کیا وراثت میں عورت کو مرد کے مقابل آدھا حصہ ملتاہے۔ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-08-31

کیا وراثت میں عورت کو مرد کے مقابل آدھا حصہ ملتاہے۔

کیا وراثت میں عورت کو مرد کے مقابل آدھا حصہ ملتاہے۔
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿
اسلام کے نظام وراثت پر غیر مسلمین کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اسلامی نظام وراثت میں عورت کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے کیونکہ عورت کا ٖحصہ مرد کے مقابل میں آدھا رکھا گیا ہے۔
عرض ہے کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے ، قرآن کی کسی بھی آیت میں یا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی حدیث میں یہ وراد نہیں ہے کہ وارثین میں اگر عورت ہے تو اس کا حصہ مرد کے مقابل میں آدھا ہی رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کے مطابق وارثین میں سے بعض کے حصہ بعض کے مقابل کم یازیادہ ہوتے ہیں ، لیکن اس کمی یازیادتی کی بنیاد وارثین کی جنس پر یعنی وارث کے مرد ہونے یا عورت ہونے پر نہیں ہے بلکہ جنس سے قطع نظر وارثین سے جڑی دیگر خصوصیات پیش نظر ہوتی ہے۔
چنانچہ وارثین کی جنس نہیں بلکہ وارثین سے جڑے دیگر بہت سارے امور وحالات کے پیش نظر ان کے حصوں میں کمی وزیادتی ہوتی ہے ۔ان میں درج ذیل تین چیزیں بطور خاص قابل ذکر ہیں :
① نفقہ کی ذمہ داری
②رشتے کی قوت
③رشتے کا قرب
ان تینوں کیفیت کے سبب وارثین کے حصوں پر کیسے فرق پڑتا ہے اسے چند مثالوں سے سمجھتے ہیں جن سے نہ صرف یہ مفروضہ غلط ثابت ہوگا کہ اسلام نے وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے مقابل آدھا رکھا ہے بلکہ یہ حقیقت بھی سامنے آئے گی بعض حالات میں عورت کاحصہ کا مرد کے بالکل مساوی بلکہ بعض حالات میں عورت کا حصہ مرد سے بھی کئی گنازیادہ ہوتا ہے۔
.
✿ پہلی مثال : عورت کاحصہ مرد کے برابر
ایک آدمی یا عورت کا انتقال ہوا ، وارثین میں ماں ، باپ اور ایک بیٹا اور دوبیٹی ہے ، ترکہ چھ(6) لاکھ ہے۔
اس مسئلہ میں ماں کو ایک لاکھ ، باپ کوایک لاکھ ، بیٹا کو دو لاکھ اور ہر بیٹی کو ایک ایک لاکھ ملے گا۔
یہاں غور کیجئے میت کے والدین میں باپ مرد ہے اور ماں عورت ہے اس کے باوجود بھی دونوں کو برابر یعنی ایک ایک لاکھ ہر ایک کو مل رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین جب حصہ پاتے ہیں تو عام طور سے وہ بہت بوڑھے ہوجاتے ہیں اوردنیا سے رخصت ہونے کے قریب ہوتے ہیں اور نان ونفقہ کی ذمہ داری ان سے منتقل ہوکر ان کے بچوں کو چلی جاتی ہے ۔دریں صورت میت سے ان کا رشتہ یکساں ہوتاہے اورکسی پرنان نفقہ کی اضافی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے اس لئے دونوں کا حصہ برابر ہوتاہے۔
جبکہ اسی مثال میں بچوں کا معاملہ دیکھیں تو بیٹے کو ایک بیٹی کے مقابلے میں ڈبل ملے گا، اب یہاں بیٹے کو جوزیادہ مل رہا ہے اس کی وجہ اس کا مرد ہونا نہیں بلکہ نان ونفقہ کا ذمہ دار ہونا ہے کیونکہ بیٹا عام طورسے نوجوان ہوتا ہے اور ابھی اس کی اچھی خاصی زندگی باقی ہوتی ہے جس میں وہ کئی لوگوں کے نان ونفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ بیٹی کسی کے نفقہ کی ذمہ دار نہیں ہوتی تو بیٹے کی اس ذمہ داری کے سبب اس کا حصہ ڈبل ہوتا ہے، اگر بیٹے کومحض مرد ہونے کی وجہ سے اس کو ڈبل ملتا تو اسی مسئلہ میں اوپر باپ بھی مرد ہے اس کو بھی ماں کے مقابل میں ڈبل ملنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہے ۔
.
✿دوسری مثال:عورت کا حصہ مرد کے مقابل دوگنا
ایک آدمی یا عورت کا انتقال ہوا ، وارثین میں ماںاور ایک ماں شریک بھائی ہے اورترکہ تین(3) لاکھ ہے ۔
اس مسئلہ میں ماں کو دولاکھ ملے گا ،اور ماں شریک بھائی کو ایک لاکھ ملے گا یعنی عورت کو مرد کے مقابل میں ڈبل ملے گا۔
نوٹ:-یہ رد کا مسئلہ ہوگا۔یہاں ماں کارشتہ ماں شریک بھائی سےزیادہ مضبوط ہے اس لئے اسے ماں کو عورت ہونے کے باوجود بھی مرد کے مقابل ڈبل مل رہا ہے۔
.
