مصلحينا على الحق - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-08-04

مصلحينا على الحق

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
« حدثنا وكيع ، عن شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن سلمة ، قال : رأيت عمارا يوم صفين شيخا آدم طوالا ويداه ترتعش وبيده الحربة ، فقال : لو ضربونا حتى يبلغوا بنا سعفات هجر لعلمت أن مصلحينا على الحق وأنهم على الباطل.»
”عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے صفین کے دن عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو دیکھا ، وہ عمررسیدہ ، گندم گوں اور دراز قد والے تھے ، وہ کانپ رہے تھے اور انہوں نے اپنے ہاتھ میں نیزہ پکڑ رکھا تھا ، انہوں نے کہا : اگر یہ لوگ (اہل شام) ہمیں مارتے ہوئے ہجر کی چوٹیوں تک بھی پہنچ جائیں تو بھی میں یہی سمجھوں گا کہ ہمارے مصلحین حق ہیں اور وہ باطل پر ہیں“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 15/ 296، وانظر: مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 319 ، مسند أبي يعلى 3/ 185 ت حسين أسد ، المستدرك على الصحيحين 7/ 93 ط المنهاج القويم ، صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع (4/ 270) رقم3417]
.
اس روایت میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے الفاظ « أن مصلحينا على الحق» پر غور کیں کہ عمار بن یاسررضی اللہ عنہ نے حق کی نسبت اپنے گروہ کے تمام افراد کی طرف نہیں کی ہے بلکہ اپنے گروہ میں صرف ”مصلحین“ کو حق پر کہا ہے
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی یہ صراحت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے گروہ میں ”مفسدین“ بھی تھے ، اور یہ مفسدین وہی تھی جنہوں نے خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت برپا کی حتی کہ انہیں شہید کرڈالا۔
.
یہ روایت صحیح یا کم ازکم حسن ہے:
① امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے (صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع (4/ 270) رقم3417)
② امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے ۔(المستدرك على الصحيحين 7/ 93 ط المنهاج القويم)
③ امام بوصیری رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔(إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 8/ 14)
④ علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے ( التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان 10/ 172)
⑤ حسين سليم أسد نے اسے حسن کہا ہے ( مسند أبي يعلى (3/ 185 ت حسين أسد) رقم 1610)
⑥ سعيد بن محمد السناري نے اسے حسن کہا ہے (مسند أبي يعلى - ت السناري (3/ 142 رقم 1610)
.
”عبداللہ بن سلمہ“ کے شاگرد ”عمرو بن مرة“ نے کہا ہے کہ یہ آخر میں اختلاط کے شکار ہوگئے تھے ۔
لیکن چونکہ یہاں عبداللہ بن سلمہ نے کسی سے سن کوئی بات نقل نہیں کی ہے بلکہ جنگ کی حالت میں براہ راست جو دیکھا اور سنا وہ نقل کیا ہے لہٰذا اس میں بھولنے کا امکان نہیں ہے ۔
اس لئے محدثین نے ان کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے چنانچہ:
➊ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
« وما دام أن حديثه هذا موقوف , وعمّن شاهده؛ فأنا إلى تحسينه أميلُ »
”چونکہ یہ حدیث موقوف ہے اور راوی کا اپنا مشاہدہ ہے لہٰذا میں اس کی تحسین کی طرف مائل ہوں“ [التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان 10/ 172]
➋ سعيد بن محمد السناري لکھتے ہیں:
«يبدو لى من سياق هذا الأثر: أن عبد الله بن سلمة قد حفظه إن شاء الله»
”اس اثر کے سیاق سے ظاہر ہے کہ عبداللہ بن سلمہ نے اسے یاد رکھا ہے، ان شاء اللہ“ (مسند أبي يعلى - ت السناري 3/ 143)
➌ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے اصول سے تو یہ روایت ہر لحاظ سے صحیح اور بے داغ ہے ۔
چناچنہ آپ ایک جگہ ”عبداللہ بن سلمہ“ کی روایت کو صحیح قرار دینے کے بعد ان کے اختلاط کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اس کا جواب یہ ہے کہ اس اختلاط کا علم عبداللہ مذکور کے شاگرد عمرو بن مرہ سے ہوا ہے اور اس حدیث کے راوی بھی عمروبن مرہ ہی تھے لہٰذا یہ دلیل ہے کہ عمروبن مروہ(ثقہ امام) نے عبداللہ بن سلمہ مذکور سے یہ روایت قبل ازاختلاط ہی سنی ہے۔ محدثین کرام کا اسے صحیح وحسن قراردینا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت عبداللہ بن سلمہ نے اختلاط سے پہلے بیان کی ہے۔“ [فتاوي علمية: ج 1 ص: 200]

No comments:

Post a Comment