ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہنے کا الزام اور اس کی حقیقت - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-07-22

ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہنے کا الزام اور اس کی حقیقت


ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہنے کا الزام اور اس کی حقیقت
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
✿  ✿  ✿
زبیرعلی زئی صاحب کے بعض حواری مواری مجھ پر یہ اتہام لگارہے ہیں کہ میں نے امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہا ہے ، لیکن خود اپنے گریبان میں جھانک کہ نہیں دیکھتے کہ انہیں کے اصول سے لازم آتا ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہا ہے ، جیساکہ آگے ہم انہیں کی آواز میں ان کے الفاظ پیش کررہے ہیں ۔
واضح رہے کہ ہم نے ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہیں بھی نہیں لکھا تھا البتہ ان کی بعض باتوں کو بکواس کہا تھا لیکن ایک بھائی کے کہنے پر اپنی کتاب سے یہ لفظ بھی ہم نے حذف کردیا ، اب آگے ہم ابن الجوزی رحمہ اللہ کی وہ باتیں پیش کرتے ہیں جن کو بکواس لکھا گیا تھا ، ملاحظہ ہو:
 . 
 حافظ ابن الجوزی کے نزدیک یزید کفرونفاق پرگامزن 
ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ایک جگہ نفاق اور کفریہ باتیں یزید کی طرف منسوب کر دیں اور بلاجھک سبائیوں کی یہ باتیں بھی نقل کر دیں کہ جنگ بدر میں مقتول اپنے کفار رشتے داروں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے یزید نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کروایا،چناں حافظ ابن الجوزی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
”ليت أشياخي ببدر شهدوا ... جزع الخزرج من وقع الأسل ، فأهلّوا واستهلوا فرحاً ... ثم قالوا لي (بغيب) لا تُشل ، قال مجاهد: نافق فيها، ثم والله ما بقي في عسكره أحد إلا (نزكه)، أي عابه ولامه“ [الرد علی المتعصب العنید ، ص: 59]
ان الفاظ کا ترجمہ ہم اس کے مترجم نسخے سے نقل کرتے ہیں:
”حضرت مجاہد رح سے مروی ہے کہ جب یزیدکے پاس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کاسرلاکراس کے سامنے رکھا گیا تواس نے درج ذیل دو شعربطورتمثیل اوراستشہاد کے پڑھے:کاش کہ میرے بدروالے آباء اجدادنیزوں کی ضرب کی وجہ سے خزرج کی جزع اورچیخ وپکارکودیکھتے،تواس موقع پروہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اورپھرمجھے مبارک بادیتے اوریہ کہتے کہ شاباش! ناکام نہ ہوا۔حضرت مجاہد کہتے ہیں ان اشعارکی وجہ سے یزیدمنافق ہوگیا۔پھرخداکی قسم اس کے حلقے اورلشکر میں جتنے بھی لوگ تھے سب نے اسے اس بات پرلعن طعن اورملامت کی“[یزید کی شخصیت علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی نظر میں، ص: 117] 
اس کے بعدحافظ ابن الجوزی نے ان اشعار کا پس منظریہ بتلاہے کہ بدر میں مسلمانوں نے کفار کو قتل کیا تھا، پھر بعد میں کفار نے احد میں مسلمانوں کوقتل کیا تھا، اس پر کافرو ں کی طرف سے یہ اشعار کہے گئے تھے، جسے ردوبدل کے ساتھ یزید نے بطور استشہاد اپنے کارنامے پرپڑھا۔
حافظ ابن الجوزی آگے لکھتے ہیں:
”فاستشهد بها يزيد، وكان غيَّرَ بعضها، ويكفي استشهاده بها خزياً“ [ الرد علی المتعصب العنید:ص60]
(ترجمہ) ”قتل حسین رضی اللہ عنہ کے موقع پریزید نے کچھ ترمیم کے ساتھ ان اشعار کوپڑھا تھا۔یزید کی بے شرمی اورڈھٹائی کے لئے اورسب باتوں سے قطع نظراتناہی کافی ہے کہ اس نے ایسے موقع پر کہے گئے اشعارکواپنے جذبا ت کی ترجمانی کے لئے استعمال کیا۔“ [یزید کی شخصیت علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی نظرمیں، ص: 118] 
دیکھا آپ نے!
حافظ ابن الجوزی، یزید کی بے شرمی اورڈھٹائی کے لئے سب سے بڑی دلیل یہی دے رہے ہیں کہ یزید نے قتل حسین رضی اللہ عنہ کے ذریعے بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اپنے کفار رشتے داروں کے خون کا بدلہ لیا۔ اگرہم اس بات کو ”بکواس“ کہہ دیں تو بتائیے کیا یہ جرم ہوگا؟
 . 
 ابن الجوزی  کے نزدیک فضیلتِ امیرمعاویہ میں وارد ترمذی کی حدیث، موضوع اور من گھڑت ہے 
حافظ ابن الجوزی نے اسی پربس نہیں کیا، بلکہ یزید کا کفر ونفاق دکھانے کے ساتھ ساتھ ساتھ ان کے والد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک جا پہنچے اور پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں وارد ایک صحیح حدیث کو من گھڑت کہہ ڈالا ، چنانچہ لکھا:
”قال هذا الشيخ: قد قال النبي صلى الله عليه وسلم في حق معاوية: اللهم اجعله هادياً (واهد به) ، قال: ومن كان هادياً لا يجوز أن يُطعن عليه فيما اختار من ولاية يزيد“
”اس شیخ (عبدالمغیث) نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا: اللہ اسے ہادی بنا دے اور اس کے ذریعے سے ہدایت دے اور جو شخص ہادی ہو تو اس پر اس وجہ سے طعن نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنا دیا“ [الرد علیٰ المتعصب العنید ص: 75] 
اس کے بعد ابن الجوزی نے اس کی وہ سندیں پیش کی ہیں جن میں کوئی کذاب راوی ہے ، حالانکہ اسی حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے دیکھئے : [سنن الترمذي حدیث نمبر3842]
اورامام ترمذی کی سند میں کوئی کذاب راوی نہیں بلکہ اس کے سارے رجال ثقہ ہیں اورسند متصل ہے ، یہی وجہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ، دیکھیں: [سلسلة الأحاديث الصحيحة ، قم الحدیث 1969]
غور کریں کہ امام عبدالمغیث نے ایک صحیح حدیث پیش کی، جو سنن ترمذی اور مسند احمد وغیرہ جیسی حدیث کی مشہور کتابوں میں صحیح سند سے موجود ہے، لیکن ابن الجوزی رحمہ اللہ اس کی مشہور ومعروف سند نہ پیش کرکے غیر معروف سند پیش کرکے  عبدالمغیث کو مطعون کر رہے ہیں کہ انھوں نے موضوع حدیث سے استدلال کیا ہے!
 ابن الجوزی کی نظر میں امیرمعاویہ سے متعلق نبی ﷺ کی دعا قبولیت سے محروم 
اس کے بعد اس حدیث کو صحیح فرض کرنے کی صورت میں حافظ ابن الجوزی نے جو جواب دیا ہے، وہ بھی پڑھیے، لکھتے ہیں:
”ثم ليس من ضرورة الدعاء الإجابة، إذ لو وقعت في كل حال ما (وقعت) حرب صفين وتولية يزيد“ [ الرد علی المتعصب العنید:ص 77]
مترجم نسخہ سے اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
 ”لیکن اگراسے ثابت مان بھی لیاجائے یا یہ مرتبہ صحت اورثبوت کو پہنچ بھی جائے توپھربھی اس روایت میں زیادہ سے زیادہ ایک دعا کاذکرہے اورضروری تو نہیں ہے کہ ہردعا قبول بھی ہو، کیونکہ اگریہ دعا یا اس کی قبولیت ہر حال میں ہوتی توپھرصفین کا واقعہ اور یزید کی ولی عہد کا معاملہ کیوں ہوتا“ [یزید کی شخصیت علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی نظرمیں:ص118] 
دیکھا آپ نے! پہلے تو امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں وارد ایک صحیح حدیث ہی کو من گھڑت کہہ دیا، پھراسے صحیح فرض کرنے کی صورت میں اللہ کے نبی ﷺ کی دعا ہی کو قبولیت سے محروم گردانا ، نعوذباللہ من ذلک!
اب اگر نبی ﷺ کی دعاء کو قبولیت سے محروم گرداننے کو ہم نے ”بکواس“ کہہ دیا تو بتلائیے کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے ؟
حافظ ابن الجوزی کے نزدیک امیرمعاویہ یزید کی محبت میں رشدوہدایت سے محروم 
آگے اس سے بھی بڑی بات دیکھئے، امیر معاویہ کے بارے میں یہاں تک نقل کرتے ہوئے لکھا:
”وكان معاوية يقول: لولا هواي في يزيد لأبصرتُ رشدي“
 ”معاویہ کہا کرتے تھے کہ اگر یزید کے بارے میں میری خواہش نہ ہوتی تو میں رشد وہدایت کو دیکھ لیتا “ [الرد علیٰ المتعصب العنید ص 46] 
گویا ابن الجوزی کی نظر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نعوذ باللہ بیٹے کی محبت میں گرفتار ہو کر رشد و ہدایت سے محروم ہو چکے تھے۔ دراصل ابن الجوزی کی نظر میں یزید برا ہے، اس لیے موصوف نہ صرف یزید کو مطعون کر رہے ہیں، بلکہ یزید کے ساتھ ساتھ ان کے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پربھی طعن کر رہے ہیں، ان کی فضیلت کا انکار کر رہے ہیں اور ان کی مذمت میں آنے والی جھوٹی روایت کو بھی قبول کر رہے ہیں۔

قارئین کرام !
غور فرمائیں کہ حافظ ابن الجوزی کی مذکورہ باتیں یعنی ”یزید کو منافق کہنا ، اور یہ ماننا کہ یزید نے  حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرکے بدر میں اپنے مقتول آباء واجدادکا بدلہ لے لیا ، اور یہ کہنا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یزید کی محبت نے رشدو ہدایت سے محروم کردیا تھا ، حتی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کی گئی دعا کو بھی مقبولیت سے محروم گرداننا“  ، ان سب باتوں کو اگر ہم نے”بکواس“ کہہ دیا تو کون سا بڑا جرم کردیا ؟
یاد رہے کہ ہم نے ابن الجوزی رحمہ اللہ کو”بکواسی“ قطعا نہیں کہا تھا بلکہ ان کی مذکورہ باتوں کو بکواس کہا تھا ، مزید یہ کہ بعد میں ایک فاضل بھائی کے کہنے  پر ہم نے اپنی کتاب سے ”بکواس“ کا لفظ حذف بھی کردیا ، لیکن افسوس کہ اب بھی زبیر علی زئی صاحب کے پیروکار یہ اتہام لگائے جارہے کہ ہم نے حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہا ہے ۔

زبیرعلی زئی صاحب کی نظر میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ بکواسی 
اب آئیے ہم آئینہ دکھا دیں کہ ان لوگوں کے اصول سے ثابت ہوتا ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے  شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو  ”بکواسی“ کہا ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں زبیر علی زئی صاحب کے یہ الفاظ :
”تواب یہ کتاب (فتاوی ابن تیمیہ)ہوگئی مشکوک، توعین ممکن ہے کہ ابن تیمیہ نے یہ بات کہی ہو تو اگرکہی ہے تو بکواس ہے، غلط ہے اور اگر نہیں کہی ہے تو وہ بری ہوگئے،لیکن دوسری کتابیں جو ہیں نا اقتضاء الصراط المستقیم اس میں بھی غلط باتیں ہیں، مثلاً عبداللہ بن عمر کے بارے میں تو جو بات غلط ہے وہ غلط ہے، اگرچہ ہم اس کو ایک عالم سمجھتے ہیں اہل سنت کے ایک عالم تھے، لیکن ان کی جو غلطیاں تھیں، غلطیوں سے ہم بَری ہیں۔۔۔عبداللہ بن عمرکے بارے میں کوئی بات انہوں نے وہ بدعت والی جوکہی ہے۔۔۔“ [حوالے کے لئے دیکھیں آگے دی گئی ویڈیو]
قارئیں یہ ویڈیو دیکھ کر اورسماعت فرماکر انصاف کریں کہ جو بدبودار الزام مجھ پر لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کیا زبیرعلی زئی صاحب کا دامن بھی اسی سے آلودہ نہیں ہے ؟
واضح رہے کہ اس آیڈیو میں زبیرعلی زئی صاحب نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ الزام بھی لگایاہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بدعت کی بات کہی ہے ۔
جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے اس اتہام کا مفصل جواب پڑھنے کے لئے ہماری درج ذیل تحریر ڈانلؤڈ کرکے صفحہ 3 تا صفحہ 8 کا مطالعہ فرمائیں 

No comments:

Post a Comment