اسی نوعیت کی ایک اور مثال دیکھیں ایک عورت فوت ہوئی ،اس کے وارثین میں اس کا شوہر ، اس کی ایک بیٹی اور اس کا ایک سگا بھائی ہے، ترکہ چار (4) لاکھ ہے۔
اس مسئلہ میں شوہر کو ایک لاکھ ملے گا، اور سگے بھائی کو بھی ایک لاکھ ملے گا ، جبکہ بیٹی جو کہ عورت ہے اسے دو لاکھ ملے گا۔اس مثال میں دو مرد یعنی شوہر اور سگے بھائی دونوں کو ملا کر جتنا مل رہاہے اتنا تنہا ایک عورت یعنی بیٹی کو مل رہا ہے۔ بالفاظ دیگر اس مثال میں ایک مرد کاحصہ ایک عورت کے مقابل میں آدھا ہےاور عورت کو مرد کے مقابل ڈبل مل رہا ہے۔وجہ یہ ہے کہ یہاں میت سےاس عورت کا حصہ سب سے زیادہ مضبوط ہے۔اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ اسلامی نظام وراثت میں عورت کاحصہ مرد کے مقابل میں آدھا ہے ۔
.
✿تیسری مثال: عورت کاحصہ مرد کے مقابل تین گنا
ایک عورت فوت ہوئی ،اس کے وارثین میں اس کا شوہر اور اس کی اپنی بیٹی ہے ۔ترکہ چار(4) لاکھ ہے۔
اس مسئلہ میں شوہر کو ایک لاکھ ملے گا، اور باقی مکمل تین لاکھ بیٹی کو ملے گا(فرض وردا)
اس مثال میں ایک عورت یعنی بیٹی کو ایک مرد یعنی شوہر کے مقابل میں تین گنا زیادہ مل رہا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ یہاں میت سے اس عورت کا رشتہ زیادہ مضبوط ہے ۔
.
مذکورہ مثال میں میت عورت ہے لیکن میت جب مرد ہو تو بھی اس طرح کی حالت بن سکتی ہے مثلا:
ایک مرد کا انتقال ہوا ،وارثین میں والدین ، ایک بیٹی اور ایک پوتا ہے ۔ترکہ چھ (6) لاکھ ہے۔
اس مسئلہ میں ماں کو ایک لاکھ ، باپ کو ایک لاکھ ، پوتے کو بھی ایک لاکھ ،جبکہ بیٹی کوتین لاکھ ملے گا۔
غور کیجئے اس مثال میں ایک عورت یعنی بیٹی کو مرد یعنی باپ کے مقابلے میں تین گنا جاتا مل رہا ہے ، بلکہ اسی مثال میں ایک اور مرد پوتا ہے اور وہ بھی صرف ایک لاکھ پارہاہے یعنی اس کے مقابل بھی بیٹی کا حصہ تین گناہے۔وجہ یہ ہے کہ یہ عورت میت سے اقرب ہے اورمیت سے اس کا رشتہ بھی بڑا مضبوط ہے۔
.
✿چوتھی مثال: ایک ہی مقام پر عورت ہو تو حصہ ملے گا مرد ہو تو حصہ نہیں ملے گا
ایک آدمی یا عورت کا انتقال ہوا ، وارثین میں اس کی ماں ، ایک سگی بہن، ایک باپ شریک بہن اور دوماں شریک بہن ہیں۔ترکہ سات(7) لاکھ ہے۔
اس مسئلہ میں ماں کو ایک لاکھ ،سگی بہن کو تین لاکھ ،باپ شریک بہن کوایک لاکھ اور دونوں ماں شرک بہن کو بھی ایک ایک لاکھ ملے گا۔
اسی مثال میں اگرباپ شریک بہن کی جگہ باپ شریک بھائی ہو تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔
.
✿پانچویں مثال: عورت وارث اوراسی گروپ کا مرد وارث ہی نہیں
ایک آدمی یا عورت کا انتقال ہوا ، وارثین میں اس کا بیٹا اورنانی ہے ،نیز نانا بھی باحیات ہیں ۔تاکہ چھ(6) لاکھ ہے۔
اس مثال میں بیٹے کو پانچ لاکھ اور نانی کو ایک لاکھ ملے گا۔لیکن نانا کو کچھ نہیں ملے گا ۔وجہ یہ ہے کہ نانا کا رشتہ
.
ان تمام مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے نظام وراثت میں حصوں کی کمی یازیادتی وارث کی جنس کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ وارث سے جڑی دیگر چیزوں مثلا رشتہ کی مضبوطی ، رشتہ کے قرب اور نان ونفقہ کی ذمہ داری وغیرہ پر ہوتی ہے قطع نظر اس کے کہ وارث مرد ہے یا عورت ۔
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment