{40} حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر فریق مخالف کے دلائل کا جائزہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-21

{40} حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر فریق مخالف کے دلائل کا جائزہ

{40} حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر فریق مخالف کے دلائل کا جائزہ 
✿ ✿ ✿ ✿
فریق مخالف فرماتے ہیں:
((1 - الحسین بن واقد (دیکھیں: الأموال لابن زنجويه (3/ 1161) حديث نمبر 2169
اس حدیث کو ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے روایت کی ہے، اور علی بن الحسن نے اسے الحسین بن واقد سے روایت کی ہے۔ 
اور الحسین بن واقد کے تلامذہ کی لسٹ میں صرف علی بن الحسن بن شقیق کا نام ملتا ہے۔ علی بن الحسن النسائی کا نام نہیں ملتا۔ (دیکھیں: تہذیب الکمال للمزی 6/493)
اس سے متعین ہے کہ ابن زنجویہ کے شیخ کا نام صرف اور صرف علی بن الحسن بن شقیق ہے جو کہ مشہور ثقہ راوی ہیں۔ کیونکہ علی بن الحسن النسائی الحسین بن واقد سے روایت کرتا ہی نہیں۔
2 - قیس بن الربیع ۔ (دیکھیں: الأموال لابن زنجويه (2/ 705) حديث نمبر 1198
اس حدیث کو ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے روایت کی ہے، اور علی بن الحسن نے اسے قیس بن الربیع سے روایت کی ہے۔ 
اور علی بن الحسن بن شقیق المروزی کے مشایخ میں تو قیس بن الربیع کا نام ملتا ہے (مثلا دیکھیں: تہذیب الکمال للمزی 20/371) لیکن کہیں پر بھی علی بن الحسن النسائی کے مشایخ میں ان کا نام نہیں ملا۔ ))
انتھی
 . 
عرض ہے کہ:
فریق مخالف کے اصول ہی کے مطابق یہ دونوں ایک ہی دلیل ہے، کیونکہ دونوں میں  ان کے استاذ کا حوالہ دے کر بات کی گئی ہے۔اور فریق مخالف کی نظر میں اس طرح کے متعدد دلائل ایک ہی شمار ہوتے ہیں ۔
نیز فریق مخالف اساتذہ و تلامذہ کی فہرست میں عدم ذکر کو دلیل مانتے ہی نہیں ، چنانچہ خود فرماتے ہیں:
((اہل فن اچھی طرح جانتے ہیں کہ کتب رجال میں شیوخ اور تلامذہ کی لسٹ میں ان کا استقصاء اور استیعاب نہیں کیا جاتا ۔ بلکہ بعض وہ علماء جنہوں نے اس کا دعوی کیا ہے، یا کوشش کی ہے ان سے بھی اس میں اچھی خاصی تعداد چھوٹ گئی ہے۔ 
خود کتاب الاموال لابن زنجویہ کے آخر میں ان کے شیوخ کی فہرست دیکھیں ۔ محقق کتاب نے ایک سو چار شیوخ کا ذکر کیا ہے ۔ انہیں کتب رجال میں تلاشنے جائیں کتنوں کا ذکر آپ کو شیوخ اور تلامذہ کی لسٹ میں ملتا ہے خود چیک کر لیں۔ معاملہ بالکل واضح ہو جائے گا ۔))
 سو انہیں کے اصول کے مطابق یہ ایک دلیل بھی بے کار ثابت ہوگئی ۔
پھربھی اس  بے کار دلیل پر ہم سے بھی کچھ سنتے چلیں:
 ● اول تو یہ عرض ہے کہ:
 موصوف نے رشتہ ایک جانب سے دکھلایا ہے.
اس کے جواب میں صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ دوسری جانب یعنی ابن زنجویہ کی جانب سے یہ رشتہ قطعا نہیں ثابت ہوتا بلکہ اس جانب سے علاقہ کی بنیاد پر علی بن الحسن النسائی ہی کا رشتہ ثابت ہوتا ہے.
سو یہی بات ان کی دلیل کے برابر ہوگئی.
  ●  مزید عرض ہے کہ :
  ”علي بن الحسن النسائي“ یہ مشہور راوی نہیں ہے ، اس لئے ا س کے کئی اساتذہ  کے ترجمہ میں اس کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
اورعبداللہ بن المبارک کے ترجمہ میں اس کا ذکر اس لئے ہوا کیونکہ عبداللہ بن المبارک بہت بڑے مشہور راوی اور کثیرالتلامذہ راوی ہیں ، ایسے بڑے بڑے حفاظ کے ترجمہ میں ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کے کثیر تلامذہ کا ذکر ہوتا ہے ، جیسا کہ تہذیبات میں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ جو بڑے بڑے حفاظ ہیں ان کے تلامذہ میں کافی تفصیل کی گئی ہے۔
لیکن دیگر رواۃ جو گرچہ ثقہ ہوں لیکن ابن المبارک جیسے عظیم محدث کے پایہ کے نہ ہوں تو ان کے تلامذہ میں صرف چند اور مشہور تلامذہ ہی کاذکر ہوتا ہے۔
چونکہ حسین بن الواقد گرچہ ثقہ ہیں لیکن ان کا معاملہ ایسا نہیں ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے احتجاجا نہیں بلکہ تعلیقا ان سے روایت لی ہے اور بعض محدثین سے ان پر جرح بھی منقول ہے ، امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ان کی بعض احادیث پر نکارت کی بات کہی ہے۔ظاہر ہے ایسے راوی کے تلامذہ میں  زیادہ تفصیل نہیں ہوتی  ۔
یہی حال  قيس بن الربيع کا بھی ہے بلکہ یہ تو سخت  ضعیف راوی ہے ، امام نسائی نے اسے متروک کہا ہے ۔جیساکہ کئی سالوں قبل ہم اپنی کتاب انوار البدر میں اس سے متعلق تفصیلات پیش کرچکے ہیں ،دیکھئے  [ انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر ص246، طبع جدید]
یہی وجہ ہے کہ خود اس کے تلامذہ میں ”علی بن الحسن بن شقیق“  کا بھی  ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ علی بن الحسن بن شقیق کے اساتذہ میں قيس بن الربيع ذکر آیا ہے ۔
 . 
 ●  دوسری طرف ابن زنجویہ کی اسی کتاب میں ”علی بن الحسن “ کے کچھ اور  اساتذہ ہیں مثلا:
① هشيم بن بشير الواسطي ۔ دیکھئے: [الأموال لابن زنجويه 3/ 1236]
② عبد الله بن إدريس الأودي ، دیکھئے :[الأموال لابن زنجويه 2/ 771]
یہ دونوں  کتب ستہ کے راوی ہے اور کافی مشہور ثقہ  راوی  ہیں ، لیکن ان کے شاگردوں میں  ”علی بن الحسن بن شقیق“ کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا ۔
حالانکہ ان دونوں کی طرح  ”علي بن الحسن بن شقيق“ بھی کتب ستہ کے ایک مشہور ثقہ راوی ہے ۔
ظاہر ہے کہ اگر دونوں سے  ”علی بن الحسن بن شقیق“  کی شاگردی کا رشتہ ہوتا تو ان دونوں کے تلامذہ میں ”علی بن الحسن بن شقیق“  کا تذکرہ بھی ہوتا ۔
معلوم ہوا کہ ابن زنجویہ کی کتاب میں ان دونوں کا شاگرد ”علی بن الحسن “ یہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ نہیں ہے ۔
اور یہی راوی مذکور دونوں رواۃ (الحسین بن واقد ، قیس بن الربیع ) کا بھی شاگرد ہے۔
 جس سے پتہ چلا کہ ابن زنجویہ کی اس کتاب میں ان دونوں (الحسین بن واقد ، قیس بن الربیع ) کا شاگرد  ”علی بن الحسن “  بھی ”علي بن الحسن بن شقيق“ نہیں ہے ۔
 . 
 ✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((3 – سفیان بن عیینہ (دیکھیں: الأموال لابن زنجويه (3/ 1021) حديث نمبر 1878)
اس حدیث کو ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے روایت کی ہے، اور علی بن الحسن نے اسے سفیان بن عیینہ سے روایت کی ہے۔ 
ابن عیینہ کے شاگردوں میں کسی بھی علی بن الحسن کا نام نہیں ملا ۔ لیکن علی بن الحسن بن شقیق المروزی کے ترجمہ میں عباس بن مصعب المروزی فرماتے ہیں: "وكان من أروى الناس عن ابن عيينة". (دیکھیں: تہذیب الکمال للمزی 20/373-374)۔ ))
انتھی
 . 
عرض یہ ہے کہ:
 موصوف کو یہ معلوم ہی نہیں کہ سفیان بن عیینہ کے شاگرد ”علي بن الحسن النسائي“  بھی ہیں ۔
بہت ساری روایات میں اس کی مکمل صراحت موجود ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں چنانچہ:
امام أبو زرعة الدمشقي رحمه الله (المتوفى:281) نے کہا:
حدثني علي بن الحسن النسائي قال: حدثنا ابن عيينة قال: مرض عمرو بن دينار، فعاده الزهري۔۔۔۔[تاريخ أبي زرعة الدمشقي: ص: 410]
نیز دیکھیں:[ تهذيب الكمال 22/ 10] 
لہٰذا جب ”علي بن الحسن النسائي“  یہ سفیان بن عیینہ کے شاگرد ہیں تو یہ ہماری دلیل ہوئی کیونکہ اس سند میں ”علي بن الحسن النسائي“ سے روایت کرنے والے ابن زنجویہ بھی نسائی ہیں اس طرح استاذ اور شاگرد دونوں طرف سے ان کا رشتہ ثابت ہوجاتا ہے ۔جیساکہ پوسٹ نمبر (34) میں ہم واضح کرچکے ہیں ۔
 . 
 ✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((ثانیا :
کتاب الاموال کے آخر میں ابن زنجویہ کے جملہ شیوخ کی فہرست موجود ہے، جسے محقق کتاب نے کتاب کے دقیق دراسہ کے بعد تیار کیا ہے۔ 53 ویں نمبر میں جن کا نام ہے وہ ہیں: علی بن الحسن بن شقیق ۔ (دیکھیں: کتاب الاموال 3/1293)۔ اور یہ مشہور ثقہ راوی علی بن الحسن بن شقیق المروزی ہیں۔ علی بن الحسن النسائی نہیں۔))
انتھی
عرض ہے کہ:
 یہ محقق کی اپنی تحقیق ہے اور آپ خود ان کی تحقیق اپنے خلاف پاتے ہیں تودیوار پر دے مارتے ہیں تو ہمار ے سامنے کس منہ سے ان کی تحقیق پیش کررہے ہیں؟؟
اگر واقعی آپ کو محقق کے دقیق دراسہ پر ایمان ہے تو اس روایت کو اسی محقق نے ضعیف قرار دیا ہے آپ ان کا یہ دقیق دراسہ بھی مان لیں قصہ ختم !
  . 
 ✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((ثالثا:
انیس الساری (تخریج احادیث فتح الباری ) کے مصنف نے الاموال لابن زنجویہ کی سند میں موجود علی بن الحسن کی تعیین علی بن الحسن بن شقیق المروزی کے طور پر کی ہے۔ 
(دیکھیں : انیس الساری (6/ 4030)۔ ))
انتھی
  . 
عرض ہے کہ:
یہ بھی وہی بات ہوئی ، بلکہ یہ بات تو پہلے سے بھی کمزور ہے کیونکہ کتاب کے محقق کی یہی تحقیق ہے اور بعد کے لوگ بہت سارے مقامات پرمحقق کے سہارے ہی کام چلاتے رہتے ہیں ۔
بہرحال یہ عصر حاضر کے ایک عالم کا حوالہ ہے ،اور دلائل کے میدان میں اس کی ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں ہے ۔
  . 
 ✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((رابعا:
شیخ زکریا بن غلام قادر پاکستانی الاموال لابن زنجویہ کی ایک ایسی حدیث کو حسن قرار دیتے ہیں جس کی سند میں علی بن الحسن ابن المبارک سے روایت کرتے ہیں۔ 
فرماتے ہیں : " عن عمر أنه كتب إلى الأجناد في زكاة الفطر، أن أدوا صاعًا من شعير، أو صاعًا من تمر، أو صاعًا من قمح، وأعطوا من أصفى عندكم.
حسن:
أخرجه ابن زنجويه (3/ 1243) حدثنا على بن الحسن عن ابن المبارك عن ابن لهيعة عن عبيد الله بن أبي جعفر عن ابن قارظ عن عمر به.
وابن قارظ هو إبراهيم بن عبد الله بن قارظ وهو حسن الحديث." ۔ (دیکھیں: ما صح من آثار الصحابہ فی الفقہ 2/606)۔ ))
انتھی
   . 
عرض ہے کہ:
یہ بھی سابقہ حوالہ کی طرح عصر حاضر کے ایک عالم کا حوالہ ہے ۔جس پر تبصرہ گذرچکا ہے ۔نیز اس میں صراحت بھی نہیں ہے کہ محترم زکریا صاحب نے کس راوی سے تعین کیا ہے۔ 
بہرحال اگراسی راوی سے تعین بھی کیا ہو تودلائل کے میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
   . 
بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ موصوف نے مثال میں ایسی سند کی تحسین پیش کی ہے جو  ”عن ابن لهيعة عن عبيد الله بن أبي“  کے طریق سے ہے۔
اور خود موصوف نے ایک مقام پر روئے زمین کے جمہور ائمہ و محققین و متخصصین کی تحقیقات سے رو گردانی کرتے ہوئے محض اپنے مطلب کے لئے بے چارے ابن لهيعة  کو نہ صرف مطلقا ضعیف کہہ ڈالا ہے،  بلکہ اسے مردود العنعنہ والا مدلس بھی مان لیا ہے۔سبحان اللہ ۔
یہی حرکت کوئی ہندوستان میں بیٹھ کر کردے تو آں جانب ہندوستان میں علم حدیث میں قحط الرجال کا رونا روئیں گے ۔
محترم آپ کے پسندیدہ محقق یہاں پر نہ صرف ابن لهيعة کی روایت کی تحسین کررہے ہیں بلکہ ان کے عن والی روایت کی تحسین کررہے ہیں ۔
کیا خیال ہے ؟ اس تحقیق پر ایمان لائیں گے ؟؟؟؟؟؟
(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment