حدیث علی ، تفسیر{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}تحریف شدہ روایت
ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
ذكر الأثرم قال حدثنا أبو الوليد الطيالسي قال حدثنا حماد بن سلمة عن عاصم الجحدري عن عقبة بن صهبان سمع عليا يقول في قول الله عز وجل {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}قال وضع اليمنى على اليسرى تحت السرة
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھ کر ناف کے نیچے رکھنا مراد ہے۔[التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 20/ 78]
عرض ہے کہ تمہید کے اس نسخہ میں ’’السرۃ‘‘ (ناف) کالفظ کتاب کے محقق نے اپنی طرف سے بنادیا ہے ۔ اور اصل قلمی نسخہ جس سے نقل کرکے یہ کتاب چھاپی گئی ہے اس میں اس روایت کے اخیر میں ’’السرہ‘‘ (ناف) کا لفظ ہرگز نہیں ہیں۔بلکہ ’’الثندوۃ‘‘ (چھاتی) کا لفظ ہے۔
''الثندوۃ''کے معانی چھاتی ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے:
والثندوة للرجل: بمنزلة الثدي للمرأة
''ثندوہ'' مرد کی چھاتی کو کہا جاتا ہے جس طرح عورت کی چھاتی کو ''ثدی'' کہا جاتا ہے[لسان العرب : 1/ 41].
دیوبندیوں کی ڈکشنری القاموس الوحید میں ہے:
الثندوہ : مرد کا پستان[القاموس الوحید: 224]
اور ''تحت الثندوہ'' کا مطلب ’’چھاتی کے نیچے‘‘ ہوتا ہے۔
اور چھاتی کے نیچے سینہ ہی ہوتا ہے چنانچہ احناف عورت کے لئے نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم دیتے ہیں اور ان کی مشہور کتاب ’’الدر المختار‘‘ میں ہے:
وتضع المرأة والخنثى الكف على الكف تحت ثديها
اورعورت اور مخنث ہتھیلی کو ہتھیلی پررکھ کر اپنی چھاتی کے نیچے رکھے گی[الدر المختار وحاشية ابن عابدين :1/ 487 نیز دیکھیں: ]
اسی طرح احناف کی ایک اور کتاب میں ہے:
وتضع يمينها على شمالها تحت ثدييها
عورت اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر اپنی چھاتیوں کے نیچے رکھے گی[البحر الرائق شرح كنز الدقائق :1/ 339 ]
احناف کی درج بالا کتابوں میں عورت کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنی چھاتی کے نیچے ہاتھ باندھے جب کی احناف کی کی بعض کتابوں میں یوں کہا گیا ہے کہ عورت اپنے سینے پر ہاتھ باندھے چنانچہ:
احناف کی مشہور کتاب ’’البحر الرائق‘‘ ہے:
فإنها تضع على صدرها
کیونکہ عورت اپنے سینے پر ہاتھ باندھے گی [البحر الرائق شرح كنز الدقائق :1/ 320].
اسی طرح احناف کی ایک اور کتاب میں ہے:
وإذا كبر وضع يمينه على يساره تحت سرته والمرأة تضع على صدرها
اورتکبیرکہنے کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے ناف کے نیچے رکھے گا اور عورت اپنے سینے پر رکھے گی [تحفة الملوك ص: 69۔ نیزدیکھیں:تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق:1/ 107،البناية شرح الهداية:2/ 183]۔
احناف کی ان کتابوں میں یہ کہا گیا ہے کہ عورت اپنے سینے پر ہاتھ باندھے ، جب کہ اس سے قبل مذکورہ کتابوں میں یہ کہا گیا ہے کہ عورت اپنی چھاتی کے نیچے ہاتھ باندھے۔
ظاہر ہے کہ احناف یہی کہیں گے کہ ان دنوں الفاظ میں معنوی طور پر ایک ہی بات ہے یعنی دونوں کا مطلب یہی ہے کہ عورت اپنے سینے پر ہاتھ باندھے۔
ہم بھی یہاں پر یہی کہتے ہیں کہ اس روایت میں جو چھاتی کے نیچے ہاتھ باندھنے کے الفاظ ہیں اور دوسری روایات میں جو سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے ان دنوں میں معنوی طور پر ایک ہی بات ہے یعنی دونوں کا مطلب سینے پر ہاتھ باندھنا ہی ہے۔
الغرض یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل نہیں ہے بلکہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے کیونکہ اس روایت کے اخیر میں ’’السرۃ‘‘(ناف) کا لفظ موجود ہی نہیں ہے بلکہ صحیح لفظ ’’الثندوۃ‘‘ (چھاتی ) ہی ہے۔ اس بات پر دس دلائل ملاحظہ ہوں:
پہلی دلیل: محقق کا اعتراف
التمھید کے محقق نے حاشیہ میں خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس روایت کے اخیر میں ’’السرۃ‘‘ (ناف) کا لفظ اسی نے بنایا ہے ۔اور اصل قلمی نسخے میں یہاں پر ’’السرۃ‘‘ (ناف) کا لفظ نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ ’’التندوۃ‘‘ کا لفظ ہے:
چنانچہ جس صفحہ پریہ روایت ہے اسی صفحہ پر حاشیہ میں محقق لکھتاہے:
(42) التندوۃ : ا -ق ولعلل الصواب ما اثبتہ کما ھی الروایۃ۔
’’التندوۃ‘‘ نسخہ استنبول میں ایسا ہے اور نسخہ اوقاف میں ناقص ہے ۔ اورشاید صحیح وہی ہے جو میں نے بنایا ہے جیساکہ اس طرح کی روایت ہے۔[التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 20/ 78 : حاشیہ نمبر 42]
نوٹ: اس حاشیہ کے ترجمہ میں ہم نے رموز کے مفہوم کا بھی ترجمہ کردیا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب : انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر :ص 298۔
ہمارے خیال سے محقق صاحب اصل مخطوطہ یعنی قلمی نسخہ میں موجود اس لفظ کو صحیح طور سے پڑھ ہی نہیں سکے دراصل یہ لفظ ’’الثندوۃ‘‘ (ثاء مثلثہ کے ساتھ) ہے جیساکہ خطیب بغدادی کی روایت آگے آرہی ہے اور ’’الثندوۃ‘‘ کے معنی چھاتی کے ہوتے ہیں ،کما مضی۔
اورچونکہ مخطوطات اور قلمی نسخوں میں بہت سارے حروف پر نقطے لکھے ہی نہیں جاتے تھے یا لکھے بھی جاتے تھے تو تین نقطے اور دو نقطے کبھی اس طرح لکھ جاتے کہ دیکھنے میں دونوں ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں۔اب اصل قلمی نسخۃ میں ’’الثندوۃ‘‘ کے ثاء پر تین نقطہ واضح نہیں رہا ہوگا اس لئے محقق نے اس حرف پر صرف دو ہی نقطہ سمجھا اوراس بنیاد پر اس نے اس لفظ کو ’’التندوۃ‘‘ (یعنی ’’تاء‘‘ کے ساتھ پڑھا) یا ممکن ہے ناسخ نے ہی اسے واضح طور پر’’التندوۃ‘‘ تاء کے ساتھ ہی لکھا ہو اور چونکہ ’’التندوہ‘‘ (تا کے ساتھ) کا کوئی معنی نہیں ہوتا اس لئے محقق نے اس لفظ کو بامعنی بنانے کے لئے اسے بدل کر ’’السرۃ‘‘ بنادیا۔(نسخوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب: انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر : ص300)
عرض ہے کہ اگر اصل قلمی نسخۃ میں یہ لفظ ’’التندوۃ‘‘ تھا تو اس کی درست تصحیح یہ ہے کہ حروف میں کوئی تبدیلی کئے بغیر صرف حرف تاء پر ایک نقطہ بڑھا دیا جائے اور اسے ’’الثندوہ‘‘ کردیا جائے ۔ اس کے لئے علاوہ اس میں کسی اور تبدیلی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ:
- (الف): ’’التندوۃ‘‘ کے ’’تاء‘‘ پر صرف ایک نقطہ بڑھانے سے یہ لفظ بامعنی بن جاتاہے۔لہٰذا اصل لفظ میں مزید تصرف کا کوئی جواز نہیں ہے۔
- (ب): صرف ایک نقطہ کے اضافہ کے بعد اصل حروف میں کسی تبدیلی کے بغیر یہ لفظ بامعنی ہوجاتاہے۔لہٰذا حروف بدلنے کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے۔
- (ج): اورایک نقطہ کے اضافہ کے بعد معنی بھی اس روایت کے دیگر طرق میں وارد لفظ کے موافق ہوجاتاہے جیساکہ کی وضاحت جاچکی ہے۔
