{1} عہد رسالت میں نقد ورقم سے فطرہ کیوں نہیں ادا کیا گیا ؟ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-12

{1} عہد رسالت میں نقد ورقم سے فطرہ کیوں نہیں ادا کیا گیا ؟


{1} عہد رسالت میں نقد ورقم سے فطرہ کیوں نہیں ادا کیا گیا ؟
 ●  ●  ●  ● 
یہ سب سے بڑا اعتراض ہے اور اسی اعتراض نے اکثر لوگوں کو غلط فہمی ڈال کر رکھا ہے ،اس شبہ کا بنیادی جواب یہ ہے کہ:
  ✿ اس دور میں فطرہ جیسی رقم کے لئے نقدی کا استعمال رائج ہی نہیں تھا ✿ 
جو شخص بھی یہ اعتراض اٹھائے کہ عہد رسالت میں فطرہ میں نقد کیوں نہیں دیا گیا؟ اسے چاہے کہ پہلے یہ تو ثابت کرے کہ فطرہ جیسی مالیت کے لئے اس دورمیں کرنسی سے لین دین کا رواج تھا؟
افسوس ہے کہ بعض لوگ صرف یہ شورمچاتے ہیں کہ دینار ودرہم کا وجود عہدرسالت میں بھی تھا ، لیکن جب ان سے یہ سوال کرلیا جائے کہ فطرہ جیسی کم مالیت والی اشیاء کے سلسلے میں، صحیح روایات سے ثابت کریں کہ اس دور میں اس کی خرید وفروخت دیناریادرہم سے رائج تھی ، تو اس کے جواب سے بالکل عاجزوساکت رہتے ہیں ۔ 
رہی بات یہ کہ فطرہ جیسی چھوٹی مقدار والی اشیاء کے لئے عہدرسالت میں اس دور کی کرنسی (دینارودرہم) کااستعمال کیوں نہیں ہوتا تھا؟تو عرض ہے کہ:
(الف) : اس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ اس جیسی کم مالیت والی اشیاء کے متبادل کوئی کرنسی اس دور میں تھی ہینہیں اور دینارودرہم کی جو کرنسی تھی وہ مالیت میں بہت بڑی تھی ۔
(ب): یا یہ کہ اس دور کے لوگ دینارودرہم کو بہت عزیز رکھتے تھے اور فطرہ جیسی چھوٹی مالیت والی اشیاء کے لئے وہ ان نقود کا استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے لئے اس دور میں عموما وہی کھانے بطورثمن استعمال ہوتے تھے جن کا ذکر فطرہ والی احادیث میں ہے۔
یہ دوباتیں مذکورہ اصل معاملہ کی توجیہ میں پیش کی گئی ہیں کہ عہدرسالت میں فطرہ جیسی رقم کے لئے نقدی کا استعمال رائج ہی نہیں تھا ، بعض نے ان میں سے پہلی بات پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ عہد رسالت میں ایک صاع کے متبادل کوئی کرنسی نہیں تھی ؟ 
جوابا عرض ہے کہ یہاں ایک چیز کا انکار کیا گیا ہے اس لئے اس انکار پر دلیل طلب کرنے کے بجائے اس بات کاثبوت پیش کردیں کہ عہد رسالت میں ایک صاع غلے کے متبادل کوئی کرنسی تھی ۔اگرآپ اس بات کو دلائل سے ثابت نہیں کرسکتے تھے تو انکار پر دلیل طلب کرنا اصولا غلط ہے۔
مزید یہ کہ جب عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں بھی ایک صاع کے متبادل کوئی کرنسی نہیں تھی بلکہ اس دور میں بھی نصف درہم ہی ایک صاع کے برابر تھا تو عہدرسالت میں کوئی مکمل کرنسی ایک صاع کے برابر کیسے ہوسکتی ہے ۔بلکہ اس لمبے فاصلے سے تو یہی  ظاہر ہوتا ہے کہ عہدرسالت میں ایک صاع کے متبادل نصف درہم سے بھی کم کی مالیت ہوگی ۔اسی لئے ہم نے پہلے کہا ہے کہ عہدرسالت میں ربع درہم ایک صاع کے متبادل ہوسکتا ہے لیکن اس دور میں ربع درہم سے لین دین کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔
مزید اس بات پر غور کریں کہ عہد صحابہ کے اواخر اور تابعین کے دور میں جب مسلمانوں نے فطرہ میں نقد ورقم دینا شروع کیا تو اس وقت بھی صرف درہم ہی سے فطرہ دینے کا ثبوت ملتا ہے نہ کہ دینار سے۔اب سوال یہ ہے کہ جب اس دور میں نقد ورقم سے فطرہ دینا شروع ہوگیا تو آخر کیا وجہ تھی کہ  ایک ہی قسم کی نقدی یعنی چھوٹی کرنسی درہم ہی سے فطرہ دیا گیا اوردوسری قسم کی نقدی یعنی بڑی کرنسی دینار سے فطرہ نہیں دیا گیا ؟ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس دور میں بھی دینار کافی بڑے مالیت کی کرنسی تھی ۔
یہاں پر منکرین نقد کا تضاد بھی دیکھیں کہ ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ فطرہ میں کرنسی اس لئے نہیں دی گئی کیونکہ کرنسی کی قدر متغیر ہوتی رہتی ہے اور دوسری طرف اس تغیر کا انکار بھی کررہے  ، کیا یہ متضاد بات نہیں ہے ۔
بہرحال یہ چیز صرف اس بات کی توجیہات میں سے ایک توجیہ کے طور پر پیش کی گئی ہے کہ عہد رسالت میں فطرہ جیسی رقم کے لئے نقدی کا استعمال رائج  نہیں تھا ، اوراس کی ایک دوسری توجیہ یہ بھی پیش کی گئی ہے عہدرسالت میں صحابہ کے پاس نقدی (دینارودرہم) کی قلت تھی اس لئے یہ ان کی نظر میں عزیز مال تھا جس کے سبب چھوٹی موٹی اشیاء کے لئے اس کا استعمال نہیں ہوتا ۔اگر آپ کو پہلی توجیہ پراشکال ہے تو دوسری توجیہ ہی قبول کرلیں اور دوسری پر بھی اشکال ہے تو خود ہی اس بات کی کوئی توجیہ پیش کریں کہ عہدرسالت میں چھوٹی موٹی اشیاء کے لین دین میں نقدی کے استعمال کا رواج کیوں نہیں تھا ؟ یا پھر دلائل سے یہ ثابت کردیں کہ عہد رسالت میں بھی چھوٹی موٹی اشیاء کے لئے نقدی سے لین دین کا رواج تھا ، کیونکہ یہی اصل بنیاد ہے جس پر ہمارا استدلال قائم ہے ۔اس کے خلاف کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ دلائل اس کے حق میں ہیں چنانچہ:
متعدد روایات میں ہم دیکھتے ہیں کوئی صحابی مزدوری کرنے جاتے ہیں اورانہیں مزدوری میں دینار ودرہم نہیں بلکہ کھجور دیاجاتاہے۔(صحیح البخاری 2 / 109رقم 1416) 
سوال یہ ہے کہ ان صحابہ کو اجرت میں دینار ودرہم کیوں نہیں جاتاتھا ؟اس کا جواب یہی ہے کہ دینار اوردرہم بڑی مالیت والی کرنسی تھی اوران کی اجرت کی مالیت بہت کم تھی اوراس جیسی کم ترمالیت کے برابر اس وقت کوئی کرنسی تھی ہی نہیں یااس کے لئے اس کا رواج نہیں تھا  اس لئے اس طرح کے کام کی اجرت میں نقد یعنی دینار ودرہم نہیں بلکہ طعام یعنی کھجور وغیرہ دیاجاتاتھا۔
ایک اور حدیث کے مطابق  ایک صحابی (عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے بڑی رقم اللہ کی راہ میں دی تو نقد ی کی شکل(آٹھ ہزاردرہم) میں دیا ہے لیکن اسی موقع پر ایک دوسرے صحابی(ابوعقیل رضی اللہ عنہ)  نے چھوٹی رقم اللہ کی راہ میں دی تو ایک صاع طعام کی شکل میں دیا (صحیح البخاری 2 / 109 رقم1415،فتح الباری۸/۳۳۲)
ان روایات سے صاف طور سے واضح ہوتا ہے کہ عہدرسالت میں چھوٹی موٹی اشیاء کی خریدوفروخت کے لئے یا کم مقدار میں صدقہ وخیرات کے لئے درہم ودینار کا استعمال رائج نہیں تھا بلکہ ایسے موقع پربالعموم کھجور یا ان چیزوں کا استعمال ہوتا تھا جن کی ذکرفطرہ والی احادیث میں ہے۔
البتہ  بعد میں لوگوں کے پاس نقدی کی فراوانی ہوگئی جیساکہ درج ذیل روایت سے پتہ چلتا ہے:
 ’’عن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أمرنا بالصدقة، انطلق أحدنا إلى السوق، فيحامل، فيصيب المد وإن لبعضهم اليوم لمائة ألف‘‘
’’ ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد (غلہ یا کھجور وغیرہ) حاصل کرتے۔ (جسے صدقہ کر دیتے) لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم یا دینار) موجود ہیں‘‘ (صحیح البخاری 2 / 109رقم 1416) 
ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کی یہ روایت کس قدر واضح ہے کہ صحابہ کے دور میں ان کے پاس مال کی شکل میں کھجور وغیرہ ہی دستیاب ہوتا تھا لیکن بعد میں ان کی حالت بہتر ہوئی اور ان کے پاس نقدی کی شکل میں مال کی فراوانی ہوگئی ۔
ظاہر ہے کہ صورت حال کی اس تبدیلی کے بعد فطرہ میں نقدی نکالنے کے امکانات ہوگئے اور بعد میں فطرہ میں نقدی نکالا جانے لگا اوردنیا کے کسی گوشے سے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا ۔
بالفاظ دیگر یہ کہہ لیں کہ عہدرسالت میں صدقہ الفطر میں نقد دینے کے لئے مانع موجودتھا اوربعد میں جوں ہی یہ مانع ختم ہوا لوگوں نے صدقہ الفطر میں نقد دینا شروع کردیا ۔
● ● ● مزید تفصیل کے لئے پڑھیں ● ● ● 

No comments:

Post a Comment