یزید بن معاویہ اورترک نماز، و لہوولعب اورشراب نوشی کی جھوٹی روایات
✿ ✿ ✿
یزیدبن معاویہ پر ترک نماز ، شراب نوشی اوربے جا لہو ولعب کی جوبھی روایت نقل کی جاتی وہ سب کی سب موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ذیل میں ہم اس سلسلے کی تمام روایات کا جائزہ لیتے ہیں:
اس سلسلے کی تمام روایات کے مرکزی رواۃ درج ذیل ہیں:
- ابومخنف لوط بن یحیی
- محمدبن عمر الواقدی
- عوانہ بن الحکم الكوفي
- عمر بن شبة النميرى
- محمد بن زكريا الغلابي
- يحيى بن فليح بن سليمان
- محمدبن داب المدینی
روایات ابو مخنف لوط بن یحیی کذاب
✿ امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
”قال لوط: وحدثني أيضا محمد بن عبد العزيز بن عبد الرحمن بن عوف: ۔۔۔فأتى أهل المدينة، فكان فيمن يحرض الناس على يزيد، وكان من قوله يومئذ: إن يزيد والله لقد أجازني بمائة ألف درهم، وإنه لا يمنعني ما صنع إلي أن أخبركم خبره، وأصدقكم عنه، والله إنه ليشرب الخمر، وإنه ليسكر حتى يدع الصلاة“
”منذربن الزبیر اہل مدینہ کے پاس آئے تو یہ ان لوگوں میں سے تھے جو لوگوں کو یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔ اور یہ اس دن کہتے تھے : اللہ کی قسم ! یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم دئے، لیکن اس نے مجھ پر جو نوازش کی ہے وہ مجھے اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ میں تمہیں اس کی خبر بتلاؤں اور اس کے تعلق سے سچائی بیان کردوں ۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یزید شراب پیتا ہے اور شراب کے نشے میں نماز بھی چھوڑ دیتاہے“ [تاريخ الطبري: 5/ 481]
یہ روایت جھوٹی اورمن گھڑت ہے اسے بیان کرنے ولا لوط بن یحیی ابو مخنف ہے جو بہت بڑا کذاب اور جھوٹا ہے،اس کے بارے میں تفصیل کے لئے دیکھئے: [یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ:ص349 تا350]
طبری کی اسی روایت کو بلاذری نے واقدی ہی کے طریق نے نقل کیا ہے [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 338] اس میں ابومخنف کے ساتھ ایک اور کذاب ھشام بن الکلبی بھی ہے۔
✿ امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
”فيما ذكر أبو مخنف، عن عبد الملك ابن نوفل بن مساحق، عن حميد ابن حمزة۔۔۔فلما قدم أولئك النفر الوفد المدينة قاموا فيهم فأظهروا شتم يزيد وعتبة، وقالوا: إنا قدمنا من عند رجل ليس له دين، يشرب الخمر، ويعزف بالطنابير، ويضرب عنده القيان، ويلعب بالكلاب، ويسامر الخراب والفتيان، وإنا نشهدكم أنا قد خلعناه، فتابعهم الناس“
”یزید کے پاس جانے والا وفد جب مدینہ لوٹ کرآیا تو یہ لوگ مدینہ میں کھڑے ہوکر یزید کو گالی دینے لگے اور اس کی مذمت کرنے لگے ۔ ان لوگوں نے کہا: ہم ایک ایسے آدمی کے پاس سے آرہے ہیں جو بے دین ہے ، شراب پیتاہے ، ڈھول باجے اورناچ گانے کرتاہے ، کتوں کے ساتھ کھیلتاہے۔ڈاکؤوں اورلونڈوں کے ساتھ راتیں گذارتاہے ۔ہم تمہیں گواہ بناتے ہیں کہ ہم نے اس کی بیعت توڑ دی ہے پھرلوگوں نے بھی ان کی پیروی کی“ [تاريخ الطبري: 5/ 480]
امام بلاذری نے بغیر سند کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کے شرابی ہونے کی طرف اشارہ کیا ۔[أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 319]
عرض ہے کہ امام بلاذی نے اس کی سند ہی نہیں ذکر کی ہے بلکہ ’’قالوا‘‘ کہہ کر مجہول لوگوں سے نقل کیا ہے اور بعض اہل علم کا خیال ہے کہ امام بلاذری جب ’’قالوا‘‘ کہہ کرروایت بیان کرنے ہیں تو وہ ابومخنف کی روایت ہوتی ہے۔
روایات محمدبن عمر الواقدی کذاب
✿ امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
”أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عبد الله بن أبي ربيعة المخزومي , عن أبيه (ح)قال: وأخبرنا ابن أبي ذئب , عن صالح بن أبي حسان (ح) قال: وحدثنا سعيد بن محمد , عن عمرو بن يحيى , عن عباد بن تميم , عن عمه عبد الله بن زيد , وعن غيرهم أيضا كل قد حدثني قالوا: لما وثب أهل المدينة ليالي الحرة , فأخرجوا بني أمية عن المدينة , وأظهروا عيب يزيد بن معاوية وخلافه أجمعوا على عبد الله بن حنظلة , فأسندوا أمرهم إليه , فبايعهم على الموت , وقال: يا قوم , اتقوا الله وحده لا شريك له , فوالله ما خرجنا على يزيد حتى خفنا أن نرمى بالحجارة من السماء. إن رجلا ينكح الأمهات والبنات والأخوات , ويشرب الخمر , ويدع الصلاة ۔۔۔“
”جب اہل مدینہ نے حرہ کے موقع پر فساد کیا، بنوامیہ کو مدینہ سے نکال دیا ، یزید کے عیوب بیان کرکے اس کی مخالفت کی تو لوگوں نے عبداللہ بن حنظلہ کے پاس آکر اپنے معاملات انہیں سونپ دئے ۔تو عبداللہ بن حنظلہ نے ان سے موت پر بیعت کی اور کہا: اے لوگو ! اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو ! اللہ کی قسم ہم نے یزید کے خلاف تبھی خروج کیا ہے جب ہمیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پر کہیں آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے کہ ایک آدمی ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور نماز چھوڑتاہے۔۔۔“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 5/ 66]
یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے اس کا مرکزی راوی ”محمدبن عمر واقدی“ ہے جو بہت بڑا کذاب اور جھوٹا تھا ۔ اس کے بارے میں تفصیل کے لئے [دیکھیں:یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ:ص306 تا 307]
✿ امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
”أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثني عبد الرحمن بن عثمان بن زياد الأشجعي، عن أبيه قال: ۔۔۔ ذكر معقل بن سنان يزيد بن معاوية بن أبي سفيان , فقال: إني خرجت كرها ببيعة هذا الرجل , وقد كان من القضاء والقدر خروجي إليه، رجل يشرب الخمر وينكح الحرم ۔۔۔“
”معقل بن سنان نے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کا ذکر کیا اور کہا: میں اس شخص کی بیعت سے کراہت کی وجہ سے نکلا ہوں ، اور اس کی طرف جانا یہ قضاو قدر میں تھا ۔یہ ایسا آدمی ہے جو شراب پیتا ہے ، محرمات سے نکاح کرتا ہے۔۔۔“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 4/ 283]
اس کی سند میں بھی ”محمدبن عمر واقدی“ کذاب اور بہت بڑا جھوٹا ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھیں:[یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ:ص306 تا 307]
✿امام بلاذری نے ’’قال الواقدی ‘‘ (واقدی نے کہا ) کہہ کر دو روایات ذکر کیں جن میں ہے کہ عبداللہ زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید پر شراب نوشی کا الزام لگا یا [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 324 ، 5/ 337]
عرض ہے کہ اول تو ”واقدی“ کذاب ہے اور بہت بڑا جھوٹا ہے۔تفصیل کے لئے دیکھیں:[یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ:ص306 تا 307]
دوسرے یہ کہے ”واقدی“ نے اپنی سند بھی نہیں بیان کی ہے ، لہٰذا یہ روایت بھی جھوٹی اورمن گھڑت ہے۔
روایت عوانہ بن الحکم الکوفی (بلاسند)
امام أحمد بن يحيى، البلاذري (المتوفى 279)نے کہا:
”« ؟ » وقال عوانة: كان مسور بْن مخرمة وفد إلى يزيد قبل ولاية عثمان بْن محمد، فلما قدم شهد عليه بالفسق وشرب الخمر، فكتب إلى يزيد بذلك فكتب إلى عامله يأمره أن يضرب مسورا الحدّ۔۔۔“
”عوانہ بن الحکم کوفی نے کہا کہ ؛ مسوربن مخرمہ عثمان بن محمد کی ولایت سے پہلے یزید کے پاس آئے تھے پھر جب واپس ہوئے تو انہوں نے یزید کے خلاف فسق اور شراب نوشی کی گواہی دی۔مدینہ کے عامل نے یہ بات لکھ یزید کو روانہ کیا تو یزید نے اپنے عامل سے کہا کہ مسور پرحد جاری کرو۔۔۔“ [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 338]
یہ روایت بھی جھوٹی اورمن گھڑت ہے۔
امام بلاذری نے کوئی سند بیان نہیں کی ہے بلکہ صرف ”عوانہ بن الحکم کوفی“ سے نقل کیا ہے ۔
”عوانہ“ کو بعض نے صدوق کہا ہے جبکہ بعض کے بقول یہ متہم ہے ۔[الأعلام للزركلي 5/ 93]۔
نیز ”عوانہ“ نے بھی واقعہ حرہ کا دور نہیں پایا ہے اس لئے اس سے اوپر بھی سند غائب ہے۔
روایت عمر بن شبة النميرى بلاسند
✿ امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571) نے کہا:
”أنبأنا أبو الفرج الخطيب نا أبو بكر أحمد بن علي ثنا أبو نعيم الحافظ نا سليمان بن أحمد نا إبراهيم بن جميل الأندلسي نا عمر بن شبة قال : « ؟ » لما حج الناس في خلافة معاوية جلس يزيد بالمدينة على شراب فاستأذن عليه ابن عباس والحسين بن علي فأمر بشرابه فرفع وقيل له إن ابن عباس إن وجد ريح شرابك عرفه فحجبه ۔۔۔۔هذه الحكاية منقطعة عمر بن شيبة بينه وبين يزيد زمان“
”عمربن شبہ نے کہاکہ: جب لوگوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں حج کیا تو یزید مدینہ میں شراب لے کربیٹھ گیا ۔پھر عبداللہ بن عباس اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اس کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو یزید نے شراب کو وہاں سے ہٹانے کا حکم دیا ۔اوریزید سے کہا گیا کہ اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے شراب کی بو محسوس کرلی تو سمجھ جائیں گے تو اس نے اسے چھپادیا۔۔۔ابن عساکر یہ روایت بیان کرکے کہتے ہیں کہ : یہ روایت منقطع ہے ، عمربن شبہ اوریزید کے درمیان لما فاصلہ ہے“ [تاريخ مدينة دمشق 65/ 407]
یہ روایت بھی موضوع اور من گھڑت ہے کیونکہ ”عمربن شبہ“ نے اس کی کوئی سند بیان ہی نہیں کی ہے۔
”عمربن شبہ“ کی پیدائش 172 ہجری میں ہوئی ہے[تهذيب الكمال في أسماء الرجال: 21/ 390] ۔
اوریزید کی وفات 64 ہجری میں ہوئی ہے۔یعنی بیچ میں پوری ایک صدی سے بھی زائد کا فاصلہ ہے۔
اسی لئے امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فورا کہا:
”هذه الحكاية منقطعة عمر بن شيبة بينه وبين يزيد زمان“
”یہ روایت منقطع ہے ،عمربن شبہ اوریزید کے درمیان لمبا فاصلہ ہے“ [تاريخ مدينة دمشق 65/ 407]
معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔
روایت محمد بن زكريا الغلابي کذاب
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
”أنبأنا أبو الفرج غيث بن علي نا أبو بكر الخطيب أنا أبو نعيم الحافظ نا سليمان بن أحمد نا محمد بن زكريا الغلابي نا ابن عائشة عن أبيه قال كان يزيد بن معاوية في حداثته صاحب شراب يأخذ مآخذ الأحداث فأحس معاوية بذلك فأحب أن يعظه في رفق فقال يا بني ما أقدرك على أن تصير إلى حاجتك من غير تهتك يذهب بمروءك وقدرك ثم قال يا بني إني منشدك أبياتا فتأدب بها واحفظها فأنشده (انصب نهارا في طلاب العلا ۔۔۔ واصبر على هجر الحبيب القريب)۔۔۔(حتى إذا الليل أتى بالدجى۔۔۔واكتحلت بالغمض عين الرقيب)۔۔۔(فباشر الليل بما تشتهي فإنما الليل نهار الأريب)۔۔“
”حفص بن عائشہ سے مروی ہے کہ یزیدبن معاویہ اپنی نوعمری میں شرابی تھا ، اس سے لونڈے پن کی حرکتیں سرزد ہوتی تھی ، تو معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے چاہا کہ نرمی سے اس کی اصلاح کریں ۔ چنانچہ انہوں نے کہا: اے بیٹے ! تم اپنی خواہش کی تکمیل پر پوری طرح قادر ہو بغیر اس کے کہ تم برسرعام ایسی آوارگی کرو جو تمہاری قدر و منزلت کے لئے خطرہ بن جائے ۔ پھر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے بیٹے ! میں تمہیں چند اشعار سناتاہوں ، تم اس سے سیکھو اوراسے یاد کرلو ۔پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے : جب رات کی تاریکی چھاجائے اور دشمن سوجائیں تو رات میں جو چاہوں کرو ۔ کیونکہ رات یہ چالاک لوگوں کے لئے دن ہے“ [تاريخ مدينة دمشق 65/ 403]
یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے۔ اور اس میں صرف یزید پر ہی شراب نوشی کا الزام نہیں ہے بلکہ ان کے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر بھی یہ بہتان تراشی کی گئی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو شراب پینے سے منع کرنے کے بجائے اس سے پیار سے یہ کہتے کہ بیٹا دن میں نہیں بلکہ رات میں شراب پیا کرو تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے، سبحان اللہ ھذا بھتان عظیم۔
افسوس کہ اس قدر واضح جھوٹ کے باوجود بھی امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے ”محمد بن زكريا الغلابی“ ہی کی سند کے ساتھ اسے ذکرکردیا [البداية والنهاية موافق 8/ 228]۔
بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لگائے گئے بہتان سے متعلق یہ کہہ دیا کہ:
”قلت وهذا كما جاء فى الحديث من ابتلى بشىء من هذه القاذورات فليستتر بستر الله عز و جل“
”میں کہتاہوں کہ یہ (یعنی شراب نوشی کے عمل کو چھپانے والی بات) اس حدیث کے مطابق ہے جس میں ہے کہ جو شخص بھی شراب نوشی میں مبتلا ہو تو اس پر پردہ ڈالے رہے جس طرح اللہ نے پردہ ڈالا ہے“ [البداية والنهاية، مكتبة المعارف: 8/ 228]
بہرحال یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔
اس کی سند میں ’’محمد بن زكريا الغلابى‘‘ ہے جو بہت بڑا کذاب اور جھوٹا ہے۔
● امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
”محمد بن زكريا الغلابى ،كذاب“
”محمدبن زکریا الغلابی بہت بڑا جھوٹا ہے“ [ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 166]۔
● امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
”محمد بن زكريا بن دينار الغلابي يضع الحديث“
محمدبن زکریا الغلابی حدیث گھڑتا تھا [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 148]
اس کے علاوہ ’’حفص بن عائشہ‘‘ بھی مجہول ہے ، نیز اسے یزید کا دور بھی نہیں ملا، لہذا اس کے اور یزید کے بیچ ایک لمبا فاصلہ ہے۔
ان وجوہات کی بناپر یہ روایت باطل ، موضوع اور من گھڑت ہے،کسی سبائی نے یزیدبن معاویہ اور ان کے والد کو بدنام کرنے کے لئے اسے گھڑا ہے۔
روایت یحیی بن فلیح مجہول
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
”أخبرنا أبو الحسين بن الفضل أخبرنا عبد الله بن جعفر حدثنا يعقوب ابن سفيان قال سمعت ابن عفير قال أخبرنا ابن فليح ، «؟» أن أبا عمرو بن حفص بن المغيرة وفد على يزيد فأكرمه وأحسن جائزته فلما قدم المدينة قام إلى جنب المنبر وكان مرضيا صالحا فقال ألم أحب أن أكرم والله لرأيت يزيد ابن معاوية يترك الصلاة سكرا فأجمع الناس على خلعانه بالمدينة فخلعوه“
”ابن فلیح کہتے ہیں کہ ابوعمروبن حفص بن مغیرہ یزید کے پاس آئے تو یزید نے ان کی بڑی عزت کی اور انہیں بہترین انعام سے نوازا ۔پھرجب یہ مدینہ آئے تو منبرکی جانب کھڑے ہوئے اوریہ پسندیدہ اور نیک آدمی تھے ۔انہوں نے کہا: کیا میں نے نہیں چاہا کہ میری عزت کی جائے ؟ اللہ کی قسم ! میں نے یزید بن معاویہ کو نشے کی وجہ سے نماز چھوڑتے ہوئے دیکھا ۔ تو لوگوں نے مدینہ میں یزید کی بیعت توڑنے کا فیصلہ کیا اور بیعت توڑ دی“ [دلائل النبوة ـ للبيهقى 6/ 474 ، و من طریق یعقوب اخرجہ ابن عساکر بہ فی تاريخ مدينة دمشق 27/ 18]
یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ”یحیی بن فلیح“ کو کسی نے بھی ثقہ نہیں کہا یہ مجہول شخص ہے ۔
● امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456)نے کہا:
”يحيى بن فليح بن سليمان وهو مجهول البتة“
”یحیی بن فلیح بن سلیمان یہ بالکل مجہول ہے“ [الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم 7/ 162]
اس کے ساتھ ”ابن فلیح“ نے آگے کی سند بھی بیان نہیں کی ہے کیونکہ یہ واقعہ حرہ کے پچاسوں سال بعد پیدا ہوا ہے ۔اس کے والد ”فليح بن سليمان الأسلمي“ کی پیدائش طبقہ صحابہ کے آخری دور میں ہوئی ہے[سير أعلام النبلاء للذهبي: 7/ 352] تو ظاہر ہے کہ جب اس کے باپ کو واقعہ حرہ کا دور نہیں ملا ہے تو یہ واقعہ حرہ کا دور کہاں سے پاسکتا ہے۔
معلوم ہوا کہ ”ابن فلیح“ کے اوپر کم ازکم دو رواۃ کا سلسلہ اور ہے جن کا نام اس نے نہیں بتایا ہے لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف بلکہ باطل اور من گھڑت ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی روایت کو نقل کیا [البداية والنهاية : 6/ 234]اوراسی کو بنیاد بناکر انہوں نے یزید کو تارک صلاۃ اورشرابی کہا ہے۔
معلوم ہوا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا یہ قول موضوع اور من گھڑت روایت پر مبنی ہے، یادرہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہیں بھی اس روایت کو صحیح نہیں کہاہے۔
روایت محمدبن داب(کذاب)
امام ابن عساکر رحمہ اللہ (المتوفی٥٧١) نے کہا:
”أنبأنا أبو الفرج غیث بن علی أنا أبو بکر الخطیب أنا أبو نعیم الحافظ ثنا سلیمان بن أحمد نا محمد بن موسی بن حماد البربری نا یعقوب بن براہیم نا عمی علی بن صالح عن ابن داب قال : بعث معاویة جیشا لی الروم فنزلوا منزلا یقال لہ الفرقدونة فأصابہم بہا الموت وغلاء شدید فکبر ذلک علی معاویة فاطلع یوما علی ابنہ یزید وہو یشرب“
”محمدبن داب (کذاب )بیان کرتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ روم کی طرف فوج بھیجی تو یہ لوگ فرقدونہ نامی علاقہ میں ٹہرے اورانہیں بیماریوں اور بھک مری کاسامناکرنا پڑا ،تو امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو اس سے بڑا دکھ پہنچا ۔پھرایک دن ان کی نگاہ ان کے بیٹے یزید پرپڑی جو شراب پی رہا تھا۔(آگے روایت میں ہے کہ پھر یزید کو بھی فوج کے پاس بھیج دیا“ [تاریخ دمشق لابن عساکر:٤٠٥٦٥]۔
یہ روایت جھوٹی اسے بیان کرنے والا ”محمدبن داب“ کذاب اور بہت بڑاجھوٹاشخص ہے۔
● امام أبو زرعة الرازی رحمہ اللہ (المتوفی٢٦٤)نے کہا:
”کان یکذب“
”یہ جھوٹ بولتا تھا“ [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:٢٥٠٧]
● حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی٨٥٢)نے کہا:
”کذبہ أبو زرعة“
”امام ابوزرعہ نے اسے جھوٹا قراردیاہے“ [تقریب التہذیب لابن حجر: رقم ٥٨٦٦]
اس کے علاوہ سند میں اوربھی خرابیان ہیں۔
شراب نوشی کی روایات کے مبنی برجھوٹ ہونے پرمزیدشواہد
درج ذیل امور بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ یزید پرشراب نوشی کی تہمت لگانے والی تمام روایات جھوٹی اورمن گھڑت ہیں:
الف:
شراب نوشی کی جھوٹی افواہ پر کان دھر کے کچھ لوگ ابن مطیع کے ساتھ محمدبن الحنفیہ کے پاس آئے اور یزید کی مذمت کرنے لگے ۔لیکن جب محمدبن الحنفیہ نے ان لوگوں سے دلیل اور گواہی طلب کی تو کوئی بھی گواہی نہیں دے سکا بلکہ انہوں نے مجہول لوگوں کی اڑائی ہوئی باتوں ہی کاحوالہ دیا ۔جس کی محمدبن الحنفیہ نے پرزور تردید کی اور یزید کے محاسن بیان کرکے یزید کا دفاع کیا :دیکھئے:[یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ :ص714 تا 735]
ب:
محمدبن الحنفیہ رحمہ اللہ نے جب ابن مطیع وغیرہ سے یزید کے شرابی ہونی کی دلیل طلب کی تو ابن مطیع کو اس قدر رسوائی اور فضیحت کا سامنا کرنا پڑا کہ دوبارہ انہوں نے یزید کی مخالفت میں یزید کے شرابی ہونے کی بات نہیں کی چنانچہ واقعہ حرہ کے وقت جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ محمدبن الحنفیہ کو سمجھانے آئے تو اس وقت ابن مطیع نہ تو یزید کے شرابی ہونے کاذکر کرسکے اور نہ ہی یزید کا کوئی جرم بتاسکے ۔ [ دیکھئے:یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ :ص714 تا 715]
ج:
زین العابدین علی بن الحسین نے کافی دنوں تک یزید کے پاس قیام کیا اور بعد میں مدینہ آگئے لیکن انہوں نے یزید سے متعلق ایسی کوئی بھی بات بیان نہیں کی ۔ دیکھئے:[یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ :ص329 تا 335]
امام ابوبکرابن العربی(المتوفی: 543) رحمہ اللہ بجاطور پرفرماتے ہیں:
”فإن قيل. كان يزيد خمارًا. قلنا: لا يحل إلا بشاهدين، فمن شهد بذلك عليه بل شهد العدل بعدالته. فروى يحيى بن بكير، عن الليث بن سعد، قال الليث: توفي أمير المؤمنين يزيد في تاريخ كذا فسماه الليث أمير المؤمنين بعد ذهاب ملكهم وانقراض دولتهم، ولولا كونه عنده كذلك ما قال إلا توفي يزيد .“
”اگرکہاجائے کہ یزید شرابی تھا تو ہم کہتے ہیں کہ بغیردوگواہ کے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی تو کس نے اس بات کی گواہی دی ہے؟؟ بلکہ عادل لوگوں نے تو یزید کے عدل کی گواہی دی ہے۔چنانچہ یحیی بن بکیرنے روایت کیا کہ امام لیث بن سعد رحمہ اللہ نے کہا: امیرالمؤمنین یزید فلاں تاریخ میں فوت ہوئے ۔تو یہاں پراما م لیث رحمہ اللہ نے یزید کو''امیرالمؤمنین'' کہا ہے ان کی حکومت اور ان کا دور ختم ہونے کے بعد ۔اگران کے نزدیک یزید اس درجہ قابل احترام نہ ہوتا تو یہ صرف یوں کہتے کہ یزید فوت ہوئے“ [العواصم من القواصم ط الأوقاف السعودية ص: 228]
اس روایت کا ذکر نہیں کیا آپ نے؟
ReplyDeleteحدثنا أبو الوليد قال: حدثني جدي أحمد بن محمد، عن سعيد بن سالم، عن ابن جريج، قال: سمعت غير واحد من أهل العلم ممن حضر ابن الزبير حين هدم الكعبة وبناها قالوا: لما أبطأ عبد الله بن الزبير عن بيعة يزيد بن معاوية، وتخلف وخشي منهم، لحق بمكة ليمتنع بالحرم، وجمع مواليه، وجعل يظهر عيب يزيد بن معاوية ويشتمه، ويذكر شربه الخمر وغير ذلك، ويثبط الناس عنه، ويجتمع الناس إليه ۔۔۔
اور کیا اخبار مکہ کے مصنف الارزقی مجہول ہیں؟