- (د): بلکہ خطیب بغدادی کی کتاب ’’موضح أوهام الجمع والتفريق‘‘ میں یہ روایت ٹھیک اسی سند ومتن کے ساتھ ہے اور اس میں واضح طور پر ’’الثندوہ‘‘ کا لفظ موجود ہے ۔ یہ بڑی زبردست دلیل ہے کہ اس روایت میں اصلا یہی لفظ ہے۔
- (ھ): لغوی اعتبار سے ’’وانحر‘‘ کی تفسیر میں ’’الثندوۃ‘‘ کا لفظ معنوی طور پر مناسب ہے لیکن لغوی اعتبار سے ’’السرۃ‘‘ (ناف) کا ’’وانحر ‘‘ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔بلکہ وانحر کی تفسیر میں’’السرۃ‘‘ (ناف) کا لفظ لانا حددرجہ مضحکہ خیز ہے۔
اگر محقق نے تفسیری روایت مراد لی ہے تو اس نے صریح جھوٹ بولا ہے کیونکہ ایسی تفسیری روایت کہیں موجود ہی نہیں ہے ، اور نہ ہی محقق نے کوئی حوالہ دیاہے۔
اوراگر محقق کی مراد ابوداؤد میں عبدالرحمان بن اسحاق الکوفی بالاتفاق ضعیف شخص کی روایت ہے تو عرض ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ تفسیری روایت بھی نہیں ہے نیز اس کی سند بھی الگ تھلگ ہے اس کے رواۃ بھی دوسرے ہیں۔ دیکھئے: انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر:ص264 تا 280۔
لہٰذا اس الگ سیاق اور الگ روایت وہ بھی بالاتفاق ضعیف روایت کی بنیاد پر اس تفسیری روایت میں تبدیلی کرنا کا بہت بڑا عجوبہ ہے۔
کیونکہ کسی روایت کے الفاظ وغیرہ کی تصحیح کے لئے عین اسی روایت کو اسی سیاق میں اسی سند سے دیگرکتب میں تلاش کیا جاتا ہے پھرکوئی تصحیح کی جاتی ہے۔ اس اصول کے تحت محقق کو چاہئے تھا کہ اس تفسیری روایت کو اسی سیاق اور اسی سند کے ساتھ دوسری کتاب میں تلاش کرتے۔ ایسا کرنے پر انہوں بخوبی معلوم ہوجاتا کہ اس روایت کے دیگر بہت سارے طرق میں صریح طورپر سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ، اس لئے محقق کو اگر لفظ کی تصحیح ہی کرنی تھی تو موصوف صرف اس لفظ کے تاء پر صرف ایک نقطہ اور بڑھاکر اسے ’’الثندوۃ‘‘ کردیتے کیونکہ ایساکرنے سے معنوی طور پر یہ لفظ اس روایت کے دیگر طرق میں وارد لفظ کے موافق ہوجاتاہے۔
بلکہ خطیب بغدادی میں یہ روایت اسی سند ومتن کے ساتھ ہے اور اس میں واضح طور پر ’’الثندوۃ‘‘ کا لفظ موجودہے۔کماسیاتی۔
مزید یہ کہ اس روایت میں قرانی لفظ ''وانحر'' کی تفسیر ہے اور لغوی اعتبار سے ''ثندوۃ'' (چھاتی کے نیچے یعنی سینہ) کا مفہوم ''نحر'' (گلے سے نیچے کاحصہ ) سے مناسبت رکھتا ہے ۔لیکن ایک پل کے لئے غور کیجئے کہ ''السرۃ'' (ناف) کا ''نحر'' سے کیا تعلق ہے؟ کہاں ''نحر'' جو جسم کے اوپری حصہ میں ہے اور کہاں ''السرۃ'' (ناف) جو جسم کے نچلے حصہ میں ہے ۔ بھلا ان دونوں میں کیا مناستب ہے؟ ان دونوں میں اس قدر بعد المشرقین کے باوجود نامعلوم کس عقل ومنطق سے محقق صاحب ''وانحر '' کی تفسیر میں ''السرۃ'' (ناف) کا لفظ لے آئے۔
بہرحال اول تو محقق صاحب اس لفظ کو صحیح طور سے پڑھ نہیں پائے دوسرے یہ کہ اگر انہوں نے غلط ہی پڑھا تھا توبھی تصحیح کرتے ہوئے انہیں اس لفظ کو ”الثندوۃ “ ہی بنانا چاہیے تھا ۔چناں چہ ان کی تحقیق کے بعد اسی کتاب کی ایک دوسرے محقق دکتور عبداللہ بن المحسن الترکی نے بھی تحقیق کی ہے اورانہوں نے اپنے محقق نسخہ میں یہاں” الثندوۃ“ ہی لکھا ہے ۔اورحاشیہ میں تنبیہ بھی کی ہے کہ ان سے پہلے محقق نے اپنے نسخہ میں اسے ”السرۃ“ لکھ دیا ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب: انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر : ص302 تا 304۔
No comments:
Post a Comment