{2} عہد رسالت میں مخصوص طعام ہی فطرہ میں دیا جاتا تھا نہ کہ عام طعام اور عام غلے سے - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-13

{2} عہد رسالت میں مخصوص طعام ہی فطرہ میں دیا جاتا تھا نہ کہ عام طعام اور عام غلے سے

{2}  عہد رسالت میں مخصوص طعام ہی فطرہ میں دیا جاتا تھا نہ کہ عام طعام اور عام غلے سے
 ●  ●  ●  ● 
بعض لوگوں نے یہ مشہور کررکھا ہے کہ فطرہ میں عام”غلہ“ دینا چاہئے حدیث میں یہی وارد ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فطرہ میں عام ”غلہ“ دینے کی بات کسی صحیح حدیث تو درکنار ہمارے علم کی حدتک کسی موضوع اورمن گھڑت حدیث میں بھی منقول نہیں ہے۔
البتہ عہد رسالت میں مخصوص طعام دینے کی بات ثابت ہے ، لیکن مطلق طعام دینے کی بات کسی بھی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہے  بلکہ احادیث میں طعام میں سے خاص خاص قسم ہی کو فطرہ میں دینے کا ثبوت ملتا ہے۔اور ان کے علاوہ طعام کی عام قسمیں جو عہد رسالت میں مستعمل تھیں مثلا ،(اللحم) گوشت ، (السمك)مچھلی ، (الخضراوات) سبزیاں ، (الذرۃ) مکئی ، (السویق) ستو ، (اللبن)دودھ وغیرہ۔ان کا فطرہ میں نکالنا ثابت نہیں ہے۔
بلکہ جو قسمیں ثابت ہیں وہ بھی ایک خاص شکل میں دینا ثابت ہیں مثلا جو اور گیہوں ثابت ہے لیکن جو اور گیہوں کا آٹا دینا یا ان کی روٹی بناکر دینا ثابت نہیں ہے۔
ملاحظہ ہوں اس سلسلے کی احادیث:
✿ پہلی حدیث:
صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دیا تھا۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کر دیا جائے۔[صحيح البخاري 2/ 130 رقم1503]
اس حدیث میں مطلق طعام نہیں بلکہ طعام میں سے صرف دو چیزیں منصوص ہیں ، ایک تمر (کھجور ) اور دوسری شعیر(جو) ، نیز اس شعیر(جو) کو کسی اور شکل میں دینا مثلا اس کا آٹا یا اس کی روٹی دینا ثابت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فطرہ میں دی جانے والی صرف دو چیزوں کو بیان کیا ہے اور وہ پوری زندگی صرف انہیں دونوں چیزوں سے ہی فطرانہ دیتے رہے ۔
بلکہ ان دو میں سے بھی وہ صرف کھجور ہی دینے کا اہتمام کرتے تھے البتہ کسی سال اگر کجھور میسر نہ ہوتی تو جو کا فطرانہ دیتے تھے صحیح بخاری میں ہے:
ابن عمر رضی اللہ عنہما کھجورہی دیا کرتے تھے،ایک مرتبہ مدینہ میں کھجور کا قحط پڑا تو آپ نے صدقہ میں شعیر (جو)نکالا[صحيح البخاري 2/ 132رقم1511]
اس سے صاف ظاہرہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل فطرہ میں عام غلہ دینے کا نہیں تھا بلکہ وہ اپنی روایت کردہ حدیث کے مطابق صرف اور صرف دو چیزوں (کجھور یا جو) سے ہی فطرہ نکالتے تھے ۔
✿ دوسری حدیث :
صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع طعام یعنی ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (کشمش) نکالا کرتے تھے۔[صحيح البخاري 2/ 131 رقم 1506]
اس حدیث میں مطلق طعام نہیں بلکہ طعام میں سے صرف چار چیزیں شعیر (جو) ، تمر (کھجور ) ، اقط (پنیر) اور زبیب(کشمش) منصوص ہیں۔ نیز اس شعیر(جو) کو کسی اور شکل میں دینا مثلا اس کا آٹا یا اس کی روٹی دینا اس حدیث میں بھی ثابت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فطرہ میں دی جانے والی صرف چار چیزوں کو بیان کیا ہے اور وہ پوری زندگی صرف انہیں چار چیزوں سے ہی فطرانہ دیتے رہے ، اور ان چار کے علاوہ دیگر کسی بھی چیز خواہ وہ طعام ہی کیوں نہ ہو۔
 -  -  -  - 
  ❀ ’’صاعا من طعام‘‘ کا مفہوم اورایک غلط فہمی کا ازالہ
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی ابتداء میں جو ’’صاعا من طعام‘‘ کے الفاظ ہیں اس سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں عام غلوں کومراد لیا ہے پھر اسی غلط فہمی کی بنیاد پر یہ کہہ دیا گیا کہ فطرہ میں عام غلے دینا حدیث سے صراحتا ثابت ہے ۔
دراصل ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ’’صاعا من طعام‘‘ کے بعد اداۃ عطف’’أو ‘‘ آیا ہے اس کے بعد چار چیزیں بیان ہوئی ہیں اور ’’أو ‘‘ یہ مغایرت پر دلالت کرتا ہے لہٰذا پتہ چلا کہ ’’صاعا من طعام‘‘ ان چیزوں کے علاوہ ہے جن کا ذکر اداۃ عطف’’أو ‘‘ کے بعد ہے۔
عرض ہے کہ عطف ہمیشہ مغایرت پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ عطف کی ایک قسم عطف تفسیری بھی ہے۔یعنی ایک چیز کو اجمالی طور پر ذکر کردیا جائے پھر اس کے بعد اداۃ عطف کے ذریعہ اس کی تفصیل وتشریح کی جائے۔یہی معاملہ یہاں بھی ہے یعنی شروع میں ’’صاعا من طعام‘‘ کے اجمالی بیان کے بعد جو اداۃ عطف ’’أو ‘‘ ہے وہ تفسیری ہے ،اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
 ● اولا:
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں اجمالی طور پر ’’صاعا من طعام‘‘ کہا ہے اور بعد میں اسی اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے چار چیزوں کا ذکر کیا ہے۔جیساکہ درج ذیل حدیث میں بالکل وضاحت ہے:
صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیدالفطر کے دن ایک صاع طعام نکالتے تھے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارا طعام (ان دنوں) جَو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا۔[صحيح البخاري 2/ 131 رقم 1510]
اس حدیث میں ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے مجمل طعام کی تفسیر و تفصیل بیان کردی کہ عہد رسالت میں فطرہ میں نکالا جانے والا طعام چار قسم کا ہوتا تھا۔لہٰذا جب حدیث کی تشریح خود حدیث سے ہی ہوگئی تو کسی اور رخ پربحث کی سرے سے گنجائش ہی باقی نہ بچی۔
 ⋆  بعض لوگوں نے اس حدیث میں مذکور مجمل طعام کو بعد میں مذکور طعام سے الگ مانا تو ان پر ابن المنذر رحمہ اللہ نے رد کیا جسے نقل کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
ابن المنذر نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ : ہمارے بعض اصحاب نے یہ گمان کرلیا کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ’’صاعا من طعام‘‘ کے الفاظ ان لوگوں کے لئے دلیل ہیں جو کہتے ہیں کہ فطرہ میں ایک صاع گیہوں نکالا جائے گا۔جبکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے پہلے طعام کو اجمالی طور پر ذکر کیا ہے اور بعد میں اس کی تفسیر وتفصیل بیان کردی ہے ۔پھر ابن المنذر نے حفص بن میسرۃ کے طریق والی روایت ذکر کی ہے جس کا ظاہر ابن المنذر ہی کے موقف پر دلالت کرتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارا طعام (ان دنوں) جَو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا[فتح الباري لابن حجر 3/ 373]
 ⋆  صحیح بخاری کے ایک دوسرے شارح امام قسطلانی (المتوفى 923) بھی ابن المنذر کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
امام طحاوی نے عیاض کے واسطے ایک دوسرے طریق سے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ (ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) ہم ان چیزوں (جن کاذکر صراحت کے ساتھ کیا ہے ان) کے علاوہ کسی اور چیز سے فطرہ نہیں نکالتے تھے ۔یہ حدیث ابن المنذر اس بات کی تائید کرتی ہے جس میں انہوں نے ان لوگوں کو غلط قرار دیا ہے جو ”طاعا من طعام“ سے ایک صاع گیہوں دینے کی دلیل لیتے ہیں [ إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري 3/ 89]
 ● ثانیا:
اس حدیث پر ایک اور پہلو سے غور کریں کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے کہا:
ہمارا طعام (ان دنوں) جَو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا۔[صحيح البخاري 2/ 131 رقم 1510]
اگر ان کی حدیث میں طعام سے مطلق طعام مراد لیں تو اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے یہاں حصر کے ساتھ طعام کی چار قسمیں ہی بتلائی ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ کیا ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز صحابہ کرام کھاتے ہی نہ تھے؟؟؟
ظاہر ہے کہ یہ بات خلاف واقعہ ہے کیونکہ یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان چار کے علاوہ بھی کئی اقسام کے کھانے مثلا (اللحم) گوشت ، (السمك)مچھلی ، (الفواكه) میوے ، (الخضراوات) سبزیاں ، (الذرۃ) مکئی ، (السویق) ستو ، (اللبن)دودھ وغیرہ ان کے یہاں مستعمل تھے۔
لہذا یہ سیاق ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کا مطلب یہی ہے جس طعام سے وہ فطرہ نکالتے تھے وہ طعام ان چارقسموں پرمشتمل تھا ۔نہ کہ یہ مطلب ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز وہ کھاتے ہی نہ تھے ۔
 ● ثالثا: 
یہ بات ذہن نشین کی جائے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں ’’صاعا من طعام‘‘ کے ذریعہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وحکم کو نقل نہیں کیا ہے جو عام ہو اور حال و مستقبل سب کو شامل ہو، بلکہ ان الفاظ سے ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ماضی یعنی عہد رسالت کا عمل (’’كنا نخرج‘‘ ہم نکالتے تھے ) بیان کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ماضی میں یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہم صحابہ یہ چیز نکالتے تھے ۔
اب اگر فرض کرلیا جائے کہ اس حدیث میں ’’صاعا من طعام‘‘ ان چارچیزوں کے علاوہ ہے جن کا ذکراس کے بعد ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عہد رسالت میں ان چارچیزوں کے علاوہ بھی دیگر غلوں سے فطرہ دیا جاتاتھا۔ پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ان چارچیزوں کے علاوہ وہ کون کون سے غلے تھے جو عہدرسالت میں بطور فطرہ دئے جاتے تھے؟؟؟
احادیث اور روایات کا ذخیرہ چھان مارئیے ان چار چیزوں کے علاوہ کسی بھی دوسرے غلے کے بارے میں صراحت نہیں ملتی کہ صحابہ کی جماعت نے اسے بھی فطرہ میں دیا ہوا۔
صرف ایک صحابیہ اسماء رضی اللہ عنہا کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ عہدرسالت میں گیہوں نکالتی تھی لیکن یہاں ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’’صاعا من طعام‘‘ سے گیہوں مراد نہیں لیا جاسکتا کیونکہ یہ الفاظ کہنے والے ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے اپنے علم کے مطابق یہ صراحت کررکھی ہے کہ گیہوں عہدرسالت میں نہیں نکالا گیا بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں نکالا گیا ، کماسیاتی۔ اورچونکہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ’’صاعا من طعام‘‘ کہہ کر عہدرسالت کے دور کی حالت بیان کی ہے اس لئے ان کے ان الفاظ میں گیہوں کے شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نیز ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ ’’صاعا من طعام‘‘ میں مقدار ایک صاع بتلائی ہے جبکہ اسماء رضی اللہ عنہ کی جانب سے عہدرسالت میں گیہوں دینے کی جو بات ملتی اس میں صراحت ہے کہ وہ نصف صاع دیتی تھیں ، اس میں بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے مذکورہ الفاظ سے گیہوں مراد نہیں ہے۔
مزید برآں یہ کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فطرہ میں سرے سے گیہوں نکالنے پر عمل ہی نہیں کرتے تھے اور یہ کہتے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جن چیزوں کا فطرہ دیتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی صرف انہیں چیزوں کو فطر ہ میں دوں گا کماسیاتی ۔
 ● رابعا:
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ ہی سے یہ حدیث بہت سارے طرق سے مروی ہے اور کئی طرق میں ’’صاعا من طعام‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ صرف چار چیزوں ہی کا ذکر ہے مثلا:
صحابی رسول ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک صاع کجھور یا جو یا پنیر یا کشمش نکالا کرتے تھے[مسند أحمد ط الميمنية: 3/ 23 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم واخرجہ ایضا عبدالرزاق فی مصنفہ ( 3/ 316 )من طریق داود بہ]
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’صاعا من طعام‘‘ سے ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی مراد وہی چار چیزیں جن کی تفصیل انہوں نے بعد میں پیش کردی ہے ورنہ اس حدیث میں ’’صاعا من طعام‘‘ کے الفاظ نہ ہونے کی صورت میں اس غلے کا ذکر آنا لازمی تھا جو ’’صاعا من طعام‘‘ سے مراد تھا !
یادرہے ’’صاعا من طعام‘‘ کہہ کر ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفرمان پیش نہیں کیا ہے بلکہ ماضی میں عہدرسالت کا ایک عمل پیش کیا ہے۔
 ● خامسا:
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب نصف صاع گیہوں بھی نکالنے کی بات کہی تو اس وقت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے نہ صرف یہ کہ نصف صاع گیہوں نہیں نکالا بلکہ ایک صاع بھی گیہوں نہیں نکالا یعنی ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فطرہ میں سرے سے گیہوں ہی نکالنے سے اجتناب کیا اور صرف ان چار چیزوں میں سے ہی فطرہ نکالتے رہے جو انہوں نے اپنی حدیث میں بیان کیا ہے ۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’’صاعا من طعام‘‘ سے ان کی مراد عام غلہ ہرگز نہیں ہے ورنہ وہ گیہوں میں ایک صاع فطرہ ضرور نکالتے ۔ملاحظہ فرمائیں ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے موقف سے متعلق روایات:
  ⟐ صحابی رسول ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ہر چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام کی طرف سے ایک صاع طعام یعنی ایک صاع پنیر یا جَو یا کھجور یا کشمش نکالتے تھے پھر جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج کو یا عمرہ کو آئے تو لوگوں میں منبر پر وعظ کیا اور اس میں کہا کہ میں جانتا ہوں کہ دو مد (یعنی نصف صاع) شام کا سرخ گیہوں (قمیت میں ) ایک صاع کھجور کے برابر ہوتاہے ، تو لوگوں نے اس بات کو قبول کرلیا اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تو تاحیات فطرہ میں وہی نکالتا رہوں گا جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نکالا کرتاتھا[صحيح مسلم 3/ 678 رقم 985]
  ⟐ صحابی رسول ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: جب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے نصف صاع کھجور کو ایک صاع گیہوں کے برابر مقرر کیا تو ابوسعید رضی اللہ عنہ نے انکار کیا اور کہا میں تو (فطرہ میں) وہی دوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیتا تھا یعنی ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع جَو یا ایک صاع پنیر۔[صحيح مسلم 3/ 679 رقم 985]
ان روایات سے معلوم ہواکہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے صرف قیمت کے اعتبارہی سے اختلاف نہیں کیا بلکہ انہوں نے سرے سے گیہوں دینے ہی سے اختلاف کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ میں عہدرسالت میں جو دیتاتھا وہی آج بھی دوں گا ۔
◈ امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) کہتے ہیں:
ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سرے سے گیہوں دینے ہی کے خلاف تھے [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 4/ 252]
◈ علامہ عبيد الله الرحماني المباركفوري (المتوفى 1414) لکھتے ہیں:
ہماری سابقہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین سے اختلاف کرتے ہوئے ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ ہر چیز میں ایک صاع ہی واجب ہے ۔لیکن ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے گیہوں سے صدقہ الفطر نکالا ہی نہیں ، نہ ایک صاع اور نہ آدھا صاع ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فطرہ میں گیہوں کو ناجائز سمجھتے تھے بلکہ وہ گیہوں سے فطرہ نہ نکال کرکے عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل کی اتباع کرنا چاہتے تھے اور ٹھیک یہی معاملہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بھی تھا[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: 6/ 197]
اس پوری تفصیل سے معلوم ہواکہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فطرہ میں دی جانے والی صرف چار چیزوں کو بیان کیا ہے اور وہ پوری زندگی صرف انہیں چار چیزوں سے ہی فطرانہ دیتے رہے۔اور یہی معاملہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بھی تھا کہ وہ بھی صرف انہوں چیزوں سے فطرہ نکالتے تھے جو ان کی روایت کردہ حدیث میں مذکور ہیں ۔
✿تیسری حدیث:
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنے گھرانے میں ہرایک کی طرف سے خواہ آزاد ہوں یا غلام ، دو مد (یعنی آدھا صاع ) گیہوں یا ایک صاع کھجور نکالتی تھیں[شرح مشكل الآثار 9/ 27 رقم 3408 قال الالبانی اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین وھو کذلک]۔
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نہ صرف ایک صحابیہ ہیں بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی سگی بہن بھی ہیں اور آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا حوالہ دے کر مذکورہ بات کہہ رہی ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوع ہے۔
یاد رہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی سابقۃ الذکر حدیث کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس میں ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے عہدرسالت کا حوالہ دے کر فطرہ میں دی جانے والی اشیاء کا تذکرہ کیا ہے جس کی بناپر اسے مرفوع مانا گیا ہے۔ٹھیک یہی معاملہ اسماء بن ابی بکر رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں بھی ہے اس لئے یہ حدیث بھی مرفوع ہے۔
اس حدیث سے ایک اور چیز کا فطرہ میں دینا ثابت ہوا وہ ہے گیہوں لیکن گیہوں دینے کی شکل میں اس کی مقدار نصف صاع بتلائی گی ہے۔
✿احادیث کی روشنی میں منصوص اشیاء فطرہ:
صحیح سندوں سے ثابت شدہ یہ صرف تین ایسی احادیث ہیں جن میں یہ صراحت ہے کہ عہد رسالت میں کون کون سی اشیاء فطرہ میں دی جاتی تھیں ۔ان احادیث کی روشنی میں فطرہ میں دی جانے والی منصوص اشیاء کی فہرست یہ ہے: ①  کھجور  ②  جو ③ کشمش ④ پنیر ⑤ گیہوں۔
عہد رسالت میں ان پانچ اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز سے صدقہ الفطر نکالنا ثابت نہیں ہے گرچہ طعام کی اور بھی کئی اقسام ان کے یہاں موجود تھیں مثلا ،(اللحم) گوشت ، (السمك)مچھلی ، (الفواكه) میوے ، (الخضراوات) سبزیاں ، (الذرۃ) مکئی ، (السویق) ستو ، (اللبن)دودھ وغیرہ۔
بلکہ جن پانچ اقسام کو فطرہ میں نکالا جاتا تھا ان میں بھی ایک خاص کیفیت وشکل کی قسم نکالی جاتی تھی ۔چنانچہ(التمر) خشک کھجور نکالنا ثابت ہے مگر (رطب) تر کھجور نکالنا ثابت نہیں ہے۔
(الشعیر)جو اور (القمح)گیہوں اصل حالت میں نکالا جاتا تھا لیکن ان کا آٹا(الدقیق) بنا کر یا ان کے آٹے سے روٹی (الخبز)بناکر فطرہ میں نکالنا ثابت نہیں ہے۔نیز (الزبیب) کشمش کی جگہ (العنب) انگور ، اسی طرح (الاقط) پنیر کی جگہ (اللبن) دودھ نکالنا ثابت نہیں ہے۔
اس پوری تفصل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ عہدرسالت میں عام طعام یا عام غلوں سے فطرہ نہیں نکالا جاتا تھا بلکہ کچھ خاص چیزیں متعین تھیں جن سے فطرہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔اور جو صحابہ فطرہ میں دی جانے والی اشیاء کے راوی ہیں ان کے بارے میں یہی ملتا ہے کہ وہ منصوص اشیاء ہی نکالنے کا اہتمام کرتے تھے ان کا موقف کامل اتباع اور احتیاط پرمبنی تھا ۔اس بناپر ہم کہتے ہیں کہ اگرکوئی صرف منصوص اشیاء (کھجور، جو، کشمش،پنیر اور گیہوں)ہی سے فطرہ نکالنے کا اہتمام کرتا ہے تو یہی افضل و بہتر ہے۔
بلکہ بعض اہل علم نے تو منصوص اشیاء ہی سے فطرہ نکالنے کو واجب قرار دیا ہے اور غیرمنصوص اشیاء مثلا عام طعام و غلوں سے فطرہ نکالنے کو ناجائز کہا ہے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے دیکھئے [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 4/ 252]
بلکہ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت یہی منقول ہے چنانچہ امام نووي رحمه الله (المتوفى676) فرماتے ہیں:
اور امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ ہے کہ فطرہ میں پانچ منصوص اشیاء یعنی کھجور، کشمش ، گیہوں ، جو اور پنیز کے علاوہ کسی اور چیز سے فطرہ نکالنا درست نہیں ہے۔[المجموع شرح المهذب 6/ 144]
واضح رہے کہ بعض حضرات یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ فطرہ نکالنے کا معاملہ امرتعبدی یعنی غیر معقول المعنی والعلۃ ہے اگران حضرات کی بات درست تسلیم کرلی جائے تو پھر یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ فطر ہ میں صرف اور صرف منصوص چیزیں (کھجور، جو، کشمش ، پنیر اورگیہوں) ہی دینا فرض ہوگا ۔لیکن یہاں امرتعبدی والی بات بالکل لغو ہے جیساکہ تفصیل ہمارے رسالہ میں موجود ہے۔
  ✿ خلاصہ کلام یہ کہ:
عہدرسالت میں صرف مخصوص طعام ہی سے فطرہ نکالنے کا ثبوت ملتا ہے ، لہٰذا یہ مشہورکرنا کہ احادیث میں عام طعام یا عام غلے سے فطرہ دینے کی بات ہے ، بالکل غلط ہے۔
●  ●  ● مزید تفصیل کے لئے پڑھیں ●  ●  ●
.

No comments:

Post a Comment