صدقۃ الفطر میں نقد ورقم دینے کا حکم (یونیکوڈ) قسط 4 - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-05-04

صدقۃ الفطر میں نقد ورقم دینے کا حکم (یونیکوڈ) قسط 4


.
.
باب پنجم
فطرانہ میں نقد و رقم دینے کا حکم
یہ بات متعدد بار گذرچکی ہے کہ احادیث میں منصوص اشیاء سے فطرہ نکالا جائے تو یہی افضل ہے، لیکن اگر منصوص اشیاء سے فطرہ نہ نکالا جائے تو پھر ان کے علاوہ کسی بھی چیز کو علی الاطلاق افضل نہیں کہا جاسکتا بلکہ حالات وظر وف کے لحاظ سے فیصلہ کیا جائے گا کہ کب اور کہاں کیا چیز دینی افضل ہے ۔
ماقبل میں منصوص طعام کے علاوہ غیر منصوص طعام کا حکم واضح کیا جاچکا ہے ، اب ہم نقد ورقم پر بات کرتے ہیں۔
اگر کوئی شخص فطرہ میں منصوص اشیاء نہیں نکالتا ہے تو اس کے لئے فطرہ میں نقد ورقم نکالنا بلا تردد جائز ہے ، بلکہ اگر علاقہ ایسا ہو جہاں کے لوگ کھانے پینے کے محتاج نہ ہوں تو وہاں غیر منصوص دیگر اشیاء کے مقابلے میں رقم دینا ہی افضل ہے ۔
دلائل ملاحظہ فرمائیں:
.
پہلی دلیل : فطرہ والی احادیث
پہلے باب میں ان احادیث کو بیان کیا جاچکا ہے جن میں ان چیزوں کی صراحت ہے جن سے عہد رسالت میں فطرہ ادا کیا جاتا تھا ، ان منصوص اشیاء کی نوعیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس دور میں ان چیزوں کا استعمال محض کھانے کے لئے نہیں ہوتا تھا بلکہ بطور ثمن بھی ان چیزوں کا استعمال ان کے یہاں رائج تھا اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی خرید وفرخت وہ انہیں چیزوں سے کیا کرتے تھے ۔
دراصل جس طرح نقدی سے خرید و فروخت ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح دیگر اشیاء سے بھی خرید و فروخت ہوتی ہے ان اشیاء میں کھانے پینے کی چیزیں سے خرید و فروخت کرنا پچھلے زمانہ میں عام بات تھی بلکہ آج بھی دیہاتوں میں میوہ فروش یا برف بیچنے والا آتا ہے تو عام طور سے بچے غلہ دے کر ہی سوداکرتے ہیں یعنی غلہ کو بطور ثمن استعمال کرتے ہیں ، یہی صورت حال عہد رسالت میں تھی ۔
عہد رسالت میں دینار و درہم کی کرنسی بھی موجود تھی مگر ان کی مالیت بہت زیادہ تھی ، اس لئے بڑی بڑی چیزیں یا ایک ساتھ بہت زیادہ چیزیں خریدتے وقت ہی ان کا استعمال ہوتا ہے ، رہی چھوٹی چھوٹی چیزیں تو ان کے خرید وفروخت کے لئے اس دور میں دینار و درہم کا تبادلہ نہیں ہوتا تھا ، ایک صاع کے مقدار میں جو غلہ تھا اس کے متبادل یعنی کم قیمت والی کوئی کرنسی اس دور میں نہ تھی ، اس لئے اس درجہ کی مالیت والی اشیاء کی خرید و فروخت کے لئے انہیں چیزوں کا استعمال ہوتا تھا جن کا ذکر فطرہ والی احادیث میں ہے ، یعنی عہد رسالت میں فطرہ والی احادیث میں مذکورہ اشیاء کا استعمال بطور نقد ی و کرنسی بھی ہوتا تھا ۔
ایسی صورت میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ عہد رسالت میں صدقہ الفطر میں جوغلہ دیا جاتا تھا اس کا مقصد غرباء ومساکین کو ثمن فراہم کرنا مقصود تھا یا صرف خوراک فراہم کرنا مقصود تھا ؟
بعض اہل علم کا قول ہے کہ اصل مقصود ثمن فراہم کرنا تھا ، ہمارے نزدیک بھی راجح یہی ہے جیساکہ دوسرے باب میں تفصیل گذرچکی ہے ۔
اس تفصیل کی روشنی میں فطرہ والی احادیث ہی اس بات کی دلیل ہیں کہ فطرہ میں نقد دینا جائز ہے ۔
.
دوسری دلیل : اعتبار قیمت والی حدیث
فطرہ میں گیہوں دیا جائے تو اس کی مقدار نصف صاع بتلائی گئی ہے۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ صرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا جو حجت نہیں لیکن ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے عین یہی بات مرفوعا صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے[شرح مشكل الآثار 9/ 27 رقم 3408]۔ اوراس کی سند صحیحین کی شرط پر صحیح ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔[تمام المنة في التعليق على فقه السنة ص: 387]۔
یہاں غور کیجیے کہ گیہوں کی مقدار دیگر خورک کے مساوی نہیں بلکہ دیگر خوراک کی قیمت کے مساوی رکھی گی ہے۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ فطرہ میں دیا جانے ولا غلہ ”بطور خوراک“ نہیں بلکہ ”بطور ثمن“تھا۔
.
بعض شبہات کا ازالہ 
✿ شبہ:
بعض حضرات کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب نصف صاع گیہوں نکالا تو دیگر صحابہ نے اس سے اختلاف کیا ۔
ازالہ:
عرض ہے کہ :
اولا: دیگر صحابہ نے نہیں بلکہ صرف اور صرف ایک صحابی ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے اختلاف کیا تھا باقی تمام صحابہ نے اتفاق کرلیا تھا ۔
اور ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کا اختلاف صرف قیمت کے اعتبار سے نہیں تھا بلکہ وہ سرے سے گیہوں نکالنے ہی کے قائل نہ تھے گرچہ گیہوں بھی ایک صاع نکالا جائے ۔بلکہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ صرف منصوص اشیاء سے فطرہ نکالنے کے قائل تھے جیساکہ تفصیل گذرچکی ہے۔
ثانیا:
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو اجتہاد کیا تھا اس کی تائید میں ایک صحیح مرفوع حدیث بھی ثابت ہے جس کا علم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ابوسعد الخدری رضی اللہ عنہ کو نہیں ہوسکا۔
لہٰذا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تائید میں مرفوع حدیث کے سامنے آنے کے بعد اس سے اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
.
✿ شبہ:
بعض حضرات محض قیاس آرائی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ فطرہ میں طعام کی جن قسموں کا ذکر ہے ان کی قیمتیں ایک دوسرے سے الگ ہیں لیکن پھر بھی سب کی مقدار ایک بتلائی گئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قیمت کا اعتبار نہیں ۔
ازالہ:
عرض ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اثر اور اسی مفہوم کی مرفوع حدیث سے صراحتا ثابت ہوگیا کہ سب کی مقدار ایک نہیں بتلائی گئی ہے بلکہ گیہوں کی مقدار میں فرق کیا گیا ہے لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قیمت کا اعتبار کیا گیا ہے۔
رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ جو ، کھجور اور کشمش کی قیمتیں بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں اس لئے ان میں فرق کیوں نہیں کیا گیا ؟
تو جوابا عرض ہے کہ جو ، کھجور اور کشمش کی قیمتوں میں فرق آج ہمارے زمانے میں ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عہد نبوی میں بھی ان اشیاء کی قیمتوں میں فرق تھا ! جو لوگ تفریق کی بات کرتے وہ عصر حاضر کے حالات پر عہد نبوی کے حالات کو قیاس کرتے ہیں اور یہ قیاس انتہائی فاسد ہے۔اس طرح کی باتیں کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ صحیح روایات سے ثابت کریں کہ عہد رسالت میں ان اشیاء کی قیمتوں میں فرق تھا اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو عہدرسالت کے حالات کو عصرحاضر کے حالات پر قیاس نہ کریں یہ قیاس مع الفارق ہے۔
غور کریں کہ اس دور میں گیہوں کھجور سے مہنگا تھا لیکن آج کے دور میں گیہوں کھجور سے سستا ہے ۔ تو دو ایسی چیزیں جن میں ایک کی قیمت کسی زمانے میں دوسرے سے زائد ہو اور پھر بعد میں ایسا زمانہ آجائے کہ زائد قیمت والی چیز ،کم قیمت والی چیز سے بھی سستی ہوجائے یعنی معاملہ بالکل برعکس ہوجائے تو پھر ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ کسی زمانے میں دونوں کی قیمت یکساں اور برابر ہوجائے ؟
بلکہ فطرہ میں گیہوں والی حدیث سے تو بظاہر یہی پتہ چلتا ہے کہ گیہوں کے علاوہ دیگر اشیاء کی قیمت یکساں ہی تھی ، بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق جو روایت ہے اس کے بعض طرق میں آتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک صاع کھجور کی قیمت کے اعتبار سے نصف صاع گیہوں طے کیا ، جبکہ بعض طریق میں ہے کہ ایک صاع جو کی قیمت کے اعتبار سے نصف صاع گیہوں طے کیا ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ کھجور اور جو کی قیمت یکساں ہی تھی جبھی تو دونوں کی ایک صاع مقدار کا تقابل نصف صاع گیہوں سے کیا گیا ۔
.
✿ شبہ :
بعض حضرات نے کہا کہ الگ الگ چیزوں کو جانے دیں صرف ایک ہی چیز یعنی کھجورہی کو دیکھ لیں کہ اس کی قیمت بھی ہمیشہ ایک نہیں ہوگی بلکہ الگ الگ نوعیت کے اعتبار سے الگ الگ قیمت ہوگی ۔
ازالہ:
یہ بات بالکل درست ہے لیکن جب مطلق ایک صاع کھجور کہا جائے گا تو عرف میں اوسط درجے کی نوعیت والی کھجور مراد ہوگی اور اس کی قیمت یکساں ہی ہوگی ، یہی وجہ ہے کہ ایک صاع کھجور کا تقابل نصف صاع گیہوں سے کیا گیا ہے ، ورنہ عرف سے آنکھ بند کرلی جائے تو یہ شبہ خود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اثر اور اسی معنی کی مرفوع حدیث پروارد ہوگا کہ نصف صاع گیہوں کو ایک صاع کھجور کی کس قسم کے مساوی قراردیا گیا ہے ؟
.
✿ شبہ :
بعض حضرات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ والے اثر سے متعلق کہتے ہیں کہ انہوں نے قیمت کا اعتبار نہیں کیا بلکہ دیگر وجوہات کی بناپر گیہوں میں نصف صاع کی بات کہی ہے۔
ازالہ:
عرض ہے کہ صحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں پوری صراحت کے ساتھ ہے :
فقال له رجل من القوم: لو مدين من قمح؟ فقال: لا، تلک قيمة معاوية لا أقبلها ولا أعمل بها
ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا: اگر دو مد (یعنی نصف صاع) گیہوں نکا لا جائے تو ؟ اس پر ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیمت ہے ، نہ تو میں اسے تسلیم کروں گا اور نہ اس پر عمل کروں گا (صحيح ابن خزيمة، ت الأعظمي: 4/ 89 رقم 2419 واسنادہ صحیح)
ملاحظہ فرمائیں کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے پوری صراحت کردی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیمت کا اعتبار کیا ہے ، اس صریح وضاحت کے بعد یہ کہنے کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیمت کا اعتبار نہیں کیا تھا ۔
یاد رہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ اجتہاد مرفوع حدیث کے موافق ہے کیونکہ فطرہ میں نصف صاع گیہوں نکالنا مرفوعا بھی ثابت ہے کما مضی
.
✿ شبہ:
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے گرچہ قیمت کا اعتبار کیا لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے طعام ہی نکالا نہ کہ نقد ۔
ازالہ:
اس کا جواب بھی وہی ہے جو اس اعتراض کا جواب ہے کہ عہد رسالت میں نقدی سے فطرہ کیوں نہیں دیاگیا ، دراصل عہدرسالت میں ایک صاع کی مالیت کے برابر کوئی نقدی تھی ہی نہیں جیسا کہ مختصر وضاحت ہوچکی اور مستقل عنوان کے تحت سے آگے اس کی تفصیل آرہی ہے۔لہٰذا اس دور میں ایک صاع غلے کی متبادل قیمت میں جو دوسری چیز دی جاسکتی تھی وہ غلہ ہی تھا ۔
نیز امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب نصف صاع گیہوں نکالا تو یہ ہرگز نہیں کہا کہ گیہوں بھی طعام ہے اس لئے اسے بھی نکال سکتے ہیں ؟ بلکہ یوں کہا کہ نصف صاع گیہوں ، ایک صاع کھجور کے مساوی ہے۔یعنی انہوں نے مالیت والی چیز پر مالیت والی چیز کو قیاس کیا ہے ، نہ کہ کھائی جانے والی چیزپر ایک دوسری کھائی جانے والی چیز کو۔
مزید یہ کہ گیہوں کے طعام ہونے کی بنیاد پر یعنی طعام کو طعام پر قیاس کرتے ہوئے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے گیہوں نکالا ہوتا تو مقدار میں ہرگز تبدیلی نہ کرتے ، کیونکہ ایسی صورت میں پیش نظر علت، طعام ہوتی اور مناط، مقدار قرارپاتی جو غیر متغیر ہوتی؛ لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدار میں تبدیلی کردی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پیش نظر اصل علت مالیت کی برابری تھی اور مناط قیمت تھی ۔
.
✿ شبہ:
بعض حضرات نے کہا کہ اگر قیمت کا اعتبار کرنا ہے تو آج گیہوں کی قیمت کم ہوگئی ہے تو کیا فطرۃ میں سات آٹھ صاع گیہوں نکالنے کے لئے کہیں گے ۔
ازالہ:
عرض ہے کہ جب کسی خاص چیز کو لیکر اس کی مقدار عہد رسالت میں متعین کردی گئی ہے تو اب اس خاص چیز کی مقدار میں ہم کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے گرچہ بعد کے ادوار میں حالات بدل جائیں ۔
مثلا چور کا ہاتھ کاٹنے کے لئے شرط یہ ہے کہ چرایا گیا مال ربع دینار یا اس سے زائد ہو ، عہد رسالت میں یہ ایک بہت بڑی رقم تھی لیکن آج یہ رقم بہت معمولی درجے کی ہے ۔ لیکن اس کے سبب ہم شریعت کی طرف سے طے کردہ اس مقدار میں تبدیلی نہیں کرسکتے ۔
اسی طرح عہد رسالت میں چاندی میں زکاۃ کے لئے جو مقدار نصاب متعین کی گئی ہے وہ اس وقت کے لحاظ سے بڑی مقدار تھی اور اس مقدار کے مالک کو اغنیاء میں شمار کیا جاتا تھا ، جیساکہ حدیث کے الفاظ ہیں:
تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم
زکاۃ اغنیاء سے وصول کی جائے گی اور فقیروں کو لوٹا دی جائیں گے [صحيح البخاري 2/ 104 رقم 1395]
لیکن آج تقریبا ہر شخص کے پاس اتنی مقدار میں چاندی یا کرنسی ہوتی ہے خواہ وہ کتاہی غریب کیوں نہ ہو ۔
لیکن حالات کی اس تبدیلی کے سبب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج کے دور میں چاندی کے نصاب کی مقدار بڑھا دی جائے ۔یا اس نصاب کے مالک حضرات کو اغنیاء میں شمار کیا جائے اور انہیں زکاۃ نہ دی جائے۔
.
✿ شبہ:
عہد رسالت میں نقد ورقم سے فطرہ کیوں نہیں ادا کیا گیا ؟
ازالہ:
یہ سب سے بڑا اعتراض ہے اور اسی اعتراض نے اکثر لوگوں کو غلط فہمی ڈال کر رکھا ہے ، مختصرا اس کا جواب گذشتہ سطور میں بھی دیا جاچکا ہے یہاں ہم قدرے تفصیل سے اس کا جواب دیں گے اور اس ضمن میں بعض شبہات کا ازالہ بھی پیش کریں گے ۔
.
عہد رسالت کی نقدی و کرنسی :
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی کہ جس طرح ہمارے دور میں چھوٹی بڑی ہر طرح کی مالیت کی کرنسی موجود ہے، ٹھیک اسی طرح عہد رسالت میں بھی ہرطرح کی مالیت والی کرنسیاں موجود تھیں ۔ لیکن یہ بہت بڑی غلطی فہمی ہے۔
عصر حاضر کی کرنسیاں او ان کی مالیت:
ہمارے دور میں جہاں ایک طرف بڑی مالیت والی کرنسی موجود ہے جیسے دو ہزار روپے کے نوٹ ،وہیں دوسری طرف چھوٹی اور کم مقدار کی مالیت کے لئے بھی کرنسی موجود ہے جیسے ایک روپیہ ۔اس لئے ہم جس طرح بڑی بڑی چیزوں کو کرنسیوں سے خرید سکتے ہیں ٹھیک اسی طرح چھوٹی چھوٹی اور معمولی چیزوں کو بھی کرنسی سے خرید سکتے ہیں ۔چنانچہ آج اگرہم ایک لیٹر دودھ یا ایک معمولی سوئی اور دھاگہ بھی کرنسی سے خریدنا چاہیں تو خرید سکتے ہیں ، کیونکہ آج ہمارے پاس اتنی کم مالیت کے متبادل چھوٹی کرنسی بھی موجود ہے۔
.
عہدرسالت کی کرنسیاں اور ان کی مالیت:
لیکن عہد رسالت کی کرنسیوں کی نوعیت مختلف تھی ، اس دور میں صرف دو ہی کرنسی تھی ایک دینار اور دوسری درہم اور یہ دونوں کرنسیاں مالیت بھی کافی بڑی تھیں ، اور ان دونوں کرنسیوں کے علاوہ ان کے یہاں چھوٹی اور کم مقدار کی مالیت کے لئے کوئی کرنسی موجود ہی نہ تھی ۔
چنانچہ عہد رسالت میں اگر کسی کو ایک لیٹر دودھ یا ایک سوئی خریدنی ہوتی تو اس کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اسے کرنسی دے کر خرید سکے ۔اس لئے اس دور میں چھوٹی چیزوں کی خریدو فروخت غلوں مثلا کھجور ، جو اورکشمش وغیرہ سے ہوتی تھی ۔
یعنی اس دور میں کھجور وغیرہ کو جہاں خوراک کے لئے استعمال کیا جاتا تھا وہی کرنسی کے طور پر بھی ان کااستعمال ہوتا تھا ۔مثلا کوئی کپڑے خرید کر بیچنے والے کو کھجور دیتا تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس نے کپڑے لے کر اسے کھانا کھلادیا ہے ، بلکہ مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس نے کپڑے خرید کر اس کی قیمت ادا کی ہے ۔
.
کیا ایک صاع کی مالیت کے برابر عہد رسالت میں کوئی کرنسی موجود تھی ؟
اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ کیا ایک صاع کھجور وغیرہ کی مالیت کے برابر عہد رسالت میں کوئی کرنسی موجود تھی ؟ نیز کیا اس دور میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ ملتا ہےکہ جس میں کسی نے ایک صاع کی قیمت والی کسی چیز کو کرنسی سے خریدا یا بیچا ہو ؟
اگر اس بات کا ثبوت مل جائے کہ عہد رسالت میں ایک صاع کھجور وغیرہ کی قیمت کے مساوی کوئی کرنسی تھی ، یا اس دور میں کسی نے ایک صاع کی مالیت والی چیز کو بھی کرنسی سے خریدا یا بیچا ہے، تو یہ اعتراض بالکل بجا ہے کہ جب عہد رسالت میں اسی قیمت میں کرنسی بھی موجود تھی تو کیا وجہ ہے کہ کرنسی نہ دے کر کھجور جیسے غلے ہی فطرہ میں دینے کا التزام کیا گیا ۔
لیکن اگر احادیث کا ذخیرہ چھان مارنے کے بعد کوئی ایک بھی صحیح روایت ایسی نہ ملے جس میں یہ ذکر ہو کہ ایک صاع کی قیمت کے مساوی کوئی کرنسی اس دور میں تھی ، یا ایک صاع کھجور وغیرہ کو کسی نے کرنسی سے خریدا یا بیچا ہو ۔ تو انصاف سے بتلائے کہ ایسی صورت میں کیا یہ اعتراض بے معنی ہو کر نہیں رہ جاتا کہ عہد رسالت میں فطرہ میں کرنسی کیوں نہیں دی گئی ؟
.
عہد رسالت کی دونوں کرنسیوں اور ایک صاع کھجور وغیرہ کی قیمت کا تقابل:
یہ وضاحت ہوچکی ہے عہد رسالت میں دینار اور درہم کی شکل میں جو دو کرنسیاں تھی ان کی مالیت ایک صاع غلے کی مالیت سے بہت زیادہ تھی ۔
مثلا دینار کی بات لے لیں صحابہ کرام رضی اللہ عنم ایک دینار سے ایک یا دو بکری خریدتے تھے ۔دیکھئے: [صحيح البخاري 4/ 207 رقم3642] .
اب دیکھئے کہ جب ایک دینار میں ایک یا دو بکری ملتی تھی تو بھلا ایک صاع غلہ کے متبادل ایک دینار کیسے ہوسکتاہے؟ بلکہ آدھا یا پاؤ دینار بھی ایک صاع غلہ کے مقابلہ میں بہت بڑی رقم ہے ۔ اگر ایک دینار کے اسی (80) حصے کریں تو اس کا ایک حصہ ہی ایک صاع کے برابر ہوگا۔ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ عہدرسالت کی یہ نقدی کرنسیاں فطرہ میں دی جاتیں؟
یہی حال درہم کا بھی ہے ، اس کی مالیت بھی ایک صاع کے بالمقابل کئی گنا زیادہ ہے چنانچہ ایک درہم کے اگرچار حصے کریں تو ایک حصہ یعنی ربع درھم ایک صاع کے بار ہوگا، اور ربع درہم سے اس دور میں خرید وفروخت نہیں ہوتی تھی ۔
عہدرسالت میں ہمیں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ ایک صاع غلہ کے برابر کی کوئی چیز درہم سے خریدی گئی ہو۔غرض یہ کہ ایک صاع کے برابر اشیاء کی خرید وفروخت کے لئے عہدرسالت میں کسی نقدی کرنسی کا وجود تھا ہی نہیں، اس لئے اس مقدار کی اشیاء کی خرید و فروخت کے لئے طعام کی وہی قسمیں بطور کرنسی استعمال ہوتی تھیں جن کا ذکر فطرہ والی احادیث میں ہے۔
اورفرض کرلیں کہ عہدرسالت میں ایک صاع کے متبادل کوئی کرنسی تھی تو بھی اس دور میں سب کے پاس کرنسی کا ہونا عام بات نہیں تھی بلکہ عمومی طور پر لوگ غلے ہی کو بطورکرنسی استعمال کرتے تھے۔
البتہ بعد میں جب طعام کی قیمت بڑھی تو چھوٹی کرنسی (درہم) کا نصف حصہ ایک صاع عمومی غلہ کے متبادل ہوگیا نیز معاشی اعتبار سے صحابہ کی حالت بھی پہلے سے بہتر ہوگئی اور ایسا ہوتے ہی صحابہ کرام صدقہ الفطر میں قیمت دینے لگے جیساکہ ابواسحاق السبیعی کے بیان سے پتہ چلتا ہے جس کی سند صحیحین کی شرط پر صحیح ہے۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 3/ 174 واسنادہ متصل صحیح علی شرط الشیخین]
.
ہم نے اپنے بعض مضامین میں جب یہی بات لکھی کہ عہد رسالت میں ایک صاع کے متبادل کوئی کرنسی نہ تھی ، تو بعض حضرات میری یہ بات سمجھ ہی نہیں سے اور ایسی روایات لا کر پیش کرنے لگے جس میں دینار یا درہم کا ذکر تھا ، یا ان کے ذریعہ لین دین کا بیان تھا ۔
ہم کہتے ہیں کہ اس بات کا انکار ہم نے کیا ہی نہیں ہے ، ہم خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عہد رسالت میں دینار اور درہم کی کرنسیاں تھیں اور ان سے لین دین بھی ہوتا تھا ، لیکن ہمارا کہنا یہ ہے یہ کرنسیاں بہت بڑی مالیت والی تھیں ، اس میں ہر ایک کی قیمت ایک صاع غلے سے کئ گنا زائد تھی ۔
اس لئے ان کرنسیوں کا استعمال بڑی بڑی مالیت یا کثیر تعداد والی چیزوں کی خرید و فروخت کے لئے ہوتا تھا نہ کہ ایک صاع غلے کی قیمت کی جگہ ان استعمال ہوتا تھا۔

✿ شبہہ :
بعض حضرات نے موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان ، رقم ( 1106) کی ایک روایت پیش کی جس میں یہ مذکور ہے کہ ایک یہودی شخص اپنا مال بیچنے لایا جس میں کھجور بھی تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مد کو ایک درہم سے خریدا ۔اور ایک صاع میں چار مد ہوتا ہے جب ایک مد کو سودا درہم سے ہوسکتا ہے تو ایک صاع جس میں چار مد ہوتے ہیں اس کا سودا درہم سے کیونکر نہیں ہوسکتا۔
ازالہ:
عرض ہے کہ اس روایت میں مذکور واقعہ ایک خاص وقت سے متعلق جب صحابہ بھوک اور غذائی بحران کے شکار تھے اور ان کے پاس کھانے کا کوئی سامان نہ تھا ، خود اسی روایت کے الفاظ ہیں:
وكان قد أصاب الناس قبل ذلك جوع لا يجدون فيه طعاما فأتى النبي صلى الله عليه وسلم الناس يشكون إليه غلاء السعر
صحابہ کرام بھوک کے شکار تھے ، ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہ تھا ، صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور مہنگائی کی شکایت تھی ۔[موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان ،رقم 1106]
اس روایت کے سیاق سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ کوئی عمومی واقعہ نہ تھا بلکہ ایک خاص وقت سے متعلق تھا جب صحابہ غذائی بحران کے شکار تھے ، اور اسی سبب مہنگائی عام معمول سے بہت زیادہ بڑھ گئی تھی ، ظاہر ہے ایسی صورت میں جب معمولی چیزوں کی قیمت آسمان کو چھونے لگے تو اس کی قیمت کا درہم ہی نہیں بلکہ دینار کے مساوی ہوجانا بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
ہندوستان میں کسی سال ایسا بھی ہوا کہ ایک کلو پیاز کی قیمت سو روپے سے بھی زائد ہوگئی ہے جب کہ عام حالات میں اس کی قیمت دس روپے ہے ۔
لہٰذا اس طرح کے استثنائی واقعات سے استدلال درست نہیں ہے ۔
مزید اس بات پر غور کریں کہ مذکورہ استثنائی واقعہ میں ایک صا ع کھجور کی قیمت چار درہم بنتی ہے ، لیکن عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں جب اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو ایک صاع کھجور کی قیمت صرف نصف درہم تک پہنچی، جیساکہ آگے روایت آرہی ہے ۔
غور کریں کہ جب عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں ایک صاع کھجور کی قیمت ایک درہم تک بھی نہیں پہنچی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عہد رسالت میں یہ ایک صاع کھجور کی قیمت چار درہم ہو ؟؟
غرض یہ کہ مذکورہ واقعہ ایک استثائی اور وقتی واقعہ ہے لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں ۔

✿ شبہ:
بعض حضرات نے کہا کہ ایک دینار اور ایک درہم کی قیمت ایک صاع کے برابر نہیں ہوسکتی تو عشردرہم کی قیمت تو ایک صاع کے برابر ہوسکتی ہے۔
ازالہ:
عرض ہے کہ بے شک عشر درہم، بلکہ ربع درہم کی قیمت بھی ایک صاغ غلے کے برابر ہوسکتی ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عشر درہم یا ربع درہم سے اس دور میں خرید و فروخت ہوتی تھی ؟
جب کسی چیز کی قیمت اس قدر کم ہو کہ اس کے عوض میں دینار کیا درہم کی بھی مکمل یا نصف کرنسی دینی ممکن نہ ہو تو ایسی کم قیمت والی چیزوں کے لیکن دین میں کرنسی کا استعمال ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ ایسی صورتوں میں کرنسی کے بجائے غلوں ہی کے ذریعہ خرید وفروخت ہوتی تھی۔
.
کچھ غیرمتعلق اعتراضات اور ان کے جوابات
✿ اعتراض:
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ فطرۃ میں خوراک دینا ایک ظاہری شعار ہے ، اور اس کی جگہ رقم دینا اس عمل کو مخفی کرنا ہے۔
جواب:
یہ انتائی کمزور بات ہے کیونکہ صدقہ میں اصل اخفاء اور چھپانا ہی بلکہ حدیث میں صدقات کو چھپانے کی تو یہ ترغیب ہے دائیں ہاتھ سے دیا جائے تو بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے ، نیز ایسا کرنے والے کے لئے یہ بشارت سنائی گئی ہے کہ وہ بروز محشر اللہ کے (عرش کے) سائے میں ہوگا (صحیح بخاری)
لہٰذا اس صدقہ کو ظاہر شعار قرار دینا بالکل غلط بات ہے ۔
.
✿ اعتراض:
بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر فطرۃ میں رقم دینا جائز ہے تو کیا قربانی میں جانور ذبح کرنے کے بجائے اس کی جگہ رقم دینا جائز ہے ۔
جواب:
یہ اعتراض انتہائی لغو ہے کیونکہ قربانی میں اصل عبادت ہی خون بہانا ہے ، نہ کہ محض گوشت کھانا اور کھلانا ، اس سلسلے میں صحیح بخاری کی حدیث کس قدر واضح ہے کہ عید سے قبل ذبح کرنے والے کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
”شاتك شاة لحم“ 
 ”تمہاری بکری محض گوشت والی بکری ہے“ [صحيح البخاري 7/ 101 ،رقم 5556]
یہ حدیث پوری صراحت کے ساتھ بتلارہی ہے کہ محض گوشت کھانے کھلانے سے قربانی نہیں ہونے والی ہے تو بھلا اس کی قیمت ادا کرنے کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ۔
..
✿ اعتراض:
بعض حضرات کہتا ہے کہ اگر فطرۃ میں نقد دینے کی بات کہی جائے تو اس سے نص کو تبدیل کرنا بلکہ نص کو مردہ کرنا لازم آتا ہے ۔
جواب:
عرض ہے کہ اس اعتراض کی زد میں خود منکرین نقد آتے ہیں کیوں ان کے فتاوی میں ہی نص کو تبدیل کرنے اور مردہ کرنے کی بات آتی ہے۔
کیونکہ یہ حضرات بعض حالات میں نہ صرف یہ کہ منصوص اشیاء سے فطرہ نکالنے کو بہتر نہیں سمجھتے بلکہ اسے نا جائز سمجھتے ہیں بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ منصوص اشیاء سے فطرہ ادا ہی نہیں ہوگا ۔
مثال کے طور پر”شعیر“ (جو) منصوص اشیاء میں سے ہے ، لیکن جس علاقہ میں یہ بطور طعام استعمال نہیں ہوتا اس علاقہ کے باشندوں کے حق میں منکرین نقد یہ فتوی دینے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان کے لئے نا جائز ہے کہ وہ اس علاقہ میں ”شعیر“(جو) سے فطرہ نکالیں ، اور اگر کسی نے اس سے فطرہ نکال دیا تو اس کا فطرہ ادا ہی نہیں ہوگا !! لہٰذا ان کے بقول ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ”شعیر“ (جو) کا فطرہ نہ نکالیں بلکہ اس کی جگہ اس چیز کا فطرہ نکالیں جو اس علاقہ میں بطور طعام رائج ہو گرچہ فطرۃ کی احادیث میں اس کا کوئی ذکر و نام ونشان نہ ہو!!!
عام اہل علم کو جانے دیں علامہ ابن عثمین رحمہ اللہ جیسے عظیم فقیہ ومفتی نے بھی ایک موقع پر اس طرح کا فتوی دیا جس کی بابت کسی سائل نے دوبارہ استفسار کا جس پر علامہ رحمہ اللہ نے جواب دیا:
”ذكرتم أنكم سمعتم منا أن إخراج الشعير في زكاة الفطر غير مجزىء فيما يظهر، ولقد كان قولنا هذا في قوم ليس الشعير قوتاً لهم“
”آپ نے ذکر کیا کہ آپ نے ہم سے یہ سنا ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدقۃ الفطر میں ”شعیر“ (جو) نکا لنا کفایت نہیں کرے گا (یعنی اس کے نکالنے سے فطرہ ادا نہیں ہوگا) ، تو ہماری یہ بات ان لوگوں سے متعلق ہے جن کے یہاں ”شعیر“ (جو) بطور طعام مستعمل نہ ہو“ [مجموع فتاوى ورسائل العثيمين 18/ 282]
ہم انتہائی ادب کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس طرح کا فتوی دینا نص کو تبدیل کرنا اور اصل نص کرمردہ کرنا نہیں ہے ؟؟
ایک طرف قائلین نقد پر یہ اتہام کہ وہ نص کو تبدیل اور مردہ کررہے ہیں اور دوسری طرف خود منکرین نقد کا حال ہے یہ کہ وہ بعض حالات میں نص پر عمل کو ناجائز و ناکافی بتلا رہے ہیں !!!
رہی یہ بات کہ منکرین نقد کی نظر میں اصل علت اطعام ہے اس لئے جس علاقہ میں منصوس اشیاء بطور طعام مستعمل نہ ہوں وہاں علت کے پیش نظر اس کا بدیل نکالنا چاہئے ۔
توعرض ہے کہ گذشتہ سطور میں وضاحت ہوچکی ہے کہ اطعام کلی اور لازمی علت نہیں بلکہ اصل علت ثمن فراہم کرنا ہے ، ایسی صورت میں نقد و رقم بھی اس کا بدیل ہے لہٰذا اس کے جواز پر بھی کلام نہیں ہونا چاہئے ۔
اور لطف کی بات یہ ہے کہ منصوص اشیاء کی جگہ دیگر طعام نکالنے پر بھی اطعام کی جزئی علت اکثر علاقوں میں حاصل نہیں ہوتی کیونکہ وصول کرنے والے اسے فروخت کرکے قیمت حاصل کرلیتے ہیں ، اور منکرین نقد کواس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے ۔
ایسے صورت میں بتلائے کہ منصوص اشیاء کو ناجائز کہہ کر اس کی جگہ بدیل کو جائز بتلا کر کیا حاصل ہوا ؟ نہ اصل نص پر عمل ہوا ، نہ پیش نظر علت کی کوئی رعایت ہوئی ، پھر نص کی تبدیلی اور بے موقع و محل قیاس آرائی سے کیا ملا؟
حیرت ہے کہ یہ کہہ کر نص کو تبدیل کیا جارہاہے کہ کسی علاقہ میں لوگ منصوص اشیاء کو بطور طعام استعمال نہیں کرتے ! لیکن کوئی ہمیں بتلائے کہ نص کو بدلنے کے بعد آپ جو دوسری چیز فطرہ میں دیں گے ،کیا یہاں کے لوگ اس دوسری چیز کو بطور طعام استعمال کریں گے ؟ یا اسے بھی بیچ کر نقد و رقم حاصل کرلیں گے ؟ بالخصوص جبکہ آپ نے بیچ کر قیمت بنانے کی بھی مکمل اجازت دے رکھی ہے !!
اگر دوسری صورت ہے تو سنجیدگی سے بتلایا جائے کہ نص کو بدلنے سے کیا حاصل ہوا؟؟
اور اگر یہ فرض کرلیں کہ نص کو بدلنے کے بعد آپ جو دوسری چیز فطرہ میں دیں گے اسے وہاں کے لوگ کھانے میں یہ استعمال کریں گے ، تو اس سے بھی یہ الزام ختم تو نہیں ہوجاتا کہ آپ نے نص کو بدلا ہے اور اسے مردہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اگرآپ علت کا حوالہ دیں تو عرض ہے کہ اول تو آپ علت کے مطابق عمل کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ وصول کرنے والوں کے لئے بلا کراہت وصول کردہ طعام کو بیچنا جائز قراردیتے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ جب منصوص اشیاء کو نہ صرف مفضول بلکہ ناجائز کہہ دینے سے بھی آپ تبدیل نص اور اماتت نص کے مجرم نہیں ٹہرتے تھے تو قائلیں نقد علت کے سبب منصوص اشیاء کو افضل مانتے ہوئے نقد کے جواز کی بات کہہ دیں تو ان پر یہ بد بودار اتہام کیوں ؟
.
اعتراض:
بعض حضرات کہتے ہیں کہ صدقۃ الفطر بدنی عبادت میں نقص کا کفارہ ہے اور بدنی عبادت میں نقص کا کفارہ اطعام ہی ہوتا ہے ۔
جواب:
عرض ہے کہ صدقۃ الفطر صرف اسی پر لازم نہیں ہے جس کا روزہ نقص کا شکار ہوتا ہے بلکہ یہ صدقہ ہر شخص پر لازم ہے خواہ وہ کتنے ہی اہتمام اور تقوی وطہارت کے ساتھ روزہ رکھے ، حتی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صدقہ الفطر نکالتے تھے جو کہ معصوم عن الخطاء ہیں ۔
بلکہ جو بیماری کی سبب پورے ماہ روزہ نہیں رکھ پاتے ان کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر لازم ہوتا ہے ، حالانکہ یہ اس نقص کے سبب الگ سے کفارہ کی ادائیگی کے پابند ہوتے ہیں ۔
حتی کہ معصوم اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرف سے بھی صدقہ الفطر دیا جاتا ہے جو نہ روزہ رکھتے ہیں نہ روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔لہٰذا یہ دلیل ہے کہ صدقۃ الفطر اصلا بدنی عبادت کا کفارہ نہیں ہے بلکہ ضمنا اس میں یہ بات شامل ہے اور اصل مقصود غرباء ومساکین کو ثمن فراہم کرنا ہے ۔
اوراگر یہ بات درست مان لی جائے کہ صدقۃ الفطر محض بدنی عبادت کے نقص کا کفارہ ہے جو اطعام ہی ہونا چاہئے تو بات بھی ضروری قراردی جانی چاہئے کہ صدقۃ الفطر صرف اسی کو دیا جائے گا جو اسے کھانے میں استعمال کرکے اور صدقۃ الفطر وصولنے والا اس بات کا مجاز نہ ہوگا کہ وہ اسے کھانے کے بجائے بیچ کر قیمت بنالے ، لیکن ایسا کوئی نہیں کہتا ۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا معاملہ مختلف ہے ۔
علاوہ بریں ضمنا کفارہ سیئات کی بات تو بالاتفاق مالی صدقات ہو خیرات میں بھی کہی گئی ہے ، اللہ کا ارشاد ہے:
{ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا }
آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں[التوبة: 103]
تو کیا یہ کہہ دیا جائے یہ تمام صدقہ وخیرات بھی صرف اطعام ہی کی صورت میں ہوں گے ؟
.
اعتراض:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لأن الذي يملك النقود يعرف أن يتصرف بها حسب حاجته إن كان بحاجة إلى طعام اشترى الطعام، إن كان بحاجة إلى شراب اشترى الشراب، إن كان بحاجة إلى ثياب اشترى الثياب؛ فلماذا عدل الشارع عن فرض القيمة أو فرض دراهم أو دنانير إلى فرض ما هو طعام؟ إذن له غاية؛ ولذلك حدد المفروض ألا وهو الطعام من هذه الأنواع المنصوصة في هذا الحديث وفي غيره، فانحراف بعض الناس عن تطبيق النص إلى البديل الذي هو النقد هذا اتهام للشارع بأنه لم يحسن التشريع لأن تشريعهم أفضل وأنفع للفقير، هذا لو قصده كفر به؛ لكنهم لا يقصد هذا الشيء
جو شخص نقدی ورقم کا مالک ہوگا وہ جس طرح چاہئے اپنی ضرورت کے مطابق اسے تصرف میں لاسکتا ہے ، اگر اسے کھانے کی حاجت ہوگی تو کھانا خرید سکتا ہے ، اگرمشروب کی ضرورت ہوگی تو مشروب خرید سکتا ہے ، کپڑے کی ضرورت ہوگی تو کپڑے خرید سکتا ہے ، پھر شریعت نے قیمت یا درہم ودینار کے بجائے کھانے کو کیوں فرض کیا ؟ یقینا اس کا ایک مقصد ہے ، اسی لئے فرض کردہ چیز کو متعین کردیا ہے اور وہ اس حدیث اوراس جیسی دیگر احادیث میں منصوص طعام ہے ، لہٰذا بعض لوگوں کا نص کو عمل میں لانے کے بجائے اس کی جگہ نقدی رقم کی بات کرنا یہ شارع کو متہم کرنا ہے کہ کہ شارع نے بہتر طور پر شریعت سازی نہیں کی ، اور ان کی تشریح بہتر اور فقیر کے لئے زیادہ نفع بخش ہے ، اگر واقعی یہ لوگ ایسا ہی سوچیں تو یہ کفر ہے ، لیکن یہ لوگ ایسا نہیں سوچتے [سلسلة الهدى والنور،شريط رقم 274 ]
جواب:
عرض کہ علامہ موصوف رحمہ اللہ کا یہ اعتراض بھی اسی عمارت پر قائم ہے کہ اس دور میں درہم ودینار بھی موجود تھا پھر بھی انہیں فطر ہ میں دینے کا حکم کیوں نہیں ہوا ۔ اور یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ اس دور میں درہم ودینار زیادہ مالیت والے تھے ، اس لئے فطرہ جیسی مالیت کے لئے درہم و دینار کی جگہ انہیں چیزوں کا استعمال ہوتا تھا جن کا ذکر فطرہ والی احادیث میں ہوا ہے ۔
لہٰذا علامہ موصوف نے درہم و دینار کا جو فائدہ بتلایا ہے کہ اس سے ضرورت کی کوئی بھی چیز خریدی جاسکتی ہے ، درحقیقت یہ مقصد اس دور میں انہیں چیزوں سے حاصل ہوسکتا تھا جن کا ذکر فطرہ والی احادیث میں ہیں کیونکہ اس دور میں چھوٹی موٹی چیزوں کی خرید و فروخت انہیں چیزوں کے ذریعہ ہوتی تھی ، اس بات کو ماقبل میں تفصیل سے واضح کیا جاچکا ہے۔
نیز علامہ موصوف کی نظر میں اصل علت اطعام ہی ہے اور ماقبل میں اس کی بھی وضاحت بالتفصیل گذرچکی ہے کہ اصل علت ثمن فراہم کرنا ہی ہے ۔
.
.

No comments:

Post a Comment