{37} حدیث غلمان ، ”اموال“ سے متعلق موضوعات پر ائمہ حدیث کی روایات - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-18

{37} حدیث غلمان ، ”اموال“ سے متعلق موضوعات پر ائمہ حدیث کی روایات

{37} حدیث غلمان ،  ”اموال“ سے متعلق موضوعات پر ائمہ حدیث کی روایات 
✿ ✿ ✿ ✿
زیربحث سند کے میں راوی کے تعین پر دلائل پیش کرنے کے بعد باری تھی موصوف کے پیش کردہ شبہات کے ازالہ کی ۔اچھا ہوا کہ ابھی حال میں ایک اور شبہہ سامنے آگیا اس طرح لگے ہاتھوں اس کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔
ہم نے جب یہ بات کہی ہے کہ ابن زنجویہ نے اپنی کتاب ”الأموال“ میں اپنے استاذ ”علي بن الحسن “ سے” ایک سو پنچانوے (195) روایات“ بیان کی ہیں ۔
اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ان کے استاذ یہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ ہیں تو سوال یہ پیدا ہے ہوتا ہے کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ ایک مشہور ثقہ راوی ہیں اور ان کے سیکڑوں شاگرد ہیں جن میں جلیل القدر ائمہ، احادیث وآثار کے مصنفین بھی ہیں ۔
لیکن ابن زنجویہ کے علاوہ ”علي بن الحسن بن شقيق“سے ان کے دیگر سیکڑوں شاگردوں میں کسی نے بھی مذکورہ ” ایک سو پنچانوے (195) روایات“ میں سے کوئی ایک روایت بھی بیان نہیں کی ہے ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں ”علي بن الحسن بن شقيق“ مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی نہیں بلکہ ”علي بن الحسن النسائی“ غیر معروف راوی ہے جو ابن زنجویہ کے علاقہ ہی کا ہے ۔مزید تفصیل گذشتہ حصوں  میں گذرچکی ہے ۔
 . 
 ✿ اس پر فریق مخالف کیا نکتہ سنجی کی ہے ذرا اسے بھی سن لیں فرماتے ہیں:
(( جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ تمام کی تمام روایات ایک ہی موضوع "اموال" کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں، اور ان کے علاوہ کسی نے علی بن الحسن بن شقیق المروزی کے شاگردوں میں سے اس موضوع پر کتابیں تصنیف نہیں کی ہیں، اس لئے وہ روایتیں ہمیں دوسری جگہ نظر نہیں آتیں ۔ اگر علی بن الحسن بن شقیق کے کسی دوسرے شاگرد نے بھی اس موضوع پر کتاب لکھی ہوتی تو آپ دیکھتے ان کے یہاں بھی یہ روایتیں موجود ہوتیں، کیونکہ یہ ایک بدیہی امر ہے۔الخ))
 . 
قارئیں ان سطور کو غور سے پڑھیں اسی بات کو موصوف گھما گھما کر لکھتے چلے گئے ہیں۔اور سب کا حاصل یہ ہے کہ:
ابن زنجویہ کے علاوہ علی بن الحسن بن شقیق المروزی کے شاگردوں میں سے اس موضوع پر کتابیں تصنیف نہیں کی۔
اوراقتباس کے آخری الفاظ ذرا ذہن  میں رکھ لیں فرماتے ہیں:
(( کسی دوسرے شاگرد نے بھی اس موضوع پر کتاب لکھی ہوتی تو آپ دیکھتے ان کے یہاں بھی یہ روایتیں موجود ہوتیں، کیونکہ یہ ایک بدیہی امر ہے))
 . 
جوابا عرض ہے کہ:
موصوف یا تو خود ہی بات سمجھ نہیں پارہے ہیں  یا قارئین کو بہلارہے ہیں ۔
ہمیں قطعا اس بات کی توقع نہ تھی موصوف جواب سے عاجز ہونے کی صورت میں اس سطح پر اترجائیں گے کہ بدیہات کا بھی انکار کرنا شروع کردیں گے ۔
دراصل بات یہ ہے کہ ابن زنجویہ نے اموال کے مرکزی  عنوان کے تحت جن موضوعات پرگفتگو کی ہے  یہ صرف ابن زنجویہ کا تنہا کارنامہ نہیں ہے ۔
بلکہ دیگر تمام دواوین حدیث و آثار کے مصنفین  نے ان موضوعات پر روایات یکجا کی ہیں ۔
فرق صرف یہ ہے کہ ابن زنجویہ نے ایک کتاب خاص انہیں موضوعات پر مرتب کرکے اس کا ایک مرکزی عنوان ”الأموال“ دیا ہے ۔
جبکہ دیگر مصنفین نے انہیں موضوعات کو اپنی کتب میں الگ الگ کتابوں میں پھیلا دیا ہے ۔
مثلا آپ ابن زنجویہ کی کتاب میں موجود روایات کے موضوعات دیکھیں تو پائیں گے کہ ساری روایات زکاۃ و صدقات ،  مغازی وفتوح ،  مال غنیمت وفے ، خمس وعطیات،  صلح و جزیہ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں ، اور بعض روایات مال وغیرہ کے بارے میں  قرآنی آیات کی تفسیر سے متعلق ہیں ۔
ان تمام موضوعات میں سے کوئی موضوع ایسا نہیں ہے جسے دیگر مشہور محدثین نے ترک ونظر انداز کردیا ہو بلکہ  احادیث و آثار کی مشہور کتابوں کے ہر مصنف نے ان تمام موضوعات پر روایات یکجا کر رکھی ہیں ۔
بلکہ اموال ہی سے متعلق بعض موضوعات جسے ابن زنجویہ نے بھی نظر انداز کردیا ہے دیگر محدثین نے ان موضوعات کو بھی اپنی کتب میں جگہ دی ہیں مثلا کفارات ، دیات اورفرائض یعنی میراث کی تقسیم وغیرہ۔
لیکن قربان جائیں ہمارے مہربان پر کہ کس طرح محض قارئین کو بہلانے کے لئے اس بدیہی بات کا انکار کررہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ابن زنجویہ نے جن موضوعات پر روایات پیش کی ہیں ان موضوعات کو کسی نے اپنی کتاب میں جگہ ہی نہ دی ، سبحان اللہ !
یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی ارکان اسلام میں سے کسی ایک رکن پر یا احکام میں سے کسی ایک حکم پر کسی خاص جزء کا حوالہ دے کر یہ کہنے لگ جائے کہ اس موضوع پر صرف یہی ایک کتاب ہے اور باقی محدثین نے اس پر کتاب ہی نہیں لکھی ۔
محترم فرق صرف یہ ہے کہ ابن زنجویہ نے ان موضوعات پر مستقل کتاب لکھی ہے اور دیگر محدثین نے انہیں موضوعات کو اپنی کتب میں الگ الگ عناوین کے تحت درج کیا ہے ۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ :
کیا ان موضوعات سے متعلق جو مرفوع و موقوف رویات ہے یا آثار ہیں ان کا تعلق شریعت سے نہیں  ہے کہ دیگر محدثین نے ان سب کو نظر انداز کردیا؟ اور ابن زنجویہ نے ایک لایعنی چیز سے شغل کرتے ہوئے خواہ مخواہ ایک کتاب لکھ ڈالی ہے ؟
یا ان کا تعلق صرف ابن زنجویہ  کی ذات سے تھا کہ محض انہیں ہی اس کی فکر لاحق ہوئی ؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ موضوعات ہر مسلمان سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے تمام مشہور مصنفین نے ان موضوعات کو اپنی کتب میں سمیٹا ہے ۔ یہ ابن زنجویہ کا صرف انفرادی کام نہیں ہے۔
 . 
 ✿ موصوف نے ایک بات یہ بھی کہی کہ :
((ابن زنجویہ کی کتاب کا جنہوں نے بنظر غائر مطالعہ کیا ہے ان کے لئے واضح ہوگا کہ وہ بکثرت تابعین وتبع تابعین کے آثار کو ذکر کرتے ہیں، بلکہ بہت سارے ایسے ابواب آپ کو ملیں گے جن میں صریح مشہور مرفوع احادیث کو انہوں نے ذکر نہیں کیا ہے، اور اہتمام کے ساتھ صرف آثار تابعین وتبع تابعین کو انہوں نے جمع کیا ہے۔ جیسے کہ صدقہ فطر سے متعلق ابواب ہی دیکھ لیں، آثار صحابہ کا بھی وہ اہتمام کرتے ہیں خصوصا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے آثار کا ، اسی طرح احادیث مرفوعہ بھی اس میں ہیں ، لیکن تابعین ا ور تبع تابعین کے آثار کا اہتمام کہیں زیادہ ہے۔۔۔الخ))
 . 
عرض ہے کہ:
 اول تو اموال  میں صرف آثار نہیں بلکہ مرفوع روایات بھی ہیں جیساکہ موصوف نے خود اعتراف کیا ہے ۔
اب موصوف کم سے کم ان  مرفوع روایات ہی میں سے کسی کو ابن زنجویہ کے علاوہ کسی اور شاگرد کے واسطے ”علي بن الحسن بن شقيق“ سے دکھلا دیں ؟؟ دیدہ باید!
دوم یہ کہ زیادہ ترمرفوع رویات کو درج کرنے والے مصنفین نے بھی آثار کو پیش کرنے کا طریقہ اپنایا ہے خود صحیح بخاری میں بھی بہت سارے آثار موجود ہیں۔
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بعض محدثین نے تو آثار صحابہ وتابعین وغیرہم پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں ان کتابوں میں آثار ہی کی کثرت ہے مثلا   مصنف ابن ابی شیبہ ،  المحلی لابن حزم ، شرح مشکل الآثار ، شرح معانی الآثار، معرفة السنن والاثار للبيهقي ،  ، تهذيب الآثار للطبري ، الأوسط لابن المنذر ۔
اور ان کتابوں میں بھی اموال سے متعلق موضوعات موجود ہیں اوران کے بعض مصنفین تو ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے شاگرد بھی ہیں جیسے امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ، اور امام ابن المنذر  رحمہ اللہ۔
اور بعض ایک واسطے بلکہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے ثقہ بیٹے کے واسطے سے بھی ان کی روایات نقل کرتے ہیں جیسے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اور امام طحاوی رحمہ اللہ۔
بلکہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے تفسیر والی کتاب میں بعض ایسی روایات نقل کی ہے جو ابن زنجویہ کی کتاب میں موجود ہیں ، لیکن ”علي بن الحسن بن شقيق“ طریق سے نہیں ۔
مثلا:
ابن زنجویہ نے کہا:
 أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن محمد بن سليمان، عن حيان الأعرج، عن جابر بن زيد، في قوله: {وآتوا حقه يوم حصاده} قال: " الزكاة المفروضة۔۔۔  [الأموال لابن زنجويه 2/ 794]
جابربن زید کی اسی تفسیرکو امام طبری نے بھی روایت کیا ہے مگر ”علي بن الحسن بن شقيق“  کے طریق سے نہیں چنانچہ:
امام طبری رحمہ اللہ نے کہا:
حدثنا عمرو، قال: ثنا عبد الرحمن، قال: ثنا أبو هلال، عن حيان الأعرج، عن جابر بن زيد: {وآتوا حقه يوم حصاده}  قال: «الزكاة»[تفسير الطبري، ط هجر: 9/ 596]
یاد رہے طبری کی بیان کردہ یہ سند ضعیف بھی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ:
  امام طبری  ”علي بن الحسن بن شقيق“ سے ایک واسطہ سے بلکہ خود ان کے بیتے ” محمد بن علي بن الحسن بن شقيق“ کے واسطے سے ان کی مرویات کے راوی ہیں۔دیکھیں:[تفسير الطبري، ط هجر: 7/ 722]
تو آخر وہ اس طریق سے وہ روایت کیوں نہیں بیان کرتے جیساکہ ابن زنجویہ نے بیان کیا ہے؟  تاکہ ان کی سند بھی صحیح ہوجاتی !
لیکن امام طبری اس صحیح سند کو چھوڑ  کر ضعیف سند سے یہی روایت بیان کررہے ہیں ، ایسا کیوں ؟
یہی حال تمام دیگر احادیث واثار کی کتب کا ہے یعنی ان کتب میں ابن زنجویہ والی  ” ایک سو پنچانوے (195) روایات “  میں سے ایک روایت بھی   ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے طریق سے نہیں ملتی !!
سوال یہ ہے غالب آثاروالی ان کتب میں بھی ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے طریق سے ان ” ایک سو پنچانوے (195) روایات“ میں سے ایک روایت بھی منقول نہیں ہے جن کے بارے میں یہ دعوی ہے کہ انہیں ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے طریق سے ابن زنجویہ نے روایت کیا ہے، ایسا کیوں ؟؟
الغرض یہ کہ یہ طفل تسلی بھی کسی کام کی نہیں کی نہیں ہے کہ ابن زنجویہ نے جس موضوع پر کتاب لکھی ہے اس موضوع پر کسی نے کتاب نہیں لکھی ۔
کیونکہ دیگر دواوین حدیث اور کتب آثار کے مصنفین نے بھی ان موضوعات کو اپنی کتب میں ذکر کیاہے ، اور ان سے متعلق احادیث و آثار کو روایت کیا ہے۔
اس لئے اب خود موصوف کے اعتراف کے مطابق یہ بدیہی بات ہے کہ ان دیگر کتب میں بھی ”علي بن الحسن بن شقيق“  کے واسطے یہ روایات ہونی چاہئے جیساکہ موصوف نے مذکورہ پہلے اقتباس کے اخیر میں اعتراف کیا ہے ۔
 . 
 ✿ 
اور موصف کا یہ مطالبہ کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے فرماتے ہیں:
(( سب سے پہلے ان روایات کو آپ پیش کریں جنہیں ایک یا دو واسطے سے بعد کے مصنفین نے علی بن الحسن بن شقیق سے روایت کی ہیں، پھر ہم ایک ایک روایت کا آپ کو معقول اور تشفی بخش جواب پیش کر دیں گے ان شاء اللہ العزیز))
 . 
اسے کہتے ہیں مارے گھٹنا پھوٹے سر !
محترم ہمارا سوال ہی یہی ہے کہ جب دیگرکتب کے مصنفین ”علي بن الحسن بن شقيق“ سے براہ راست یا ایک دو واسطے سے اپنی سند رکھتے ہیں ۔
تو ان محدثین نے اموال والے موضوعات میں اس سند سے روایات کیوں پیش نہ کی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سمجھے جناب ؟؟؟
ہم تو نفی ہی اس بات کی کررہے ہیں کہ دیگر محدثین نے ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے طریق سے وہ روایات پیش نہ کیں جن کو ابن زنجویہ نے پیش کیا ہے ۔
حالانکہ یہ سند اور طریق ان کے پاس بھی ہے ۔
ہم اس طریق تک محدثین کی رسائی کا اثبات کررہے ہیں ، اور اسی طریق سے ابن زنجویہ کی نقل کردہ روایات کی ان محدثین کے یہاں موجودگی کا انکار کرہے ہیں ۔
اب جس کا ہم نے اثبات کا ہے اس کا ثبوت ہم پیش کرچکے ہیں ، اب جس چیز کی نفی ہم کررہے ہیں آپ اس کا ثبوت پیش کریں ۔
امید ہے اب اچھی بات سمجھ میں آگئی ہوگی ۔
 . 
 ✿ ہمارا سوال تھا :
«سوال یہ کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے دیگرسینکڑوں شاگردوں کا کیا قصور تھا ؟ ان میں کیا کمی تھی ؟ کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ نے ایک سو پنچانوے (195) روایات میں سے کوئی ایک روایت بھی ان میں سے کسی کو نہ سنائی ؟؟؟ اور ابن زنجویہ میں کون سا کمال تھا ؟........ الخ» 
 . 
اس سوال کو موصوف نے نامعقول کہا ہے حالانکہ ایسے مواقع پر یہ سوال محدثین کی طرف سے ہوتا ہے جیساکہ ہم نے امام ابوحاتم  رحمہ اللہ کا حوالہ پیش کیا تھا ایک بار ملاحظہ فرمالیں :
”أيمن بن نابل“ سے ان کے ایک شاگرد ”قران بن تمام“ نے ایسی روایت بیان کی جسے قران کے دوسرے شاگردوں میں کسی نے بیان نہیں کیا تو امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
لم يروِ هذا الحدِيث عن أيمن إِلاَّ قِرانٌ، ولا أراهُ محفُوظًا، أين كان أصحابُ أيمن بنِ نابِلٍ، عن هذا الحدِيثِ؟.
اس حدیث کو”أيمن بن نابل“ سے ”قران بن تمام“ کے علاوہ کسی نے بھی روایت نہیں کیا ! اور میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا ، ”أيمن بن نابل“کے دیگر شاگرد اس حدیث کی روایت میں کہاں تھے ؟؟؟ [علل الحديث 1/ 296]
.
ہم بھی سوال کرتے ہیں کہ اگر ابن زنجویہ نے ایک سو پنچانوے (195) روایات کو ”علي بن الحسن بن شقيق“ سے ہی بیان کیا ہے تو ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے سیکڑوں شاگرد کہاں تھے ؟؟؟؟؟
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ یہ کس قدر معقول سوال ہے جو امام ابوحاتم رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر محدث سے ثابت ہے ، نیز اس طرح کی بات اور بھی کئی محدثین سے ثابت ہے ۔
لیکن موصوف اس کے جواب سے عاجزی کو چھپانے کے لئے  اسے غیر معقول کہتے ہیں ، پھر ان کے جواب کی معقولیت کیا ہے انہیں کے الفاظ میں سنیں:
((اس نا معقول سوال کا معقول جواب یہ ہے کہ آپ کو کس نے یہ کہا کہ کسی کو نہ سنائی؟ کیا کسی دوسری کتاب میں نہ پاکر آپ کا یہ تجزیہ ہے؟))
اگر آپ کا یہ جواب واقعی معقول ہوتا تو یہ جواب امام ابوحاتم اور ان جیسے ان محدثین کو بھی دیا جاسکتا تھا جنہوں نے اس طرح کا سوال کیا ہے!
اس کا جواب معدوم اور موہوم چیز کے دعوی سے نہیں ہوگا بلکہ اس کا ثبوت درکار ہے ، آپ کسی کتاب میں یہ بات دکھا دیں قصہ ختم !
 ورنہ ہوا میں دعوی کرنے سے کچھ نہیں بننے والا۔
 . 
آگے فرماتے ہیں:
((اگر کتاب الصلاۃ ، کتاب العیدین، کتاب التوحید وغیرہ میں تلاشیں گے تو کیسے وہ روایات آپ کو وہاں ملیں گی؟
پہلے کوئی ایسی کتاب تو معرض وجود میں دکھائیں جو اس موضوع سے تعلق رکھتی ہو، اور اسی منہج پر ہو جس پر ابن زنجویہ کی کتاب ہے پھر آپ کا اعتراض معقول مانا جائےگا))
 . 
عرض ہے کہ:
اچھا آپ کتاب الزکاۃ ، کتاب الصدقات ، کتاب النفقات ، کتاب المغازی ، کتاب الخمس ، کتاب الفی ، کتاب الصلح ، کتاب الجزیہ وغیر میں ہی یہ بات دکھا دیں !!
دیدہ باید !!
 . 
 ✿ اب آگے دنیا کا آٹھواں عجوبہ دیکھئے فرماتے ہیں:
((ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اسی موضوع "الاموال" پر ایک کتاب تصنیف کی ہے جو کہ بہت ہی مشہور ومعروف کتاب ہے۔ اس کا بھی منہج تقریبا وہی ہے جو ابن زنجویہ کی کتاب کا ہے۔ ابو عبید نے اس میں الاموال کے تعلق سے ڈھیر سارا مواد جمع کیا ہے۔
ابو عبید بہت ہی مشہور ثقہ راوی ہیں جو کہ محتاج تعارف نہیں۔ ان کے تلامذہ کی تعداد بھی بہ کثرت ہے، لیکن ان میں سے الاموال پر کتاب صرف ابن زنجویہ نے تصنیف کی ہے۔ یا اس سے کچھ ملتی جلتی ایک دوسرے شاگرد أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البلاذري نے ایک کتاب تصنیف کی ہے "فتوح البلدان" کے نام سے۔
ابن زنجویہ نے اپنے اس استاد سے سینکڑوں حدیثیں اپنی کتاب میں روایت کی ہیں۔ ابھی تک میں کتاب کا ایک تہائی حصہ بھی نہیں پہنچا ہوں اور مجھے تقریبا ایک سو بیس ایسی روایتیں مل چکی ہیں جنہیں ابن زنجویہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ہیں، اور بہت ہی معمولی تعداد میں بعض روایتیں ایسی ملیں ہیں جنہیں بلاذری نے روایت کی ہیں۔
آپ ہی کے طرز پر اگر آپ سے سوال کروں کہ "سوال یہ کہ ”ابو عبید “ کے دیگرسینکڑوں شاگردوں کا کیا قصور تھا ؟ ان میں کیا کمی تھی ؟ کہ ”ابو عبید “ نےسینکڑوں روایات میں سے کوئی ایک روایت بھی ان میں سے کسی کو نہ سنائی ))
 ✿
عرض ہے کہ نامعقولیت کی بھی کوئی حدہوتی ہے !
آپ ایک روایت سے متعلق سوال کررہے ہیں کہ ابو عبید نے ابن زنجویہ کے علاوہ کسی کو نہ سنائی ۔
اور حقیقت یہ ہے کہ امام ابو عبید نے اپنی اس کتاب کی ایک روایت نہیں ، بلکہ پوری کی پوری کتاب ہی اپنے   شاگردوں کو سنادی ہے ۔
بلکہ جو نسخہ مطبوع ہے وہ ابن زنجویہ کا روایت کردہ نہیں بلکہ ”علي بن عبد العزيز البغوي“ کا روایت کردہ ہے !
قارئین مطبوعہ نسخہ کھول کر دیکھیں امام ابو عبید کے شاگرد علي بن عبد العزيز البغوي فرماتے ہیں:
حدثنا أبو عبيد القاسم بن سلام الأزدي رضي الله عنه قال:  باب حق الإمام على الرعية، وحق الرعية على الإمام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ[الأموال للقاسم بن سلام، ت: سيد رجب: 1/ 31]
قارئین کرام !
نامعقولیت کی انتہا ملاحظہ فرمائی آپ نے ؟؟
دعوی یہ کہ امام ابوعبید نے اپنی کتاب کی سینکڑوں روایات کو ابن زنجویہ کے علاوہ کسی سے بیان نہیں کیا ۔
اور حقیقت یہ ہے کہ امام ابوعبید رحمہ اللہ پوری کی پوری کتاب اپنے شاگردوں کو سنا رہے ہیں۔
ہے نا عجوبہ !
 . 
یہ تو پوری کتاب کی بات ہے باقی کتاب کی متفرق روایات کی بات کریں تو امام ابوعبید کے بہت سے تلامذہ ہیں جنہوں نے ان سے اس کتاب کی روایات کو بیان کیا ہے ۔
لہٰذا یہاں یہ کہنے کہ گنجائش نہیں ہے کہ امام ابوعبید سے کسی راوی نے روایات کا ایسا مجموعہ  نقل کیا ہے ، جن میں سے ایک روایت بھی کسی دوسرے نے بیان نہیں کی ہے ؟
جب ہم نے جو سوال اٹھا یا ہے وہ کہ :
”علي بن الحسن “ سے ابن زنجویہ نے ” ایک سو پنچانوے (195) روایات“ بیان کی ہیں لیکن اس پورے مکمل ” ایک سو پنچانوے (195) روایات“ میں سے ایک روایت بھی ابن زنجویہ سے کے علاوہ کسی نے ”علي بن الحسن بن شقيق“ سے بیان نہیں کیا ہے حالانکہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ کثیر التلامذہ بلکہ ان کے سیکڑوں شاگرد ہیں ۔
یہ واضح دلیل ہے کہ اس سند میں ”علي بن الحسن بن شقيق“ نہیں ہے ورنہ ان کے کسی ایک شاگرد کو ان ” ایک سو پنچانوے (195) روایات“ میں سے کوئی ایک روایت تو بیان کرنی چاہے۔
 . 
تازہ ترین شبہات میں کچھ باتیں اوررہ گئی ہیں ہم جلد ہی ان کا بھی جائزہ پیش کرتےہیں ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment