گیارہویں - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-08-22

گیارہویں

گیارہویں کی تشریح
(الف)گیارہویں کی تعریف:
ضیاء اللہ قادری صاحب لکھتے ہیں:
گیارہویں شریف درحقیقت حضرت سرکار محبوب سبحانی، قطب ربانی، غوث اعظم، شیخ عبدالقادرجیلانی کی روح پرفتوح کوایصال ثواب کرناہے۔ ]غوث الثقلین:۔ص:٢١٧[۔
مفتی احمدیارنعیمی صاحب لکھتے ہیں:
جس تاریخ کوبھی حضورغوث پاک کی فاتحہ کریں یاکچھ پیسہ ان کے نام پرخرچ کریں اس کانام گیارہویں ہوتاہے۔]جاء الحق:۔ص: ٢٦٩[۔
.
(ب)  وجہ تعیین اوروجہ تسمیہ:
گیارہویں کی وجہ تعیین اوروجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف باتیں کہی جاتی ہیں:
١:  شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ کی وفات کا دن١١ربیع الثانی تھا اس لئے اس کانام گیارہویں پڑا۔
واضح رہے کہ شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ کی تاریخ وفات کے بارے میں کافی اختلاف ہے:
آپ کی عمرکے سلسلے میں:
کوئی کہتاہے کہ آپ نے ٩٠سال کی عمرپائی۔]سیراعلام النبلاء :۔ج:٢٠،ص:٤٥٠[۔
کوئی کہتاہے کہ٩١ سال کی عمرپائی۔]ہدیہ دستگیر:۔ص:٧[۔
کوئی کہتاہے کہ٩٢سال کی عمرپائی ۔]مرآة الزمان بحوالہ مہینوں کی فضیلت وبدعات:۔ص:٥٨[۔
اورجس مہینہ میں وفات ہوئی اس سلسلے میں:
کوئی صفرکامہینہ لکھتاہے۔
کوئی ربیع الثانی کامہینہ لکھتاہے۔
اورجس تاریخ کووفات ہوئی اس بارے میں بھی کئی اقوال ہیں:
(١)٨:
(٢) ٩:
(٣) ١٠:
(٤) ١١:
(٥) ١٣:
(٦) ١٧:
(٧) ٢٧:
]بحوالہ مہینوں کی فضیلت وبدعات:ص: ٥٨[۔
آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں حافظ عبدالعزیزنقشبندی صاحب لکھتے ہیں:
سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانی نے اپنی زندگی کابیشترحصہ بغدادمیں گزارا اوربتاریخ٨ربیع الثانی بروز شنبہ ٩١سال کی عمرپاکر٥٦١ھ میں وفات پائی۔ ]ہدیہ دستگیر:۔ص:٧[۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عَاشَ الشَّیْخ عَبْد الْقَادر تِسعِینَ سَنَة، وَانتقلَ لَی اللّٰہِ فِی عَاشَر رَبیْع الآخَر سَنةَ حْدیٰ وَسِتِّینَ وَخَمس مِئَة۔
شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ ٩٠سال تک زندہ رہے اور١٠ربیع الثانی ٥٦١ھ میں وفات پائی۔]سیرا علام النبلائ:۔ج:٢٠،ص:٤٥٠[۔
معلوم ہواکہ ١١ربیع الثانی کی تاریخ شیخ عبدالقادرجیلانی کی تاریخ وفات ہے ہی نہیں ۔
٢: شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچالیسواں گیارہ تاریخ کوکرتے تھے ،اس لئے آپ کے ایصال ثواب کے لئے گیارہ تاریخ منتخب ہوئی۔
واضح رہے کہ یہ سراسرجھوٹ ہے کہ شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ چالیسواں کرتے تھے۔
٣:  مفتی احمدیارنعیمی لکھتے ہیں:
حضورغوث پاک ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بارہویں یعنی بارہ تاریخ کے میلادکے بہت پابندتھے ،ایک بارخواب میں سرکارنے فرمایاکہ عبدالقادرتم نے بارہویں سے ہم کویادکیا ، ہم تم کوگیارہویں دیتے ہیں، یعنی لوگ گیارہویں سے تم کویادکریں گے، اسی لئے ربیع الاول میں عموماً میلادمصطفی علیہ السلام کی محفل ہوتی ہے توربیع الثانی میں حضورغوث پاک کی گیارہویں ، چونکہ یہ سرکاری عطیہ تھا اس لئے تمام دنیامیں پھیل گیا۔]جاء الحق:۔ص:٢٦٩[۔
پہلی بات یہ کہ مذکورہ بات گپ اورجھوٹ ہے ، دوسری بات یہ کہ قارئین یہاں پر تھوڑی دیرکے لئے غورکریں کہ جاء الحق کے مصنف مفتی نے عیدمیلاد کوگیارہویں کے مثل قراردیاہے، نتیجہ یہ نکلاکہ جس طرح گیارہویں کا تعلق شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی وفات سے ہے اسی طرح جشن میلاد کا تعلق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہی سے ہے ! یعنی یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ میلادپرنہیں بلکہ تاریخ وفات پرجشن مناتے ہیں ، بلکہ ایک زمانہ تک یہ لوگ اسے صراحت کے ساتھ بارہ وفات کہتے بھی تھے۔
٤:  مفتی احمدیارنعیمی مزید لکھتے ہیں:
گیارہویں کے مقررہونے کی وجہ یہ ہوئی کہ سلاطین اسلامیہ کے تمام محکموں میں چاندکی دسویں تاریخ کوتنخواہ تقسیم ہوتی تھی، اورملازمین کاخیال یہ تھا کہ ہماری تنخواہ کا پہلاپیسہ حضورغوث پاک کی فاتحہ پرخرچ ہو، لہٰذاجب وہ شام کودفترسے گھرآتے توکچھ شیرینی لیتے آتے ،بعدنمازمغرب فاتحہ دی،یہ شب گیارہویں ہوتی تھی، یہ رواج ایساپڑاکہ مسلمانوں میں اس فاتحہ کا گیارہویں شریف نام ہی ہوگیا، اب جس تاریخ کوبھی حضورغوث پاک کی فاتحہ کریں یاکچھ پیسہ ان کے نام پرخرچ کریں اس کانام گیارہویں ہوتاہے، یوپی اورکاٹھیا واڑمیں ماہ ربیع الآخرمیں سارے ماہ فاتحہ ہوتی ہے مگرنام گیارہویں ہی ہوتاہے ]جاء الحق:۔ص:٢٦٩[۔
قارئین غورفرمائیں کہ دنیائے بریلویت کی یہ کیسی بوالعجبی ہے کہ عوام کی جہالتوں کو بطوردلیل پیش کیا جاتاہے، نیزملون عبارت پرغورکریں ، اوردیکھیں کہ کس طرح صاف صاف لفظوں میں اقرارکیاجارہاہے کہ گیارہویں میں غیراللہ کے نام پرخرچ کیاجاتاہے۔
.
گیارہویں کی اقسام
(الف)گیارہویں کی قسمیں بلحاظ زمان ووقت:
١:  بڑی گیارہویں :
یہ گیارہویں ماہ ربیع الآخرمیںگیارہ تاریخ کو کی جاتی ہے،چونکہ پورے سال میں اس تاریخ کوسب سے زیادہ گیارہویں کا اہتمام ہوتاہے،اس لئے اسے بڑی گیارہویں کہاجاتاہے۔
٢:  چھوٹی گیارہویں:
یہ گیارہویں ہراسلامی ماہ کی گیارہ تاریخ کو کی جاتی ہے ۔
خلیل احمدرانا لکھتے ہیں:
موجودہ دورمیں ایصال ثواب کے پروگرام مختلف ناموں سے جانے اورپہچانے جاتے ہیں جن میں ایک نام گیارہویں شریف کابھی آتاہے، حضورغوث اعظم سیدنا عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ سے عقیدت ومحبت کی وجہ سے ہراسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کوایصال ثواب کرنے کی وجہ سے اس ایصال ثواب کانام گیارہویں مشہورہوگیا۔]گیارہویں کیا ہے؟:ص:٤[۔
٣:  عام گیارہویں:
مفتی احمدیارنعیمی مزید لکھتے ہیں:
 اب جس تاریخ کوبھی حضورغوث پاک کی فاتحہ کریں یاکچھ پیسہ ان کے نام پرخرچ کریں اس کانام گیارہویں ہوتاہے، یوپی اورکاٹھیا واڑمیں ماہ ربیع الآخرمیں سارے ماہ فاتحہ ہوتی ہے مگرنام گیارہویں ہی ہوتاہے ۔]جاء الحق:۔ص: ٢٦٩[۔
.
(ب) گیارہویں کی قسمیں بلحاظ کیفیت:
کیفیت وعمل کے لحاظ سے گیارہویں کی درج ذیل تین قسمیں ہیں:
١:  قربانی:  
اہل بدعت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ کے نام پربکراخریدتے ہیں اورپھرشیخ رحمہ اللہ کاتقرب حاصل کرنے کے لئے اوران سے اپنی بگڑی بنوانے کے لئے ،گیارہویں کانام دے کراسے ذبح کرتے ہیں۔
اوربعض ظالم بدعتی اورمشرک توایسے بھی ہیں جوعیدالاضحی کی قربانی میں بھی گیارہویں کی نیت کرلیتے ہیں ،جیسا کہ ہم یہاں گلبرگہ میں سنتے ہیں، نعوذباللہ من ذلک۔
٢:  نذرونیاز:
بعض اہل بدعت یہ نذرمانتے ہیں کہ اگرمیرافلاں کام ہوگیاتومیں گیارہویں کروں گا، اورکام ہوجانے کی صورت میں اس پرعمل کرتے ہیں ۔
٣:  ایصال ثواب:
بعض لوگ شیخ عبدالقادرجیلانی کی روح کوثواب پہنچانے کی خاطرایصال ثواب کے نام پرگیارہویں کرتے ہیں۔]غوث الثقلین:۔٢١٧[۔
لیکن یہاں بھی نیت یہی ہوتی ہے کہ ایساکرکے ہم ان کی نظرمیں محبوب بنیں گے اورپھروہ ہماری مددکریں گے۔
.

گیارہویں کی شرعی حیثیت
 قربانی کی شکل میں گیارہویں کاحکم:
یہ گیارہویں شرک ہے اورایساکرنے والاہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا، کیونکہ قربانی عظیم الشان عبادت ہے اوریہ عبادت صرف اورصرف اللہ کے لئے ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
( فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر) ]١٠٨الکوثر:۔٢[۔
پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
دوسری جگہ ارشادہے:
(قُلْ ِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ)]٦الانعام:۔ ١٦٢۔١٦٣[۔
آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے،اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں ۔
اورعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَعَنَ اللہُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَہُ، وَلَعَنَ اللہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللہِ، وَلَعَنَ اللہُ مَنْ آوَی مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللہُ مَنْ غَیَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ۔
]صحیح مسلم :۔١٥٦٧٣،رقم:١٩٧٨[۔
ایسے آدمی پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے جو آدمی اپنے والدین پر لعنت کرتا ہے ایسے آدمی پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی تعظیم کے لئے ذبح کرے اور ایسے آدمی پر بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے کہ جو کسی بدعتی آدمی کو پناہ دیتا ہے اور ایسے آدمی پر بھی اللہ کی لعنت ہوتی ہے کہ جو آدمی زمین کی حدبندی کے نشانات کو مٹاتا ہے۔
.
 نذرونیاز کی شکل میں گیارہویں کاحکم:
یہ گیارہویں بھی شرک ہے، کیونکہ نذرایک عبادت ہے جوصرف اورصرف اللہ ہی کے لئے خاص ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کی والدہ کی نذرکا تذکرہ یوں کیا ہے:
(ِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ ِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِی بَطْنِی مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّی ِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ) ]٣آل عمران:۔٣٥[۔
جب عمران کی بیوی نے کہا کے اے میرے رب!میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی، تو میری طرف سے قبول فرما، یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے۔
اوردوسری جگہ مریم علیہاالسلام کی نذرکا تذکرہ اس طرح ہے:
( فَکُلِی وَاشْرَبِی وَقَرِّی عَیْنًا فَِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِی ِنِّی نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ ِنْسِیًّا)]١٩مریم :٢٦[۔
اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑ جائے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمان کے نام کا روزہ رکھا ہے۔ میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی۔
معلوم ہوا کہ نذرونیاز اوردیگرعبادات کے لائق صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے، کفارمکہ چونکہ غیراللہ کے لئے نذرونیاز کرتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کوشرک قراردیا ہے۔
اللہ فرماتاہے:
(مَا جَعَلَ اللَّہُ مِنْ بَحِیرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِیلَةٍ وَلَا حَامٍ وَلَکِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یَفْتَرُونَ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَأَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ)]٥المائدة:۔١٠٣[۔
اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے۔
دوسرے مقام پر فرماتاہے:
(وَجَعَلُوا لِلَّہِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا ہَذَا لِلَّہِ بِزَعْمِہِمْ وَہَذَا لِشُرَکَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِہِمْ فَلَا یَصِلُ ِلَی اللَّہِ وَمَا کَانَ لِلَّہِ فَہُوَ یَصِلُ ِلَی شُرَکَائِہِمْ سَاء َ مَا یَحْکُمُونَ)]٦الأنعام:۔١٣٦[۔
اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی ،اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ۔
چنانچہ صحابی رسول عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ِنَّمَا النَّذْرُ مَا ابْتُغِیَ بِہِ وَجْہُ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔
]مسند أحمد ط الرسالة:۔٥٥٨١١،رقم:٦٩٧٥وسندہ حسن[۔
نذرصرف اورصرف اللہ کی رضاہی کے لئے ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ تمام فقہاء نے غیراللہ کے لئے نذرونیاز کوحرام قراردیاہے۔دیکھئے:]الردالمحتار علی الدرالمختار:۔١٢٨٢، البحرالرائق:۔٢٩٨٢، فتاویٰ عالمگیری:۔٢١٦١[۔
.
ایصال ثواب کی شکل میں گیارہویں کا حکم:
اگرشیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ کے لئے ایصال ثواب کے ساتھ ساتھ یہ نیت بھی ہوکہ ایساکرنے سے وہ ہماری بگڑی بنائیں گے تویہ گیارہویں بھی شرک ہے، اوراگریہ نیت نہ ہواورمقصد صرف ایصال ثواب ہوتویہ بدترین بدعت وضلالت ہے، کتاب وسنت میں ایصال ثواب کاکوئی ثبوت نہیں ہے،بلکہ کتاب وسنت سے اس کی تردید ہوتی ہے۔
اللہ کا ارشادہے:
(وَأَنْ لَیْسَ لِلِْنْسَانِ ِلَّا مَا سَعَی )]٥٣النجم:۔٣٩[۔
اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔
ایک دوسری جگہ ارشادہے:
(وَلَا تَزِرُ وَازِرَة وِزْرَ أُخْرَی وَِنْ تَدْعُ مُثْقَلَة ِلَی حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْء  وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَی ِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَمَنْ تَزَکَّی فَِنَّمَا یَتَزَکَّی لِنَفْسِہِ وَِلَی اللَّہِ الْمَصِیرُ )  ]٣٥فاطر:۔١٨[۔
کوئی بھی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اگر کوئی گراں بار دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے بلائے گا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھائے گا گو قرابت دار ہی ہوتو صرف انہی کو آگاہ کر سکتا ہے جو غائبانہ طور پر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور جو بھی پاک ہو جائے وہ اپنے نفع کے لئے پاک ہوگا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے۔
اورصحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
…مَنْ بَطَّأَ بِہِ عَمَلُہُ، لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ۔
]صحیح مسلم :۔٢٠٧٤٤،رقم:٢٦٩٩[۔
اور جس شخص کو اس کے اپنے اعمال نے پیچھے کردیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔

No comments:

Post a Comment