نومولود کے لئے تحنیک (گھٹی دینے) کا مسئلہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-03-22

نومولود کے لئے تحنیک (گھٹی دینے) کا مسئلہ


نومولود کے لئے تحنیک (گھٹی دینے) کا مسئلہ

✿ ✿ ✿
(کفایت اللہ سنابلی)
بچہ کی پیدائش کے وقت ہمارے یہاں یہ ایک چیز یہ بھی رائج ہے کہ کسی بزرگ شخصیت کو بلا کر تحنیک کروائی جاتی ہے ، تحنیک کا مطلب ہے کہ کجھور یا میٹھی چیز کوئی بزرگ صاحب اپنے منہ میں چباکر نرم کرتے ہیں پھر اسے نومولود بچے کے تالو سے لگادیتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل ثابت ہے اس بابت کئی صحیح احادیث مروی ہیں ، ایک ملاحظہ ہو:

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيُبَرِّكُ عَلَيْهِمْ وَيُحَنِّكُهُمْ، فَأُتِيَ بِصَبِيٍّ فَبَالَ عَلَيْهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَأَتْبَعَهُ بَوْلَهُ وَلَمْ يَغْسِلْهُ»“ 
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچوں کو لایا جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے برکت کی دعاء کرتے اور انہیں گھٹی دیتے تھے۔ چنانچہ ایک بار ایک بچے کو لایاگیا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ہی پیشاب کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور پیشاب کی جگہ پرچھینٹا مار دیا اور اسے دھلا نہیں“ [صحيح مسلم 1/ 237 رقم 286]

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے نومولود بچوں کو لاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں گھٹی دیتے تھے ۔
لیکن یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے اس کے دلائل درج ذیل ہیں:

 ● خصوصیت کی پہلی دلیل:
یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جسمانی تبرک حاصل کرنے کے قبیل سے ہے لہذا یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے ۔ کیونکہ یہ طے شدہ بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے بھی جسمانی تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔

 ● خصوصیت کی دوسری دلیل:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عہد رسالت میں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی اور سے تحنیک نہیں کروائی ہے یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے ۔ اگر خصوصیت کی بات نہ ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی میں آپ کی عدم موجودگی یا آپ تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں دوسروں سے تحنیک کرواتے ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کے دور میں یا تابعین کے دور میں یہ عمل باقی رہتا ہے۔
لیکن کسی بھی صحیح روایت میں یہ نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ آپ کی زندگی میں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحابی یا تابعی نے یہ عمل کیا ہو ۔لہٰذا خیرالقرون میں اس عمل کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے۔بالخصوص جبکہ اس کا تعلق جسمانی تبرک سے ہے۔

شیخ ابوعبدلمعز محمدعلی فرکوس حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
 ”هذه الأحاديث -على الصحيح- إنّما تدلّ على مشروعية التبرك بذات النبي صلى الله عليه وآله وسلم وريقه ولعابه... وهو أمر مجمع عليه، غير أنّه ليس فيها دلالة على جواز التبرك بذوات الصالحين وآثارهم، إذ لم ينقل حصول هذا النوع من التبرك من الصحابة رضي الله عنهم بغيره صلى الله عليه وسلم لا في حياته ولا في مماته، وقد كان فيهم الخلفاء الراشدون وبقية العشرة المبشرين بالجنّة وغيرهم، وهم أفضل القرون لاعتقادهم اختصاص الرسول الله عليه وآله وسلم بمثل هذا التبرك دون سواه، وقد أثبت الشاطبي إجماع الصحابة رضي الله عنهم على ترك ذلك التبرك فيما بينهم حيث يقول: وهو إطباقهم – أي الصحابة – على الترك، إذ لو كان اعتقادهم التشريع لعمل به بعضهم بعده، أو عملوا به ولو في بعض الأحوال، إمّا وقوفا مع أصل المشروعية وإمّا بناء على اعتقاد انتفاء العلة الموجبة للامتناع الاعتصام للشاطبی : ج2 ص 10 وقال – رحمه الله – في موضع آخر: فعلى هذا المأخذ: لا يصح لمن بعده الاقتداء به في التبرك على أحد تلك الوجوه ونحوها، ومن اقتدى به كان اقتداؤه بدعة، كما كان الاقتداء به في الزيادة على أربع نسوة بدعة الاعتصام: ج2 ص9 وعليه فإنّ القول بجواز التبرك بريق الصالحين ولعابهم من جهة التحنيك هو القول بجواز التبرك بذوات وآثار الصالحين قياسًا على النبي صلى الله عليه وآله وسلم ولا يخفى أنّ مثل هذا القياس فاسد الاعتبار لمقابلته للإجماع المنقول عن الصحابة رضي الله عنهم في تركهم لهذا الفعل مع غير النبي صلى الله عليه وآله وسلم ولو كان خيرا لسبقونا إليه“ ۔
 ”صحیح بات یہ ہے کہ یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ، آپ کے تھوک اور آپ کے لعاب سے تبرک حاصل کرنا مشروع ہے اور یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ لیکن ان میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بزرگوں کی ذات اور ان کے آثار سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔کیونکہ صحابہ کرام سے اس طرح کا تبرک اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور سے منقول نہیں ہے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ۔جبکہ صحابہ میں خلفاء راشدین اور عشرہ مبشرۃ وغیرہم موجود تھے اور یہ سب سے بہتر دور والے ہیں ۔اس کی وجہ یہی ہے ہے کہ صحابہ کرام کا عقیدہ یہی تھا کہ اس طرح کا تبرک صرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے۔
اورامام شاطبی رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آپس میں اس طرح کے تبرک نہ لینے پراجماع نقل کیا ہے ۔چناں چہ آں رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام صحابہ کرام نے آپس میں اس طرح کے تبرک کو ترک کردیا ہے ، اگر اس کی مشروعیت پر ان کا اعتقاد ہونا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بعض صحابہ اس پر عمل کرتے یا تمام صحابہ بعض اوقات اس پر عمل کرتے یا تو مشروعیت سمجھ کریا منع کی علت نہ ہونے کی بناپر ۔ آں رحمہ اللہ دوسری جگہ فرماتے ہیں: اس بناپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد والوں کے لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ تبرک کے سلسلے میں ان معاملات میں یا ان جیسے معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں ۔اورجس نے اقتداء کی اس کی اقتداء بدعت ہوگی جس طرح چار سے زائد شادی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء بدعت ہے۔
لہذا تحنیک کے قبیل سے بزرگوں کے تھوک اور ان کے لعاب سے تبرک حاصل کرنے کے جواز کی بات کرنا ایسے ہی ہے جیسے بزرگوں کے جسموں اور ان کے آثار سے تبرک کے جواز کی بات کہی جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرتے ہوئے ۔اوریہ بات مخفی نہیں کہ یہ قیاس فاسد اور ناقابل اعتبار ہے کیونکہ یہ صحابہ کرام سے منقول اس اجماع کے خلاف ہے کہ صحابہ کرام نے غیر نبی کے ساتھ اس کام کو ترک کیا ہے۔ اگر یہ اچھا کام ہوتا تو ہم سے پہلے صحابہ کرام اس پر عمل کرتے“ [40 سوالا فی احکام المولود: 58 تا 61]

بعض شبہات کا ازالہ

 ✿ پہلا شبہ :
بعض حضرات کہتے ہیں کہ تحنیک کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ہمارے لئے اسوہ قراردیا گیا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ سلم کے اس اسوہ کو اپنایا جائے گا۔
جوابا عرض ہے کہ اس اصول سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات مستنثی ہے ۔ بہت سے ایسے اعمال ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے ہیں لیکن ہم انہیں نہیں کرسکتے کیونکہ یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہیں ۔ مثلا چار سے زائد شادی کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے لیکن ہم یہ عمل نہیں کرسکتے کیونکہ یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے ۔
ٹھیک اسی طرح جسمانی تبرک یہ بھی صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے ۔لہذا کسی اور شخصیت سے جسمانی تبرک حاصل کرنا درست نہیں ۔بالخصوص جبکہ صحابہ وتابعین کا ایسا کوئی عمل بھی نہیں ملتا۔

 ✿ دوسرا شبہہ:
بعض حضرات مسند احمد کی اس حدیث سے عموم کا استدلال کرتے ہیں:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ، فَخَرَجَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَتُوُفِّيَ الْغُلَامُ، فَهَيَّأَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ الْمَيِّتَ. وَقَالَتْ لِأَهْلِهَا: لَا يُخْبِرَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ أَبَا طَلْحَةَ بِوَفَاةِ ابْنِهِ، فَرَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ مِنْ أَصْحَابِهِ. قَالَ: مَا فَعَلَ الْغُلَامُ؟ قَالَتْ: خَيْرُ مَا كَانَ، فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِمْ عَشَاءَهُمْ، فَتَعَشَّوْا وَخَرَجَ الْقَوْمُ، وَقَامَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى مَا تَقُومُ إِلَيْهِ الْمَرْأَةُ، فَلَمَّا كَانَ آخِرُ اللَّيْلِ، قَالَتْ: يَا أَبَا طَلْحَةَ، أَلَمْ تَرَ إِلَى آلِ فُلَانٍ اسْتَعَارُوا عَارِيَةً فَتَمَتَّعُوا بِهَا، فَلَمَّا طُلِبَتْ كَأَنَّهُمْ كَرِهُوا ذَاكَ. قَالَ: مَا أَنْصَفُوا، قَالَتْ: فَإِنَّ ابْنَكَ كَانَ عَارِيَةً مِنَ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَإِنَّ اللهَ قَبَضَهُ فَاسْتَرْجَعَ وَحَمِدَ اللهَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَآهُ قَالَ: " بَارَكَ اللهُ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا "، فَحَمَلَتْ بِعَبْدِ اللهِ فَوَلَدَتْهُ لَيْلًا، وَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحَمَلْتُهُ غُدْوَةً، وَمَعِي تَمَرَاتُ عَجْوَةٍ، فَوَجَدْتُهُ يَهْنَأُ أَبَاعِرَ لَهُ، أَوْ يَسِمُهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتِ اللَّيْلَةَ، فَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَمَعَكَ شَيْءٌ؟ " قُلْتُ: تَمَرَاتُ عَجْوَةٍ، فَأَخَذَ بَعْضَهُنَّ فَمَضَغَهُنَّ، ثُمَّ جَمَعَ بُزَاقَهُ فَأَوْجَرَهُ إِيَّاهُ، فَجَعَلَ يَتَلَمَّظُ، فَقَالَ: " حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ ". قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ سَمِّهِ، قَالَ: " هُوَ عَبْدُ اللهِ "[مسند أحمد ط الرسالة 19/ 86]

اس روایت میں محل شاہد یہ جملہ ہے:
وَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی ام سلیم نے اس بات کو ناپسند کیا کہ بچے کی تحنیک کریں اس سے قبل کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحنیک کردیں۔

تقریر استدلال یہ ہے کہ اس روایت میں ہے کہ تحنیک نبوی سے قبل ام سلیم نے اپنی تحنیک کو ناپسند کیا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ میں اوروں کی تحنیک بھی عام تھی ۔

عرض ہے کہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس روایت میں خود بچے کی ماں کی تحنیک کا ذکر ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا عہدصحابہ میں بچوں کی مائیں بھی اپنے بچوں کی تحنیک کرتی تھی ؟ اس عقدہ کو حل کرنے کے لئے جب ہم اس روایت کو تمام طرق اور تمام سندوں کے ساتھ دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے کہ مسند احمد کے طریق میں راوی سے روایت بالمعنی کرنے میں چوک ہوئی ہے ۔ اور یہ الفاظ سرے سے اس حدیث میں ثابت ہی نہیں ہیں جن پر استدلال کی عمارت قائم کی گئی ہے ۔

دراصل ام سلیم کی خواہش یہ تھی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحنیک سے قبل بچے کے منہ میں کوئی اور چیز نہ جانے پائے چنانچہ یہ حدیث بخاری میں ہے اور وہاں پر متعلقہ الفاظ یہ ہیں:
فَلاَ يُصِيبَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَنِّكُهُ
یعنی بچے کچھ نہ لینے پائے یہاں تک اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جائے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحنیک کردیں[صحيح البخاري 7/ 148]

اور یہاں ام سلیم کی مراد بچے کو دوددھ پلانا تھا ، یعنی ان کی خواہش یہ تھی کہ بچے کواس وقت تک دودھ نہ پلایا جائے جب تک کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحنیک نہ کردیں ، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ بات پوری صراحت کے ساتھ موجود ہے چنانچہ مسلم میں منقول اسی حدیث کے متعلقہ الفاظ ہیں:


يَا أَنَسُ لَا يُرْضِعُهُ أَحَدٌ حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ام سلیم نے کہا: اے انس ! اس بچے کوکوئی بھی دودھ نہ پلانے پائے یہان تک کہ اسے (تحنیک کے لئے) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاؤ ۔۔۔(اور پھر روایت میں آگے ذکر ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تحنیک کی) [صحيح مسلم 3/ 1909]

صحیح مسلم کی اس روایت سے حدیث کے مذکورہ حصہ کا مفہوم بالکل واضح ہوگیا کہ یہاں ام سلیم کی اس خواہش کا ذکر ہے کہ بچے کو دودھ پلانا شروع نہ کیا جائے یہاں تک کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحنیک کردیں ۔بخاری ومسلم کی صحیح ترین روایت میں اسی مفہوم کا بیان ہے لیکن مسند احمد کی طریق میں کسی راوی سے روایت بالمعنی میں چوک ہوئی ۔ اور بعض اہل علم نے سند و متن کی تحقیق سے قبل ہی اس پر استدلال کی عمارت کھڑی کردی ۔

یادرہے کہ جس طرح صحیح روایت کے بعض الفاظ کی روایت میں بعض ثقہ رواۃ سے غلطی ہوجاتی ہے ٹھیک اسی طرح صحیح روایت کے بعض الفاظ کو روایت بالمعنی کرنے میں بھی بعض ثقہ رواۃ غلطی کے شکار ہوجاتے ہیں ۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی صفۃ الصلاۃ میں ’’انا من المسلمین‘‘ اور ’’انا اول المسلمین ‘‘ پر بحث کرتے ہوئے اسی بات کی وضاحت کی ہے۔لیکن یادرہے کہ اس طرح کے معاملات میں راوی کی تغلیط کے لئے دلیل درکار ہے بغیر دلیل کے ہم کسی بھی ثقہ راوی کی طرف لفظی یا معنوی غلطی منسوب نہیں کرسکتے ۔

 ✿ تیسرا شبہہ:
بعض حضرات کہتے ہیں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حسن بصری کی پیدائش پر ان کی تحنیک کی ۔ جیساکہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔
عرض ہے کہ یہ اثر ثابت ہی نہیں ہے چنانچہ :
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
ولد الحسن في خلافة عمر بن الخطاب واتى به إليه فدعا له وحنكه
حسن بصری کی پیدائش عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی ان کو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے لئے دعا کی اور انہیں گھٹی دی [البداية والنهاية، مكتبة المعارف: 9/ 274]

عرض ہے کہ یہ اثر ثابت ہی نہیں ہے امام ابن کثیررحمہ اللہ نے نہ تو اس اثر کے مصدر کا حوالہ دیا ہے اور انہ ہی اس کی سند ذکر کی ہے لہذا یہ غیر ثابت ہے اور اس سے استدلال درست نہیں ۔


No comments:

Post a Comment