{39} حدیث غلمان ، مجہولین سے بکثرت روایت پرائمہ فن کے کلام کا مفہوم - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-20

{39} حدیث غلمان ، مجہولین سے بکثرت روایت پرائمہ فن کے کلام کا مفہوم

{39} حدیث غلمان ، مجہولین سے بکثرت روایت پرائمہ فن کے کلام کا مفہوم
✿ ✿ ✿ ✿
.
ہم نے لکھا تھا کہ:
« صاف صاف بات یہ ہے کہ ان روایات کو ”علي بن الحسن بن شقيق“ نے بیان ہی نہیں کیا ہے بلکہ ”على بن الحسن النسائى“ نے بیان کیا ہے جو ابن زنجویہ کے علاقہ کا ایک غیر معروف راوی ہے »
اس پر موصوف ایک ایسا حوالہ پیش کررہے  جسے وہ خود بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں ، لکھتے ہیں:
.
((اگر شیخ کی مذکورہ بات تسلیم کر لی جائے تو جانتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلےگا ؟؟
اس کا نتیجہ یہ نکلےگا کہ ابن زنجویہ رحمہ اللہ کے پاس شیخ اور روایات کے انتخاب میں انتقاء نہیں تھا۔ اور یہ خود ابن زنجویہ کے اوپر طعن کا سبب بنےگا۔
شیخ ڈاکٹر عبد العزیز العبد اللطیف "ضوابط الجرح والتعدیل" (ص 173) کے اندر راوی پر طعن کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ذکر کرتے ہیں : "کثرۃ الروایۃ عن المجہولین والمتروکین" ۔
نیز فرماتے ہیں: "أن الراوي قد يتهم بالكذب عند إكثاره من الرواية عمن لا توجد لهم تراجم في كتب علم الرجال". "ضوابط الجرح والتعدیل" (ص 173)
پھر حاشیہ میں اس کی ایک مثال پیش کرتے ہیں ، اسے ملاحظہ فرمائیں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عثمان بن عبد الرحمن بن مسلم الحراني المعروف بالطرائفي صدوق أكثر الرواية عن الضعفاء والمجاهيل فضعف بسبب ذلك حتى نسبه ابن نمير إلى الكذب، وقد وثقة ابن معين"۔ (تقريب التهذيب (ص: 385)))
 انتہی۔
.
✿ قارئین تھوڑا غور کرلیں تو معاملہ صاف ہوجائے گا کہ موصوف اپنی نقل کردہ بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔
دراصل جس بات کو انہوں نے نقل کیا ہے اس میں یہ ہے کہ کوئی راوی بہت سے مجہولین اورمتروکین سے روایت کو معمول بنا لے، تو یہ چیز بھی اس کے حق میں باعث جرح ہوگی۔
یعنی اس کے اساتذہ میں مجہولین اورمتروکیین کی کثیر تعداد ہو ، وہ زیادہ تر ایسے ہی لوگوں سے روایت لے رہا ہو، تو یہ چیز اس کے حق میں موجب جرح ہوگی ۔
اورمثال میں تقریب سے جس راوی کا نام پیش کیا گیا ہے ۔اس کے بارے میں ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ  خود موصوف نے اس طرح  نقل کیا ہے:
((أكثر الرواية عن الضعفاء والمجاهيل))
ملاحظہ فرمائیں یہاں بھی حال یہی ہے کہ  کسی ایک ضعیف یا مجہول سے روایت کی بات نہیں ہے بلکہ بڑی تعداد میں ضعفاء اور مجاہیل سے روایت کی بات ہے۔
.
اب قارئین پلٹ کر ہماری بات ملاحظہ کرلیں۔
اور بتلائیں کہ ہم نے کب یہ لکھ  دیا کہ ابن زنجویہ بکثرت مجہولین اور متروکین سے روایت کرتے ہیں؟؟
بالفاظ دیگر ہم نے ایسا کب کہا کہ ابن زنجویہ کے اساتذہ میں اکثریت مجہولین اور متروکین کی ہے ؟؟؟
 . 
محترم ہم نے صرف ایک راوی ”علي بن الحسن بن شقيق“ سے متعلق اپنی بات رکھی ہے کہ اس غیرمعروف راوی سے ابن زنجویہ نے بکثرت روایات نقل کی ہے۔
اور ایک غیر معروف کیا ، ایک مجہول بلکہ کذاب سے بھی کوئی محدث بکثرت روایت کرے تو اس سبب اس محدث پر کوئی جرح نہیں کی جاسکتی ہے۔
چنانچہ:
ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابن سعد رحمہ اللہ نے محمدبن عمر الواقدی کذاب راوی سے اپنی طبقات کا اچھا خاصہ حصہ بھر دیا ہے ۔
لیکن کیا اس سبب  امام ابن سعد رحمہ اللہ مجروح ہوگئے ؟؟
اسی طرح امام طبری رحمہ اللہ نے محمدبن حمید جیسے کذاب راوی کی مرویات کو اپنی کتابوں میں پھیلا دیا ہے۔
 لیکن کیا اس سبب امام طبری رحمہ مجروح ہوگئے ؟؟؟
محترم کوئی بات کہیں پر فٹ کرنے سے  پہلے دونوں کی مناسب دیکھ لیا کریں ۔
.
✿ مزید برآں بکثرت مجہولین اور متروکین سے روایت والی جو بات موصوف نے نقل کی ہے وہ بھی علی الاطلاق نہیں ہے ۔
بلکہ اگر کوئی راوی مشہور حافظ اور ثقہ وثبت ہے اور اس کی ثقاہت و امامت پوری طرح مسلم ہے ۔
تو ایسا راوی اگر بکثرت مجہولین سے روایت بھی کرلے، تو اس پر اسے بنیاد بناکر کوئی جرح نہیں کی جاسکتی ہے ۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس بات کو بہت عمدہ طریقہ سے سمجھایا ہے ، قارئین ان کے الفاظ بغور پڑھیں:
 امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” قد روى جماعة من الأئمة عن قوم من المجهولين فمنهم سفيان الثوري روي عن أبي همام السكوني و أبي مسكين و أبي خالد الطائي و غيرهم من المجهولين ممن لم يقف على أساميهم غير أبي همام فإنه الوليد بن قيس إن شاء الله وكذلك شعبة بن الحجاج حدث عن جماعة من المجهولين فأما بقية بن الوليد فحدث عن خلق من خلق الله لا يوقف على أنسابهم ولا عدالتهم وقال أحمد بن حنبل : إذا حدث بقية من المشهورين فرواياته مقبولة وإذا حدث عن المجهولين فغير مقبولة و عيسى بن موسى التيمي البخاري الملقب بغنجار شيخ في نفسه ثقة مقبول قد احتج به محمد بن إسماعيل البخاري في الجامع الصحيح غير أنه يحدث عن أكثر من مائة شيخ من المجهولين لا يعرفون بأحاديث مناكير وربما توهم طالب هذا العلم أنه بجرح فيه وليس كذلك“ [معرفة علوم الحديث للحاكم: ص: 164]
قارئین کرام !
امام حاکم رحمہ اللہ کی اس وضاحت کو بار بار پڑھیں ۔
وہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ، امام شعبہ رحمہ اللہ اور  بقیہ بن الولید رحمہ اللہ کی مثالیں دیکر سمجھا رہے ہیں کہ ان جلیل القدر ائمہ نے مجہولین کی جماعت سے روایت کیا ہے لیکن اس سبب ان پر کوئی جرح نہیں کی جاسکتی ہے۔
حتی صحیح بخاری کے راوی عيسى بن موسى التيمي ، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں احتجاج کیا ہے ۔
انہوں نے سو (100) سے بھی زائد مجہولین سے روایت بیان کیا ہے وہ بھی منکر روایات ۔
لیکن اس کے باوجود بھی یہ چیز ان کے لئے باعث جرح نہیں ہے ۔
اس وضاحت سے یہ شبہہ پوری طرح ہوا ہوجاتاہے والحمدللہ۔
.
✿ موصوف فرماتے ہیں:
((اگر شیخ کی بات مان لی جائے تو یہ خود ابن زنجویہ کے لئے مصیبت کی بات بن جائےگی کہ ایک غیر معروف راوی کی روایات سے انہوں نے اپنی کتاب سیاہ کرڈا لی، جو کہ ان جیسے بلند پایہ کے ثقہ راوی سے بہت ہی بعید چیز ہے))
عرض ہے کہ :
تفصیلی وضاحت اوپر ہوچکی ہے یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ :
امام ابن سعد نے محمدبن عمر الواقدی کذاب سے ، اور اور امام ابن جریرطبری نے محمدبن حمید کذاب سے اپنی کتابیں سیاہ کرڈالی ہیں ۔
جب ان دونوں بلند پایہ ثقہ سے یہ چیز  بعید نہیں ہے تو ابن زنجویہ سے کیونکر بعید ہے ؟؟؟
 . 
 ✿ آگے فرماتے ہیں:
((اس کے برعکس ان کا علی بن الحسن بن شقیق المروزی ہونا بالکل ہی مناسب اور قرین قیاس ہے۔ ابن شقیق المروزی نے ابن مبارک کی کتابوں کو چودہ چودہ بار لکھا ہے۔ ان کی کتابوں کے وہ حافظ ہیں))
عرض ہے کہ:
 ہم پوسٹ نمبر (34)  ، (35) ، (36) میں یہ ثابت کرچکے ہیں یہاں ”علي بن الحسن بن شقيق“ ہو ہی نہیں سکتے ہیں ۔اس لئے جب یہ راوی یہاں ہیں ہی نہیں، تو ابن المبارک سے ان کا تعلق پیش کرنا بے فائدہ ہے۔
.
✿ آگے موصوف نے یہ کہا:
((اور بہت ساری احادیث کو اپنے ایک دوسرے ساتھی سفیان بن عبد الملک المروزی کے ساتھ انہوں نے ابن مبارک المروزی کی مجلس میں سنا ہے۔ اور ابن زنجویہ نے ان احادیث کو ان دونوں سے بیک وقت روایت کی ہیں۔ ایسی روایات میں ان کے الفاظ ہوتے ہیں: "أخبرنا سُفْيَانُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، وَعَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ))
عرض ہے کہ:
آپ پر یہ کہاں سے وحی آگئی کہ  مقرون والی روایات کے  دونوں  راویوں نے اپنے استاذ سے ایک ہی مجلس میں بیٹھ کرسنا ہے ؟؟
کیا مقرون راوی لانے کا یہ مطلب ہوتا ہے سب نے  ایک ہی مجلس میں سنا ہے ؟؟
نیز اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ دونوں نے یعنی ”سفيان بن عبد الملك“  اور  ”علي بن الحسن“ نے  ایک ہی مجلس میں ابن المبارک سے سنا ہے ۔
تو اس سے آپ نے یہ نتیجہ کیسے نکال لیا کہ یہ دونوں ایک ہی علاقہ کے ہیں ؟؟
کیا ابن المبارک کی مجلس سماع میں  ایک ہی علاقے کے لوگ بیٹھا کرتے تھے ؟؟؟
محترم !
دیگر ائمہ کی بات جانیں دیں خود ابن زنجویہ نے بہت سے مقامات پر مقرون رواۃ کے ساتھ روایات بیان کی ہیں ۔
کیا ان تمام روایات میں مقرون والے سارے رواۃ ایک ہی علاقے کے مانے جائیں گے ، مثلا:
 ① ثنا يحيى، وعبد الغفار بن الحكم، قالا: ثنا شريك، عن أبي إسحاق، عن عطاء۔۔۔[الأموال لابن زنجويه 2/ 641]
 ② أنا محمد بن يوسف، وعبيد الله بن موسى قالا: أخبرنا إسرائيل، أنا أبو الجويرية الجرمي۔۔۔[الأموال لابن زنجويه 3/ 1213]
③ ثنا النضر بن شميل، وهاشم بن القاسم، قالا: ثنا سليمان بن المغيرة۔۔۔۔[الأموال لابن زنجويه 1/ 323]
ان تینوں سندوں میں امام ابن زنجویہ کے دو دو استاذ ہیں ۔
لیکن یہ دونوں الگ الگ علاقے کے ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی مثالیں موجود ہیں ، بلکہ بعض مثالوں میں ابن زنجویہ نے دو سے بھی زائد  اساتذہ کاذکر کیاہے اور سب ایک علاقے کے نہیں ہیں ۔
لہٰذا یہ  سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ مقرون رواۃ آگئے تو ان کو ایک ہی علاقہ کا مان لیا جائے ، یہ دونوں ایک علاقے کے ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ہوسکتے ، مقرون کا علاقہ کی یکسانیت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، اور نہ مقرون لانے کے مقاصد میں سے یہ مقصد ہوتا ہے کہ دو رواۃ کو ہم علاقہ ثابت کیا جائے ۔
بلکہ مقرون کے مقاصد میں ،ایک مقصد کے پیش نظر  تو  مقرون کا حوالہ خود فریق مخالف کے خلاف ثابت ہوتا ہے، چنانچہ:
 . 
 ✿
بعض محدثین سندمیں کسی راوی کے ضعف کے سبب بھی مقرونا روایت لاتے ہیں چانچہ  عطاء بن السائب سے امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت لی ہے اور ان پر اختلاط کے حوالے سے کلام ہے ،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے ساتھ ابو بشر کو بھی ملا کر مقرونا ان سے روایت کیا ہے ۔ [صحيح البخاري رقم 6578]
یہاں پر مقرونا روایت کرنے کی وجہ یہی ہے کہ  عطاء بن السائب کی وجہ سے سند میں جو کمزوری آرہی ہے اس کا ازالہ ہوجائے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ”له في البخاري حديث عن سعيد بن جبير عن بن عباس في ذكر الحوض مقرون بأبي بشر جعفر بن أبي وحشية أحد الأثبات“ [مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 425]
یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح فرمادیا کہ یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے مقرونا ان سے روایت لیا تاکہ ان کی وجہ سے سند کا ضعف رفع ہوجائے ۔
اس اعتبار سے اموال لابن زنجویہ میں دیکھیں تو ابن زنجویہ کئی جگہ ”علي بن الحسن “ کے ساتھ ”سفيان بن عبد الملك“ کو لارہے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اگراس سند میں ”علي بن الحسن “  سے مراد ”علي بن الحسن بن شقيق“ جیسے زبردست ثقہ راوی ہی ہیں تو ان کے ساتھ ”سفيان بن عبد الملك“ کو لانے کی کیا ضرورت ہے ؟
اس سے تو اشارہ ملتا ہے کہ ”علي بن الحسن “ کے اندر ضرور کچھ گڑ بڑ ہے جس کے سبب ان سے جہاں بھی ممکن ہورہاہے وہاں  وہ اس کے ساتھ سپورٹ کے طور پر   ”سفيان بن عبد الملك“ کو لارہے ہیں ۔
اس کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اس قبیل کی مقرون روایات میں سے اگرانہوں نے کسی روایت کو دہرا یا ہے اور وہاں ایک ہی کو باقی رکھا ہے تو ”سفيان بن عبد الملك“ ہی کو باقی رکھا ہے نہ کہ ”علي بن الحسن “ کو جیساکہ پہلے اس کے حوالے دئے جاچکے ہیں ۔دیکھئے پوسٹ نمبر(36 ، ثامنا)۔
اس طرح موصوف کی یہ دلیل موصوف پر ہی الٹ گئی ۔
✿ ہم نے  ”علي بن الحسن “ کو غیرمعروف بتاکر یہ کہا تھا :
«علاوہ بریں چونکہ یہ غیر معروف ہے اس لئے اپنے استاذ ابن المبارک سے بیان کرنے میں بھی اس نے ٹھیک ٹھیک بیان کیا ہے اس کی بھی گیارنٹی نہیں ہے ۔
ممکن ہے یہ غیرمعتبر ہو اور بہت ساری روایات پر ابن المبارک کی سند فٹ کردی ہو ، جیساکہ بہت سارے غیر معتبر رواۃ کا یہ معاملہ رہا ہے ۔ کتب رجال میں ایسے نمونے بہت ہیں ۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مدلس ہو اور اپنے استاذ ابن المبارک سے ڈائریکٹ بہت ساری روایات بیان کردی ہو ، اور اپنے اصل واسطے کو حذف کردیا ہو» 
قارئیں ملاحظہ فرمائیں۔
ہم نے اسے غیر معروف بتاکراس کے بارے میں دو احتمال کی بات کہی تھی ایک غیر معتبر ہونے کی اور ایک مدلس ہونے کی ۔
ان دونوں باتوں کو کہہ کر ہم نے کوئی فیصلہ بھی نہیں کیا تھا کہ یہ غیر معتبر ہی ہے ،یا مدلس ہی ہے بلکہ صر ف احتمال کی بات کہی ہے ۔
اور حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی غیر معروف راوی کی روایت کو ردکیا جاتا ہے تو انہیں احتمالات ہی کی بناپر رد کیا جاتا ہے ۔
ورنہ ہمیں بتایا جائے کہ ایک غیرمعروف راوی کی روایت کو کیوں رد کیا جاتا ہے ؟
ظاہر ہے کہ اس کے اندر وہ احتمالات ہی ہوتے ہیں جن کا میں نے ذکرکیا ہے ، کوئی ان احتمالات کو ذکر کرے یا نہ کرکے لیکن اگر وہ اس بات سے متفق ہے کہ غیرمعروف راوی کی روایت مردود ہوگی تو خود اس کے یہاں یہ بات مسلم ہے کہ اس کی روایت کے رد ہونے کی وجہ یہ احتمالات ہی ہیں۔
 لیکن ہمارے مہربان نے محض ان احتمالات کی وضاحت پر کیسی اشتعال انگیز تقریر شروع کردی ، ملاحظہ کریں:
فرماتے ہیں:
((اس قیاس آرائی پر تعجب کے ساتھ ساتھ بہت ہی افسوس بھی ہوا، اور اندازہ بھی ہوا کہ کوئی اپنے مطلب کے لئے کس حد تک کی قیاس آرائی میں اتر سکتا ہے۔ کیا اسے قیاس آرائی کے علاوہ بھی کوئی نام دیا جا سکتا ہے؟ انہیں تدلیس کی صفت سے متصف کرنے کے لئے آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟؟؟
مدلسین کی پہچان کے لئے محدثین کرام نے کافی خدمتیں پیش کی ہیں۔ اس تعلق سے مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔ اور بے شمار مدلسین کا ان میں ذکر کیا ہے۔ بلکہ بہت سارے ایسے روات کو بھی اس میں ذکر کر دیا ہے جو اس صفت سے بری ہیں۔ ادنی سے ادنی شبہے کی بنا پر بھی انہوں نے ان کا شمار مدلسین میں کر دیا ہے، حالانکہ دوسرے علماء کرام نے اس صفت سے انہیں بری قرار دیا ہے۔ لیکن پوری اسلامی تاریخ میں آج تک محدثین کرام نے جو ہمت نہیں کی تھی شیخ حفظہ اللہ نے بغیر کسی دلیل کے وہ جرأت کر ڈالی))
عرض ہے کہ محترم ! باتوں کو سیاق سے گھما کر  ان کا خود ساختہ مطلب نکال کر ہدیہ قارئین کرنا بند کردیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تدلیس سے کسی نے متصف ہی نہیں کیا ہے ، بلکہ اس کا ذکر ایک احتمال کے طور پر کیا گیا، جس طرح اس کے ساتھ ایک دوسرا احتمال اس کے غیر معتبر ہونے کو بھی پیش کیا گیا ہے ، جیساکہ میں نے اپنے الفاظ مکمل نقل کردئے ہیں قارئین میری دونوں باتیں پورے سیاق سے پڑھ لیں ۔
دوسری بات یہ کہ:
میں نے جس طرح کے احتمال کی بات کی ہے اس کی ایک مثال امام ذہبی رحمہ اللہ کے یہاں سے ملاحظہ  فرمائیں ۔
”فضيل بن مرزوق الأغر ، الرقاشى “ ایک مختلف فیہ راوی ہے، بعض ائمہ نے اس کی توثیق کی ہے، اور بعض نے اس پر جرح کی ہے ، بلکہ بعض نے تو سخت جرح کی ہے۔ لیکن کسی نے بھی اس راوی پر تدلیس کا الزام نہیں لگایا ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس راوی سے متعلق پہلے توثیق کے اقوال نقل کرتے ہیں ، پھر تضعیف کے اقوال نقل کرتے ہیں ۔
 اس کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فمن هذه ترجمته لا يتهم بتعمد الكذب ولكنه قد يتساهل ولا سيما فيما يوافق مذهبه فيروي عمن لا يعرفه أو يحسن به الظن فيدلس حديثه ويسقطه ويذكر شيخه“[البداية والنهاية، مكتبة المعارف: 6/ 81]
قارئین کرام !
دیکھا آپ نے ؟ کس طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک مختلف فیہ  راوی کے بارے میں امکان تدلیس کی بات کہی ہے جس کو پوری دنیا میں کسی نے بھی مدلس نہیں کیا ہے ۔
اب غور کریں کہ ایک مختلف فیہ راوی کے بار ے میں امکان تدلیس کی بات کہی جاسکتی ہے ، تو ایک غیرمعروف کے بارے میں تو بدرجہ اولی امکان تدلیس کی بات کہی جاسکتی ہے۔
 ✿ 
موصوف آخر میں فرماتے ہیں:
((یہ تو درجنوں دلائل میں سے شیخ کی پہلی یا کہہ سکتے ہیں دوسری دلیل تھی، جس کا حال ہم سب دیکھ چکے ہیں۔ باقی کم از کم 23 دلائل کے انتظار میں قارئین بیٹھے ہوئے ہیں))
اور موصوف نے شروع میں لکھا ہے :
((اگر جمع کی اقل تعداد تین مانیں تو 36 دلائل ملنے والے تھے، اور دو بھی مانیں پھر بھی 24 دلائل))
دراصل ہم نے درجنوں کا لفظ استعمال کیا تھا ۔ اس پر موصوف نے اپنی اردو دانی اور ریاضی دانی دونوں کی ایک ساتھ نمائش کردی ہے ۔
یعنی ایک درجن 12 کو کہتے ہیں ، اور ہم نے ”درجنوں“   یعنی جمع استعمال کیا ، اور جمع کا اطلاق کم سے کم 3 پر ہوتا ہے ، اس لئے 12 کو 3 سے ضرب دیں ،تو 36 ہوں گے ۔ سبحان اللہ !
ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کس پر ماتم کریں ؟
موصوف کی اردو زبان پر ؟ یا موصوف کی ریاضی دانی پر ؟
اب موصوف کے اعتبار سے  کوئی ہزاروں کا لفظ استعمال کرے تو اس سے کم از کم تین ہزار مراد ہوں گے ۔
 اسی طرح کوئی لاکھوں کا لفظ استعمال کرے تو اس سے تین لاکھ مراد ہوں گے ۔
اس پر مزید تبصرہ کرنے کے لئے قلم کو قابو میں رکھنا مشکل ہے ،اس لئے ہم مزید کچھ  نہیں کہتے ، بلکہ قارئین پر  چھوڑتے ہیں کہ وہ خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا  اردو ادب میں اس بے وقوفی کی گنجائش ہے ؟؟
البتہ قارئین کی اطلاع کے لئے ہم عرض کردیں کہ ہم نے راوی کے تعین میں پورے دس دلائل دئے جیساکہ پوسٹ نمبر (34) ، (35) ، (36) میں موجود ہیں ۔
موصوف نے نہ  جانے کیسے اسے تین ہی شمار کیا ہے ، جبکہ خود کا حال یہ ہے کہ اپنے ہی اصول کے مطابق راوی کے تعین میں ایک بھی دلیل نہیں دیا ہے جیساکہ ہم آگے واضح کریں گے ۔
اور موصوف نے جن باتوں کو دلیل باور کرایا اس طرح کی بات ہم کرنے بیٹھ جائیں تو دس نہیں ، بیس یا تیس بھی  نہیں ، بلکہ سیکڑوں دلائل ہم دے سکتے ہیں ۔
اب آگے ہم ان کے پیش کردہ دلائل اور قرائن کا حال واضح کئے دیتے ہیں ۔
نوٹ:
 واضح رہے کہ علی بن الحسن النسائی کے بارے میں ہمیں امام ابن حبان رحمہ اللہ کی جرح مل چکی ہے غیرمعروف کی بات پہلے کہی گئی تھی ، یہ جرح ملنے کے بعد یہ راوی ضعیف ثابت ہوجاتا ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment