.
تیسری دلیل: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی فطرہ میں قیمت دینا جائز معلوم ہوتا ہے ، اس سلسلے میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اثر کا حوالہ گذرچکا ہے اس کے علاوہ ایک اور حوالہ ملاحظہ ہو:
⬅ حدثنا أبو أسامة ، عن زهير ، قال : سمعت أبا إسحاق يقول : أدركتهم وهم يعطون في صدقة رمضان ، الدراهم بقيمة الطعام.
امام ابواسحاق السبیعی کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو پایا وہ صدقۃ الفطر میں کھانے کی قیمت کے مساوی درہم دیتے تھے۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 3/ 174 واسنادہ متصل صحیح علی شرط الشیخین وابواسحاق روی امرا شاھدہ فلاعبرۃ بتدلیسہ واختلاطہ ۔وحدیثہ من طریق زھیر اخرجہ البخاری ومسلم]
کافی عرصہ قبل ایک بھائی نے ایڈیو میں اس روایت کی سند پر اشکالات پیش کئے تھے ان کے مفصل جوابات ایک آیڈیو کی شکل میں میرے یوٹب چینل (kifayatullah sanabili) پر موجود ہے ۔
⬅ امام ابواسحاق السبیعی نے کسی ایک دو کا نہیں بلکہ ایک جماعت کا موقف بیان کیا ہے کہ انہوں نے جن لوگوں کو پایا وہ صدقۃ الفطر میں قیمت دیتے ۔
امام ابواسحاق السبیعی نے علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی پایاہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سارے صحابہ کا دور انہوں نے دیکھا ہے۔اورآپ علم و فن کے امام ہیں اس لئے علمی معاملہ میں اپنے دور کے اہل علم کا تعامل نقل کریں گے تو ظاہرہے کہ صحابہ کا استثناء نہیں کریں گے کیونکہ ان سے بڑے عالم کون ہوسکتے ہیں۔
لہٰذا اس روایت میں صحابہ سے بھی فطر ہ میں قیمت دینا ثابت ہوا۔
بلکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ابواسحاق السبیعی نے صحابہ ہی کو مراد لیا ہے لیکن ہمارے خیال سے تابعین کو بھی اس میں شامل کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے اور بات ہے کہ سب سے پہلے صحابہ ہی کی شمولیت اس میں صادق آتی ہے۔
▪تنبیہ:
بعض لوگ اس روایت کو مقطوع کہتے ہیں ۔عرض ہے کہ مقطوع اس روایت کو کہتے ہیں جس میں صرف کسی تابعی کا قول وفعل وغیرہ منقول ہے ۔اوراس روایت میں امام ابواسحاق السبیعی رحمہ اللہ نے صراحتا تابعین کانام لیکران کاعمل نقل نہیں کیا بلکہ اپنے دورکے اہل علم کا تعامل نقل کیا ہے اور ان کے دور میں صحابہ بھی تھے اور تابعین بھی تھے ۔لہٰذا ان کے قول میں دونوں آگئے بلکہ صحابہ کی شمولیت زیادہ مؤکد ہے کیونکہ علمی معاملہ میں بڑے علماء ہی کے حوالے دئے جاتے ہیں بالخصوص جب کہ امام ابواسحاق السبیعی جیسے صاحب علم حوالہ دیں جو خود محدث اور امام ہیں۔
لہٰذا ان کے قول میں صحابہ کی شمولیت کا بغیر کسی دلیل کے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اورتابعین سے فطرہ میں قیمت دینے کا ثبوت تو مسلم ہے۔اس کی ایک دلیل تو ماقبل کی روایت ہی ہے اس میں صحابہ کے ساتھ تابعین بھی شامل ہیں ۔
تابعین کا موقف
⬅ خلیفہ عمربن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے اپنی خلافت میں حکم صادر کیا کہ فطرہ میں لوگوں سے غلہ یا اس کی قمیت وصول کرو۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 3/ 174 واسنادہ صحیح وصححہ ابن حزم فی المحلى لابن حزم، ت بيروت: 4/ 252، واخرجہ ایضا ابن بن زنجويه فی الأموال لابن زنجويه 3/ 1268 عن عوف بہ]
عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا یہ موقف صرف ان کا ذاتی موقف نہیں تھا بلکہ انہوں نے بطور سرکاری فرمان اسے جاری کیا اور اس پر عمل بھی ہوا ۔اورپوری دنیا کے کسی کونے سے بھی اس جلیل القدر خلیفہ کے حکم پر کوئی علمی تعاقب نہیں ہوا۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ تابعین کا اس مسئلہ پر اجماع تھا۔
عمربن عبدالعزیزرحمہ اللہ کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ وہ علمی مسائل میں اہل علم صحابہ وتابعین سے رائے مشورہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کرتے تھے بالخصوص کسی سرکاری فرمان کے سلسلے میں تو قطعا نہیں سوچا جاسکتا کہ انہوں نے محض اپنی رائے امت پرمسلط کردی ہو اس لئے ظاہر ہے کہ ان کا یہ فیصلہ دیگر صحابہ وتابعین کی منظوری کے بعد صادر ہواہے اورپھر اس پر کسی طرف کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ۔
⬅ نیز تابعین ہی میں ایک عظیم علمی شخصیت حسن بصری رحمہ اللہ کی تھی وہ بھی فطرہ میں قیمت دینے کے قائل تھے [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 3/ 174 واسنادہ صحیح ]
حسن بصری رحمہ اللہ کی مخالفت بھی پوری دنیا میں کسی نے نہ کی ۔اس سے بھی پتہ چلا کہ فطرہ میں قیمت دینے کے جواز پر تابعین کا اجماع تھا۔
اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ تابعین نے فطرہ والی احادیث کا یہ مفہوم قطعا نہیں سمجھا ہے کہ اس سے صرف خوراک فراہم کرنا مراد ہے ۔اوراس کے علاوہ قیمت دینا کافی نہیں ۔
اورتابعین کے اس فہم پر دیگرتابعین کا کوئی اختلاف نہیں ملتا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ فطرہ والی احادیث کو خوراک ہی پر خاص کرناتابعین کے متفقہ فہم کے خلاف ہے۔
اور ہمارا اصول ہی ہے اتباع الدلیل بفھم السف ۔ یعنی فہم سلف کے ساتھ دلیل کی پیروی کرنا ۔
سلف صالحین کے دور میں فطرہ میں قیمت نکالنے کا ثبوت تو ملتا ہے لیکن ان کے دور میں کسی ایک سے بھی اس کی ممانعت کا ثبوت نہیں ملتا ہے ۔یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ممانعت والا قول بعد کی پیدوار ہے اور سلف کے متفقہ فہم کے خلاف ہے ۔لہٰذا ایسے لوگ ممانعت والی بات پر سلفیت کا لیبل قطعا نہ لگائیں ۔
ائمہ واہل علم کا موقف:
صحابہ وتابعین کے بعد بھی فطرہ میں قیمت دینے کے قائلیں موجود رہے ہیں چناں چہ:
⬅ ائمہ اربعہ میں امام ابوحنیفہ(المتوفى: 150) سے بھی قیمت نکالنا ثا بت ہے [سنن الدارقطني: 2/ 150 واسنادہ صحیح ]
⬅ امام ابن معین کے شاگرد عباس الدورى رحمه الله (المتوفى271) نقل کرتے ہیں:
قال يحيى في زكاة الفطر لا بأس أن يعطى فضة
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے صدقۃ الفطر کے بارے میں کہا کہ اس میں درہم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 476]
⬅ امام ابن زنجويه (المتوفى251)فرماتے ہیں:
القيمة تجزي في الطعام إن شاء الله، والطعام أفضل
طعام کی جگہ قیمت نکالنا جائز ہے اور طعام نکالنا افضل ہے۔[الأموال لابن زنجويه 3/ 1269]
⏺ چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ایک بہت بڑے فقیہ و امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه المتوفی362) کہتے ہیں:
أداء القيمة أفضل؛ لأنه أقرب إلى منفعة الفقير فإنه يشتري به للحال ما يحتاج إليه، والتنصيص على الحنطة والشعير كان؛ لأن البياعات في ذلك الوقت بالمدينة يكون بها فأما في ديارنا البياعات تجرى بالنقود، وهي أعز الأموال فالأداء منها أفضل
صدقۃ الفطر میں قیمت دینا ہی افضل ہے اس لئے کہ اس میں فقیرومحتاج کے لئے زیادہ فائدہ ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ فورا جو چاہے خرید سکتاہے۔ اور حدیث میں گیہوں ، جو (وغیرہ) کا ذکر اس لئے ہے کیونکہ اس وقت مدینہ میں خریدو فروخت انہیں چیزوں سے ہوتی تھی (یعنی یہ غلے اس وقت بطور کرنسی چلتے تھے) لیکن ہمارے علاقوں میں نقدی کے ذریعہ خریدوفروخت ہوتی ہے اور یہ اموال میں سب سے زیادہ عزیز ہے اس لئے اسی سے صدقہ الفطر اداء کرنا افضل ہے۔[المبسوط للسرخسي : 3/ 107]
▪امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه کے بارے میں امام سمعاني رحمه الله (المتوفى 562) کہتے ہیں:
كان إماما فاضلا ۔۔۔ حدث بالحديث
یہ امام اورفاضل تھے ۔۔۔انہوں نے حدیث کی روایت کی [الأنساب للسمعاني، ت المعلمي: 13/ 432]
▪امام ذہبی(المتوفى748)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان من براعته في الفقه يقال له أبو حنيفة الصغير توفي ببخارى وكان شيخ تلك الديار في زمانه
فقہ میں آپ کی مہارت کا یہ حال تھا کہ انہیں ابوحنیفہ الصغیر کہا جاتا تھا ، یہ بخاری میں فوت ہوئے اور اپنے زمانے میں وہاں کے شیخ تھے [العبر في خبر من غبر 2/ 334]
▪امام ذہبی رحمہ اللہ دوسری کتاب میں کہتے ہیں:
من يضرب به المثل۔۔۔أخذ عنه أئمة
یہ ایسے تھے کہ ان کی مثال بیان کی جاتی تھی۔۔۔ان سے ائمہ نے علم حاصل کیا ہے۔[سير أعلام النبلاء للذهبي: 16/ 131]
ان کا تعارف اس لئے پیش کردیا گیا ہے تاکہ جو حضرات ان سے واقف نہیں ہیں وہ بھی ان سے واقف ہوجائیں۔
⬅ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر فطرہ میں قیمت نکالنے کو جائز کہاہے[مجموع الفتاوى 25/ 82]
صحابہ وتابعین اور ائمہ واہل علم سے صراحتا یہ چیز ثابت ہونے کے بعد بھی اس میں تشدد کرنا بہت ہی عجیب وغریب بات ہے۔
بلکہ صرف تابعین ہی سے اس کا ثبوت مل جانے کے بعد بھی اس مسئلہ میں پرتشدد فتوی دینا انتہائی غیر مناسب ہے۔
بعض معاصرین علماء کا موقف
⬅ علامہ احمدشاکر رحمہ اللہ نے بھی فطرہ میں قیمت کے جواز کی طرف اشارہ کیا ہے دیکھئے [ المحلی لابن حزم : ج6 ص132 (حاشیہ) بتحقیق احمدشاکر]
⬅ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ فطرہ میں غلہ دینے کو بہترکہنے کے ساتھ ساتھ آثار تابعین کے پیش نظر لکھتے ہیں:
ان آثار کی وجہ سے صدقہ فطر میں رقم (روپے)وغیرہ دینا جائز ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ اجناس مثلا گندم ،آٹا اور کھجوروغیرہ سے صدقہ فطر اداکیا جائے ۔واللہ اعلم[فتاوی علمیہ :ج2ص165]۔
.
خلاصہ
❀ صدقہ الفطر میں خاص اشیاء اور ان کو بھی خاص شکل میں دینے ہی کا صراحتا ثبوت ملتا ہے ۔
❀ صدقہ الفطر میں عام غلہ وخوراک دینے کی بات کسی بھی حدیث میں وار نہیں ہے ، ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد لفظ طعام کو عام معنی میں لینا بعض حضرات کی غلط فہمی ہے۔
❀ صدقہ الفطرکی اصل علت غرباء ومساکین کو ثمن فراہم کرنا ہے ۔
❀ احادیث میں منصوص اشیاء کے لئے دیگر خوارک یا نقدی ورقم بھی فطرہ میں دینا جائز ہے۔
❀ غیر منصوص خوراک دینے کو علی الاطلاق افضل کہنا درست نہیں ہے ۔
❀ فطرہ میں نقد ورقم دینا احادیث اور آثار صحابہ سے ثابت ہے ۔
❀ فطرہ میں نقد و رقم دینا ائمہ سلف سے بھی ثابت ہے بلکہ متقدمین کے مابین اس کے جواز میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے ۔
❀ صدقۃ الفطر میں اگرصرف منصوص اشیاء (کھجور، جو، کشمش ، پنیز ،گیہوں) نکالی جائیں تو یہ افضل و بہترہے۔لیکن اگرمنصوص اشیاء کے علاوہ دوسری چیزیں مثلا نقد و رقم یا عام خوارک (جوفطرانہ کی احادیث میں مذکور نہیں ہیں) جیسےدال ، چاول ، گھوشت و دودھ وغیرہ تو اس میں مطلق طور پر کسی کو بھی افضل نہیں کہا جاسکتا بلکہ جغرافیائی حالات اور فقراء و مساکین کی حاجات کے پیش نظر افضل کی بات کہی جائے گی۔
چناں چہ جس علاقہ میں فقراء ومساکین کھانے پینے کی اشیاء سے بے نیاز ہوں اور صدقہ الفطر وصولنے کے بعد اسے بیچ دیتے ہوں ایسے علاقوں میں اگرمنصوص اشیاء نہ دی جائیں تو رقم دینا ہی افضل و بہتر ہے۔یہی حکم ان فقراء ومساکین سے متعلق بھی ہے جو فقر وفاقہ والے علاقے میں رہنے کے باوجود بھی استثنائی طور پر اسی حالت میں ہوں۔
لیکن اگر علاقہ ایسا ہوں جہاں کے فقراء ومساکین دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوں بغیر کام کئے یا دست سوال دراز کئے انہیں ایک وقت کا کھانا نصیب نہ ہوتا ہو تو ایسے علاقہ میں اگرمنصوص اشیاء نہ دی جائیں تو پھر وہاں پر رائج خوراک وطعام دینا ہی افضل ہے۔یہی حکم ان فقراء ومساکین سے متعلق بھی ہے جو کسی خوشحال علاقے میں رہنے کے باوجود بھی استثنائی طور پر اسی حالت کے شکار ہوں۔
.
(ختم شد)
.
No comments:
Post a Comment