{38} حدیث غلمان ، ”على بن الحسن النسائی“ کا ترجمہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-19

{38} حدیث غلمان ، ”على بن الحسن النسائی“ کا ترجمہ

{38} حدیث غلمان ، ”على بن الحسن النسائی“ کا ترجمہ
✿ ✿ ✿ ✿
ہمارے محترم فرماتے ہیں:
((”ایک اشکال یہ ہے کہ اگر وہ علی بن الحسن بن شقیق ہی ہیں اور انہوں نے ان سے اتنی ساری احادیث روایت کی ہیں تو کتب رجال میں ابن زنجویہ کے اساتذہ میں ان کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ یا علی بن الحسن بن شقیق کے شاگردوں میں ان ذکر کیوں نہیں ہے؟“
میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی ایسا سوال ہے جس کا جواب شیخ سے اوجھل رہ سکتا ہے۔
اہل فن اچھی طرح جانتے ہیں کہ کتب رجال میں شیوخ اور تلامذہ کی لسٹ میں ان کا استقصاء اور استیعاب نہیں کیا جاتا ۔ بلکہ بعض وہ علماء جنہوں نے اس کا دعوی کیا ہے، یا کوشش کی ہے ان سے بھی اس میں اچھی خاصی تعداد چھوٹ گئی ہے۔ ))
.
بھلا اس بات کا کون انکار کرسکتا ہے کہ تہذیبات میں اساتذہ وتلامذہ کااستیعاب نہیں کیا گیا ہے۔
لیکن یہاں مسئلہ عام تلامذہ یا اساتذہ کا نہیں ہے ۔بلکہ خاص ایسے دو ثقہ اور مشہور رواۃ کا ہے جن کے مابین ” ایک سو پنچانوے (195) روایات“ کا تبادلہ ہوا ہے ۔
کیا ایسے دو ثقہ اور مشہور رواۃ کے مابین اتنے گہرے رشتے کو ائمہ رجال نظر انداز کرسکتے ہیں ؟
اگرہاں تو اس کی کوئی مثال پیش کریں ۔
آپ نے جو اپنے کسی شیخ کے حوالے سے بات کہی ہے وہ خود میں اپنی متعدد کتب میں لکھ چکا ہے ۔لیکن یہاں نوعیت بالکل الگ ہے ۔جیساکہ وضاحت کی گئی ۔
.
موصوف فرماتے ہیں:
(( وہی سوال ہم آپ سے کریں گے کہ جب علی بن الحسن النسائی سے انہوں نے 195 حدیثیں روایت کی ہیں پھر بھی کسی نے ان کا تذکرہ ان کے شیوخ کی لسٹ میں کیوں نہ کیا؟؟))
عرض ہے کہ یہ راوی خود غیر معروف ہے ، اس کی خود کی ثقاہت کا کچھ اتا پتہ نہیں ہے۔
اور  نامعلوم یا ضعیف راوی کا کسی سے اتنی تعداد میں روایات بیان کرنا ، اور ایک ثقہ و مشہور راوی کا اتنی تعداد میں روایات بیان کرنا ، دونوں میں فرق ہے۔
ثقہ کے بارے میں بالکل طے شدہ بات ہے اس نے اتنی روایات بیان کی ہیں اور پوری امانت داری سے بیان کی ہے ، جبکہ غیرمعروف یا ضعیف راوی کا بیان ہی سرے سے محل نظر ہے ۔
لہذا غیر معروف یا ضعیف راوی کا ایسا بیان ثقہ راوی کے ایسے بیان کی بنسبت توجہ کا مستحق نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ بعض مجہول وضعیف رواۃ کا بھی اساتذہ یا تلامذہ میں ذکر ہوتا ہے تو اس بات سے کس کو انکار ہے لیکن غیرمعروف یا ضعیف ہونے کی صورت میں راوی کوئی خصوصی  توجہ کا مستحق نہیں ہوتا ،اس لئے اساتذہ اور تلامذہ میں اس کا عدم ذکر بھی کوئی امر مستغرب نہیں ہے ۔
.
آگے فرماتے ہیں:
((کیا ابن مبارک کے شاگردوں میں ذکر کرتے وقت وہ مشہور ہو گئے تھے اور ابن زنجویہ کے اساتذہ میں ذکر کرتے وقت وہ غیر معروف ہو گئے؟؟؟))
عرض ہے کہ :
اوپر وضاحت کی جاچکی ہے کہ غیرمعروف یا  ضعیف راوی  کا بیان اور عدم بیان دونوں ہوسکتا ہے ۔دونوں میں کوئی بھی بات امر مستغرب نہیں ہے ۔
یہ تو غیر معروف یا ضعیف راوی کے لحاظ سے بات ہوئی ۔
اس کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ ابن زنجویہ اور ابن المبارک کے تذکرۃ میں ائمہ کے یہاں کیسا فرق نظر آرہا ہے ۔
ابن المبارک رحمہ اللہ بہت بڑے ثقہ راوی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ مشہور بھی ہیں ، اس طرح کے رواۃ کے تلامذہ واساتذہ کے ذکر میں ائمہ کچھ زیادہ ہی تفصیل کرتے ہیں ۔
لیکن ابن زنجویہ باوجود ثقہ ہونے کے ابن المبارک کے درجہ کے نہیں ہیں ، اس لئے آپ دیکھیں گے کہ ابن زنجویہ کے ترجمہ میں ان کے اساتذہ و تلامذہ کی زیادہ تفصیل ائمہ بیان نہیں کرتے ۔
.
✿ آگے فرماتے ہیں:
((اسی طرح کتنے مجاہیل رواۃ کا انہوں نے ترجمہ لکھا ہے، بلکہ ابن حبان رحمہ اللہ تو چند روایتوں کے ملنے پر ان کا تذکرہ الثقات میں کر دیتے ہیں، جب وہ ان کی شرط پر کھرے اترتے ہیں۔ جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ علی بن الحسن النسائی ہی تھے پھر بھی اتنی روایتوں کی وجہ سے ان کا تذکرہ تو کر ہی سکتے تھے، لیکن کیوں نہ کیا؟
جو آپ کا جواب ہوگا ہمارا بھی وہی جواب ہے))
.
عرض ہے کہ ابن حبان کیا کسی بھی محدث نے مجاہیل رواۃ کا استیعاب نہیں کیا ہے ۔پھر اس سوال کی کوئی تک ہی نہیں ۔
مزید یہ کہ :
ابن حبان  الثقات میں تو اسی کا تذکرہ کرتے ہیں جس پر جرح کا انہیں علم نہ ہو یا جو ان کی تحقیق میں مجروح نہ ہو ۔
اگر فرض کرلیں کہ ابن حبان نے اس راوی کے بارے میں تفتیش کی ہے تو ممکن ہو ان کی نظر میں یہ مجروح ہو اس لئے الثقات میں اس کا ذکر نہ کیا ۔
رہی بات المجروحین کی تو ضروری بھی نہیں کہ جتنے رواۃ ابن حبان کی نظر میں مجروح ہو سب کا ترجمہ وہ مجروحین میں پیش کریں ۔
اس لئے اس اعتبار سے بھی ابن حبان کے یہاں اس کا عدم ذکر پر کوئی سوالیہ نشان نہیں لگتا ۔
.
 ●  بلکہ آں جناب کے اس سوال پر ہم نے مزید تفتیش کیا تو امام ابن حبان کی کتاب المجروحین میں اس کا ترجمہ بھی مل گیا۔ ملاحظہ ہو:
”على بن الحسن النسائی“ جس دور اور جس طبقہ کا ہے اسی دور اور اسی طبقہ سے ایک راوی کا ذکر امام ابن حبان یوں کرتے ہیں:
على بن الحسن النسوي  : شيخ يروى عن مبشر بن إسماعيل والشاميين، يروى عنه محمد بن يحيى الذهلى [المجروحين لابن حبان 2/ 114]
امام ابن حبان نے جو ”النسوي “ کہا ہے اس سے مراد  ”النسائی“ ہی ہے ۔
اور یہ امام ابن حبان کے منہج سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ”النسائی“ کی نسبت کو  ”النسوي “ بھی لکھتے ہیں ۔
چنانچہ خود اموال کے مصنف ابن زنجویہ جو کہ نسائی ہی ہیں ان کا ترجمہ لکھتے ہوے انہیں بھی امام ابن حبان نے  ”النسوي “ لکھا ہے ۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
حميد بن زنجويه بن قتيبة بن عبد الله الأزدي النسوي  كنيته أبو أحمد[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 8/ 197]
معلوم ہوا کہ  ”النسوي “ سے ان کی مراد ”النسائی“ ہی ہے ۔
 ●  بلکہ اسی راوی کا ذکر امام أبو أحمد الحاكم رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے اور انہوں نے اس کی نسبت ”النسائی“  ہی لکھی ہے ۔
 امام أبو أحمد الحاكم رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
أبو الحسن علي بن الحسن النسائي.سمع أبا إسماعيل مبشر بن إسماعيل الكلبي الحلبي.رَوَى عَنه أبو عبد الله محمد بن يحيى الذهلي. [الأسامي والكنى لأبي أحمد الحاكم 3/ 328]
ملاحظہ فرمائیں اسی استاذ و شاگرد کے ذکر کے ساتھ اس کا تذکرہ امام ابو احمد نے بھی کیا ہے اور نسبت ”النسائی“ بتلائی ہے ۔
پتہ چلا یہ ”علي بن الحسن النسائي“ ہی ہے جس کا ذکر ابن حبان رحمہ اللہ نے کیا ہے۔
چونکہ اس طبقہ میں اس نام کا ایک ہی راوی ہے اس لئے یہ متعین ہوجاتا ہے کہ امام ابن حبان نے اسی کا ترجمہ پیش کیا ہے ۔
 . 
 ◈ مزید یہ بھی دیکھیں کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کے بعض اساتذہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  یہ بھی کہا ہے:
 يروى عن مبشر بن إسماعيل والشاميين[المجروحين لابن حبان 2/ 114]
یعنی یہ شام کے بھی کئی راویوں سے روایت کرتے تھے ۔
اور ”على بن الحسن النسائی“   یہ ”الرقة“ گئے تھے اور وہاں سکونت بھی اختیار کی تھی ۔جیساکہ فریق مخالف نے بھی یہ بات لکھ رکھی ہے۔
اور ”الرقة“ یہ شام ہی کے علاقہ کا حصہ ہے ۔
علامہ عظیم آبادی لکھتے ہیں:
الرقة بفتح الراء المهملة وفتح القاف المشددة بلد بالشام [عون المعبود مع حاشية ابن القيم: 3/ 158]نیز دیکھیں عام کتب بلدان۔
یہ بھی دلیل ہے کہ یہ زیر بحث راوی ہی ہے۔
رہی بات یہ ہے کہ ابن حبان نے اس کے صرف ایک استاذ اور شاگرد کا نام پیش کیا ہے تو امام ابن حبان رحمہ اللہ کا منہج ہی یہی ہے کہ وہ عموما ایک دو یا کچھ ہی استاذ و شاگرد کا ذکرکرتے ہیں خواہ وہ کتنا  ہی مشہور راوی کیوں نہ ہو۔امام ابن حبان کے بعد  انہیں سے نقل کرتے ہوئے دیگر اہل علم نے بھی یہی معلومات درج کررکھی ہے ۔
 . 
 ❀ 
اب اس راوی پر امام ابن حبان رحمہ اللہ کی جرح دیکھیں وہ فرماتے ہیں:
”كان ممن يقلب الاخبار ويدخل المتن في المتن، لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد، روى عن مبشر بن إسماعيل عن الاوزاعي عن يحيى بن أبى كثير عن أبى قلابة عن أبى المهاجر عن بريدة قال: " كنا مع النبي النبي صلى الله عليه وسلم في غزاة فلما قفلنا وقدمنا المدينة وافقنا الناس في صلاة الصبح ولم يكن النبي صلى الله عليه وسلم صلى ركعتي الفجر فدخل حجرة حفصة فصلى الركعتين ثم خرج فدخل مع الناس في الصلاة رواه عنه محمد بن يحيى الذهلي وهذا خبر مقلوب عند الأوزاعي بهذا الإسناد أن النبي صلى الله عليه وسلم قال بكروا بالصلاة في يوم غيم فإنه من ترك صلاة العصر حبط عمله وهذا المتن عن يحيى بن أبي كثير أن النبي صلى الله عليه وسلم فسقط عليه متن خبر بريدة وإسناد هذا الخبر وأدخل الإسناد في الإسناد والأخبار المتواترة أن النبي صلى الله عليه وسلم جاء وقد قدموا عبد الرحمن بن عوف صلاة الغداة فلم يركع ركعتي الفجر بل دخل في صلاته فلما فرغ عبد الرحمن قضى النبي فائتته وقال لهم أحسنتم“ [المجروحين لابن حبان، : 2/ 114۔  115]
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے یہ روایت صرف بطور مثال پیش کی ہے۔
اور اس طرح کی غلطیاں کرنا اس راوی کا معمول بتایا ہے ۔
اس مثال کی روشنی میں ملاحظہ کریں کہ ابن حبان رحمہ اللہ یہ بتلارہے ہیں کہ یہ روایات کو الٹ پلٹ دیتا تھا ،  کسی اور متن والی روایت کو کسی اور متن والی روایت پر فٹ کردینا اس کا  معمول تھا ۔
اس کی اس حالت کو سامنے رکھتے ہوئے الاموال لابن زنجویہ میں  اس کی بیان کردہ اسناد ومتون کا کوئی فی نفسہ کوئی  اعتبار نہیں ہے ۔
کیونکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق یہ ضعیف ہے ۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا:
”ضعفه ابن حبان“ 
”ابن حبان نے اسے ضعیف قراردیا ہے“[المغني في الضعفاء للذهبي، ت نور: 2/ 445]
 . 
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment