نے ابن معین سے امام ابوحنیفہ کے حق میں جرح نقل کردیاجوکہ حافظ ذہبی کی دیگر کتابوں کے برعکس ہے۔
پھر آپ نے اپنے ہی ایک حنفی عالم پھر یہ گھناؤنا الزام لگا دیا ، وضاحت کی جاچکی ہے اس جرح کا نقل حافظ ذہبی کی دیگر کتابوں کے برعکس نہیں ہے۔
.
بے چارے شاکر ذیب صاحب

دیوان الضعفاء والمتروکین میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کے الحاق کی ایک شہادت یاتائید یہ بھی ہے کہ
شاکر ذیب فیاض الخوالدۃ نے الرواۃ الذین ترجم لھم الذہبی فی تذکرۃ الحفاظ وحکم علیھم بالضعف فی کتبہ الضعفاء واسباب ذلک میں ان تمام رواۃ کاجائزہ لیاہے جس کوانہوں نے تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیاہے اورپھرانہی حفاظ کا ذکر حافظ ذہبی نے ضعفاء کی کتابوں مثلا میزان الاعتدال ،دیوان الضعفاء والمتروکین، المغنی فی الضعفاء اورذیول میں کیاہے ، اس کتاب میں بھی امام ابوحنیفہ کاذکر نہیں ہے۔ اگرامام ابوحنیفہ کاذکر دیوان الضعفاء میں ثابت ہوتا شاکر ذیب فیاض الخوالدہ اس کاذکر اس کتاب میں ضرور کرتے لیکن انہوں نے نہیں کیاہے۔
قارئین جمشید صاحب کا یہ استدلال پڑھئے اورسردھنیے !!!
ایک مخظوطہ میں الحاق کا دعوی اور تائید ایک ایسے شخص سے جس نے دیوان کے مخطوطہ نسخے سے نہیں بلکہ مطبوعہ نسخے سے استفادہ کیا ہے ، بہت ہی عجیب وغریب بات ہے !!
واضح رہے کہ شیخ شاکرذیب نے محولہ رسالہ کے اندر ہی صراحت کردی ہے کہ انہوں نے دیوان الضعفاء کے مطبوعہ نسخے سے استفادہ کیا ہے ، ملاحظہ ہو:[الرواة الذين ترجم لهم الذهبي في تذكرة الحفاظ وحكم عليهم بالضعف في كتبه في الضعفاء وأسباب ذلك،ص: ٨]۔

نیز شیخ شاکر ذیب نے محولہ رسالے کے اخیر میں مراجع کی جو فہرست دی ہے اس میں دیوان کے اس نسخہ کا حوالہ دیا ہے جو ’’حماد بن محمد الانصاری کی تحقیق سے طبع ہوا ہے ، ملاحظہ ہو:[الرواة الذين ترجم لهم الذهبي في تذكرة الحفاظ وحكم عليهم بالضعف في كتبه في الضعفاء وأسباب ذلك،ص: ٤٧]۔

اورہم نے ابوحنیفہ کی جو تضعیف نقل کی ہے وہ اسی نسخے سے نقل کی ہے ،


شیخ شاکرذیب سے چوک کی ایک مثال

اگرشیخ شاکر ذیب نے ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا تو یہ موصوف کی کوتاہی اورغلطی ہے ، کتنی عجیب بات ہے کہ ایک صحیح بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک غلط بات کودلیل بنایا جارہا ہے۔
شیخ ذیب نے اپنی کتاب میں تذکرۃ الحفاظ میں موجود ایک ایسے ضعیف راوی کا بھی تذکرہ نہیں کیا ہے جسے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ایک نہیں بہت ساری کتب میں ضعیف قرار دیا ہے یہ راوی ہیں ’’أبو الفتح محمد بن الحسين الأزدي ‘‘ ہے ۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ تذکرۃ الحفاظ میں ان کا ذکرتے ہیں:
الأزدي الحافظ العلامة أبو الفتح محمد بن الحسين بن أحمد بن عبد الله بن بريدة الموصلي نزيل بغداد[تذكرة الحفاظ : 3/ 117]۔


اسی راوی کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی متعدد کتب میں ضعیف قرار دیا بلکہ بعض کتابوں میں تو اسی راوی کو دو دو مقامات پرضعیف قرار دیا ہے، چند حوالے ملاحظہ ہوں:

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’میزان‘‘ میں فرماتے ہیں :
وأبو الفتح يسرف في الجرح، وله مصنف كبير إلى الغاية في المجروحين، جمع فأوعى، وجرح خلقا بنفسه لم يسبقه أحد إلى التكلم فيهم، وهو المتكلم فيه[ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 5]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’دیوان‘‘ میں فرماتے ہیں :
محمد بن الحسين بن أحمد أبو الفتح الأزدي الموصلي الحافظ، کان صاحب مناکیر وغرائب ،ضعفه البرقانی [دیوان الضعفاء ، ص ٣٤٧]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’عبر‘‘ میں فرماتے ہیں :
وأبو الفتح الأزدي الحافظ محمد بن الحسين بن أحمد الموصلي نزيل بغداد صنف في علوم الحديث وفي الضعفاء وحدث عن أبي يعلى ومحمد بن جرير الطبري وطبقتهما ضعفه البرقانی[العبر في خبر من غبر 2/ 374]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’معین‘‘ میں فرماتے ہیں :
والحافظ أبو الفتح محمد بن الحسين الأزدي المصري لین [المعين فى طبقات المحدثين ص: 30]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’سیر‘‘ میں فرماتے ہیں :
لَيْتَ الأَزْدِيّ عَرَفَ ضَعْفَ نَفْسِه.[سير أعلام النبلاء 13/ 389]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’تاریخ اسلام‘‘ میں فرماتے ہیں :
وليت الأزدي عرف ضعف نفسه [تاريخ الإسلام للذهبي 21/ 147]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’تاریخ اسلام‘‘ ہی میں دوسرے مقام پرفرماتے ہیں :
أبو الفتح متكلّم فيه[تاريخ الإسلام للذهبي 20/ 100]۔

قارئین غور فرمائیں تذکرۃ الحفاظ کے ایک راوی کو خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے اتنی ساری کتابوں میں ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن آپ شاکر ذیب صاحب کا مذکورہ رسالہ پڑھ جائیے انہوں نے اس راوی کا ذکر ہی نہیں کیا ہے !!!
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جب اتنے معروف ومشہورضعیف راوی جس کا ضعف امام ذہبی کی بہت سی کتابوں میں مذکورہے ، جب اس کا تذکرہ شیخ شاکر ذیب سے چھوٹ گیا تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ موصوف نے نہیں کیا تو اس میں کون سی بڑی بات ہے ؟؟؟

موصوف نے اپنے رسالہ میں ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا جسے بنیاد بناکر کر جمشیدصاحب نے دیوان کی عبارت کو الحاقی کہہ دیا ، اب میں نے بطور مثال جس راوی کا نام پیش کیا ہے اس کی تضعیف بھی دیوان میں موجود ہے لیکن شاکر ذیب نے اپنے رسالہ میں اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، کیا خیال ہے ، کیا دیوان میں اس راوی کا ترجمہ بھی الحاقی ہے ؟؟؟؟؟
اسی طرح امام ذھبی کی دیگرکتابوں سے اس راوی کی تضعیف میں امام ذہبی کو جو عبارات نقل کی گئی ہیں کیا وہ سب الحاقی ہیں؟؟؟؟

کسی مخطوطہ میں الحاق پر اس طرح کی باتوں سے استدلال انتہائی بچکانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ، حددرجہ شرمناک بھی ہے !!!
.
’’الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردھم‘‘ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ


جہاں تک بات الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردھم کی ہے تو جیساکہ ثابت ہوچکاہے کہ میزان الاعتدال ،المغنی فی الضعفاء اوراس ذیل وغیرہ میں امام ابوحنیفہ کاتذکر ہ نہیں ہے۔ دیوان الضعفاء میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ مشکوک ہے اوراس کے دلائل نقل ہوچکے ہیں۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعفاء میں شمار کیا اس کے دلائل بھی نقل ہوچکے ہیں۔

لہذا جب حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ کو ضعفاء میں کہیں شمار ہی نہیں کیا تواس کتاب میں ان کے ذکر کرنے کی کوئی تک بنتی ہی نہیں ہے ۔ والسلام
بڑی عجیب بات ہے !!!
اگرجدلا مان لیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا شمار ضعفاء میں نہیں کیا ہے ، تو دوسرے ناقدین نے تو ایسا کیا ہے ، اور امام ذہبی کا اس پر مطلع ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے ، چنانچہ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ’’ تذھیب ‘‘ میں لکھا ہے جیساکہ آپ نے خود نقل کیا تھا:
قد احسن شیخناابوالحجاج حیث لم یورد شیئا یلزم منہ التضعیف
اس طرح مناقب ابی حنیفہ میں بھی امام صاحب پر یحیی بن سعید کی جرح نقل کی ہے، کما مضی ۔

معلوم ہوا کہ اگر بالفرض امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام صاحب کو ضعفاء میں شمار نہیں کیا ہے تب تو ایسی صورت میں ان کا لازمی طور پر اس کتاب میں ذکر کیا جانا ضروری تھا ، کیونکہ اس کتاب کا موضوع ہی یہی ہے کہ ان میں ایسے رواۃ کا ذکر ہو جو حافظ ذہبی کی نظر میں ضعیف نہیں بلکہ ثقہ ہیں ، لیکن ان پر جرح ہوئی ہے ، اور امام ابوحنیفہ پر جرح ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار اب تک غالی سے غالی حنفی نے بھی نہیں کیا ہے ، حتی کہ مجنون ابی حنیفہ زاہد کوثری تک نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بعض محدثین نے ابوحنیفہ پرجرح کی ہے۔

خود جمشیدصاحب بھی لکھتے ہیں:
اس سے صاف واضح ہے کہ حافظ ذہبی نے قلۃ اتقان فی الحدیث اورعدم توجہ کی بات کہی ہے وہ دراصل امام صاحب کے جارحین کے لئے بطور عذر کہی ہے
لہذا جب ابوحنیفہ پر جرح مسلم ہے اور امام ذہبی کے نزدیک یہ ثقہ ہیں تو پھر امام ذہبی کو ان کا تذکرہ اس کتاب میں ضرور کرنا چاہئے تھا لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایسا نہیں کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابوحنیفہ پر جرح مردود نہیں ہے ، بلکہ ان کا مجروح ہونا مسلم ہے ، اور ان پر کی گئی جروح ایسی نہیں کہ انہیں نظر انداز کرکے امام صاحب کو ثقات میں شمار کیاجائے۔
.
نوٹ: شروع میں ارادہ تھاکہ ایک مختصرانوٹ لکھ کر کفایت اللہ صاحب کے استدلال کی غلطیاں واضح کردوں لیکن جب لکھنے بیٹھاتو پھر لذیذ بود حکایت دراز ترگفتم والامعاملہ پیش آگیا۔
باذوق صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اس کو مستقل تھریڈ بنائیں۔ یہاں پر بات ختم ہوگئی۔ اب کفایت اللہ صاحب جوجواب دیناچاہیں شوق سے دیں۔
ویسے ہم ایک دوسرتے تھریڈ میں جوابن تیمیہ کے تعلق سے جواب کے منتظر ہیں۔ والسلام
الحمدللہ ہماری بات بھی یہاں پر ختم ہوگئی ہے، اورگذشتہ بعض مراسلات میں بھی ہم نے کچھ ترمیم کرکے بعض غلطیوں کی اصلاح کرلی ہے ،جمشیدصاحب اورتمام اراکین کا بے حد شکریہ کہ بھائیوں نے سکون سے لکھنے دیا جزاہم اللہ خیرا، اب جمشیدصاحب اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔
جہاں تک ابن تیمہ والے ٹھریڈ کی بات ہے تو وہ ایساموضوع نہیں ہے کہ اسے ترجیح دی جائے اورہمارے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ بیک وقت ہرتھریڈ پرنظررکھی جائے بہرحال فرصت ملنے پراسے بھی دیکھ لیں گے۔
والسلام۔
.

No comments:

Post a Comment