تحریر: کفایت اللہ سنابلی
✿ ✿ ✿
سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے ، جسمانی اعتبار سے انتہائی تندرست اور بہت ہی حسین و جمیل تھے۔ہجرت سے ایک سال قبل اکتیس سال کی عمر میں آپ نے اسلام قبول کیا ،اسلام قبول کرنے کے بعد عین اسی دن آپ نے پورے بنو عبدالاشھل کو اسلام کی دعوت دے کر انہیں مسلمان بنادیا اس اعتبار سے آپ کا اسلام بڑا بابرکت ثابت ہوا۔
اسلام لانے کے بعداللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی کی زبان درازی ان سے برداشت نہیں ہوتی تھی ، ایک بارکچھ یہودیوں نے اشارتا گستاخی کی تو فرمایا اگر آئندہ تم میں سے کسی نے زبان دارزی کی تو میں اس قتل کردوں گا۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہرغزوہ میں شریک رہے بلکہ بدر کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصارصحابہ کی رائے سننا چاہتے تھے تو سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے ہی کہا تھا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم موسی علیہ السلام کے ساتھیوں جیسے نہیں ہیں ، آپ ہمیں سمندر میں اترنے کو کہیں توہم اس پر بھی آمادہ ہیں ۔سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ کا چہرہ خوشی ومسرت سے دمک اٹھا اورآپ پر نشاط طاری ہوگیا۔
جنگ احد میں جب مسلمانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی اس وقت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے ۔
غزوہ خندق میں بھی سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ پورے جوش وجذبے کے ساتھ شریک تھے اسی دوران ان پر ایک مشرک نے تیرچلائی جس سے یہ شدید زخمی ہوگئے انہوں دعا فرمائی کہ رب العالمین اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قریش کی لڑائی کا کوئی اور موقع باقی تو مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لئے اس وقت تک زندہ رکھ اور اگر یہ قریش کی آخری لڑائی ہے تواس زخم سے مجھے مرنا منظور ہے لیکن موت سے قبل بنوقریظہ کا معاملہ دیکھنے تک مجھے مہلت دے۔
دراصل غزوہ خندق کے بعد مسلمانوں نے بنوقریظہ کا محاصرہ کرلیا تھا۔اس محاصرہ کے نتیجے مین بنوقریظہ نے اس شرط پرہتھیارڈال دئے کہ انہیں کا کوئی آدمی ان کے بارے میں فیصلہ کرکے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے مدینہ سے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں بلوایا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو آپ بول پڑے لوگو! اٹھو اور اپنے سردار کو سواری سے اتارو ۔اس موقع پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے وہ فیصلہ کیا جو عرش والے کا فیصلہ تھا۔
اس واقعہ کے بعد سعد رضی اللہ عنہ کو ان کے گھرانے منتقل کردیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح وشام ان کی خیر وعافیت دریافت فرماتے تھے ایک دن جبرئیل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آج کس کی وفات ہوئی ہے جس سے آسمان دروازے کھل گئے اور اللہ کا عرش لرز اٹھا یہ سن کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لیکر تیزی سے سعد رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف بڑھے صحابہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لیکر انتی تیز رفتار سے چل رہے تھے کہ ہماری جوتیوں کے تسمے ٹوٹ گئے ہماری چادریں ہمارے کندھوں سے اترگئیں ، ہم نے شکوہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جلدی کرو ایسا نہ ہیں کہ ہماری تاخیر کے سبب فرشتے انہیں غسل دے ڈالیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر پہنچے تو لوگوں کو پھلانگتے ہوئے سعد رضی اللہ عنہ تک پہنچے اور فرمایا جنت تمہیں مبارک ہو ، سعد کو غسل دیا جانے لگا تو ان کی والدہ رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر رونے والی جھوٹی ہے سوائے سعد کی والدہ کے ۔
غسل کے بعد آپ کے جنازہ کو اٹھایا گیا تو کچھ لوگوں نے کہا سعدکا جنازہ کتنا ہلکا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس لئے کیونکہ فرشتے بھی اسے اٹھائے ہوئے ہیں۔
⟐ ⟐ ⟐
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی تدفین سے متعلق ایک روایت مسند احمد وغیرہ میں آئی ہے جس سے بعض حضرات استدلال کرتے ہیں تدفین کے بعد میت کی قبر پر دیر تک سبحان اللہ اور اللہ اکبر پڑھنا چاہئے ۔اس روایت کا جائزہ پیش خدمت ہے:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
”حدثنا يعقوب ، حدثنا أبي ، عن ابن إسحاق ، حدثني معاذ بن رفاعة الأنصاري ثم الزرقي ، عن محمود بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموح ، عن جابر بن عبد الله الأنصاري ، قال : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما إلى سعد بن معاذ حين توفي ، قال : فلما صلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع في قبره وسوي عليه ، سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فسبحنا طويلا ، ثم كبر فكبرنا ، فقيل : يا رسول الله ، لم سبحت ؟ ثم كبرت ؟ قال : لقد تضايق على هذا العبد الصالح قبره حتى فرجه الله عنه“
”جابربن عبداللہ بن الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس اس دن گئے جس دن ان کی وفات ہوئی ۔ تو جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اورانہیں قبر میں رکھ کر ان پر مٹی برابر کی گئی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سبحان اللہ کہا تو ہم نے بھی دیر تک سبحان اللہ کہا ، پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا تو ہم نے بھی اللہ اکبر کہا ۔ پھر کہا گیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کیوں کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : اس نیک بندے پر اس کی قبرتنگ ہوگئی تھی یہاں تک کہ اللہ نے کشادگی کردی“ [مسند أحمد 3/ 360]
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض حضرات تدفین کے بعد میت کی قبر پرکھڑھے ہوکر اجتماعی شکل میں کافی دیر تک اللہ اکبر اور سبحان اللہ کہتے ہیں ۔
ہماری نظر میں یہ عمل درست نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے کی مذکورہ حدیث ضعیف ہے ۔ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ ہو:
پہلی علت
اس سند میں ایک راوی ”محمود بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموح“ ہے جس کے بارے میں :
✿ امام الحسيني (المتوفى: 765هـ) نے کہا:
”فيه نظر“ ، ”اس میں نظر ہے“ [الإكمال في ذكر من له رواية في مسند الإمام أحمد من الرجال ص: 398]
✿ امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
”محمود بن محمد بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموح قال الحسيني: فيه نظر. قلت: ولم أجد من ذكره غيره“
”محمود بن محمد بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموح کے بارے میں امام حسینی نے کہا اس میں نظر ہے ۔ میں کہتاہے کہ میں نے امام حسینی کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جس نے اس کا ذکر کیا ہو“ [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 3/ 46]
✿ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
”لم يذكره البُخاري، ولا من تبعه، بل ذكروا محمود بن عَبد الرحمن بن سَعد بن معاذ، وذكر في الرواية عن ... مُحمد بن عَبد الرحمن بن عَمرو بن الجموح، فلعله تحرف اسمه أو هما أخوان“
”انہیں بخاری نے ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ان کے بعد والوں نے ذکر کیا بلکہ محمود بن عبدالرحمن بن سعد بن معاذ کا ذکر کیا ہے ۔اور ایک روایت میں محمدبن عمروبن الجموع کا ذکر ہے یہ شاید تحریف ہے یا یہ دوبھائی ہے“ [تعجيل المنفعة 852 2/ 244]
❀ تنبیہ:
ایک راوی ”محمد بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموح“ ہیں انہیں امام ابوزرعہ نے ثقہ کہا ہے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 316 واسنادہ صحیح]
اورامام ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے [الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 5/ 373]
بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس سند میں یہی راوی ہے لیکن ائمہ حدیث میں کسی نے بھی یہ صراحت نہیں کی ہے اور اسماء الرجال کی کسی بھی کتاب میں ”محمود بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموح“ کاذکر نہیں ہے جیساکہ حافظ ہیثمی اور حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا ہے کمامضی ۔
اس لئے ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ راوی ہوں، اس لئے اس راوی کا تعین مشکوک ہے لہٰذا یہ بھی اس حدیث کے ضعیف ہونے ہونے کی ایک وجہ ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس راوی کو الگ ہی مانا ہے اوراسی سبب اسے ضعیف قر ار دیا ہے لکھتے ہیں:
”ورجاله ثقات غير محمود هذا , فقال الحسينى: فيه نظر . وقال الحافظ فى التعجيل : لم يذكره البخارى ولا من تبعه“
”اس کے رجال ثقہ ہیں سوائے اس محمود کے کیونکہ اس کے بارے میں امام حسینی نے فیہ نظر کہا ہے اور حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تعجیل میں فرمایا: اسے نہ امام بخاری نے ذکر کیا ہے اور نہ ہی ان کے بعد والوں نے“ [إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل 3/ 166]
دوسری علت
سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کی تدفین سے متعلق بہت ساری صحیح روایات متعدد صحابہ سے مروی ہیں لیکن زیربحث روایت کے علاوہ کسی بھی روایت میں تدفین کے بعد تسبیح و تکبیر کے اس عمل کاذکر نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وقد جاء حديث اهتزاز العرش لسعد بن معاذ عن عشرة من الصحابة أو أكثر“
”سعد بن معاذ کے لئے عرش ہلنے سے متعلق روایات دس یا اس سے بھی زاید صحابہ سے آئی ہیں“ [فتح الباري لابن حجر 7/ 124]
لیکن ان تمام روایات میں سوائے محمود کی روایت کے کسی بھی روایت میں تسبیح اور تکبیر والی بات نہیں ہے، حتی کہ محمود نے جابر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی اور خود جابر رضی اللہ عنہ ہی سے دوسرے لوگوں نے یہ روایت بیان کی تو اس میں تسبیح اور تکبیر والی بات نہیں ہے ۔ملاحظہ ہو:
◈ ◈
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا فَضْلُ بْنُ مُسَاوِرٍ، خَتَنُ أَبِي عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «اهْتَزَّ العَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ»“
”جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش ہل گیا“ [صحيح البخاري 5/ 35 رقم 3803]
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
”حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا فَضْلُ بْنُ مُسَاوِرٍ، خَتَنُ أَبِي عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «اهْتَزَّ العَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ»“
”جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش ہل گیا“ [صحيح مسلم 4/ 1915 رقم 3803]
ملاحظہ فرمائیں بخاری ومسلم میں بھی جابر رضی اللہ عنہ سے ہی یہ حدیث موجود ہے لیکن اس میں تسبیح وتکبیر والی بات نہیں ہے۔اسی طرح سنن میں بھی یہ روایت آئی ہے ان میں بھی یہ بات نہیں ہے،اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ محمود نامی راوی میں نظر ہے جیساکہ امام حسینی نے کہا ہے کمامضی ۔
◈ ◈
یہ توجابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے متعلق بات ہوئی لیکن سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ سے متعلق یہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی کئی صحابہ نے بیان کیا ہے بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول دس یا اس سے زائد صحابہ نے بیان کیا ہے مگر ان دیگر صحابہ میں سے کسی کی حدیث کے کسی بھی طریق میں تکبیر اور تسبیح والی بات نہیں ہے بعد صحابہ کی احادیث ملاحظہ ہوں:
✿ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ:
”عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَذَا الَّذِي تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْشُ، وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ، لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً، ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ»“
”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: یہ وہ شخص ہیں جن کے لئے عرش الہی ہل گیا اور ان کے لئے جنت کے دروازے کھول دئے گئے اور ستر ہزار فرستے ان کے جنازے میں شریک ہوئے ان کو بھی ( قبر میں) اسے ایک بار بھینچا گیا، پھر کشادگی کردی گئی“ [سنن النسائي 4/ 100 واسنادہ صحیح]
✿ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا:
”عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِلْقَبْرِ ضَغْطَةٌ لَوْ نَجَا مِنْهَا أَحَدٌ لَنَجَا مِنْهَا سعد بن معاذ“
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر کی طرف سے دبوچنا ہوتا ہے اگر اس سے کوئی نجات پاسکتاتھا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اس سے نجات ملتی“ [صحيح ابن حبان 7/ 379 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]
✿ حدیث ابن عیاش رضی اللہ عنہ :
”عَنِ ابْنِ عیاش، أنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعَدَ عَلَى قَبْرِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ: «لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِنْ ضَغْطَةِ الْقَبْرِ لَنَجَا سَعْدٌ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً، ثُمَّ رُخِيَ عَنْهُ»“
”ابن عیاش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے قبر کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا: اگر قبر کے دبوچنے سے کوئی نجات پاسکتا تھا تو سعد کو نجا ت ملتی لیکن انہیں بھی قبر نے دبوچا پھر کشادگی کردی گئی“ [المعجم الأوسط 6/ 349 رقم 6593 واسنادہ حسن]
غور کہ یہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بعض روایات ہیں ان میں سے کسی ایک روایت میں بھی تسبیح و تکبیر والی بات نہیں ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت اسی طرح ہے جیساکہ صحیحین اور سنن کے الفاظ ہیں اور مسند احمد وغیر میں جو اضافہ ہے وہ صحیح نہیں ۔
⟐ ⟐
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے جنازہ سے متعلق جابر رضی اللہ عنہ سے منقول جس روایت میں تدفین کے بعد ان کی قبر پر تسبیح اور تکبیر پڑھنے کی بات ہے وہ ثابت نہیں ۔
اور اگر اس ضعیف روایت کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو بھی تسبیح و تکبیر والی یہ بات صرف معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی عمل پر محمول کی جائے گی ۔کیونکہ اس روایت کے الفاظ ہی بتارہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر قبر پر ایسا عمل نہیں کرتے تھے ۔
چنانچہ روایت میں مذکور ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل کیا تو صحابہ نے پوچھا :
”يا رسول الله ، لم سبحت ؟ ثم كبرت ؟“
”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے کیوں تسبیح وتکبیر پڑھی ؟“
اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عام عمل ہوتا تو صحابہ آپ سے ایسا سوال نہیں کرتے ۔
نیزاس واقعہ کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دوسری کسی بھی میت کے ساتھ ایسا عمل نہیں کیا ہے یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی خاص مانا تھا
۔واللہ اعلم۔
No comments:
Post a Comment