وہ اندھیرا ہی بھلا تھاکہ قدم راہ پہ تھے ! - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-04-03

وہ اندھیرا ہی بھلا تھاکہ قدم راہ پہ تھے !



وہ اندھیرا ہی بھلا تھاکہ قدم راہ پہ تھے !
✿ ✿ ✿
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میں یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ماضی میں ہم جس مصیبت کے شکار تھے ، آج اس مصیبت کے بالکل برعکس ایک دوسری مصیبت گلے پڑ گئی ہے ، ماضی میں طلباء تو جانے دیجئے علماء تک تقلیدی جمود کے شکار تھے، اور عوام کی تو بات ہی الگ تھی ، ہم مذہبی تقلید میں بالکل جامد ہوگئے تھے ، اور مسلمانوں میں یہ جمود ایک لمبے عرصے تک برقرار رہا ۔
آج تبدیلی آچکی ہے اورکتاب وسنت کی طرف رجوع کی بابرکت آواز اٹھ رہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا بہتر اثر ہوا اور اس سے بہت فائدہ ہوا ، لیکن کل جس چیز پر ہمیں شکوہ تھا آج ہمیں اسی چیز کے بالکل برعکس دوسری چیز کا گلہ ہے ، پہلے ہمیں تقلید جامد سے شکایت تھی اور آج حالت یہ ہے کہ اس آزادی فکر پر ہم نالاں ہیں ۔
صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ جوکوئی بھی قرآن وحدیث کی کچھ باتیں سن لیتا ہے ، جسے قرآن وحدیث کی براہ راست کوئی سمجھ نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ بعض باتیں اور بعض چیزیں کچھ دعاۃ ہی سے سنتا ہے جن میں کچھ صحیح ہوتی ہیں کچھ غلط ہوتی ہیں ، تو ایسا شخص یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ چیزیں سن کر اب وہ عالم ہوگیا ہے اور اسے اس طرح بولنے کاحق حاصل ہوگیا ہے کہ ”مجھے ایسا لگتا ہے“ ، ”میری رائے یہ ہے“ ، ”میں اس بات کو غلط سمجھتاہوں“ ، غرض وہ ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں فتوی دینا شروع کردیتا ہے جب کہ اس کی حالت یہ ہوتی ہے وہ ڈھنگ سے ایک حدیث بھی نہیں پڑھ سکتا !
یہ صورت حال بہت خطرناک ہے ، اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جب ایک طرف چاروں تقلیدی مذاہب کی پیروی اور اس پر جمود کی بات ہو، اور دوسری طرف معاملہ یہ ہو کہ ہر مسلمان علم واجتہاد کادعوی کرتے پھرے ، تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آباء واجداد کے تقلیدی مذہب پر باقی رہنا اورآج کے جہلاء جنہوں نے کوئی علم حاصل نہیں کیا ان کی باتوں کوکوئی وقعت نہ دینا، اسی میں بھلائی ہے ، ایسے ہی معاملہ میں کہا گیا ہے: ”وہ اندھیرا ہی بھلا تھاکہ قدم راہ پہ تھے !“ 
[جامع تراث العلامة الألباني في المنهج والأحداث الكبرى 6/ 129]
⟐ ⟐ ⟐
.
حنانيك بعض الشر أهون من بعض
✿ ✿ ✿
قال الإمام الألباني رحمه الله:
”وأرى أيضا أن أُذَكِّر بأننا اليوم ابتلينا بنقيض ما كنا ابتلينا في القرون الماضية السابقة كنا ابتلينا في القرون السابقة بجمود العلماء، فضلاً عن طلاب العلم، فضلاً عن العامة، ابتلينا بالجمود عن التقليد المذهبي، ومضى هذا الجمود على المسلمين قرون طويلة، الآن في فيئة، في صيحة مباركة للرجوع إلى الكتاب والسنة، ولا شك قد آتت أكلَهَا وثمارَهَا اليانعة، ولكننا نشكوا الآن نقيض ذلك الأمر الذي كنا نشكوا عليه من قبل، كنا نشكوا الجمود فأصبحنا الآن نشكوا من الانطلاق، فأصبح كل من سمع كلمة الكتاب والسنة وهو لا يفقه من الكتاب والسنة شيئا إنما بعض العبارات وبعض الكلمات يسمعها من بعض الدعاة، وقد تكون هي كلمات حق، وقد تكون في بعضها خطأ، فيظن أنه أصبح بذلك عالما يجوز له أن يقول: أنا أرى كذا، وأنا رأيي كذا، وأنا أرى هذا القول خطأ، ويتدخل في كل كبيرٍ وصغير، وهو لا يُحسن أن يقرأ حديثا ... وهذه لها أخطارها، وإذا دار الأمر -هذا رأيي الشخصي- إذا دار الأمر بين اتباع مذهب من المذاهب الأربعة المُتَّبعة والجمود عليها، وبين أن يُصبح كل مسلمٍ مُدعيا العلم مُدَّعيا الاجتهاد، فلا شك أن البقاء على ما كان عليه الآباء والأجداد من اتباع المذهب وعدم الاعتداد بآراء الجهلة الذين ما درسوا العلم، ذلك خير، وهذا من باب حنانيك بعض الشر أهون من بعض“
[جامع تراث العلامة الألباني في المنهج والأحداث الكبرى 6/ 129]
.
نوٹ:-
علامہ البانی رحمہ اللہ نے آخر میں جوشعر(حنانيك بعض الشر أهون من بعض)پیش کیاہے اس کا اصل ترجمہ یہ ہے:
مہربانی کیجئے ! بعض برائی بعض برائی سے کمترہوتی ہے۔
دراصل یہ جاہلی شاعر طرفة بن العبد کا شعر جو بعد میں ضرب المثل بن گیا ،ایسے موقع کے لئے اردو میں بھی ایک شعر ضرب المثل بن گیا اس لئے ترجمہ میں اردو کا وہی شعر درج کردیا گیا ہے۔
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment