سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا یزید بن معاویہ کی بیعت پررضامندی کا ثبوت مع تحقیق سند - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-07-09

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا یزید بن معاویہ کی بیعت پررضامندی کا ثبوت مع تحقیق سند


سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا یزید بن معاویہ کی بیعت پررضامندی کا ثبوت مع تحقیق سند
امام أحمد بن يحيى، البَلَاذُري (المتوفى 279) نے کہا:
”حدثنا سعدويه، حدثنا عباد بْن العوام، حَدَّثَنِي حصین، حَدَّثَنِي هلال بن إساف قال:أمر ابن زياد فأخذ مَا بين واقصة، إِلَى طريق الشَّام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يترك أحد يلج وَلا يخرج، فانطلق الْحُسَيْن: يسير نحو طريق الشَّام يريد يزيد بْن مُعَاوِيَة فتلقته الخيول فنزل كربلاء، وَكَانَ فيمن بعث إِلَيْهِ عمر ابن سعد بن أبي وقاص، وشمر ابن ذي الجوشن، وحصين بْن نمير، فناشدهم الْحُسَيْن أن يسيروه إِلَى يزيد فيضع يده فِي يده فأبوا إِلا حكم ابْن زياد“ 
 ”عبیداللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ واقصہ اورشام وبصرہ کے بیچ پہرہ لگادیا جائے اورکسی کو بھی آنے جانے سے روک دیا جائے، چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ یزیدبن معاویہ سے ملنے کے لئے شام کی طرف چل پڑے ، پھر راستہ میں گھوڑسواروں نے انہیں روک لیا اوروہ کربلا میں رک گئے ، ان گھوڑ سواروں میں عمربن سعدبن بی وقاص ، شمربن ذی الجوشن اورحصین بن نمیرتھے ، حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے التجاکی کہ انہیں یزیدبن معاویہ کے پاس لے چلیں تاکہ وہ یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں ، اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ہم عبیداللہ بن زیاد کی اجازت کے بغیرایسا نہیں کرسکتے“ [أنساب الأشراف للبلاذري: 3/ 173 واسنادہ صحیح]۔

اس روایت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
  • حسین رضی اللہ عنہ ، یزید کی بیعت پررضامند تھے اور باقاعدہ اسے عملی شکل دینے پربھی آمادہ تھے۔
  • حسین رضی اللہ عنہ کا سفرکوفہ جہاد کی نیت سے نہیں تھا ورنہ وہ کبھی بھی دشمن کے ہاتھ میں ہاتھ دینے پرآمادہ نہ ہوتے ۔
  • حسین رضی اللہ عنہ کو یزید بن معاویہ سے ہمدردی ہی کہ امید تھی ورنہ وہ اہل کوفہ کی غداری دیکھ کر یزید کی طرف رخ نہ کرتے۔


اس روایت سے یہ قطعا نہیں ثابت ہوتا کہ حسین رضی اللہ عنہ کے اس مطالبہ کو عبیداللہ بن زیاد نے پورا نہیں کیا کیونکہ اس روایت میں عبیداللہ بن زیاد کے جواب کا ذکر نہیں ہے ۔
یہ روایت بالکل صحیح ہے بلکہ صحیح مسلم کی شرط پرصحیح ہے ۔
اس کے سارے رجال بخاری ومسلم سمیت سنن اربعہ کے رجال میں ہیں ، البتہ ہلال بن یساف کی روایت بخاری میں تعلیقا ہے اگرامام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے بھی اصول میں روایت کیا ہوتا تو یہ روایت بخاری ومسلم دونوں کے شرط پرصحیح ہوتی ، پھر بھی یہ روایت مسلم کی شرط پرصحیح ہے۔
تفصیل ملاحظ ہو:

أبو الحسن هلال بن إساف الكوفى۔
آپ صحیحین سمیت کتبہ ستہ کے راوی ہیں البتہ بخاری میں ان کی روایت تعلیقا ہے۔
آپ نے حسین ہی نہیں بلکہ ان کے والدعلی رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی پایا ہے اورکوفہ کے رہنے والے بھی تھے۔
 ✿ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
 ”هلال بن يساف مولى أشجع كنيته أبو الحسن من أهل الكوفة أدرك عليا“ [الثقات لابن حبان: 5/ 503]۔
 ✿ امام مزي رحمه الله (المتوفى742)نے کہا:
 ”هلال بن يَِسَاف ، ويُقال : ابن إساف ، الاشجعي ، مولاهم ، أبو الحسن الكوفي ، أدرك علي بن أَبي طالب“ [تهذيب الكمال للمزي: 30/ 353]۔
آپ پرکسی بھی محدث نے جرح نہیں کہ ہے بلکہ:
 ✿ امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کا:
 ”وَكَانَ ثِقَةً كثير الحديث“ [الطبقات الكبرى لابن سعد، ط العلمية: 6/ 300]۔
 ✿ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
 ”ثقة“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 9/ 72 وسندہ صحیح]۔
 ✿ امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
 ”هلال بن يساف : كوفي ، تابعي، ثقة“ [تاريخ الثقات للعجلي: ص: 460]۔
 ✿ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
 ”هلال بن يساف مولى أشجع كنيته أبو الحسن من أهل الكوفة أدرك عليا“ [الثقات لابن حبان: 5/ 503]۔
 ✿ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
 ”ثقة“ [الكاشف للذهبي: 2/ 343]۔
 ✿ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نےکہا:
 ”ثقة“ [تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 490]۔

أبو الهذيل حصين بن عبد الرحمن السلمى ، الكوفى 
آپ صحیحین سمیت کتب ستہ کے روای ہیں۔
 ✿ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
 ”حصين بن عبد الرحمن ثقة“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 193]۔
 ✿ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
 ”حُصَيْن بن عبد الرَّحْمَن أَبُو الْهُذيْل السّلمِيّ الثِّقَة الْمَأْمُون من كبار أَصْحَاب الحَدِيث“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله 1/ 235]۔
 ✿ امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
 ”كوفى ثِقَة ثَبت فِي الحَدِيث“ [معرفة الثقات للعجلي: 1/ 305]۔
 ✿ امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى:264)نے کہا:
 ”ثقة ،يحتج بحديثه“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 193 وسندہ صحیح]۔
 ✿ امام ابن الكيال رحمه الله (المتوفى929)نے کہا:
 ”أحد الثقات الأثبات احتج به الشيخان“ [الكواكب النيرات: ص: 132]۔
 ✿ امام فسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
 ”حصين بن عبد الرحمن متقن ثقة كوفي“ [المعرفة والتاريخ للفسوي: 3/ 93]۔

تنبیہ بلیغ:
بعض لوگوں نے حصین کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ اخیر میں مختلط ہوگئے تھے ۔
عرض ہے کہ :
 ● اولا:
کچھ اہل علم نے اس اختلاط کی تردید کی ہے۔
 ● ثانیا:
کچھ اہل علم نے کہا کہ اخیرمیں ان کا صرف حافظ متغیرہوا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ثقہ ہی تھے۔
 ● ثالثا:
زیرتحقیق روایت کو حصین سے عباد بن العوام نے نقل کیا ہے اورحصین سے ان کا سماع قدیم ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے :حصين بن عبد الرحمن السلمى ورواياته في الصحيحين لاسماعیل رضوان: ص ٥ تا ١٠۔

أبو سهل، عباد بن العوام الواسطى ۔
آپ صحیحین سمیت کتب ستہ کے روای ہیں۔
 ✿ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233):
 ”ثقة“ [تاريخ ابن معين - رواية الدوري: 4/ 208]۔
 ✿ امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى 234)نے کہا:
 ”كان عَبَّاد ثقة ثَبْتٌاً“ [سؤالات محمد بن عثمان لعلي بن المديني: 62]۔
 ✿ امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
 ”عباد بن العوام واسطي ثقة“ [تاريخ الثقات للعجلي: ص: 247]۔
 ✿ امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277):
 ”ثقة“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 83]۔
 ✿ امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
 ”عباد بن العوام واسطي ثقة“ [مسند البزار : 2/ 175]۔
 ✿ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے ثقات میں ذکرکیا:
 ”عباد بن العوام“ [الثقات لابن حبان: 7/ 162]۔
 ✿ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
 ”ثقة“ [تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 205]۔

أبو عثمان، سعيد بن سليمان الضبى، الواسطى(سعدويه)۔
آپ صحیحین سمیت کتب ستہ کے روای ہیں۔
 ✿ امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى:230)نے کہا:
 ”كَانَ ثِقَةً كَثِيرَ الْحَدِيثِ“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 7/ 340]۔
 ✿ امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
 ”سعيد بن سليمان ويعرف بسعدويه: واسطي ثقة“ [تاريخ الثقات للعجلي: ص: 185]
 ✿ امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
 ”ثقة مأمون“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 26]۔
 ✿ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
 ”سعيد بن سليمان بن كنانة الواسطي كنيته أبو عثمان سكن بغداد وهو الذي يعرف بسعدويه“ [الثقات لابن حبان: 8/ 267]۔
 ✿ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
 ”ثقة حافظ“ [تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 153]۔

معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت بالکل صحیح ہے۔

 ◄ تنبیہ:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
 ”قال أبو مخنف فأما عبدالرحمن بن جندب فحدثني عن عقبة بن سمعان قال صحبت حسينا فخرجت معه من المدينة إلى مكة ومن مكة إلى العراق ولم أفارقه حتى قتل وليس من مخاطبته الناس كلمة بالمدينة ولا بمكة ولا في الطريق ولا بالعراق ولا في عسكر إلى يوم مقتله إلا وقد سمعتها ألا والله ما أعطاهم ما يتذاكر الناس وما يزعمون من أن يضع يده في يد يزيد بن معاوية ولا أن يسيروه إلى ثغر من ثغور المسلمين ولكنه قال دعوني فلأذهب في هذه الارض العريضة حتى ننظر ما يصير امر الناس“ [الطبري 3/ 312 ، ونقلہ ابن الاثیرفی الكامل في التاريخ 2/ 167 بقولہ :وقد روي عن عقبة بن سمعان فذکرہ۔۔۔۔۔۔ ]۔

یہ روایت سراسرجھوٹ ہے اس کی سندکا ہرراوی معیوب ہے، قدرے تفصیل ملاحظہ ہو:
عقبة بن سمعان
یہ مجہول راوی ہے کسی بھی کتاب میں اس کی تعدیل یا توثیق نہیں ملتی ۔
عبدالرحمن بن جندب
یہ بھی مجہول راوی ہے کسی بھی کتاب میں اس کی تعدیل یا توثیق نہیں ملتی ۔
ابو مخنف 
یہ لوط بن یحیی ابو مخنف الغامدي شیعہ و کذاب ہے۔
 ⟐ امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
متروك الحديث [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 182]۔
 ⟐ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
أبو مخنف وأبو مريم وعمرو بن شمر ليسوا هم بشيء قلت ليحيى هم مثل عمرو بن شمر قال هم شر من عمرو بن شمر [تاريخ ابن معين - رواية الدوري: 3/ 439]۔
 ⟐ امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
شيعى محترق صاحب أخبارهم[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 7/ 241]۔
 ⟐ اسماعيل الأصبهاني، الملقب بقوام السنة (المتوفى: 535)نے کہا:
فَأَما مَا رَوَاهُ أَبُو مخنف وَغَيره من الروافض فَلَا اعْتِمَاد بروايتهم[الحجة في بيان المحجة لقوام السنہ: 2/ 568]۔
 ⟐ امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى:597)نے کہا:
وفى حَدِيث ابْن عَبَّاس أَبُو صَالح الْكَلْبِيّ وَأَبُو مخنف وَكلهمْ كذابون.[الموضوعات لابن الجوزي 1/ 406]۔
 ⟐ شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)نے کہا:
لوط بن يحيى وهشام بن محمد بن السائب وأمثالهما من المعروفين بالكذب[منهاج السنة النبوية لابن تیمیہ: 1/ 59]۔
 ⟐ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى:748)نے کہا:
لوط بن يحيى، أبو مخنف، أخباري تالف، لا يوثق به[ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 419]۔
دوسرے مقام پرکہا:
أبو مخنف.اسمه لوط بن يحيى.هالك.[ميزان الاعتدال للذهبي: 4/ 571]۔
 ⟐ امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى963)نے کہا:
لوط بن يحيى أبو مخنف كذاب تالف [تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 98]۔
.
.
ایک شبہ کا ازالہ
بعض لوگ زبیر علی زئی صاحب کے حوالے سے اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کتاب ثابت نہیں ہے۔
عرض ہے کہ
اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں ۔
① اولا:
تفصیل کے لئے انساب الاشراف کے محقق کا مقدمہ پڑھ لیں محقق نے اس کتاب کو ثابت کیا ہے۔
② ثانیا:
یہ کتاب خود امام بلاذری رحمہ اللہ نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہے اور انہیں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخہ سے اسے ناسخ نے نقل کیا ہے پھر بیچ میں کتاب کے راوی اورسند کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا دیکھے کتاب کے محقق کا مقدمہ ۔
 ③ ثالثا:
یہ ایک مشہور و معروف کتاب ہے مستند ائمہ ومحدثین نے اس پر اعتماد کیا ہے اور اسے بطور حجت روایات نقل کی ہیں ایسی مشہور اور معتبر کتاب کے ثبوت کے لئے ناسخ کتاب یا ناقلین کتاب پر بحث کی ضرورت ہی نہیں دیکھئے ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
لأن الكتاب المشهور الغني بشهرته عن اعتبار الإسناد منا إلى مصنفه: كسنن النسائي مثلا لا يحتاج في صحة نسبته إلى النسائي إلى اعتبار حال رجال الإسناد منا إلى مصنفه. [النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 1/ 271]
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر نے انساب الاشراب کو ثابت مانا ہے اور اس سے نقل کردہ ایک روایت کی سند کو لاباس بہ کہا ہے چنانچہ :
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وروى البلاذري بإسناد لا بأس به أن حفص بن أبي العاص كان يحضر طعام عمر الحديث[الإصابة لابن حجر: 2/ 98]۔
یادرہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہ مستدل روایت امام بلاذری کی کتاب أنساب الأشراف ہی میں ہے چنانچہ امام بلاذری نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ الزَّاهِدُ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يُونُسَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ أَنَّ حَفْصَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيَّ كَانَ يُحْضِرُ طَعَامَ عُمَرَ فَلا يَأْكُلُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا يَمْنَعُكَ مِنْ طَعَامِنَا؟ فَقَالَ: إِنَّ طَعَامَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔[أنساب الأشراف للبلاذري: 10/ 318]۔
عصرحاضر کے عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ نےنے بھی یہی بات کہی ہے ملاحظہ ہو:
السؤال
ما رأيك في أسانيد الكتب؟ هل يشترط فيها ما يشترط في رواية الأحاديث أم يتساهل فيها؟
الجواب
رأيي يختلف من كتاب إلى آخر: فإذا كان كتاباً مشهوراً متداوَلاً بين أيدي العلماء ووثقوا به، فلا يشترط. أما إذا كان غير ذلك فإنه يُشتَرط.
[الهدى والنور 85/ 13]
 ④ رابعا:
خود حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے بھی کئی جگہ اس کتاب کو ثابت مانا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے بلکہ خطبہ سے پہلے سلام کرنے سے متعلق اسی کتاب کی ایک روایت کودلیل بناکر کہا ہے کہ خطبہ سے پہلے سلام کرنا ثابت ہے ملاحظہ ہو درج ذیل ویڈیو دیکھیں:

 ⑤ خامسا:
اس روایت کے ثابت ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ یہ روایت اسی صحیح سند کے ساتھ تاریخ طبری میں بھی موجود ہے چنانچہ:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
 ”حدثنا محمد بن عمار الرازي قال حدثنا سعيد بن سليمان قال حدثنا عباد بن العوام قال حدثنا حصين ۔۔۔قال حصين فحدثني هلال بن يساف أن ابن زياد أمر بأخذ ما بين واقصة إلى طريق الشأم إلى طريق البصرة فلا يدعون أحدا يلج ولا أحدا يخرج فأقبل الحسين ولا يشعر بشيء حتى لقي الأعراب فسألهم فقالوا لا والله ما ندري غير أنا لا نستطيع أن نلج ولا نخرج قال فانطلق يسير نحو طريق الشأم نحو يزيد فلقيته الخيول بكربلاء فنزل يناشدهم الله والإسلام قال وكان بعث إليه عمر بن سعد وشمر بن ذي الجوشن وحصين بن نميم فناشدهم الحسين الله والإسلام أن يسيروه إلى أمير المؤمنين فيضع يده في يده“ 
 ”ہلال بن یساف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : عبیداللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ واقصہ اورشام وبصرہ کے بیچ پہرہ لگادیا جائے اورکسی کو بھی آنے جانے سے روک دیا جائے، چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ ان باتوں سے بے خبر آگے بڑھے یہاں تک بعض اعرابیوں سے آپ کی ملاقات ہوئی تو آپ نے سے پوچھ تاچھ کی تو انہوں نے کہا : نہیں اللہ کی قسم ہمیں کچھ نہیں معلوم سوائے اس کی کہ ہم نہ وہاں جاسکتے ہیں اورنہ وہاں سے نکل سکتے ہیں۔پھرحسین رضی اللہ عنہ شام کے راستہ پر یزیدبن معاویہ کی طرف چل پڑے ، ، پھر راستہ میں گھوڑسواروں نے انہیں کربلا کے مقام پر روک لیا اوروہ رک گئے ، اورانہیں اللہ اوراسلام کا واسطہ دینے لگے ،عبیداللہ بن زیاد نے عمربن سعدبن بی وقاص ، شمربن ذی الجوشن اورحصین بن نمیرکو ان کی جانب بھیجاتھا حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے اللہ اوراسلام کا واسطہ دے کرکہا : وہ انہیں امیرالمؤمنین یزیدبن معاویہ کے پاس لے چلیں تاکہ وہ یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں“ [تاريخ الأمم والرسل والملوك- الطبري 3/ 299 واسنادہ صحیح]۔
یہ سند بالکل صحیح ہے امام طبری کے استاذ ’’محمد بن عمار الرازي‘‘ یہ ’’ أبو جعفر، محمد بن عمار بن الحارث، الوازعي، الرازي‘‘ ہیں ۔ یہ ثقہ ہیں چنانچہ:

امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
كتبت عنه وهو صدوق ثقة [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 43]۔

اس کے اوپر پوری سند وہی ہے جو انساب الاشراب للبلاذری میں ہے ۔ اور ان راویوں کی توثیق اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں پیش کی جاچکی ہے۔

فائدہ:
ابن جریر طبری کی روایت میں یزید کے ساتھ ’’امیر المؤمنین‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔معلوم ہواکہ حسین رضی اللہ عنہ یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کو امیرالمؤمنین تسلیم کرتے تھے اور ان کی بیعت کرنے پر راضی بلکہ اس کے خواہش مند تھے ۔ والحمدللہ۔

صحیح تاریخ الطبری کے محققین نے بھی اس روایت کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے اور اسے صحیح تاریخ الطبری میں نقل کیا ہے۔

دکتور شیبانی نے بھی طبری کی اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے دیکھئے مواقف المعارضہ ص 342 ۔

1 comment:

  1. شیخ یہ فیض احمد کے مضمون پر نظر و نقد فرمائیں

    ReplyDelete