امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری پر تبلیغی اعتراضات کا جائزہ (قسط سوم)
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
گذشتہ سطور میں صحیح بخاری کے رجال (راویوں) اور صحیح بخاری میں غلطیوں کے عنوان سے معترض کے جتنے اعتراضات تھے ان سب کا جواب دیا جاچکاہے۔اگے معترض نے امام بخاری رحمہ اللہ کی شخصیت پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے اس کے جوابات ملاحظہ ہوں:
اعتراض:
اب ملاحظہ فرماویں محدثین کا بخاری شریف پر جرح،امام بخاری کے استاد امام ابو حاتم نے بخاری کے رد میں کتاب لکھی جس میں بتایا کہ ٧٧٠ راویوں کے بارے میں امام بخاری نے غلطی کھائی ہے (خطاء البخاری)
جواب:
یہ سراسر غلط بیانی ہے کہ امام ابوحاتم نے امام بخاری کے رد میں کوئی کتاب لکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام ابوزعہ نے امام بخاری کی رجال والی ایک کتاب پر ازخود نظر ثانی کی اور انہوں جو باتیں غلط معلوم ہوئیں ان کی اصلاح کی ۔بعد میں امام ابوزرعہ کی اسی کتاب کا جائزہ امام ابوحاتم نے بھی لیا اور کئی مقامات پر امام ابوحاتم نے امام بخاری کے علاوہ خود امام ابوزعہ ہی کو غلط ٹھہرایا ۔
دراصل امام ابوزرعہ کو امام بخاری کی رجال والی جو کتاب ملی اس میں موجود غلطیاں امام بخاری کی طرف سے نہیں تھیں بلکہ اس کتاب کی کتابت کرنے والے ناسخ کی طرف ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ امام بخاری کی اسی کتاب کے جو دوسرے نسخے ہیں ان میں اس طرح کی غلطیاں نہیں ہے۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463) فرماتے ہیں:
وقد جمع عبدالرحمن بن أبي حاتم الرازي الأوهام التي أخذها أبو زرعة على البخاري في كتاب مفرد ونظرت فيه فوجدت كثيرا منها لا تلزمه وقد حكى عنه في ذلك الكتاب أشياء هي مدونة في تاريخه على الصواب بخلاف الحكاية عنه
عبدالرحمن ابن ابی حاتم الرازی نے ان اوہام کو ایک مستقل کتاب میں جمع کیا ہے جنہیں ابوزرعہ نے امام بخاری پر تعاقب کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ اور میں نے اس کتاب کو دیکھا تو ان میں اکثر باتیں ایسی پائیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ بری ہیں ،نیز اس کتاب میں امام بخاری کی طرف منسوب کرکے غلط طور پرایسی باتیں لکھی گئی جو امام بخاری کی اپنی کتاب التاریخ میں اس کے بر عکس صحیح طور پر درج ہیں۔[موضح أوهام الجمع والتفريق 1/ 9]
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ خطاء البخاری نامی کتاب میں اکثر جن غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اس سے امام بخاری رحمہ اللہ بری ہیں ۔ بلکہ امام بخاری کی متداول کتاب التاریخ میں وہ باتیں صحیح طور سے درج ہیں جنہیں مذکورہ کتاب خطاء البخاری میں غلط طور سے نقل کرکے پھر اس کی اصلاح کی گئی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوزرعہ جو امام بخاری کی کتاب کے جس نسخے کو سامنے رکھ کر نظر ثانی کی ہے وہ نسخہ غیر مستند ہے اس میں موجود غلطیوں کے ذمہ دار امام بخاری رحمہ اللہ نہیں بلکہ اس نسخہ کا ناسخ ہے ۔
علامہ معلمی رحمہ اللہ جنہوں نے خطاء البخاری نامی کتاب کی تحقیق کی ہے وہ اس کتاب کے بارے میں کیا کہتے ہیں اس کا خلاصہ بھی ملاحظہ فرمالیں :
1۔خطاء البخاری نامی کتاب میں جن ناموں کے بارے میں غلط بتاکر انہیں صحیح کیا گیاہے وہ نام امام بخاری کی کتاب التاریخ میں بغیر کسی غلطی کے صحیح طور سے درج ہیں۔اور خطاء البخاری نامی کتاب کے آدھے حصہ کا یہی حال ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امام ابوزرعہ نے جس نسخہ کو سامنے رکھا تھا اس میں کاتب و ناسخ سے بڑی غلطیاں کی تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ خود امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے کہیں جگہ امام بخاری کا دفاع کرتے ہوئے امام ابوزرعہ کے تعاقب کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ کاتب کی غلطی ہے اورا مام بخاری رحمہ اللہ اس سے بری ہے۔
2۔ خطاء البخاری نامی کتاب میں بعض ایسی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو التاریخ کے بعض نسخوں میں ویسے ہی غلط طور پر درج ہیں جبکہ بعض دوسرے نسخوں میں صحیح طور پر درج ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ یہ بھی نسخوں کے ناسخوں وکاتبیں ہی کی غلطی ہے۔
3۔خطاء البخاری میں بعض ایسی غلطیوں کی اصلاح کی گئی ہے جو امام بخاری کی کتاب میں کسی ایک جگہ تو غلط طور پردرج ہیں لیکن کتاب کے اندر ہی دوسرے مقام پر وہ بات صحیح طور سے درج ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں بات غلط طور پر درج ہے وہ غلطی امام بخاری کی نہیں بلکہ ان سے اوپر کے کسی راوی کی ہے جس سے امام بخاری نے سند کے ساتھ وہ بات نقل کی ہے۔
اس طرح کے مقامات پر امام بخاری رحمہ اللہ کہیں کہیں خود وضاحت کرکے راجح بات بتادیتے ہیں اور کہیں توقف اختیار کرتے ہیں اور یہ کوئی غلطی نہیں ہے۔
4۔ خطاء البخاری میں بہت ہی کم مقامات پر ایسا ہے کہ امام ابوزرعہ نے کوئی بات غلط طور سے نقل کرکے اس کی اصلاح کی اور امام بخاری کی کتاب میں بھی وہی غلطی اسی طرح موجود ہے۔
لیکن یہاں بھی کئی احتمالات ہیں اول یہ کہ ممکن ہے یہ بھی کاتبوں کی غلطی ہو۔دوم یہ کہ ممکن ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی سند سے اسی طرح نقل کیا ہوجس طرح سنا ہے ۔سوم یہ کہ ہوسکتاہے کہ وہ غلطی غلطی ہوہی نہ بلکہ صحیح وہی ہو جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے درج کیا ہے اور امام ابوزرعہ نے جو اسے غلط کہا تو خود امام بوزرعہ ہی کی بات غلط ہو چنانچہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ کئی مقامات پر یہ وضاحت کررکھی ہے کہ ابوزرعہ نے امام بخاری کی جو بات نقل کی ہے وہی صحیح ہے اور امام ابوزرعہ نے جو تصحیح کی ہے وہ خود غلط ہے۔ ( تفصیل کے لئے دیکھئے: خطاء البخاری کا مقدمہ ص د ، ھ از علامہ عبدالرحمن المعلمی رحمہ اللہ)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ خطاء البخاری نامی کتاب میں کتاب میں امام بخاری کی جو غلطیاں بیان کی گئی ہے ان کی امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف نسبت ہی صحیح نہیں ہے ۔ اس لئے کسی اور کی غلطی کو امام بخاری کی غلطی قراردینا بہت بڑا ظلم ہے۔
اعتراض:
امام دارقطنیؒ نے بخاری شریف کے ١٢١٨ احادیث پر اعتراض کئے(الالزامات والتتبع)
جواب:
سب سے پہلے تو معترض کی یہ جسارت دیکھیں کہ اس نے امام دارقطنی کی طرف سے صحیحین کی منتقداحادیث کی تعدار ایک ہزار دو سو اٹھارہ بتلائی ہے جب کہ التتبع کے مطبوعہ نسخہ میں کل دو سو اٹھارہ احادیث کا حوالہ ہے۔یعنی ایک ہزار احادیث کا اضافہ معترض کا خود ساختہ ہے۔
معترض نے دوسری غلط بیانی یہ کی کہ امام دارقطنی کی طرف سے منتقد تمام احادیث کو صحیح بخاری کی حدیث کہہ دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امام دارقطنی نے تتبع میں صحیح بخاری کے ساتھ ساتھ صحیح مسلم کی احادیث پر بھی نقد کیا ہے۔اور اس مجموعہ میں تقریبا اسی (80) احادیث صحیح بخاری سے ہیں باقی صحیح مسلم کی احادیث ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ معترض نے امام دارقطنی کے نقد کی نوعیت کی بھی چھا لیا ہے۔ دراصل امام دارقطنی رحمہ اللہ نے تتبع میں مذکور احادیث کی صحت پر اعتراض نہیں کیا ہے بلکہ ان کی سندوں کے معیار پر نقد کیا ہے چونکہ امام بخاری اورامام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں حدیث کے صحیح ہونے کے لئے بہت اعلی معیار کی شرط رکھی ہے اورامام دارقطنی کی نظر میں بعض احادیث گرچہ صحیح تھیں مگر صحت کے اس معیار پر نہ تھیں اس لئے امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ان احادیث کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی ۔
لیکن یہ جو کچھ ہے امام دارقطنی رحمہ اللہ کی اپنی تحقیق ہے ضروری نہیں ہے کہ امام داقطنی ہی کی بات صحیح ہو اورامام بخاری رحمہ اللہ کی بات غلط ہے بلکہ معاملہ برعکس بھی ہوسکتاہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی کی بات صحیح ہے اور امام دارقطنی رحمہ اللہ سے نقد میں سہوا ہوا ۔ اور حقیقت میں معاملہ یہی ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے جن احادیث پر نقد کیا ہے ان میں حق امام بخاری ہی کے ساتھ ہے ۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح کرتے ہوئے ان تمام احادیث کا ایک ایک کرکے دفاع کیا ہے جن پر امام دراقطنی رحمہ اللہ نے نقد کیا تھا اور یہ ثابت کیا ہے کہ ان احادیث سے متعلق امام بخاری کا موقف ہی صحیح ہے۔
اس لئے معترض کا صرف امام دارقطنی کے نقد کرنے سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ غلطی امام بخاری ہی کی ہے یہ غلط ہے۔
اعتراض:
امام بخاری کے اساتذہ ابوحاتم ؛ ابو زرعہ اور محمد بن یحیٰ نے ان سے روایت کرنا چھوڑدی (کتاب الجرح ولتعدیل ج ٧ ص ١٩١)
جواب:
ان اساتذہ نے امام بخاری کے ضعیف یا غیرحجت کی بناپر ان سے روایت ترک نہیں کی تھی بلکہ بات یہ تھی کہ بعض لوگوں نے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ افواہ اڑادی تھی کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کو پڑھنے والے میرے الفاظ مخلق ہیں۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں:
سمع منه أبي، وأبو زرعة، ثم تركا حديثه عندما كتب إليهما محمد بن يحيى النيسابوري أنه أظهر عندهم أن لفظه بالقرآن مخلوق
ان (امام بخاری) سے میرے والد اور ابوزرعہ نے سناہے پھر ان دونوں نے ان کی حدیث ترک کردی جب ان دونوں کے پاس محمدبن یحیی نے یہ لکھ کر بھیجا کہ امام بخاری نے ان کے علاقہ میں یہ کہا ہے کہ ان کے منہ سے نکلنے والے قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں۔[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 191]
لیکن سچائی یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا ایسا کوئی موقف تھا ہی نہیں بلکہ کسی نے جھوٹ بول کر ان کے تعلق سے یہ افواہ اڑادی تھی بعد میں جب امام بخاری رحمہ اللہ کو پتہ چلا کہ ان کے تعلق سے ایسی بات پھیلاگئی گئی تھی توامام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
من قال عني إني قلت لفظي بالقرآن مخلوق فقد كذب
جو شخص میرے بارے میں کہے کہ میں نے کہا ہے کہ قرآن کو پڑھنے والے میرے الفاظ مخلوق ہیں اس نے جھوٹ بولا [تهذيب التهذيب لابن حجر، ت الهند: 9/ 54]
معلوم ہوا کہ جس بات کی وجہ سے بعض محدثین نے امام بخاری رحمہ اللہ سے روایت ترک کی امام بخاری رحمہ اللہ اسے بری تھے ۔ اس لئے اس معاملہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کی ذات پر کوئی عیب نہیں لگتا۔
واضح رہے کہ ایک بے بنیاد بات سے دھوکہ کھاکرگنتی کے دو تین محدثین نے امام بخاری رحمہ اللہ سے روایت ترک کردی تواحناف اسے بڑے مزے لے کر بیان کرتے ہیں لیکن انہیں کون بتائے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف لفظی بالقرآن نہیں بلکہ اصلا قرآن ہی کو مخلوق ماننے کا فتوی منسوب ہے ۔اور اس کی وجہ سے بعض محدثین نے انہیں کفریہ عقیدہ والا تک کہہ ڈالا ہےاس بارے میں احناف کیا صفائی دیں گے۔
اعتراض:
امام مسلم کو امام بخاری کے محدث ہونے میں تردد تھا ؛ اپنی صحیح مسلم میں امام بخاری سے کویی روایت نہی لی(مسلم شریف)
جواب:
یہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی ہے ۔ صحیح مسلم میں امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں قطعا ایسا نہیں کہا ہے۔
اورمقدمہ صحیح مسلم میں امام مسلم رحمہ اللہ نے معاصرت کی بحث میں جن لوگوں پر رد کیا ہے وہاں کسی کا نام نہیں لیا ہے ۔بلکہ وہاں ایک ایسے موقف کا رد کیا ہے جو صرف امام بخاری ہی کا نہیں بلکہ اور بھی بہت سے جلیل القدر محدثین کا تھا مثلا امام علی ابن المدینی وغیرہ۔ تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ امام مسلم رحمہ اللہ کو علی بن المدینی رحمہ اللہ کے محدث ہونے پر بھی شک تھا؟
ممکن ہے کچھ نا اہل لوگ اسی موقف کو بہت اصرار اور زور وشور سے پیش کررہے ہیں اور امام مسلم رحمہ اللہ کا روئے سخن انہیں نا اہلوں کی طرف ہو نہ کہ امام بخاری وعلی ابن المدینی کی طرف۔
اور یہ بات معروف ہے کہ اہل علم جب کبار علماء سے اختلاف کرتے ہیں تو اس کا اسلوب الگ ہوتا ہے اورجب نااہلوں پر رد کرتے ہیں تو وہاں اسلوب الگ ہوتا ہے گرچہ نااہلوں کی موافقت میں بعض اہل علم کا قول بھی موجود ہو۔
علاوہ بریں بعض محققین کا خیال ہے کہ معاصرت والی بحث میں جس شرط کو امام مسلم نے رد کیا ہے امام بخاری رحمہ اللہ اس کے قائل ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے صحیح بخاری میں کمال صحت کے لئے یہ شرط لگارکھی تھی نہ کہ نفس صحت کے لئے۔ ایسی صورت میں امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف امام مسلم کے خلاف ہی نہیں تو وہ امام مسلم کے رد کی زد کیونکر آسکتے ہیں؟
بہرحال امام مسلم رحمہ اللہ نے مقدمہ میں کسی بھی محدث کا نام لے کر رد نہیں کیا ہے اس لئے یہاں پر زبردستی امام بخاری رحمہ اللہ کو مراد لینا رجما بالغیب کے علاوہ کچھ نہیں ۔
دوسری طرف امام مسلم رحمہ اللہ کے کئی ایسے صریح اقوال ہیں جن میں امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت ومنقبت بیان کی ہے اور انہیں نہ صرف محدث بلکہ سید المحدثین تسلیم کیا ہے چنانچہ ایک موقع پر امام مسلم رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے کہا:
دعني حتى أقبل رجليك يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدثين وطبيب الحديث في علله
مجھے اجازت دیں میں آپ کے قدمین کو بوسہ دوں اے استاذ الاساتذہ ،سید المحدثین اور علل حدیث کے طبیب[معرفة علوم الحديث للحاكم: ص: 174]
ملاحظہ فرمائیں امام مسلم رحمہ اللہ تو اپنے استاذ امام بخاری رحمہ اللہ کو نہ صرف محدث بلکہ سید المحدثین کہہ رہے ہیں اور احناف یہ دعوی کررہے ہیں کہ امام مسلم کو بخاری کے محدث ہونے میں تردد تھا ۔استغفراللہ۔
اس طرح کی مجمل اور غیر متعلق باتوں کو بنیاد بناکر فیصلہ کیا جانے لگے تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ بعض محدثین کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسلمان ہونے میں تردد تھا چنانچہ امام ابن الجارود رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أبو حنيفة جل حديثه وهم وقد اختلف في إسلامه
ابوحنیفہ کی اکثر حدیث مبنی بروہم ہے اور اس کے اسلام کے بارے میں اختلاف ہے۔[الانتقاء لابن عبد البر: ص: 150 نقلا عن الضعفاء لابن الجارود]
ہم اس طرح کی بات ہرگز نہیں کہتے لیکن ہم نے یہ بتانے کے لئے اسے نقل کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے خلاف زبان درازی کرنے سے پہلے احناف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں سوچ لیں کہ ان کے بارے میں لوگوں نے ہر بات نقل کرنی شروع کردی تو کیسا ماحول پیدا ہوگا۔
رہا معترض کا یہ کہنا کہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں امام بخاری سے کوئی روایت درج نہیں کی ہے تو یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث نمبر1557سے متعلق بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنے استاذ امام بخاری رحمہ اللہ سے سن کر روایت کیا ہے دیکھئے:[شرح النووي على مسلم 10/ 219، غرر الفوائد ص153، النكت الطراف 2/416 ]۔
رہی یہ بات کہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں اپنے استاذ امام مسلم سے بکثرت احادیث کیوں روایت نہیں کی ہے تو اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
1۔ امام مسلم رحمہ اللہ امام بخاری کی شاگردی میں جانے سے پہلے ہی اپنی کتاب صحیح مسلم کی تالیف تقریبا مکمل کرچکے تھے ۔
2۔امام مسلم نے امام بخاری سے جو احادیث سنی تھیں انہیں احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے خود امام بخاری کے اساتذہ سے بھی سن رکھا تھا ۔یعنی ان کے پاس عالی سند کے ساتھ یہ احادیث تھیں اس لئے ظاہر ہے کہ وہ عالی سند چھوڑ کر نازل سند سے کیوں روایت کریں گے ۔بالخصوص جب کہ ان کی کتاب صحیح مسلم میں صحت کا معیار بلند ہے اور ثقہ رواۃ سے سند جس قدر عالی ہوتی ہے اتنی ہی صحت کے بلند معیار پرہوتی ہے۔
یہ ہے اصل حقیقت جس کے سبب امام مسلم نے صحیح مسلم میں اپنے استاذ امام بخاری سے زیادہ روایات نہیں لیں اوراس سے یہ قطعا نہیں ثابت ہوتا کہ امام مسلم کو امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں کسی بھی طرح کا تردد تھا۔
دوسری طرف احناف اپنے امام ابوحنیفہ کو دیکھ لیں ان کی سند والی کوئی حدیث نہ امام مسلم نے لی ہے نہ امام بخاری نے بلکہ صحیح احادیث کا مجموعہ مدون کرنے والے دنیا کے کسی بھی محدث نے امام ابوحنیفہ کی سند والی کوئی حدیث نہیں لی ہے ۔اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ امام ابوحنیفہ حدیث میں ضعیف وغیر معتبر تھے جیساکہ متعدد محدثین نے صراحت کی ہے بلکہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تو شہادت دی ہے کہ :
فلم يبق معتبر من الأئمة إلا تكلم فيه
یعنی معتبر ائمہ میں سے کوئی بھی ایسا امام نہیں ہے جس نے ابوحنیفہ پر کلام نہ کیا ہو[المنتظم لابن الجوزي: 8/ 143]
افسوس ہے کہ جن کے امام متبوع کی حالت اس قدر قابل رحم ہو وہ نہ جانے کس منہ سے اما م بخاری رحمہ اللہ پر نکتہ چینی کرتے ہیں ۔یہ حضرات کم ازکم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تقریب التھذیب ہی اٹھاکر دیکھ لیں اس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کو جبل الحفظ اور امام الدنیا فی فقہ الحدیث قراردیا ہے ۔دیکھیں:[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5727]
یہاں پر ہمارا یہ مضمون ختم ہوتا ہے جس میں ہم نے امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری پر گئے بعض اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ اللہ رب العالمین ہم سب کو حق بات کہنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق دے آمین۔
(ختم شد)
No comments:
Post a Comment