{36} حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر بقیہ دلائل - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-17

{36} حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر بقیہ دلائل


{36} حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر بقیہ دلائل 
✿ ✿ ✿ ✿
گذشتہ پوسٹ میں یہ بتایا جاچکا ہے کہ ابن زنجویہ نے اپنی کتاب ”الأموال“ میں اپنے استاذ  ”علي بن الحسن “ سے” ایک سو پنچانوے (195) روایات“  بیان کی ہیں ۔
اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ان کے استاذ  یہ  ”علي بن الحسن بن شقيق“ ہیں  تو سوال یہ پیدا ہے ہوتا ہے کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ ایک مشہور ثقہ راوی ہیں اور ان کے سیکڑوں شاگرد ہیں جن میں جلیل القدر ائمہ،  احادیث وآثار کے مصنفین بھی ہیں ۔
لیکن ابن زنجویہ کے علاوہ  ”علي بن الحسن بن شقيق“سے ان کے دیگر سیکڑوں شاگردوں میں کسی نے بھی مذکورہ ” ایک سو پنچانوے (195) روایات“  میں سے کوئی ایک روایت بھی بیان نہیں کی ہے ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں ”علي بن الحسن بن شقيق“ مشہور  ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی نہیں بلکہ ”علي بن الحسن النسائی“ غیر معروف راوی ہے جو ابن زنجویہ کے علاقہ ہی کا ہے ۔
  مزید تفصیل گذشتہ پوسٹ میں گذرچکی ہے ۔
.
✿ ثالثا:
”علي بن الحسن بن شقيق“ جس علاقہ کے  ہیں، اس علاقہ میں بھی انہوں نے بہت ساری راویات بیان کی ہے  ان کے علاقہ کے بہت سارے رواۃ ان کے شاگرد ہیں ۔
لیکن ”الأموال لابن زنجويه“ میں پائی جانے والی ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ میں سے کوئی ایک روایت بھی ان کے علاقہ کے کسی راوی نے بیان نہیں کیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ نے  اپنے علاقے کے شاگردوں کو اپنی”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ سے   کیوں محروم کردیا ؟
ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔
اس لئے یہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے کہ یہاں  ”الأموال لابن زنجويه“ کی سند میں ”علي بن الحسن بن شقيق“  مراد ہی نہیں ، بلکہ ابن زنجویہ کے اپنے علاقہ کا غیر معروف اور نا معلوم التوثیق راوی ”علي بن الحسن النسائی“  مراد ہے۔
.
✿ رابعا:
”علي بن الحسن بن شقيق“ کے شاگردوں میں ایک ثقہ شاگرد خود ان کے بیٹے   ”محمد بن على بن الحسن بن شقيق“ ہیں۔
انہوں نے اپنے والد سے جو روایات بیان کی ہیں ، موجودہ  عام کتب احادیث کے مطابق ان کی تعداد تقریبا سو (100) ہے۔
”علي بن الحسن بن شقيق“  کی روایات کو ان کے اس بیٹے کے واسطے سے جن رواۃ  نے نقل کی ہے ان کی تعداد تقریبا پچاس (50) ہے۔
ان میں سے بعض بڑے مشہور ثقہ ائمہ اور صاحب تصنیف بھی ہیں مثلا:
⋆ امام ترمذی رحمہ اللہ۔
⋆ امام نسائی رحمہ اللہ۔
⋆ امام ابویعلی الموصلی رحمہ اللہ
⋆ امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ۔
⋆ امام ابن الجارود رحمہ اللہ۔
⋆ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ
⋆ امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ
⋆ امام عبداللہ بن احمدبن حنبل رحمہ اللہ
⋆ امام  محمد بن إسحاق الخراسانی رحمہ اللہ
⋆ محمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمی رحمہ اللہ
.
”علي بن الحسن بن شقيق“ کے یہ دس وہ تلامذہ ہیں جو چوٹی کے محدثین ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے حدیث پر کتاب لکھی ہے ، بلکہ ہر ایک نے  صرف ایک ہی نے بلکہ کئی کئی کتابیں لکھی ہیں ۔
لیکن ”الأموال لابن زنجويه“  کی مذکورہ ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“  میں سے کوئی ایک روایت بھی  ان محدثین بلکہ محمدبن علی کے تمام شاگردوں میں کسی ایک کے یہاں بھی نہیں ملے گی !!
سوال یہ ہے کہ صرف اور صرف ابن زنجویہ کو  ”علي بن الحسن بن شقيق“  کی ایسی  ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ کہاں سے مل گئیں؟ جن میں سے ایک روایت بھی خود ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے سگے بیٹے  تک کو نصیب نہیں ہوئی ؟؟
صاف بات یہ ہے کہ یہ  روایات ”علي بن الحسن بن شقيق“ کی  ہیں ہی نہیں ، بلکہ علی بن الحسن النسائی کی ہے جو کہ ابن زنجویہ کے علاقہ کا ایک  غیر معروف  راوی ہے ۔
.
✿ خامسا:
قارئین کرام !
ایک عجوبہ اور ملاحظہ فرمائیں کہ   ” على بن الحسن بن شقيق عن ابن المبارک“    کے طریق سے  جو روایات مشہور کتب احادیث میں ہیں ۔
عین انہیں روایات کو جب ابن زنجویہ روایت کرتے ہیں ہے تو ” على بن الحسن بن شقيق عن ابن المبارک“  کے طریق سے نہیں بلکہ کسی اور سند سے روایت کرتے ہیں مثلا:
●  امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
حدثنا علي بن الحسن بن شقيق، أخبرنا عبد الله، أخبرنا ابن عون، قال: كتبت إلى نافع، فكتب إلي «إن النبي صلى الله عليه وسلم أغار على بني المصطلق وهم غارون، وأنعامهم تسقى على الماء، فقتل مقاتلتهم، وسبى ذراريهم، وأصاب يومئذ جويرية»، حدثني به عبد الله بن عمر، وكان في ذلك الجيش [صحيح البخاري 3/ 148 ،رقم 2541]
ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کی  اس روایت میں ” على بن الحسن بن شقيق“  نام کی مکمل صراحت ہے اور وہ اسے ”عبد الله بن المبارك“ سے روایت کرتےہیں ، السنن الكبرى للبيهقي رقم (18234) میں بھی اسی طریق سے یہ روایت ہے اس میں ”عبد الله بن المبارك“ کے پورے نام کی بھی صراحت ہے ۔
لیکن اسی روایت کو امام ابن زنجویہ جب روایت کرتے ہیں کہ تو  ” على بن الحسن بن شقيق عن ابن المبارک“ کے طریق سے نہیں بلکہ دوسرے طریق سے چنانچہ:
امام ابن زنجويه کتاب الاموال میں ہی اپنے استاذ النضر بن شميل سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فإن النضر بن شميل ثنا، قال: خبرنا ابن عون، قال: كتبت إلى نافع أسأله عن الدعاء، قبل القتال، فقال: إنما كان ذلك أول الإسلام، قد أغار نبي الله صلى الله عليه وسلم على بني المصطلق، وهم غارون وأنعامهم تسقى على الماء، فقتل مقاتلتهم وسبى سبيهم وأصيبت يومئذ جويرية ابنة الحارث وحدثني بهذا الحديث عبد الله بن عمر، وكان في ذلك الجيش [الأموال لابن زنجويه 1/ 318]
 . 
اب کوئی ہمیں سمجھائے کہ :
”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ کو ابن زنجویہ سے  اگر ”على بن الحسن بن شقيق“ نے ہی بیان کیا ہے،  تو یہ مشہور روایت جسے”على بن الحسن بن شقيق“  نے ابن المبارک سے ہی نقل کررکھا ہے اسے آخر ابن زنجویہ کو کیوں نہ سنایا ؟ اور ابن زنجویہ کو یہ روایت پیش کرنے کے لئے اپنے دوسرے استاذ النضر بن شميل کا دروازہ  کیونکر کھٹکھٹانا پڑا ؟؟؟؟
.
یہ صرف ایک ہی روایت نہیں ہے ۔ مزید ملاحظہ ہو:
●  امام بیہقی رحمہ الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ رحمه الله قال أخبرنا أبو العباس السياري قال أخبرنا عبد الله بن علي الغزال قال أخبرنا علي بن الحسن بن شقيق قال أخبرنا ابن المبارك قال أخبرنا موسى بن عقبة عن نافع عن عبد الله بن عمر أن رسول الله قطع نخل بني النضير وحرق ولها ۔۔۔[دلائل النبوة ، للبيهقى: 3/ 184]
ملاحظہ فرمائیں امام بیہقی کی  اس روایت میں ” على بن الحسن بن شقيق“  نام کی مکمل صراحت ہے اور وہ اسے ”عبد الله بن المبارك“ سے روایت کرتےہیں ،جیساکہ اس کی بھی صراحت ہے ۔
لیکن اسی روایت کو امام ابن زنجویہ جب روایت کرتے ہیں کہ تو  ” على بن الحسن بن شقيق عن ابن المبارک“ کے طریق سے نہیں بلکہ دوسرے طریق سے چنانچہ:
امام ابن زنجويه کتاب الاموال میں ہی اپنے استاذ عبد الله بن صالح سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حدثني عبد الله بن صالح، حدثني الليث بن سعد، حدثني نافع، عن عبد الله بن عمر، " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حرق نخل بني النضير وقطع۔۔۔ [الأموال لابن زنجويه 1/ 93]
اب کوئی ہمیں بتلائے  کہ :
”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ کو ابن زنجویہ سے  اگر ”على بن الحسن بن شقيق“ نے ہی بیان کیا ہے،  تو یہ  روایت جسے”على بن الحسن بن شقيق“  نے ابن المبارک سے ہی نقل کررکھا ہے اسے آخر ابن زنجویہ کو کیوں نہ سنایا ؟ اور ابن زنجویہ کو یہ روایت پیش کرنے کے لئے اپنے دوسرے استاذ عبد الله بن صالح کی سند کیوں لانی پڑی؟؟؟؟
یہ صرف دو ہی روایات نہیں ہیں اس سلسلے کی اور بھی کئی روایات ہیں ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ ” على بن الحسن بن شقيق  “ سے ابن زنجویہ کا کوئی رشتہ نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ کسی بھی محدث نے ابن زنجویہ کے اساتذہ میں ” على بن الحسن بن شقيق  “ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور نہ ہی ” على بن الحسن بن شقيق  “ کے تلامذہ میں ابن زنجویہ کا ذکرکیا ہے،کماسیاتی ۔
لہٰذا زیربحث سند میں  ” على بن الحسن بن شقيق  “ نہیں بلکہ  ” على بن الحسن النسائی  “ ہے جو ابن زنجویہ کے علاقہ کا ہے۔
.
✿ سادسا:
”الأموال لابن زنجويه“  میں  ” على بن الحسن “ نامی غیر معروف راوی کی بیان کردہ کچھ ایسی روایات بھی ہیں کہ اس کے اوپر کی سند (بالخصوص ابن المبارک کے طریق والی)بے داغ ہے  ،  یعنی اگر  ” على بن الحسن “  کو  ” على بن الحسن بن شقيق“ مان لیا جائے تو اس طرح کی  کئی روایات اعلی درجہ کی صحیح ثابت ہوجائیں گی۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ”الأموال لابن زنجويه“ میں اسی سند سے آنے والے بعض متن کو ، بعض محدثین دوسری ضعیف یا کم درجہ والی سند سے روایت کرتے ہیں !
حالانکہ یہ محدثین  ” على بن الحسن بن شقيق“ کے براہ راست شاگرد ہیں ، یا ان کے شاگرد کے شاگرد ہیں ۔ اور ” على بن الحسن بن شقيق“ سے مروی  کئی روایات کے راوی ہیں ۔مثلا:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا عباد بن عوام، عن حجاج، عن الحكم؛ أن عمر بن عبد العزيز، قال: ليس في البقر العوامل صدقة.[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 189]
یہ روایت متعدد وجوہات کے سبب ضعیف ہے۔
حالانکہ یہی روایت  ”الأموال لابن زنجويه“ میں  ” على بن الحسن“ سے مروی ہے اور علی بن الحسن سے اوپر سند بے داغ ہے ۔ دیکھیں:[الأموال لابن زنجويه 2/ 835]
سوال یہ ہے کہ اگر ”الأموال لابن زنجويه“ والی سند میں  ” على بن الحسن“  سے مراد  ”على بن الحسن بن شقيق“ ہیں تو یہ امام ابن ابی شیبہ کے استاذ ہیں ، پھر امام ابن شیبہ نے اپنے استاذ والی مضبوط سند کو چھوڑ کر ایک ضعیف سند  سے اس روایت کو کیوں نقل کیا ؟
ظاہر ہے کہ ”على بن الحسن بن شقيق“ سے ایسی کوئی روایت مروی ہی نہیں ہے ۔اورزیربحث سند میں ” على بن الحسن النسائی  “ مراد ہے۔
اس کی اور بھی کئی مثالیں ہیں لیکن ہم بخوف طوالت اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
.
✿ سابعا:
جیساکہ گذرچکا ہے کہ ”على بن الحسن بن شقيق“ کے سیکڑوں شاگرد ہیں یہ شاگرد جب ”على بن الحسن بن شقيق“ سے روایت کرتے ہیں تو ان میں سے جو بھی ان سے متعدد روایات نقل کرتے ہیں وہ کہیں نہ کہیں ان کا مکمل نام  یعنی  ”على بن الحسن بن شقيق“ یا  ”على بن الحسن یعنی ابن شقيق“ یا ”على بن الحسن وھو ابن شقيق“ وغیرذکر کرکے ان کی پوری صراحت کرتےہیں ۔
مثلا کتب ستہ ہی کو دیکھ لیں کتب ستہ میں سے کسی بھی کتاب کا ایسامعاملہ نہیں ہے کہ کسی مقام پر ان کے مکمل نام کی صراحت نہ ہو ۔
 ● صحیح بخاری میں ایک ہی جگہ ان کی روایت ہے پھربھی مکمل نام کی صراحت ہے دیکھیں: صحیح بخاری رقم (2541)
 ● صحیح مسلم میں تین جگہ ان کی روایات ہیں ہیں پھر بھی ایک جگہ مکمل نام کی صراحت ہے دیکھیں صحیح مسلم رقم (1086)
 ● سنن ابی داؤد میں تین جگہ ان کی روایات ہیں پھر بھی ایک جگہ ان کے مکمل نام کی صراحت ہے دیکھیں: سنن ابی داؤد ، رقم (2108)
 ● سنن الترمذی میں پانچ جگہ ان کی روایات ہیں اور دو جگہ ان کے مکمل نام کی صراحت ہے ، مثلا دیکھیں : سنن الترمذی ، رقم (2947) وغیرہ۔
 ● سنن نسائی میں گیارہ جگہ ان کی روایات ہیں ، اور ہرجگہ ان کے نام کی مکمل صراحت ہے ۔ مثلا دیکھیں سنن نسائی رقم (906) وغیرہ۔
 ● سنن ابن ماجہ میں چار جگہ ان کی روایات ہیں اور چاروں جگہ ان کے مکمل نام کی صراحت ہے مثلا دیکھیں: سنن ابن ماجہ رقم (227)وغیرہ۔
 . 
لیکن ”الأموال لابن زنجويه“ میں ”على بن الحسن“  کی ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ ہیں ۔
اتنی کثرت سے اس کی روایات ہونے کے باوجود بھی کہیں بھی ان کے نام کی صراحت  ”على بن الحسن بن شقيق“ سے نہیں ہے!!!
حالانکہ اسی کتاب میں امام ابن زنجویہ اپنے بعض دیگر مشائخ، جن سے انہوں نے کئی روایات نقل کی ہے ان میں بعض کے مکمل نام کی صراحت اسی کتاب میں کی ہے ۔
مثلا اپنے استاذ  ”النضر بن عبد الجبار“ سے انہوں نے کئی روایات نقل کی ہیں اور اکثر جگہ ان کی کنیت  ”أبو الأسود“ ہی ذکر کی ہیں۔
لیکن بعض مقامات پر ان کے نام کی صراحت کی بھی ہے چناچہ ایک جگہ فرماتے ہیں:
ثنا أبو الأسود النضر بن عبد الجبار كاتب ابن لهيعة، أنا ابن لهيعة [الأموال لابن زنجويه 1/ 86]
لیکن ”على بن الحسن“ سے باوجود اس کے کہ انہوں نے”ایک سو پنچانوے (195) روایات“  نقل کی ہے ،  کہیں پر بھی وہ ”على بن الحسن بن شقيق“ کی صراحت نہیں کرتے !!
 . 
حالانکہ اس نام کا ذکر بھی انہوں نے اختصار اور تفصیل سے کیا ہے۔ 
چنانچہ جب اختصار کے ساتھ یہ نام ذ کرکرتے ہیں تو صرف ”على “ درج کرتے ہیں مثلا دیکھئے [ الأموال لابن زنجويه ، احادیث نمبرات :1555 ، 1565 ، 1776 ، 1954 ، 2162 ، 2286 وغیرہ]
لیکن جب یہ اس نام میں تفصیل کرتے ہیں تو  ”على بن الحسن“ سے زیادہ کچھ نہیں بتاتے ۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی سند میں ”على بن الحسن“ سے مراد ”على بن الحسن بن شقيق“  نہیں ہیں ، ورنہ وہ اس کی ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ میں سے کسی ایک میں تو ”ابن شقيق“ کی صراحت کرتے جیساکہ دیگر محدثین کا معمول ہے اور بعض دیگر رواۃ کے ساتھ خود ابن زنجویہ کا بھی معمول ہے ۔
.
✿ ثامنا:
امام ابن زنجویہ نے ”على بن الحسن “ کی روایات کو متعدد مقامات پر مقرون ذکرکیا ہے ، یعنی  ”على بن الحسن “  کے ساتھ ، سفیان بن عبدالملک کو بھی ان کے متابع کی حیثیت سے ذکر کیا ہے ۔
ان روایات میں سے بعض کو امام ابن زنجویہ نے دوسرے مقام پر ذکر کرتے ہوئے دو میں سے ایک قرین کو حذف کردیا ہے ، لیکن ایسا کرتے وقت  سفیان بن عبدالملک کو نہیں بلکہ   ” على بن الحسن “  ہی کو حذف کیا ہے مثلا:
ایک مقام پر ”سفیان بن عبدالملک“  اور ”علی بن الحسن“  دونوں سے روایت کرتے ہوئے کہا:
 أنا سفيان بن عبد الملك، وعلي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن معمر، عن سماك بن الفضل، عن شهاب بن عبد الله الخولاني، قال: خرج سعد الأعرج - وكان من أصحاب يعلى بن أمية - حتى قدم المدينة، فقال له عمر بن الخطاب: أين تريد؟ قال: أريد الجهاد، قال: «فارجع إلى صاحبك» ويعلى يومئذ على اليمن، فإن عملا بحق جهاد حسن، فلما أراد أن يرجع، قال له عمر: " إذا مررتم بصاحب المال، فلا تنسوا الحسبة، ولا تنسوها صاحبها، ثم قال: أفرقوا المال ثلاث فرق، فخيروا صاحب المال ثلثا، ثم اختاروا أنتم أحد الثلثين، ثم ضعوها في كذا وكذا، فوضعها لهم، فقال سعد الأعرج: كنا نخرج فنأخذ الصدقة، ثم نقسمها، فما نرجع إلا بسياطنا[الأموال لابن زنجويه 2/ 873]
لیکن اسی روایت کو مختصرا دوسرے مقام پر ذکر کیا تو اپنے مشائخ میں سے   ” على بن الحسن “  کو حذف کردیا اور صرف ”سفیان بن عبدالملک“  ہی کو ذکر کیا چنانچہ کہا:
 أخبرنا حميد ثنا سفيان، عن ابن المبارك، عن معمر، عن سماك بن الفضل، عن شهاب بن عبد الله الخولاني، أن عمر، بعث سعدا الأعرج ساعيا، قال سعد: وكنا نخرج فنأخذ الصدقة، ثم نقسمها فما نرجع إلا بسياطنا [الأموال لابن زنجويه 3/ 1193]
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام ابن زنجویہ ”سفیان بن عبدالملک “ کو   ” على بن الحسن “ پر فوقیت دیتے تھے ۔جو اس بات کی دلیل ہے  کہ ابن زنجویہ کی نظر میں ”سفیان بن عبدالملک “ کے مقابل میں ” على بن الحسن “ کم تر ہے۔
اورایسا تبھی ہوسکتا ہے جب یہاں ” على بن الحسن “ سے   ” على بن الحسن بن شقيق  “ مراد نہ ہوں ۔
 کیونکہ ” على بن الحسن بن شقيق  “  کتب ستہ کے زبردست ثقہ اور مشہور معروف راوی ہیں ۔ جبکہ ”سفیان بن عبدالملک “ سے کتب ستہ کے چار مصنفین(بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ) نے روایت لیا ہی نہیں ہے ۔
اور طلب علم کے اعتبار سے دیکھیں کہ تو ” على بن الحسن بن شقيق  “ کے مشائخ بہت زیادہ ہیں ، اساتذہ اور بعض رواۃ کے تراجم کی فہرست کے اعتبار سے صرف تہذیب الکمال میں ان کے   بیس (20) سے زائد مشائخ کا ذکر ہے ۔جبکہ تہذیب الکمال میں ”سفیان بن عبدالملک “ کے صرف ایک استاذ ابن المبارک کا ذکر ہے۔
امام بخاری ، امام ابوحاتم ،  ابن حبان ، اور امام مقدسی  نے بھی صرف ابن المبارک ہی کو ان کا استاذ بتلایا ہے ،حافظ مغلطای نے کافی محنت کرنے کے بعد بھی ان کا صرف ایک اور استاذ  ”أبو معاوية الضرير“ کا ذکر کیا ہے ۔
غور کریں کہ اگر ابن زنجویہ کہ سند میں ” على بن الحسن  “  سے مراد  ” على بن الحسن بن شقيق “ ہوتے ،، تو وہ ان پر ”سفیان بن عبدالملک “ کو ترجیح نہیں دے سکتے تھے ۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس سند میں ” على بن الحسن بن شقيق “  نہیں ہے۔
.
✿ تاسعا:
امام ابن زنجویہ ایک مشہور ثقہ راوی اور حافظ حدیث ہیں ، کئی ائمہ نے ان کا ترجمہ لکھا ہے لیکن کسی نے بھی ان کے مشائخ میں ” على بن الحسن بن شقيق “ کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔
اگر واقعی ابن زنجویہ نے ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ انہیں  ” على بن الحسن بن شقيق “ سے نقل کی ہوتی تو کوئی نہ کوئی امام لازمی طور پر ابن زنجویہ کےاساتذہ میں ان کا ذکر کرتے ہیں ، کیونکہ جب ان کے اساتذہ میں ان کے ایسے مشائخ کا بھی ذکر ہے جن سے ان کی چند رویات ہی ملتی ہیں ، تو پھر جن سے انہوں نے  ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ بیان کیں ، ان کا تذکرہ ترجمہ نگار امام کیسے نظر انداز کرسکتے تھے ؟؟؟
.
✿ عاشرا:
دوسری طرف ” على بن الحسن بن شقيق “ کا بھی ترجمہ دیکھئے ان کے تلامذہ میں پچاسوں رواۃ کا ذکر محدثین کرتے ہیں حالانکہ ان میں سے کسی نے بھی ان سے  ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ نقل نہیں کی ہیں ۔
لیکن کوئی بھی امام ان کے شاگردوں میں امام ابن زنجویہ کا ذکر نہیں کرتا ، آخر کیوں ؟؟؟
اگر ” على بن الحسن بن شقيق “ سے چند روایات نقل کرنے والے اس بات کے مستحق سمجھے گئے کہ ان کا ذکر ان کے شاگردوں میں کیا جائے تو پھر جس امام ابن زنجویہ نے ان سے ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ نقل کیں ان کا تذکرہ ان کے شاگردوں میں کیوں نہیں کیا گیا ؟؟
صاف بات ہے کہ ان دونوں کے بیچ ایسا کوئی رشتہ ہے ہی نہیں ، اس لئے  کسی کے ترجمہ میں بھی دوسرے کا ذکر نہیں ملتا ہے ، اور نہ ہی دنیائے روایات میں کوئی ایسی روایت ملتی ہے جس کی سند میں ان دونوں کے استاذ اور شاگرد ہونے کا صراحتا ذکر ہو۔
تلک عشرۃ کاملہ
ان تمام تفصیلات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ زیربحث سند میں موجود ” على بن الحسن “ یہ ” على بن الحسن بن شقيق “ ہر گزنہیں ہے بلکہ یہ غیر معروف راوی ۔
لہٰذا اس راوی کے سبب فریق مخالف کی مستدل روایت ضعیف و مردود ہے ۔
اب آگے ہم ان دلائل و قرائن کا جائزہ لیں گے جسے فریق مخالف نے اس راوی کے تعین میں پیش کیا ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment